21۔ 1 یہ بعد میں ہونے والی فتوحات اور ان سے حاصل ہونے والی غنیمت کی طرف اشارہ ہے۔
[٣٢] صلح حدیبیہ کیسے فتح مکہ کا پیش خیمہ بنی ؟ اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کا پیش خیمہ یہ صلح حدیبیہ ہی بن گئی تھی۔ اور اللہ کو ٹھیک معلوم تھا کہ یہ صلح کس طرح فتح مکہ کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ صلح نامہ کی دوسری شرط کی رو سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے تھے۔ صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی جس میں قریش نے کھلم کھلا بنوبکر کی مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ بعد ازاں بنو خزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لئے مدینہ پہنچے۔ آپ کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت صدمہ ہوا۔ لہذا آپ نے قریش کے لئے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک تسلیم کرلی جائے۔- (١) بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیا جائے۔- (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔- (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔- قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا۔ ان میں سے ایک شخص فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور انہیں سخت فکر دامن گیر ہوئی۔ چناچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا گیا۔ اس نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی۔ لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابو بکرصدیق (رض) سیدنا عمر (رض) حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ (رض) تک سے سفارش کی درخواست کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو اس نے خود ہی مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔- قریش کی یہ بدعہدی، پھر اس کے بعد صرف تیسری شرط منظور کرنے کا جواب دراصل اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ چناچہ آپ نے فتح مکہ کی مہم کا آغاز کردیا اور جب ابو سفیان وہاں پہنچا تو اس وقت تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ لہذا آپ اسے کسی قسم کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔
(١) واخری لم تقدروا علیھا…:” اخری “ ” مغانم “ کی صفت ہے جو یہاں محذوف ہے اور اس کا عطف ” مغانم کثیرۃ “ پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان غنیمتوں کے علاوہ جن کا اوپر ذکر ہوا، کئی اور غنیمتوں کا بھی وعدہ فرمایا ہے جن پر تم قادر نہیں ہوئے، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں گھیرے میں لے لیا ہے۔ اس سے مراد سب سے پہلے فتح مکہ ہے جو فتح الفتوح تھی۔ مسلمان حدیبیہ والے سال اور اس سے اگلے سال اسے حاصل نہیں کرسکے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کا فیصلہ ہوچکا تھا، چناچہ صلح حدیبیہ ہی اس کا پیش خیمہ بنی۔ اس صلح کی ایک شرط یہ تھی کہ جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو چاہے قریش مکہ کا حلیف بن جائے اور کوئی کسی کے خلاف یا اس کے حلیف کے خلاف جنگ نہ کرے۔ اس موقع پر بنو خزاعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلفی اور بنو بکر قریش مکہ کے حلفی بن گئے۔ مشرکین صلح کے بعد صرف دو سال تک معاہدہ پر قائم رہے، پھر ان کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا، جس میں قریش نے اسلحے اور آدمیوں کے ساتھ ان کی مدد کی اور کعبہ میں پناہ لینے کے باوجود انہیں قتل کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے معاہدہ توڑنے کی اطلاع ملی تو آپ نے نہایت اخفا کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ کی طرف کوچ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح فرما دیا۔ لفظ عام ہونے کی وجہ سیف تح مکہ کے علاوہ وہ تمام فتوحات ” واخری لم تقدروا علیھا “ میں داخل ہیں جو اس کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، جن میں ثقیف و ہوازن کی فتح اور تبوک وغیرہ کی فتح بھی شامل ہیں۔ روم و فارس، مصر و شام ، ہندو سندھ اور زمین کے مشرق و مغرب کے وہ تمام ممالک بھی جو قیامت تک مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے۔- (٢) قد احاط اللہ بھا، وکان اللہ علی کل شیء قدیراً : یہ اس سوال کا جواب ہے جو یہاں پیدا ہوسکتا تھا کہ مدینہ کی بستی کے یہ چودہ پندرہ سو آدمی، جن کے پاس اسلحہ اور دوسری ضروری ات حتیٰ کہ سامان خوردو نوش کی بھی کمی ہے، اتنی کثیر فتوحات اور غنیمتیں کیسے حاصل کرسکتے ہیں، جب کہ پورا عرب ان کے خلاف ہے، جن کے پاس آدمیوں، اسلحے اور ساز و سامان کی فراوانی ہے ؟ فرمایا یہ لوگ واقعی وہ فتوحات اور غنیمتیں حاصل نہیں کرسکتے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کا گھیرا کرلیا ہو اور انہیں مسلمانوں کو عطا فرمانا چاہتا ہو تو پھر کون ہے جو اسے روک سکے ؟ اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔
(آیت) وَّاُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاط اللّٰهُ بِهَا، یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے اور بہت سی فتوحات کا وعدہ کیا ہے جس پر ابھی ان کو قدرت نہیں۔ ان فتوحات میں چونکہ سب سے پہلے مکہ مکرمہ کی فتح ہے اس لئے بعض حضرات نے اس سے فتح مکہ مراد لیا ہے مگر الفاظ عام ہیں قیامت تک ہونے والی فتوحات اس میں شامل ہیں (مظہری)
وَّاُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہَا قَدْ اَحَاطَ اللہُ بِہَا ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا ٢١- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
اور ایک دوسری غنیمت اور بھی آنے والی ہے جو اس وقت تک تمہارے قبضہ میں نہیں آئی مگر اللہ تعالیٰ اس کو اپنے احاطہ قدرت میں لیے ہوئے ہے جب چاہے گا ہوجائے گا وہ فتح فارس ہے اور اللہ تعالیٰ فتح و نصرت، اور غنیمت پر چیز پر قادر ہے۔
آیت ٢١ وَّاُخْرٰی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِہَا ” اور کچھ (فتوحات) اور بھی ہیں جن پر ابھی تمہیں قدرت حاصل نہیں ہوئی ‘ اللہ ان کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔ “- یعنی اس کے فوراً بعد تمہیں خیبر کی فتح حاصل ہوگی اور اس کے بعد مکہ بھی فتح ہوجائے گا۔ ان کے علاوہ سرزمین عرب سے باہر بھی بہت سی فتوحات اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے گھیر رکھی ہیں۔ ان فتوحات کے بارے میں دوسرے رکوع (آیت ١٦) میں بھی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ تیسرے رکوع کی یہ آیات دوسرے رکوع کی آیات سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔- وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا ” اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :40 اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے ۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے ۔ ارشاد الہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جائے گا ۔
19: اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے بعد حنین وغیرہ کی فتوحات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اگرچہ ابھی مسلمان مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کی حالت میں نہیں ہیں، لیکن وہ وقت آنے والا ہے جب قریش مکہ خود حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اسے توڑ دیں گے، اور اس کے بعد مسلمانوں کے لیے فتح مکہ کا راستہ کھل جائے گا، اور اس کے بعد حنین وغیرہ کی فتوحات حاصل ہوں گی۔