Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 صر صر، صرۃ (آواز) سے ہے۔ یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی، یعنی نہایت تند اور تیز ہوا، جس میں آواز بھی ہوتی ہے بعض کہتے ہیں یہ صر سے ہے جس کے معنی برد ٹھنڈک کے ہیں یعنی ایسی پالے والی ہوا جو آگ کی طرح جلا ڈالتی ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں والحق انہا متصفۃ بجمیع ذلک وہ ہوا ان تمام ہی باتوں سے متصف تھی۔ 16۔ 2 نحسات کا ترجمہ، بعض نے متواتر پے درپے کا کیا ہے کیونکہ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی، بعض نے گرد و غبار یہ ایام جن میں ان پر سخت ہوا کا طوفان جاری رہا، انکے لئے منحوس ثابت ہوئے۔ یہ نہیں کہ ایام ہی منحوس ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] کوئی دن بذات خود نحس نہیں ہوتا (ذکر قوم عاد) :۔ یعنی وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے ورنہ کوئی دن بذات خود نہ سعد ہوتا ہے اور نہ نحس جیسا کہ جوتشیوں اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات تسلیم کرنے والوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ وہی دن جو قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ سیدنا صالح اور مومنوں کے لیے مبارک تھے۔ جس دن فرعون اور اس کے ساتھی بحیرہ قلزم میں غرق ہوئے۔ فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا۔ مگر موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے لیے مبارک تھا۔ علاوہ ازیں اگر یہ دن بذاتہ منحوس ہوتے تو عذاب صرف قوم عاد کے مجرموں پر ہی نہ آتا بلکہ ساری دنیا پر آتا۔- [٢٠] قوم عاد پر ٹھنڈی اور تیز ہوا کا عذاب :۔ ان لوگوں کو اپنی طاقت اور قدوقامت پر غرور تھا۔ اللہ نے ان کا غرور توڑنے کے لیے ایک کمزور سی مخلوق ہوا کو، جس کی روانی اور جھونکوں کے لیے سب لوگ ترستے ہیں۔ ان پر مسلط کردیا۔ ٹھنڈی ہوا انسان کو بہت خوشگوار لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہوا کو لگاتار چلنے کا حکم دیا اور اس کی ٹھنڈک بڑھا دی۔ یہی ہوا سخت ٹھنڈی آندھی کی شکل اختیار کرگئی۔ جو ان کے پتھر کے بنے ہوئے مکانوں اور ایوانوں میں گھس گئی۔ اس کی تیزی کا یہ حال تھا کہ اس نے نہ کوئی درخت صحیح وسالم چھوڑا نہ مکان، نہ مواشی اور انسان۔ سب ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے۔ گر گر کر مرجاتے تھے اور مر مر کر گرتے جاتے تھے۔ آٹھ دن اور سات راتیں آندھی نے اسی طرح اپنا زور دکھایا۔ اور مغرور قوم کے صرف غرور کو ہی نہ توڑا بلکہ پوری قوم کے افراد کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ یہ تو تھا ان کے لیے دنیا کا عذاب اور اخروی عذاب جو ان کی کرتوتوں کا اصل بدلہ ہوگا وہ تو اور بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہوگا۔ دنیا میں بھی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی چیز نہ بچا سکی تو آخرت میں تو ان کی کسی جانب سے مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فارسلنا علیھم ریحاً صرصراً :” صرصراً “ ” صر “ (صاد پر کسرہ) سے ہے، سردی کی شدت جو بدن سیکڑ کر رکھ دے، یعنی شدید ٹھنڈی ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(کمثل ریح فیھا صر) (آل عمران :118)- ” اس ہوا کی مثال جیسی ہے جس میں سخت سرد ہے۔ “ یا ” صرۃ “ سے ہے، جس کا معنی ” خوفناک چیخ “ ہے۔ جیسا کہ فرمایا :- فاقبلت امراتہ فی صرۃ ) (الذاریات : ٢٩)” تو اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی۔ “ یہاں دونوں معنی اکٹھے ملحوظ ہیں کہ وہ ہوا نہایت ٹھنڈی اور خوفناک چیخ جیسی آواز والی تھی۔ ” صرصراً “ میں حروف مکرر ہونے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ہے ۔ یعنی ہم نے ان پر نہایت خوفناک آواز والی شدید ٹھنڈی تیز و تند آندھی بھیجی اور اسی ہوا کو جو ان کی زندگی کے قیام اور دل کی راحت کا باعث تھی اور جسے وہ بالکل معمولی اور بےضرر سمجھتے تھے، ان کی ہلاکت کا سامان بنادیا اور ان کی کوئی قوت انہیں بچا نہ کسی ۔- (٢) فی ایام نحسات :” نحسات “ ” نحس “ (نون کے فتحہ اور حاء کے سکون کے ساتھ) کی جمع ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :(فی یوم نحس مستمر) (القمر : ١٩) ” ایسے دن میں جو دائمی نحوست والا تھا۔ “” نحس “ اور ” منحوس “ (بدقسمتی والا)” سع ”‘ (خوش قستمی والا) کی ضد ہے۔ فی الحقیقت اپنی ذات میں کوئی چیز منحوس نہیں۔ یہ صرف اضافی چیز ہے، یعنی ایک ہی شے کسی کے حق میں خوش قسمتی کا باعث ہوتی ہے اور کسی کے حق میں بدقسمتی کا، جیسا کہ آندھی کے یہ ایام قوم عاد کے حق میں منڈحوس تھے مگر ہود (علیہ السلام) اور ایمان والوں کے لئے ان دنوں سے زیادہ خوش قسمتی والا دن اور کون سا ہوگا۔ اس آندھی کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة اعراف (٧٢) ، قمر (١٨ تا ٢٠) ، ذاریات (٤١، ٤٢) اور سورة حاقہ (٦ تا ٨) ، بعض مسلمان کہلانے والے بھی بعض دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں، جیسے دس محرم، کیونکہ اس میں حسین (رض) شہید ہوئے، حالانکہ اس دس محرم کو موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو نجات حاصل ہوئی، جس کی خوشی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ رکھتے تھے۔ بعض لوگ صفر کے کچھ دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا عقیدہ باطل ہے۔- (٣) لندیقھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا : یہ ذلت و رسوائی ان کے غرور اور تکبر کا جواب تھا کہ وہی زمین جس پر وہ بڑے بنے ہوئے تھے اسی پر ان کے بےجان لاشے کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح گرے پڑے تھے۔- (٤) ولعذاب الاخرۃ اخزی …: یقینا آخرت کا عذاب زیادہ رسوائی والا ہے، اس لئے کہ وہ تمام پہلے اور پچھلے لوگوں کے سامنے ہوگا، پھر دنیا میں تو ظاہری اسباب کے ساتھ شاید کوئی مدد کے لئے پہنچ جائے، وہاں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر دنیا کی رسوائی تو ایک وقت تک ہے، جب کہ وہاں کی رسوائی ہمیشہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمین

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - (آیت) فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا۔ یہ اس عذاب صاعقہ کی تشریح ہے جو اس سے پہلے آیت میں صاعقہ عاد وثمود کے عنوان سے بیان ہوا ہے۔ صاعقہ کے اصل معنے مدہوش وبے ہوش کرنے والی چیز کے ہیں اسی لئے گرنے والی بجلی کو بھی صاعقہ کہا جاتا ہے۔ اور ناگہانی آفت و مصیبت کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ قوم عاد پر جو ہوا کا طوفان مسلط کیا گیا وہ بھی اسی صاعقہ کا ایک فرد ہے اسی کو ریح صرصر کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ جو تیز و تند ہوا کو کہا جاتا ہے، جس میں تیز رفتاری کے ساتھ سخت آواز بھی ہو۔ (قرطبی)- ضحاک نے فرمایا کہ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے تین سال تک بارش بالکل بند کردی اور تیز و تند خشک ہوائیں چلتی رہیں اور آٹھ روز سات راتیں مسلسل ہوا کا شدید طوفان رہا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ واقعہ آخر شوال میں ایک بدھ سے شروع ہو کر دوسرے بدھ تک رہا۔ اور جس کسی قوم پر عذاب آیا ہے وہ بدھ ہی کے دن آیا ہے۔ (قرطبی ومظہری)- حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو ان پر بارش برساتے ہیں اور زیادہ تیز ہواؤں کو ان سے روک لیتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کو مصیبت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے تو بارش ان سے روک لی جاتی ہے اور ہوائیں زیادہ اور تیز چلنے لگتی ہیں۔- فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ ۔ اصول اسلام اور احادیث رسول اللہ سے ثابت ہے کہ کوئی دن یا رات اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے۔ قوم عاد پر طوفان باد کے ایام کو نحسات فرمانے کا حاصل یہ ہے کہ یہ دن اس قوم کے حق میں ان کی بداعمالیوں کے سبب منحوس ہوگئے تھے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ دن سب کے لئے منحوس ہوں۔ (مظہری وبیان القرآن) اور اس مسئلہ کی پوری تحقیق کہ کوئی چیز اپنی ذات میں منحوس ہو سکتی ہے یا نہیں، احقر کی کتاب احکام القرآن حزب خامس میں دیکھ لیں جو عربی میں طبع ہوچکی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَہُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰى وَہُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ۝ ١٦- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- صَرْصَراً- ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ- الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - نحس - قوله تعالی: يُرْسَلُ عَلَيْكُما شُواظٌ مِنْ نارٍ وَنُحاسٌ [ الرحمن 35] فَالنُّحَاس : اللَّهِيبُ بلا دخانٍ ، وذلک تشبيه في اللَّون بالنُّحاس، والنَّحْسُ : ضدّ السَّعْد، قال اللہ تعالی: فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ- [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي أَيَّامٍ نَحِساتٍ [ فصلت 16] وقُرئ ( نَحَسَات) بالفتح . قيل : مشؤوماتٍ وقیل : شدیداتِ البَرْد - وأصل النَّحْس أن يحمرَّ الأفق فيصير کالنُّحاس . أي : لَهَبٍ بلا دخان، فصار ذلک مثلا للشُّؤْم .