22۔ 1 ایک دوسرے کو قتل کر کے یعنی اختیار و اقتدار کا غلط استعمال کرو امام ابن کثیر نے تولیتم کا ترجمہ کیا ہے تم جہاد سے پھر جاؤ اور اس سے اعراض کرو یعنی تم پھر زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو اس میں فساد فی الارض کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلہ رحمی کی تاکید ہے جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضلیت آئی ہے۔
[٢٦] منافقوں سے کسی بھلائی کی توقع محال ہے :۔ منافقوں کو جہاد صرف اس لیے ناگوار تھا کہ وہ اسلام اور اس کے مفادات کے مقابلہ میں اپنی جان اور مال کو عزیز تر سمجھتے تھے۔ یعنی ان کا اولین مقصد مال کا حصول اور اپنی جان کو بچانا تھا۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں دنیا میں حکومت مل بھی جائے تو ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں جاسکتی یہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ملک میں فتنہ و فساد ہی برپا کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں اپنے رشتہ داروں کے گلوں پر چھری پھیرنے سے باز نہیں آئیں گے۔- اور اگر تَوَلَیْتُمْ کا معنی پھرجانا اور اعراض کرنا لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم جہاد سے بدک کر اسلام سے پھر جاؤ تو تمہارے متعلق یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم پر پھر اسلام سے ماقبل کی حالت عود کر آئے۔ انہی پہلی سی قبائلی جنگوں میں تم پڑجاؤ جن سے نکلنے کی تمہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تم وہی پہلی سی لوٹ مار، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کرنے لگو گے۔- خ قطع رحمی ام ولد کی خریدو فروخت کی ممانعت :۔ اس آیت نیز قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع رحمی بہت بڑا گناہ کبیرہ ہے۔ اسی آیت کے حکم کو مدنظر رکھ کر سیدنا عمر نے اپنی مجلس شوریٰ کے مشورہ سے ام الولد کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا تھا۔ چناچہ سیدنا بریدہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سیدنا عمر کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ محلہ میں یکایک ایک شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے جبکہ اس لونڈی کی لڑکی کھڑی رو رہی ہے۔ سیدنا عمر نے اسی وقت یہ مسئلہ اپنی شوریٰ میں پیش کردیا تاکہ دیکھیں پوری شریعت میں ایسی قطع رحمی کا کوئی جواز نظر آتا ہے ؟ سب نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی قطع رحمی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ماں کو اس کی بیٹی سے جدا کردیا جائے ؟ اس وقت آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں اختیار فرمائیں۔ چناچہ آپ نے سارے بلاد اسلامیہ میں یہ فرمان جاری کردیا کہ جس لونڈی سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے وہ اسے فروخت نہیں کرسکتا۔- اس روایت کو اگرچہ بعض مفسرین نے درج کیا ہے مگر اس کا حوالہ مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں یہ روایت ویسے بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ ام الولد کی فروخت کی تحریم سنت نبوی سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی لونڈی سے مباشرت کی۔ پھر اس سے اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو وہ لونڈی اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوگی (احمد۔ ابن ماجہ۔ بحوالہ نیل الاوطار ج ٦ ص ٢٣١)- ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے پاس ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ) کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا : اس کا بچہ اس کی آزادی کا سبب بن گیا (ابن ماجہ، دارقطنی بحوالہ ایضاً )- ٣۔ سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی نے اولاد والی لونڈیوں کو بیچنے سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ نہ بیچی جاسکتی ہیں نہ ہبہ کی جاسکتی ہیں اور نہ ترکہ میں شمار ہوسکتی ہیں۔ جب تک ایسی لونڈی کا مالک زندہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جب وہ مرجائے تو وہ لونڈی آزاد ہے (موطا امام مالک، دارقطنی بحوالہ ایضاً )- ان احادیث میں موطا امام مالک اول درجہ کی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ ابن ماجہ درجہ دوم اور دارقطنی درجہ سوم میں۔ تاہم یہ سب احادیث ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اور مرفوع ہیں۔ اور اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں یعنی ایسی لونڈی کا مالک خود بھی اپنی زندگی میں اسے نہ فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے۔
فھل عسیتم ان تولیتم …:” ھل “ کے معنی کی تحقیق کے لئے دیکھیے سورة دہر کی پہلی آیت :(ھل اتی علی الانسان حین من الدھر) کی تفسیر۔ یہاں یہ ” قد “ (یقیناً ) کے معنی میں ہے۔” عسیتم “ تم قریب ہو، تم سے امید ہے۔ ” تولیتم “ یا تو ” تولی الولایۃ “ سے ہے، حاکم یا صاحب اقتدار ہونا، یا ” تولی عنہ “ سے ہے، منہ موڑنا، اعراض کرنا۔ اگر حاکم ہونے سے ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ طاعت اور قول معروف اختیار کرو، کیونکہ اگر تم اسی نفاق کی حالت میں حکومت پر متمکن ہوجاؤ تو یقینا تم قریب ہو کہ ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے اسلام سے پہلے والی حالت کی طرف پلٹ جاؤ گے، اپنی خواہشات نفس پوری کرنے کے لئے زمین میں فساد کرو گے اور اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کر دو گے۔ اور اگر ” تولیتم “ کا معنی اعراض اور منہ موڑنا ہو تو مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ جب جہاد کا حکم قطعی اور لازمی ہوجائے تو اپنا صدق ثابت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، کیونکہ اگر تم نے جہاد سے منہ موڑا تو ہرگز امن و امان سے نہیں رہو گے، بلکہ نافرمانی اور قطع رحمی کرو گے، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ، نافرمانی اور لوٹ مار کی وہی حالت لوٹ آئے گی جو سالام سے پہلے تھی۔ تقطعوا “ (تفعیل) میں مبالغہ ہے، یعنی تم اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کرو گے، یا بالکل قطع کر دو گے۔
(آیت) فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ ۔ لفظ تولی کے لغت کے اعتبار سے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک اعراض دوسرے کسی قوم و جماعت پر اقتدار حکومت، اس آیت میں بعض حضرات مفسرین نے پہلے معنی لئے ہیں جس کا اوپر خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اسی کو ترجیح دی ہے اس معنے کے اعتبار سے مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر تم نے احکام شرعیہ الٰہیہ سے رو گردانی کی جن میں حکم جہاد بھی شامل ہے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ تم جاہلیت کے قدیم طریقوں پر پڑجاؤ گے جس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد اور قطع رحمی ہے جیسا کہ جاہلیت کے ہر کام میں اس کا مشاہدہ ہوتا تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر چڑھائی اور قتل و غارت کرتا تھا، اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں زندہ درگور کردیتے تھے، اسلام نے ان تمام رسوم جاہلیت کو مٹایا اور اس کے مٹانے کے لئے حکم جہاد جاری فرمایا جو اگرچہ ظاہر میں خونریزی ہے مگر درحقیقت اس کا حاصل سڑے ہوئے عضو کو جسم سے الگ کردینا ہے تاکہ باقی جسم سالم رہے، جہاد کے ذریعہ عدل و انصاف اور قرابتوں اور رشتوں کا احترام قائم ہوتا ہے، اور روح المعانی قرطبی وغیرہ میں اس جگہ تولی کے معنے حکومت و امارت کے لئے ہیں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تمہارے حالات جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تمہاری مراد پوری ہو، یعنی اسی حالت میں تمہیں ملک و قوم کی ولایت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو نتیجہ اس کے سوا نہیں ہوگا کہ تم زمین میں فساد پھیلاؤ گے اور رشتوں قرابتوں کو توڑ ڈالوں گے۔- صلہ رحمی کی سخت تاکید :- اور لفظ ارحام رحم کی جمع ہے جو ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کا مقام ہے چونکہ عام رشتوں قرابتوں کی بنیاد وہیں سے چلتی ہے اس لئے محاورات میں رحم بمعنی قرابت اور رشتہ کے استعمال کیا جاتا ہے تفسیر روح المعانی میں اس جگہ اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ ذوی الارحام اور ارحام کا لفظ کن کن قرابتوں پر حاوی ہے۔ اسلام نے رشتہ داری اور قرابت کے حقوق پورے کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ اور دوسرے دو اصحاب سے اس مضمون کی حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صلہ رحمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے قریب کریں گے اور جو رشتہ قرابت قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قطع کردیں گے جس سے معلوم ہوا کہ اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ اقوال و افعال اور مال کے خرچ کرنے میں احسان کا سلوک کرنے کا تاکیدی حکم ہے حدیث مذکور میں حضرت ابوہریرہ نے اس آیت قرآن کا حوالہ بھی دیا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی ایسا گناہ جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں اس کے علاوہ، ظلم اور قطع رحمی کے برابر نہیں (رواہ ابوداؤد، والترمذی، ابن کثیر) اور حضرت ثوبان کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی عمر زیادہ ہو اور رزق میں برکت ہو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ احادیث صحیحہ میں یہ بھی ہے کہ قرابت کے حق کے معاملہ میں دوسری طرف سے برابری کا خیال نہ کرنا چاہئے اگر دوسرا بھائی قطع تعلق اور ناروا سلوک بھی کرتا ہے جب بھی تمہیں حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلھا یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو صرف برابر کا بدلہ دے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب دوسری طرف سے قطع تعلق کا معاملہ کیا جائے تو یہ ملانے اور جوڑنے کا کام کرے (ابن کثیر)
فَہَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ ٢٢- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
سو اے گروہ منافقین اگر تم رسول اکرم کے بعد اس امت کے معاملہ سے کنارہ کش رہو تو تمہاری یہ خواہش ہے کہ تم قتل و گناہ اور فساد برپا کردو اور کفر کے ذریعہ آپس میں رشتہ داری ختم کرو۔
