Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہوجائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آسکے۔ ۔ 32۔ 1 جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا لیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے اور نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] کیونکہ جن اب اوپر آسمان کی طرف تو جا نہیں سکتے اور اگر جائیں تو فرشتے انہیں مار بھگاتے ہیں۔ لہذا اب زمین ہی ان کی پناہ گاہ ہے۔ اب زمین سے بھاگ کر جائیں تو کہاں جائیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن لایحب داعی اللہ …: بشارت کے بعد یہ نذارت ہے، جس میں اس کتاب پر ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا گیا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سورة جن میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے :(وانا ظننا ان لن نعجز اللہ فی الارض ولن نعجزہ ہرباً ) (الجن : ١٢)” اور یہ کہ ہم نے یقین کرلیا کہ بیشک ہم کبھی اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی بھاگ کر کبھی اسے عاجز کرسکیں گے۔ “- (٢) ولیس لہ من دونہ اولیآء : یعنی اللہ تعالیٰ کی دعوت قبول نہ کرنے والا نہ خود دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بھاگ کر کہیں جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کے مددگار اس کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللہِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْاَرْضِ وَلَيْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءُ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٣٢- عجز - والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، - ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو آپ کا کہنا نہ مانے تو وہ عذاب الہی سے بچ نہیں سکتا اور اللہ کے علاوہ اس کے اقرباء اس کے کام نہیں آسکتے اور ایسے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ ” اور جو کوئی لبیک نہیں کہتا اللہ کی طرف پکارنے والے کی پکار پر تو وہ اللہ کو عاجز کرنے والا نہیں ہے زمین میں “- وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئُط اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ” اور نہیں ہوں گے اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دوسرے مددگار۔ یہی لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ “- یہاں پر ” دَاعِیَ اللّٰہِ “ کے حوالے سے یہ نکتہ ذہن میں مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک دنیا میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا انبیاء ورسل ہی ” اللہ کے داعی “ تھے۔ لیکن اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیوں کو ” دَاعِیَ اللّٰہِ “ کی حیثیت سے لوگوں کو قرآن کی طرف بلانا ہے ‘ انہیں اقامت دین کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہے اور اس جدوجہد میں اپنا تن من دھن کھپانے کے لیے انہیں اس طرح آمادہ کرنا ہے کہ ہر بندہ مومن کی زندگی سورة الانعام کی اس آیت کی تصویر بن جائے : اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “- اس کام کے لیے اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا ‘ اس لیے ” دعوت الی اللہ “ کا یہ مقدس فریضہ اس امت کو سونپ دیا گیا ہے : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ( البقرۃ : ١٤٣) ” اور (اے مسلمانو ) اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجائو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو “۔ سورة آلِ عمران میں اس ذمہ داری کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی گئی : کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِِّ (آیت ١١٠) ” تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے ‘ تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور َبدی سے روکتے ہو اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :36 ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ بھی جنوں ہی کے قول کا حصہ ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے قول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہو ۔ فحوائے کلام سے دوسری بات زیادہ قریب قیاس محسوس ہوتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani