Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ 31۔ 2 یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے من ذنوبکم میں من تبعیض کے لیے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا کیونکہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب و عقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لیے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یقومنآ…:” یقومنآ “ کے ساتھ دوبارہ مخاطب کرنے کا مقصد اس بات کے اہم ہونے کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ جس طرح خطیب کسی اہم بات کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اثنائے کلام میں ” ایھا الناس کہتا ہے۔۔ (ابن عاشور)- (٢) اجینوا داعی اللہ :”’ اعی اللہ “ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اپنی ذات یا کسی بھی مخلوق کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اسی کی اطاعت کی طرف تھی، جیسا کہ فرمایا :(قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ و علی بصیرۃ اناومن اثبعنی وسبحن اللہ وما انا من المشرکین) (یوسف :108)” کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر ، میں اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ جنوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح کی نماز کے دوران قرآن مجید کی جو تلاوت سنی آپ نے اس میں کون سی آیات پڑھیں، جن میں وہ باتیں موجود تھیں جن کی تلقین جنوں نے اپنی قوم کو کی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اگر ہمیں اور کوئی آیات معلوم نہ ہو سکیں تو سورة فاتحہ کی قرأت تو یقینی ہے جو قرآن مجید کے تمام مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔- (٣) یغفرلکم من ذنوبکم “ میں ” من “ لانے کا کیا فائدہ ہے ؟ اس کے لئے دیکھیے سورة نوح (٤) کی تفسیر۔- (٥) اللہ کے داعی کی دعوت قبول کرنے اور سا پر ایمان لانے پر دو بشارتیں دیں، ایک اس فائدے کے حصول کی بشارت جو تمہیں ایمان لانے سے حاصل ہوگا کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور دوسری ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کی بشارت کہ وہ تمہیں عذاب الیم سے پناہ دے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ حرف من اصل میں تبعیض یعنی جزئیت کے معنی کے لئے آتا ہے اگر یہی معنی یہاں لئے جائیں تو حرف من کے بڑھانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسلام قبول کرلینے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ فرمانا مناسب ہوا کہ بعض گناہ یعنی حقوق اللہ معاف ہوجاتے ہیں اور بعض حضرات نے اس حرف من کو زائد قرار دیا ہے تو اس توجیہ کی ضرورت نہیں رہتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٣١- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- جور - وباعتبار القرب قيل : جار عن الطریق، ثم جعل ذلک أصلا في العدول عن کلّ حق، فبني منه الجور، قال تعالی: وَمِنْها جائِرٌ [ النحل 9] ، أي : عادل عن المحجّة، وقال بعضهم : الجائر من الناس : هو الذي يمنع من التزام ما يأمر به الشرع .- جور - کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی صلہ عن کی وجہ سے راستہ سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں پھر مطلقا حق سے عدول کرنے کے لئے اس کو اصل قرار دے کر اس سے الجور بمعنی ظلم بنایا گیا ہے قران میں ہے : ۔ وَمِنْها جائِرٌ [ النحل 9] اور بعض راستے سیدھی راہ سے ایک جانب مائل ہو رہے ہیں ( جو باری تعالیٰ تک نہیں پہنچے : بعض نے کہا ہے کہ الجائر ( جور سے صیغہ فاعل ) انسانوں میں سے ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو احکام شریعت کے التزام سے رک جائے ( اور اسی کا نام ظلم ہے )- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے بھائیو تم رسول اکرم کی بات پر لبیک کہو جو توحید کی طرف بلا رہے ہیں اور ان پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ زمانہ جاہلیت کے تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے محفوظ رکھے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ یٰـقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ ” اے ہماری قوم کے لوگو اللہ کی طرف پکارنے والے کی پکار پر لبیک کہو “- وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْ لَـکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ” اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ وہ (اللہ) تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں ایک درد ناک عذاب سے بچا لے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :35 معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ سے ان کی رو در رو ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم چھ وفد آئے تھے ۔ ان میں سے ایک وفد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رات بھر غائب رہے ۔ ہم لوگ سخت پریشان تھے کہ کہیں آپ پر کوئی حملہ نہ کر دیا گیا ہو ۔ صبح سویرے ہم نے آپ کو حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا ۔ پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ ایک جن مجھے بلانے آیا تھا ۔ میں نے اس کے ساتھ آ کر یہاں جنوں کے ایک گروہ کو قرآن سنایا ۔ ( مسلم ۔ مسند احمد ۔ ترمذی ۔ ابوداؤد ) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں حضور نے صحابہ سے فرمایا کہ آج رات تم میں سے کون میرے ساتھ جنوں کی ملاقات کے لیے چلتا ہے؟ میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گیا ۔ مکہ کے بالائی حصہ میں ایک جگہ حضور نے لکیر کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ اس سے آگے نہ بڑھنا ۔ پھر آپ آگے تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کیا ۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص ہیں جنہوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے اور وہ میرے اور آپ کے درمیان حائل ہیں ۔ ) ابن جریر ۔ بیہقی ۔ دلائل النبوۃ ۔ ابونعیم اصفہانی ، دلائل النبوہ ) ایک اور موقع پر بھی رات کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور مکہ معظمہ میں حجون کے مقام پر جنوں کے ایک مقدمہ کا آپ نے فیصلہ فرمایا ۔ اس کے سالہا سال بعد ابن مسعود نے کوفہ میں جاٹوں کے ایک گروہ کو دیکھ کر کہا حجون کے مقام پر جنوں کے جس گروہ کو میں نے دیکھا تھا وہ ان لوگوں سے بہت مشابہ تھا ۔ ( ابن جریر )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani