74۔ 1 کیا وہ آج تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟ 74۔ 2 یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے ؟ 74۔ 3 اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع (فتح القدیر اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔ 74۔ 4 یعنی ان مکذبین ہی کی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرنا ہے مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کے دل سیاہ اور زنگ آلود ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔
[٩٥] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک جو ترجمہ سے واضح ہے کہ مشرک لوگ سب کچھ بھول بھلا کر اپنے شرک سے ہی یکسر انکار کردیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں پکارتے رہے فی الواقع ان کے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا اور وہ لاشی محض تھے۔ یہ ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں کوئی چیز سمجھتے رہے۔- [٩٦] مشرکین کی بدحواسی۔ ایک ہی سوال کے متضاد جوابات :۔ اس جملہ میں مشرکوں کی بدحواسی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جواب دیتے جائیں گے۔ سوال یہ تھا کہ آج وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کے شریک بنایا کرتے تھے اس کا ایک جواب وہ تو یہ دیں گے کہ ہمیں تو کچھ یاد نہیں پڑتا کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسی بات تھی بھی تو وہ ہمیں آج دکھائی نہیں دے رہے۔ یا ہماری یاد سے محو ہوچکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ وہ صاف مکر جائیں گے کہ ہم کب اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے۔ اور تیسرا جواب وہ ہے جو الگ کئی مقامات پر مذکور ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں پر الزام لگائیں گے کہ یا اللہ ان بڑے بزرگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہذا انہیں دگنا عذاب دے۔ اس جواب میں وہ اپنے جرم کا پورا اعتراف کر رہے ہوں گے۔ یعنی سوال ایک ہے مگر جواب میں کیسی گومگو کی حالت ہے کبھی انکار ہے اور کبھی اعتراف۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم کون سا جواب دے کر اس پر ڈٹ جائیں جس کی وجہ یہ ہے کہ باطل کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔
(آیت) قَالُوْا ضَلُّوْاعَنَّا۔ یعنی جہنم میں پہنچ کر مشرکین کہیں گے وہ بت اور شیاطین جن کی ہم عبادت کیا کرتے تھے آج غائب ہوگئے۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں نظر نہیں آ رہے اگرچہ وہ بھی جہنم کے کسی گوشہ میں پڑے ہوں جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات سے ان کا جہنم میں ہونا ثابت ہے۔ ، (آیت) انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم۔
مِنْ دُوْنِ اللہِ ٠ ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَـيْـــــًٔا ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللہُ الْكٰفِرِيْنَ ٧٤- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :103 یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے ، ہیچ تھے ، لاشے تھے ۔
19: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت جھوٹ بول جائیں گے، اور یہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا، جیسا کہ سورۃ انعام : 23 میں مذکور ہے۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ اس وقت وہ یہ اعتراف کریں گے کہ جن بتوں وغیرہ کو ہم دنیا میں پکارا کرتے تھے، اب ہمیں پتہ چل گیا کہ وہ کوئی حقیقی چیز نہیں تھے، اور ہم کسی حقیقی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