81۔ 1 یعنی یہ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں ان کی باتیں اور سازشیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا ولی اور کارساز اللہ ہے۔
[١١٣] یعنی منافقین آپ کے سامنے تو آپ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور آپ کی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے خفیہ مشورے ان باتوں سے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی سوچ اور انداز فکر ہی مختلف ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو کیسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی قوت کمزور ہو اور ان سے پیچھا چھڑایا جاسکے یا انہیں مدینہ ہی سے نکال دیا جائے اور اس غرض کے لیے یہود مدینہ سے مشورے اور گٹھ جوڑ کرتے رہتے ہیں۔ سو آپ ان کی ایسی ناپاک سازشوں کی مطلق پروا نہ کیجئے۔ فقط اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ اللہ تعالیٰ خود ان سے نمٹ لے گا۔
ۭوَيَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ ۡ۔ : یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی حرکات سیۂ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے۔ ” بَیَّتَ “ کا لفظ اصل میں ” بَیْتٌ“ ( گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عموماً رات کو گھر میں رہتا ہے، اس لیے ” بَاتَ “ کے معنی شب باشی کے ہیں، پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معاملات پر غور و فکر کرتا ہے، اس لیے ” بَیَّتَ “ کا لفظ کسی معاملہ میں نہایت غور و فکر کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ (رازی) یعنی دن کو وہ آپ کے سامنے اطاعت کا یقین دلاتے ہیں مگر رات کو ان سے کچھ لوگ اس کے برعکس مشورے کرتے ہیں، جو وہ دن کو آپ کے سامنے کہہ رہے تھے اس طائفہ سے مراد لیڈر ہیں کیونکہ عام لوگ تو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ (منافق) لوگ (آپ کے احکام سن کر آپ کے سامنے زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہمارا کام (آپ کی) اطاعت کرنا ہے، پھر جب آپ کے پاس سے (اٹھ کر) باہر جاتے ہیں تو شب کے وقت (پوشیدہ) مشورے کرتے ہیں ان میں ایک جماعت (یعنی ان کے سرداروں کی جماعت) برخلاف اس کے جو کچھ زبان سے کہہ چکے تھے (اور چونکہ وہ سردار ہیں اصل مشورہ وہ کرتے ہیں باقی ان کے تابع رہتے ہیں تو اس خلاف میں سب کی ایک حالت ہے) اور اللہ تعالیٰ (سرکاری روزنامچہ میں) لکھتے جاتے ہیں جو کچھ وہ راتوں کو مشورے کیا کرتے ہیں (موقع پر سزا دیں گے) سو آپ ان کی (بیہودگی کی) طرف التفات (اور خیال) نہ کیجئے اور (نہ کچھ فکر کیجئے، بلکہ سارا قصہ) اللہ تعالیٰ کے حوالہ کیجئے اور اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہیں، (وہ خود مناسب طور پر اس کا دفعیہ فرمائیں گے، چناچہ کبھی ان کی شرارت سے کوئی ضرر نہیں پہنچا) کیا یہ لوگ (قرآن کا اعجاز فصاحت و بلاغت میں اور غیب کی صحیح صحیح خبریں دینے میں دیکھ رہے ہیں اور پھر) قرآن میں غور نہیں کرتے (تاکہ اس کا کلام الہی ہونا واضح ہوجائے) اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس (کے مضامین) میں (بوجہ ان کے کثیر ہونے کے واقعات سے اور حد اعجاز سے) بکثرت تفاوت پاتے (کیونکہ ہر ہر مضمون میں ایک ایک اختلاف و تفاوت ہوتا تو مضامین کثیرہ میں اختلافات کثیرہ ہوتے، حالانکہ ایک مضمون میں بھی اختلاف نہیں، پس لامحالہ یہ غیر اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا)- معارف و مسائل - ویقولون اطاعت فاذا برزوا من عندک بیت طآئفة منھم غیر الذین تقول، اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دو رخی پالیسی رکھتے ہیں، زبان سے کچھ کہتے ہیں دل میں کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ نافرمانی کے طرز عمل کے متعلق ایک خاص ہدایت ہے۔- پیشوا کے لئے ایک اہم ہدایت :۔- فاعرض عنھم و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلاً جب منافقین آپ کے سامنے آتے تو کہتے کہ ہم نے آپ کا حکم قبول کیا اور جب واپس جاتے تو آپ کی نافرمانی کرنے کے لئے مشورے کرتے، اس سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت کوفت ہوئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی کہ ان کی پروانہ کیجئے، آپ اپنا کام اللہ کے بھروسہ پر کرتے رہیں، کیونکہ وہ آپ کے لئے کافی ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص لوگوں کا پیشوا اور رہنما ہو اسے طرح طرح کی دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے، لوگ طرح طرح کے الٹے سیدھے الزامات اس کے سر ڈالیں گے دوستی کے روپ میں دشمن بھی ہوں گے، ان سب چیزوں کے باوجود اس رہنما کو عزم و استقلال کے ساتھ اللہ کے بھروسہ پر اپنے کام سے لگن ہونی چاہئے، اگر اس کا رخ اور نصب العین صحیح ہوگا تو انشاء اللہ ضررو کامیاب ہوگا۔
وَيَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ ٠ۡفَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ غَيْرَ الَّذِيْ تَقُوْلُ ٠ۭ وَاللہُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ ٠ۚ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا ٨١- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- برز - البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً- [ الكهف 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك .- ( ب رز ) البراز - کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے - ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا - جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے - ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں - جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے - ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا - جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔- بَيُّوت - : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات .- البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔ - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
(٨١) اور یہ منافقین کا گروہ وہ گروہ ہے جو ظاہرا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا ہے، لہٰذا جو چاہو ہمیں حکم کرو اور جب یہ منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان کی جماعت جو کہتی ہے یہ اس کے مشورے کے مطابق اس میں تبدیلی کرلیتے ہیں۔- لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے دور رہیے اور ان کے مشوروں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا اور ان منافقین وان کی تمام تر سازشوں کا مناسب طریقہ پر خاتمہ کردے گا۔
آیت ٨١ (وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌز) - ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ آپ کے سامنے تو کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا قبول ہے ‘ ہم اس پر عمل کریں گے۔- (فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ ط) ۔- جا کر ایسے مشورے آپس میں شروع کردیتا ہے جو خلاف ہے اس کے جو وہ وہاں کہہ کر گئے ہیں۔ سامنے وہ ہوگئی بعد میں جا کر جو ہے ریشہ دوانی ‘ سازش۔- (وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ ج ) (فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ ) - آپ ان کی پروانہ کیجیے ‘ یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ ابھی ان کے خلاف اقدام کرنا خلاف مصلحت ہے۔ جیسے ایک دور میں فرمایا گیا : (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا) (البقرۃ : ١٠٩) یعنی ان یہودیوں کو ذرا نظر انداز کیجیے ‘ ابھی ان کی شرارتوں پر تکفیر نہ کیجیے ‘ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے ‘ اس لیے کہ مصلحت کا تقاضا ہے کہ ابھی یہ محاذ نہ کھولا جائے۔ اسی طرح یہاں منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ ابھی ان سے اعراض کیجیے۔ چناچہ ان کی ریشہ دوانیوں سے کچھ عرصے تک چشم پوشی کی گئی اور پھر غزوۂ تبوک کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر گرفت شروع کی۔ پھر وہ وقت آگیا کہ اب تک ان کی شرارتوں پر جو پردے پڑے رہے تھے وہ پردے اٹھا دیے گئے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو سہارے کے لیے اللہ کافی ہے۔ ان کی ساری ریشہ دوانیاں ‘ یہ مشورے ‘ یہ سازشیں ‘ سب پادر ہوا ہوجائیں گی ‘ آپ فکر نہ کیجیے۔