ظاہر وباطن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطیع بنا لو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تابعدار صحیح معنی میں میرا ہی اطاعت گزار ہے آپ کا نافرمان میرا نافرمان ہے ، اس لئے کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے جو فرماتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو میری طرف سے وحی کیا جاتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری ماننے والا اللہ تعالیٰ کی ماننے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی بات نہ مانی جس نے امیر کی اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے ، پھر فرماتا ہے جو بھی منہ موڑ کر بیٹھ جائے تو اس کا گناہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نہیں آپ کا ذمہ تو طرف پہنچا دینا ہے ، جو نیک نصیب ہوں گے مان لیں گے نجات اور اجر حاصل کرلیں گے ہاں ان کی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھی ہو گا کیونکہ دراصل اس راہ کا راہبر اس نیکی کے معلم آپ ہی ہیں ۔ اور جو نہ مانے نہ عمل کرے تو نقصان اٹھائے گا بدنصیب ہو گا اپنے بوجھ سے آپ مرے گا اس کا گناہ آپ پر نہیں اس لئے کہ آپ نے سمجھانے بجھانے اور راہ حق دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ حدیث میں ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنے ولا رشد وہدایت والا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان اپنے ہی نفس کو ضرور نقصان پہنچانے والا ہے ، پھر منافقوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ظاہری طور پر اطاعت کا اقرار کرتے ہیں موافقت کا اظہار کرتے ہیں لیکن جہاں نظروں سے دور ہوئے اپنی جگہ پر پہنچے تو ایسے ہوگئے گویا ان تلوں میں تیل ہی نہ تھا جو کچھ یہاں کہا تھا اس کے بالکل برعکس راتوں کو چھپ چھپ کر سازشیں کرنے بیٹھ گے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی ان پوشیدہ چالاکیوں اور چالوں کو بخوبی جانتا ہے اس کے مقرر کردہ زمین کے فرشتے ان کی سب کرتوتوں اور ان کی تمام باتوں کو اس کے حکم سے ان کے نامہ اعمال میں لکھ رہے ہیں پس انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے؟ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس سے تمہاری کوئی بات چھپ سکتی ہے؟ تم کیوں ظاہر و باطن یکساں نہیں رکھتے ، ظاہر باطن کا جاننے والا تمہیں تمہاری اس بیہودہ حرکت پر سزا دے گا ایک اور آیت میں بھی منافقوں کی اس خصلت کا بیان ان الفاظ میں فرمایا ہے ( وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ ) 24 ۔ النور:47 ) پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان سے درگزر کیجئے بردباری برتئے ، ان کی خطا معاف کیجئے ، ان کا حال ان کے نام سے دوسروں سے نہ کہئے ، ان سے بالکل بےخوف رہیے اللہ پر بھروسہ کیجئے جو اس پر بھروسہ کرے جو اس کی طرف رجوع کرے اسے وہی کافی ہے ۔
[١١٢] اس لیے کہ اللہ کے احکام کی اطاعت کا عملی نمونہ اللہ کا رسول ہی پیش کرسکتا ہے اور اس کے احکام کی حکمت اور منشا کو اس کا رسول ہی سب سے بہتر سمجھ سکتا ہے لہذا رسول کی اتباع اور اس کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہوگی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص رسول کے احکام سے اعراض کرتا ہے تو جبر واکراہ سے اطاعت کرانا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ : چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں، اس لیے ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے شریعت کے احکام سب ایسے ہیں جنھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں، لہٰذا قرآن مجید سمجھنے کے لیے کوئی شخص سنت سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ” الرسالۃ للشافعی “ رقم : ٥٧، ٥٨، ایضًا بحث البیان الرابع ]- وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : یعنی اس کے بعد بھی اگر لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔ (رازی)
خلاصہ تفسیر - جس شخص نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، (اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کی اطاعت عقلاً بھی واجب ہے، پس آپ کی اطاعت بھی واجب ہوئی) اور جو شخص (آپ کی اطاعت سے) روگردانی کرے سو (آپ کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ ہم نے) آپ کو (بطور ذمہ داری کے) ان کا نگران کر کے نہیں بھیجا (کہ آپ ان کو کفر نہ کرنے دیں، بلکہ آپ کا فرض پیغام پہنچا دینے سے پورا ہوجاتا ہے، اگر اس کے بعد بھی وہ کفر کریں تو آپ پر کسی باز پرس کا اندیشہ نہیں، آپ بےفکر رہیں۔ )
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ ٠ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا ٨٠ۭ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
(٨٠) اور جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (آیت) ” وما ارسلنا من رسول “۔ (الخ) یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اسی لیے بھیجا ہے کہ بحکم الہی اس کی اطاعت کی جائے تو عبداللہ بن ابی منافق نے اپنے دیرینہ بغض کی بنا پر کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بجائے ان کی اطاعت کریں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس نے احکام میں رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی کیوں کہ رسول بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی چیز کا حکم نہیں دیتے۔ حاشیہ (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (النجم آیت ٣، ٤)- (اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کام بھی فرماتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کی وحی کے مطابق فرماتے ہیں) (مترجم)
آیت ٨٠ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ج) ۔- یہ ٹکڑا بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ یہ دو ٹوک انداز میں واضح کر رہا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث ملاحظہ کیجیے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ‘ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ ) (١)- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری جدوجہد جماعتی نظم کے تحت ہو رہی تھی۔ جہاد و قتال کے لیے فوج تیارہوتی تو اس میں اوپر سے نیچے تک سمع وطاعت کی ایک زنجیر بنتی چلی جاتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمانڈر انچیف تھے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر کے میمنہ ‘ میسرہ ‘ قلب اور عقب وغیرہ پر ‘ ہراول دستے پر الگ الگ کمانڈر مقرر فرماتے۔ ان امراء کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ‘ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔- (وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا )- اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو ان پر داروغہ مقرر نہیں کیا۔ اپنے طرز عمل کے یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر یہ اس کے محاسبے کا خود سامنا کرلیں گے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :110 یعنی اپنے عمل کے یہ خود ذمہ دار ہیں ۔ ان کے اعمال کی باز پرس تم سے نہ ہوگی ۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات ان تک پہنچا دو ۔ یہ کام تم نے بخوبی انجام دے دیا ۔ اب یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی راہ راست پر چلاؤ ۔ اگر یہ اس ہدایت کی پیروی نہ کریں جو تمہارے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے ، تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں نافرمانی کرتے تھے ۔