Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے۔ اذا ما جاءوھا میں ما زائد ہے تاکید کے لیے انسان کے اندر پانچ حواس ہیں یہاں دو کا ذکر ہے تیسری جلد میں کھال کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے یوں حواس کی تین قسمیں ہوگئیں باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق بوجہ لمس میں داخل ہے کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شئے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے اسی طرح سونگھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے اس اعتبار سے جلود کے لفظ میں تین حواس آجاتے ہیں۔ فتح القدیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] اعضاء اور جوارح پر اعمال کے اثرات اور ان کی گواہی :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال بجا لاتا ہے۔ یہی نہیں کہ کراماً کاتبین اس کے اعمال نامہ میں اس کے سب اعمال و اقوال درج کرتے جاتے ہیں بلکہ ان اعمال و افعال کے اثرات ان اعضاء پر بھی ثبت ہوتے جاتے ہیں جن کو اس کام کے دوران استعمال کیا گیا ہے۔ جو مجرم اپنے گناہوں کا اور پھر خارجی گواہیوں کا بھی انکار کردیں گے ان پر انہیں کے اعضاء کو گواہ بنا کر لایا جائے گا۔ اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن ذرات سے ہمارا جسم مرکب ہے۔ انہی ذرات سے ہمارا وہ جسم بھی مرکب ہوگا جو قیامت کے دن ہماری روح کو ملے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حتی اذ ما جآء وھا شھدا علیھم سمعھم …زمخشری نے فرمایا :” اذا “ کے بعد لفظ ” ما “ اس کی تاکید کے لئے ہے، تاکید کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے پاس پہنچنے کا وقت ہی ان پر شہادت کا وقت ہوگا، یہ نہیں کہ کچھ وقت شہادت سے خالی ہو۔ “ (کشاف) اس لئے میں نے ” اذاما “ کا ترجمہ ” جوں ہی “ کیا ہے۔ یعنی آگ کے پاس پہنچنے پر جب وہ اپنے جرائم سے انکار کریں گے تو فوراً ہی ان کے کان، آنکھیں اور چمڑے ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ اس کی تفصیل سورة یٰسین کی آیت (٦٥) ، (الیوم نختم علی افواھھم) میں گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَيْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٢٠- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے - مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔- ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے - چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - جلد - الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] .- والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] .- والجَلَد :- الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد .- وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة .- ( ج ل د ) الجلد - کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ - جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہاں تک کہ جب دوزخ کے قریب آجائیں گے تو ان کے کان ان کی سنی ہوئی باتوں اور آنکھیں ان کی دیکھی ہوئی اور ان کے اعضاء ان کے اعمال بد کے بارے میں گواہی دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآئُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ” یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ‘ ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے ۔ “- ” شہادت “ کے بارے میں یہ بات بتکرار و اعادہ بیان کی جا چکی ہے کہ شہادت کسی کے خلاف ہوتی ہے اور کسی کے حق میں۔ چناچہ شَھِدَ کے بعد اگر عَلٰی کا صلہ ہو تو اس کے معنی کسی کے خلاف گواہی دینے کے ہوں گے (جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے) جبکہ شَھِدَ کے ساتھ ” ل “ کا صلہ آنے کی صورت میں کسی کے حق میں گواہی کا مفہوم نکلے گا۔ مثلاً : کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِز (المائدہ : ٨) اور کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء : ١٣٥) ۔ ان دونوں آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ ” ل “ اللہ کے لیے گواہی کا مفہوم دے رہا ہے ‘ کہ تم لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہو کر گواہی دینے والے بن جائو بقول اقبالؔ: ع ” دے تو بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی گواہی “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :25 احادیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ جب کوئی ہیکڑ مجرم اپنے جرائم کا انکار ہی کرتا چلا جائے گا اور تمام شہادتوں کو بھی جھٹلانے پر تل جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے جسم کے اعضاء ایک ایک کر کے شہادت دیں گے کہ اس نے ان سے کیا کیا کام لیے تھے ۔ یہ مضمون حضرت انس ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور مسلم ، نسائی ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، بزّار وغیرہ محدثین نے ان روایات کو نقل کیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، یٰس ، حاشیہ 55 ) ۔ یہ آیت منجملہ ان بہت سی آیات کے ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم آخرت محض ایک روحانی عالَم نہیں ہوگا بلکہ انسان وہاں دوبارہ اسی طرح جسم و روح کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ اب اس دنیا میں ہیں ۔ یہی نہیں ، ان کو جسم بھی وہی دیا جائے گا جس میں اب وہ رہتے ہیں ۔ وہی تمام اجزاء اور جواہر ( ) جن سے ان کے بدن اس دنیا میں مرکب تھے ، قیامت کے روز جمع کر دیئے جائیں گے اور وہ اپنے انہی سابق جسموں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جن کے اندر رہ کر وہ دنیا میں کام کر چکے تھے ظاہر ہے کہ انسان کے اعضاء وہاں اسی صورت میں تو گواہی دے سکتے ہیں جبکہ وہ وہی اعضاء ہوں جن سے اس نے اپنی پہلی زندگی میں کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔ اس مضمون پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی دلیل قاطع ہیں : بنی اسرائیل ، آیات 49 تا 51 ۔ 98 ۔ المومنون ، 35 تا 38 ۔ 82 83 ۔ النور ، 24 ۔ السجدہ ، 10 ۔ یٰسٓ ، 65 ۔ 78 ۔ 79 ۔ الصافات ، 16 تا 18 ۔ الواقعہ ، 47 تا 50 ۔ النازعات ، 10 تا 14 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: شروع میں مشرک لوگ بوکھلاہٹ کے عالم میں یہ جھوٹ بول جائیں گے کہ ہم نے تو کبھی شرک نہیں کیا تھا، جیسا کہ قرآن کریم نے سورۃ انعام : 23 میں بیان فرمایا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ خود انہی کے جسم کے مختلف حصوں سے ان کے خلاف گواہی دلوائیں گے۔