- ( ن ح س ) النحاس ۔ دھواں بغیر شعلہ آگ کی لپٹ ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ يُرْسَلُ عَلَيْكُما شُواظٌ مِنْ نارٍ وَنُحاسٌ [ الرحمن 35] تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا ۔ تو یہاں نحاس کے معنی آگ کی لپٹ کے ہیں اور لپٹ کا رنگ چونکہ تانبے جیسا ہوتا ہے لہذا تشبیھا نحاس کے معنی تانبا بھی آجاتے ہیں ۔ النحس ( منحوس ) یہ سعد کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] سخت منحوس دن میں ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي أَيَّامٍ نَحِساتٍ [ فصلت 16] ہم نے ان پر نحوست کے دنوں میں زور کی ہوا چلائی ۔ اور ایک قرات میں نحساتبفتح الخاء ہے جس کے معنی بعض نے منحوس اور بعض نے سخت سردی والے دنوں کے لئے ہیں ۔ اصل میں نجس کے معنی افق آسمان کے سرخ ہو کر نحاس کی طرح ہوجائے کے ہیں ۔ اور یہ نحوست کے لئے ضرب المثل ہے - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة «2» ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :- «اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» «3» . والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تو ہم نے ان پر ایک سخت ٹھنڈی ہوا ایسے دنوں میں بھیجی جو نزول عذاب الہی ہونے کی وجہ سے ان کے حق میں سخت تھی تاکہ اس دنیوی زندگی میں سخت عذاب چکھائیں۔- اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ سخت ہے اور عذاب الہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ مدد نہ کی جائے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ ” تو ہم نے ان پر چھوڑ دی بہت زور کی ہوا نحوست کے دنوں میں “- سورة الحاقہ میں تند و تیز ہوا کے اس عذاب کا ذکر یوں آیا ہے : سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍٍ (آیت ٦) یعنی انتہائی تیز اور شدید ہوا کا یہ جھکڑ ّان لوگوں پر سات راتوں اور آٹھ دن تک مسلسل چلتا رہا۔- لِّنُذِیْقَہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ” تاکہ ہم انہیں مزہ چکھائیں رسوا کن عذاب کا اس دنیا کی زندگی میں۔ “- وَلَـعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰی وَہُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ ” اور آخرت کا عذاب تو کہیں زیادہ رسوا کن ہوگا اور وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :20 منحوس دنوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آگئے تھے ۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجائے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آجاتا ۔ اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے ۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔ طوفانی ہوا کے لیے ریح صرصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو ۔ بہرحال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی ۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گرے پڑے ہوں ( الحاقہ آیت 7 ) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی ، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا ( الزاریات ، 42 ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے ، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا ۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا ( الا حقاف ، 24 ۔ 25 ) سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :21 یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے کبر و غرور کا جواب تھا جس کی بنا پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے ۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کر دیا ، ان کے تمدن کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ، اور ان کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے ۔ ( عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۵۱ تا ۵۳ ، ہود ، حواشی ۵٤ تا ٦٦ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۳٤ تا ۳۷ ، الشعراء ، حواشی ۸۸ تا ۹٤ ، العنکبوت ، حاشیہ ٦۵ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: قرآن و سنت کے متعدد دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام دن اللہ ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں، اور کسی بھی دن میں بذات خود کوئی عمومی نحوست نہیں ہوتی، اس لیے یہاں منحوس دنوں کا مطلب یہ ہے کہ یہ دن ان لوگوں کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