آیت ٢٢ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّـیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ” پس تم سے اس کے سوا کچھ متوقع نہیں ہے کہ اگر تم لوگوں کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رحمی رشتے کاٹو گے۔ “- عام طور پر اس آیت کے دو ترجمے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ترجمے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم لوگ قتال سے منہ موڑو گے تو تم سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم زمین میں فساد مچائو گے اور خونی رشتوں کے تقدس کو پامال کرو گے۔ اوپر آیت کے تحت جو ترجمہ اختیار کیا گیا ہے وہ شیح الہند (رح) کے ترجمے کے مطابق ہے اور مجھے اسی سے اتفاق ہے۔ شیخ الہند (رح) کے ترجمے کے اصل الفاظ یہ ہیں : ” پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالوملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں “۔ یعنی اس مرحلے پر جبکہ تم لوگوں نے تربیت کے ضروری مراحل ابھی طے نہیں کیے ہیں ‘ ابھی تم آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزر کر کندن نہیں بنے ہو اور تزکیہ باطن اور تقویٰ کے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچے ہو ‘ ایسی حالت میں اگر تم لوگوں کو جزیرہ نمائے عرب میں اقتدار مل جائے تو اس کا نتیجہ ” فساد فی الارض “ کے سوا اور بھلا کیا نکلے گا - اس آیت کے مخاطب دراصل مدینہ اور اس کے اطراف و جوانب کے وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے فوراً بعد ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے ‘ انہوں نے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی طرح اس راستے میں کڑی آزمائشوں کا سامنا نہیں کیا تھا اور اس لحاظ سے ان کے کردار و عمل میں ابھی مطلوبہ پختگی اور استقامت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کا عملی ثبوت غزوہ احد کے موقع پر اس وقت سامنے آگیا جب مسلمانوں کی صفوں سے ایک تہائی لوگ اچانک بہانہ بنا کر طے شدہ لائحہ عمل سے لاتعلق ہو کر اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔ گویا اس وقت اہل ایمان کے اندر اتنی بڑی تعداد میں ضعیف الاعتقاد مسلمان اور منافقین موجود تھے۔ - اس اہم نکتے پر آج ان تمام دینی جماعتوں کو بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی دانست میں غلبہ دین کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اگر یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کی مناسب تربیت پر توجہ نہیں دیں گی اور ان کے اندر اخلاص اور للہیت کے پاکیزہ جذبات پروان چڑھانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کریں گی تو انہیں اقتدار ملنے کے نتیجے میں اصلاح کی بجائے الٹا فساد پیدا ہوگا اور ایسی صورت حال دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی۔ کیونکہ فاسق و فاجر قسم کے لوگوں اور لا دینی قوتوں کے پیدا کردہ فساد کو تو دنیا کسی اور زاویے سے دیکھتی ہے ‘ لیکن اگر کسی دینی جماعت کے اقتدار کی چھتری کے نیچے ” فساد فی الارض “ کی کیفیت پیدا ہوگی تو اس سے جماعت کی شہرت کے ساتھ دین بھی بدنام ہوگا۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :33 اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ ۔ ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :34 اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں ، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو ، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو ، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھرتے رہے ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے ، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو ، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالی تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے ۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، 83 ۔ 177 ۔ النساء ، 8 36 ۔ النحل ، 90 ۔ بنی اسرائیل ، 26 ۔ النور ، 22 ۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار ، خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے ، اس کے ذوی الارحام ہیں ۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے ۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے ۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے ، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصدا پہلو تہی کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے اس سے اتفاق فرمایا تھا ۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام بلاد اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو ، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے ۔
11: جہاد کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے دنیا میں انصاف قائم ہو، اور غیر اسلامی حکومتوں کے ذریعے جو ظلم اور فساد پھیلا ہوا ہے، اس کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اگر تم جہاد سے منہ موڑ لوگ تو دنیا میں فساد پھیلے گا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کے نتیجے میں ظلم اور نا انصافی کا دور دورہ ہوگا جس کی ایک شکل یہ ہے کہ رشتہ داریوں کے حقوق پامال ہوں۔