Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی ایسے لوگوں کے کانوں کو اللہ نے (حق کے سننے سے) بہرہ اور آنکھوں کو (حق کے دیکھنے سے) اندھا کردیا ہے۔ یہ نتیجہ ہے انکے مذکورہ اعمال کا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] جہاد کی برکات :۔ یعنی انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ جہاد بھی ان کے لیے سراسر خیر وبرکت ہے۔ جب تک جہادنہ کیا جائے گا۔ کبھی کفر اسلام کو جینے اور پھلنے پھولنے نہیں دے گا بلکہ اس کی تو یہ کوشش ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دیا جائے۔ جہاد سے ہی مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصائب کا دور ختم ہوگا۔ فتنہ و فساد کا قلع قمع ہوگا۔ اللہ کا دین سربلند ہوگا۔ توحید پھیلے گی، شرک کا خاتمہ ہوگا اور یہ ملک امن و چین کا گہوارہ بن جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اولئک الذین لعنھم اللہ …: یعنی یہ لوگ جو قریب تھے کہ حکومت میں آجائیں تو اندھے بہرے ہو کر ظلم و فساد پھیلائیں اورق طع رحمی کرنے لگیں، یا قریب تھے کہ اطاعت اور جہاد سے منہ موڑیں تو زمین میں فساد پھیلائیں اور رشتہ داریوں کو بری طرح قطع کردیں، اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی اور انہیں ایسا بہرا، اندھا اور سنگ دل بنادیا کہ وہ جہاد کی برکات سمجھ ہی نہ سکے کہ اس کی بدولت مسلمانوں کی پریشانیاں اور مصیبتیں ختم ہوتی ہیں، انہیں عزت اور سربلندی ملتی ہے، فتنہ و فساد اور شرک و کفر ختم ہوتا ہے اور زمین امن کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ذلک بانھم امنوا ثم کفروا فطیع علی قلوبھم فھم لایفقھون) (المنافقون : ٣)” یہ اس لئے کہ وہ ایمان لائے، پھر انہوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، سو وہ نہیں سمجھتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ ، یعنی ایسے آدمی جو زمین میں فساد پھیلائیں اور رشتوں قرابتوں کو قطع کریں ان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے یعنی ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے حضرت فاروق اعظم نے اسی آیت سے ام الولد کی بیع کو حرام قرار دیا، یعنی وہ مملوکہ کنیز جس سے کوئی اولاد پیدا ہوچکی ہو اس کو فروخت کرنا اس اولاد سے قطع رحمی کا ذریعہ ہے جو موجب لعنت ہے اس لئے ام ولد کی فروخت کو حرام قرار دیا (رواہ الحاکم وصححہ و ابن المنذر عن بریدہ)- کسی معین شخص پر لعنت کا حکم اور لعن یزید کی بحث :- اور حضرت امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ نے ان سے یزید لعنت کرنے کی اجازت کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ اس شخص پر کیوں نہ لعنت کی جائے جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔ صاحبزادے نے عرض کیا کہ میں نے تو قرآن کو پورا پڑھا اس میں کہیں یزید پر لعنت نہیں آئی آپ نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ یزید سے زیادہ کون قطع ارحام کا مرتکب ہوگا جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ و قرابت کی بھی رعایت نہیں کی، مگر جمہور امت کے نزدیک کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں، جب تک کہ اس کا کفر پر مرنا یقینی طور پر ثابت نہ ہو۔ ہاں عام و صف کے ساتھ لعنت کرنا جائز ہے جیسے لعنتہ اللہ علی الکاذبین، لعنتہ اللہ علی المفسدین و لعنتہ اللہ علی قاطع الرحم وغیرہ روح المعانی میں اس جگہ اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے (روح ص 72 ج 26 )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَہُمْ۝ ٢٣- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی:- صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ منافقین وہ لوگ ہیں جن کو حق تعالیٰ نے ہر بھلائی سے دور کردیا اور ان کو احکام سننے سے اور حق و ہدایت کا رستہ دیکھنے سے اندھا کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰیٓ اَبْصَارَہُمْ ” یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے ‘ پس ان کے کانوں کو بہرا اور ان کی نگاہوں کو اندھا کردیا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani