Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کے سامنے واضح کئے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔ 17۔ 2 یعنی انہوں نے مخالفت کی حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔ 17۔ 2 صاعقۃ عذاب شدید کو کہتے ہیں ان پر یہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا جس نے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ و برباد کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] قوم ثمود پر زلزلہ اور چیخ کا عذاب :۔ جسے عاد ثانیہ کہا جاتا ہے اور جن کی طرف سیدنا صالح مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے سیدنا صالح سے اونٹنی کے پہاڑ سے برآمد ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ جس سے انہیں یقین بھی ہوچکا تھا کہ سیدنا صالح کی پشت پر کوئی مافوق الفطرت ہستی موجود ہے۔ اور وہ فی الواقع اللہ کا رسول ہے۔ لیکن ان باتوں کے باوجود انہوں نے سیدنا صالح کی لائی ہوئی ہدایت کو قبول نہ کیا اور اپنے جاہلانہ اور مشرکانہ رسم و رواج کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہ لوگ بھی قدوقامت، ڈیل ڈول اور قوت میں اپنی پیشرو قوم عاد سے کسی طرح کم نہ تھے۔ فن تعمیر سنگ تراشی کے بہترین ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر پتھر تراش تراش کر صرف مکان ہی نہیں بناتے تھے بلکہ راستے بھی بنا کر پہاڑوں کے اندر ہی بستیاں آباد کر رکھی تھی۔ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے جب ان کے دن گنے جاچکے تو ان پر دوہرا عذاب نیچے سے زلزلہ جس سے ان کے پہاڑوں کے اندر واقع مکانوں میں دراڑیں اور شگاف پڑگئے اور اوپر سے کڑک اتنی شدید تھی جس سے ان کے جگر پھٹ گئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واما ثمود فھدینھم …: قوم مثود کے تعارف کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٧٣ تا ٧٩) ۔ ہدایت کی تفسیر کے لئے سورة فاتحہ کی آیت :(اھدنا الصراط المستقیم) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی ہم نے انہیں راہ حق دکھا دیا، مگر انہوں نے ہدایت قبول کرنے کے بجائے اندھا اور گمراہ رہنے کو ترجیح دی۔- (٢) فاخذثھم صعقہ العذاب الھون…” الھون “ اور ” الھوان “ معنی ذلت، یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ ثمود پر آنے والے عذاب کو کہیں ” الرجفۃ “ (زلزلہ) کہا گیا ہے، کہیں ” الضیحۃ “ (سخت چیخ) یہاں اسے بجلی کی کڑک کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک سخت چیخ تھی جس میں بجلی کی کڑک اور شعلہ تھا، ساتھ ہی شدید زلزلہ تھا جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ یہ ذلت کا عذاب ان کے اعمال بد کام انجام تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ١٧ۚ- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- استحباب - وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17]- میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ - عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- صعق - الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام - الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة :- الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه :- 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ- [ الزمر 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] .- 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] .- 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها .- ( ص ع ق ) الصاعقۃ - اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے - اول بمعنی موت اور ہلاکت - جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔- دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔- أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ - سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک )- جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔- هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) اور قوم صالح کی طرف ہم نے صالح کو بھیجا اور انہوں نے اپنی قوم کے سامنے کفر و ایمان اور حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کیا تو انہوں نے کفر کو ایمان کے مقابلے میں پسند کیا تو ان کو سخت ترین عذاب نے گھیر لیا ان کے کفریہ اقوال و افعال اور اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کی وجہ سے اور ان لوگوں کو نجات دی جو حضرت صالح پر ایمان لائے تھے اور کفر و شرک اور اونٹنی کی کونچیں کاٹنے سے ڈرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ ” اور جو قوم ثمود تھی ‘ ان کو ہم نے ہدایت کی راہ دکھائی “- ان کی طرف ہم نے اپنا رسول بھی بھیجا اور اونٹنی کی صورت میں انہیں واضح معجزہ بھی دکھا دیا۔- فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی ” لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھے پن کو ہی پسند کیا “- ہماری واضح تعلیمات ان تک پہنچ گئی تھیں ‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے حقائق کی طرف سے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں ۔- فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ” توا نہیں بھی آپکڑا ذلت کے عذاب کی ہولناک کڑک نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani