Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر و تکذیب اور فسق و فجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تنے اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلکم بما کنتم تفرحون فی الارض :” فرح “” خوشی سے پھول جانا “ یہ دل کی حلات کا نام ہے اور ” مرح “ ” اکڑنا “ یہ اسی خوش کے نتیجے میں اعضائے بدن سے ظاہر ہونے والے تکبر کا نام ہے ، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں ہے :(ولا تمس فی الارض مرحاً ) (بنی اسرائیل : ٣٨) ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ “ یعنی قیامت کے دن تمہاری اس ساری رسوائی اور عذاب کا باعث دنیا میں تمہارا اپنے پاس موجود نعمتوں اور پانے دنیوی علوم پر بھول جانا، اکڑنا اور تکبر کرنا ہے، جیسا کہ آگے فرمایا :(فلما جآء تھم رسلھم بالبینت فرحوا بما عندھم من العلم) (المومن : ٨٣) ” پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر پھول گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا۔ “- (٢) بغیر الحق : یعنی تم ناحق زمین میں خوشی سے پھولتے تھے۔ ” فی الارض “ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ دنیا خوشی کا مقام نہیں، خوشی کا مقام صرف جنت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر) (مسلم، الزمد والرفاق :2956)”’ نیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔ “ کافر اس میں اس لئے خوش ہوتا ہے کہ اس کی جنت یہی ہے مگر اس کی یہ خوشی ناحق ہے، کیونکہ ناپائیدار چیز اس قابلن ہیں کہ آدمی اس پر خوش ہو اور تم ناحق اکڑتے اور بڑے بنتے تھے، حالانکہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، تمہارا یا کسی اور مخلوق کا حق نہیں۔ تمہارا حق اللہ کے سامنے عاجز ہونا اور اس کی آیت کے مقابلے میں جھگڑنے کے بجائے انہیں تسلیم کرنا تھا۔ پھر تم زمین پر رہ کر، جو پستی کی انتہا ہے، عرش والے کے سامنے اکڑتے تھے، جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ ۔ تفرحون۔ فرح سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں خوش ہونا اور مسرور ہونا۔ اور تمرحون، مرح سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اترانا اور مال و دولت پر فخر و غرور میں مبتلا ہو کر دوسروں کے حقوق میں تعدی کرنا۔ مرح تو مطلقاً مذموم اور حرام ہے اور فرح یعنی خوشی میں یہ تفصیل ہے کہ مال و دولت کے نشہ میں خدا کو بھول کر معاصی سے لذت حاصل کرنا اور ان پر خوش ہونا یہ تو حرام و ناجائز ہے اور اس آیت میں یہی فرح مراد ہے جیسے قارون کے قصہ میں بھی فرح اسی معنے میں آیا ہے (آیت) لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین۔ یعنی بہت خوش نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور دوسرا درجہ فرح کا یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور راحتوں کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر ان پر خوشی و مسرت کا اظہار کرے، یہ جائز بلکہ مستحب اور مامور یہ ہے۔ ایسی ہی فرح کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا۔ (آیت) فبذلک فلیفرحوا۔ یعنی اس پر خوش ہونا چاہئے۔ آیت مذکورہ میں مرح کے ساتھ کوئی قید نہیں مطلقاً سبب عذاب ہے اور فرح کے ساتھ بغیر الحق کی قید لگا کر بتلا دیا کہ ناحق اور ناجائز لذتوں پر خوش ہونا حرام اور حق و جائز نعمتوں پر بطور شکر کے خوش ہونا عبادت اور ثواب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْـرَحُوْنَ۝ ٧٥ۚ- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- مرح - المَرَحُ : شدّة الفرح والتّوسّع فيه، قال تعالی: وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً- [ الإسراء 37] وقرئ : ( مَرِحاً ) «3» أي : فَرِحاً ، ومَرْحَى: كلمة تعجّب .- ( م ر ح ) المرح - کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی جس میں انسان اترانے لگ جائے قرآن میں ہے : وَلا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً [ الإسراء 37] اور زمین پر اکڑا کر ( اور اٹھلاکر ) مت چل ۔ اس میں ایک قرآت مرحا بمعنی فرحا بھی ہے ۔ مرحی یہ کلمہ تعجب ہے ( اور احسنت یا اصبت کی جگہ استعمال ہوتا ہے ) یعنی خوب کیا کہنے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٦) تمہارے لیے دوزخ کا عذاب اس وجہ سے ہے کہ تم دنیا میں ناحق اترایا کرتے تھے اور شرک وتکبر کیا کرتے تھے۔- جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہو نہ یہاں موت آئے گی اور نہ یہاں سے نکالے جاؤ گے دوزخ کفار کا برا ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ ذٰلِکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ ” اور یہ سب اس لیے ہوا کہ تم زمین میں ناحق اتراتے تھے اور اس لیے بھی کہ تم اکڑا بھی کرتے تھے۔ “- تم لوگ دنیا کے مال و متاع پر خواہ مخواہ اکٹرفوں دکھاتے تھے۔ گویا تم ہلدی کی گانٹھ مل جانے پر پنساری بن بیٹھے تھے۔ حالانکہ دنیا میں تمہارا وہ سارا مال و متاع ہمارا ہی عطا کیا ہوا تھا جس پر اترانے اور فخر جتلانے کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :104 یعنی تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی ، بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن رہے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani