Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان اپنا دشمن آپ ہے ۔ یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے جیسے فرمان ہے ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86؀ۘ ) 19-مريم:86 ) یعنی گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے ۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی ۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا ، اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے ۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا ۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے ۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے؟ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟ صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا ۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا ۔ اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا ۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو ۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ ( مسلم نسائی وغیرہ ) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا ۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی ، ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں ۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں ۔ فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں ۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا ، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا ۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی ۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے ۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے ۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے کہ اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا ۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان ، آنکھ ، کھال ، شرم گاہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورہ یٰسین کی آیت ( اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 65؀ ) 36-يس:65 ) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا ۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے ۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے؟ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ، جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں ، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے ۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا ۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت ( وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ 22؀ ) 41- فصلت:22 ) ، نازل ہوئی ۔ عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ و بالا کر دیا ۔ پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ، آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے ۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف ۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بد بختی چھا گئی ۔ یقینا ہم بےراہ تھے ۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے ۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا ۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں ۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یہاں اذکر محذوف ہے وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہوگا۔ 19۔ 1 ای یحبس اولھم علی آخرھم لیلا حقوا (فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول وآخر کو باہم جمع کیا جائے گا اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورة النمل آیت نمبر 17 (وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ) کا حاشیہ

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] روکنے کی دو صورتیں یا وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مجرموں کی الگ الگ جرائم کے مطابق گروہ بندی کی جائے۔ دوسری یہ کہ پہلی نسل کو بعد میں آنے والی نسلوں کے آنے تک روک دیا جائے۔ تاکہ پہلی نسلوں نے جو شرکیہ عقائد اور رسوم چھوڑے اور انہیں بعد والی نسلوں نے تقلید آباء کے طور پر قبول کیا۔ تو ان بعد والی نسلوں کے گناہوں کی سزا کا کچھ حصہ ان پہلی نسلوں پر بھی ڈالا جائے گا۔ جنہوں نے ان شرکیہ عقائد و رسوم کو رواج دیا تھا یا کسی دوسرے برے کام کی طرح ڈالی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ویوم یحشر اعدآء اللہ الی النار : لفظ ” یوم “ ” اذکر “ کا مفعول ہے جو یہاں مقدر ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ واؤ کا عطف کس پر ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے والے منکرین پر دنیا میں آنے والے عذابوں کا ذکر فرمایا تھا، اب آخرت میں ان کے ہونے والے حال کا ذکر فرمایا۔ چناچہ آخرت کا حال یاد دلانے والے اس جملے کا عطف اس مقدر جملے پر ہے جس میں ان پر دنیا میں آن والے عذاب یاد دلائے گئے ہیں۔ گویا اصل عبارت یہ تھی ” اذکر ایام اعداء اللہ فی الدنیا فی انزال العذاب لھم واذکر یوم یحشرون الی النار۔ “ یعنی ” انہیں اللہ کے دشمنوں پر دنیا میں آنے والے عذابوں کی یاد دہانی کرو اور انہیں وہ دن یاد دلا جب وہ آگ کی طرف اکٹھے کئے جائیں گے۔ “ آیات کی ابتداء میں آنے والی واؤ عاطفہ کی مناسبت ہر جگہ ” نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور “ کے مصنف نے نہایت عمدہ بیان فرمائی ہے۔ میں نے اختصار کے پیش نظر صرف چند ایک مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے، اصحاب ذوق اصل کتاب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔- (٢) فھم یوزعون :” وزع یزع “ کا اصل معنی روکنا، ترتیب دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا اور انہیں اس طرح اکٹھا کیا جائے گا کہ آگے والوں کو آگے جانے سے اور پیچھے والوں کو پیچھے جانے سے روک کر اکٹھا کرلیا جائے گا، پھر ان کی الگ الگ ترتیب لگائی جائے گی، ان کے جرائم کے مطابق ان کی ٹولیاں بنائی جائیں گی اور انہیں دھکیل کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ یکھیے سورة حم السجدہ (١٩) اور سورة صافات (٢٢ تا ٢٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ۔ یہ وزع سے مشتق ہے جس کے معنی روکنے اور منع کرنے کے آتے ہیں، اسی کے مطابق خلاصہ تفسیر مذکور میں اس کا ترجمہ روکنے سے کیا گیا ہے۔ اور اکثر حضرات مفسرین نے یہی معنی لئے ہیں کہ اہل جہنم جو بڑی تعداد میں ہوں گے ان کو میدان حشر اور موقف حساب کی طرف جانے کے وقت انتشار سے بچانے کے لئے اگلے حصہ کو کچھ روک دیا جائے گا، تاکہ پچھلے لوگ بھی آ ملیں۔ اور بعض حضرات مفسرین نے یوزعون کا ترجمہ یساقون و یدفعون سے کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو موقف حساب کی طرف ہانک کر دھکے دے کر لایا جائے گا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللہِ اِلَى النَّارِ فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۝ ١٩- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - وزع - يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ- [ النمل 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] قيل : معناه :- ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران .- ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

قیامت کے دن جبکہ صفوان بن امیہ اور اس کے دونوں داماد ربیعہ بن عمرو اور تمام کفار کو دوزخ کی طرف لایا جائے گا اور پھر ترتیب وار روکے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآئُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ” اور جس دن اللہ کے یہ دشمن جمع کیے جائیں گے آگ کی طرف تو ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ “- ظاہر ہے کردار و اعمال کے حوالے سے اہل جہنم سب برابر نہیں ہوں گے۔ ہر مجرم کا عذاب اس کے جرم کے مطابق ہوگا۔ چناچہ وہاں جرائم اور سزائوں کی اقسام کے مطابق اہل جہنم کو الگ الگ جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ کیونکہ ان کا انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے ، بلکہ تمام اگلی پچھلی نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جائے گا ۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا ناگزیر ہے ۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جائے گی اور ٹھہرائی جاتی رہے گی ۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۳ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani