Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یہ حدیبیہ میں متوقع جنگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ قریش مکہ صلح نہ کرتے بلکہ جنگ کا راستہ اختیار کرتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، کوئی ان کا مددگار نہ ہوتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] یعنی اگر کافر میدان حدیبیہ میں مسلمانوں سے بھڑ جاتے تو بھی اللہ اس بات پر قادر تھا کہ کافروں کو مار بھگاتا اور مسلمانوں کو فتح عطا کردیتا۔ مگر جنگ ہونے کے بجائے صلح ہوجانے میں دوسری کئی مصلحتیں کار فرماتھیں۔ جن کی وجہ سے اللہ نے جنگ نہ ہونے دی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولو قتلکم الذین کفروا لولوا الادبار : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے کفار کے ہاتھ تم سے روک دیئے کہ وہ لڑائی سے باز رہے، اب فرمایا کہ حدیبیہ کے مقام پر بظاہر دب کر جو صلح کی جا رہی تھی وہ بزدلی کے بنا پر یا اس خطرے کے پیش نظر نہیں تھی کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائیگی، بلکہا س میں ب ہت سی حکمتیں محلوظ تھیں، جن میں بعض کا ذکر گزر چکا اور کچھ آگے بیان ہو رہی ہیں ۔ چناچہ فرمایا کہ اگر اس موقع پر کفار تم سے لڑ پڑتے تو یقینا بیٹھیں پھیر کر بھاگ جاتے اور مکہ اسی وقت فتح ہوجاتا مگر یہ مصلحت کے خلفا تھا۔- (٢) ثم لا یجدون ولیا و لا نصیراً :” ثم “ (پھر) کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد خواہ کتنی مدت گزر جائے اور خواہ ان مشرکین کی تعداد کتنی ہوجائے کسی وقت بھی انہیں کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (چونکہ ان کفار کے مغلوب ہونے کے مقتضیات موجود تھے جو آگے آتے ہیں اس لئے) اگر (تم میں یہ صلح نہ ہوتی بلکہ) تم سے یہ کافر لڑتے تو ( ان مقتضیات کی وجہ سے وہ) ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگتے، پھر نہ ان کو کوئی یار ملتا نہ مددگار ( اور) اللہ تعالیٰ نے (کفار کے لئے) یہی دستور کر رکھا ہے جو پہلے سے چلا آتا ہے (کہ مقابلہ میں اہل حق غالب اور اہل باطل مغلوب رہے ہیں اور کبھی کسی وقت کسی حکمت و مصلحت سے اس میں تاخیر ہونا اس کے منافی نہیں) اور آپ خدا کے دستور میں (کسی شخص کی طرف سے) رد و بدل نہ پاویں گے (کہ خدا تعالیٰ کوئی کام کرنا چاہئے اور کوئی اس کو نہ ہونے دے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے ان کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے) اور تمہارے ہاتھ ان (کے قتل) سے عین مکہ (کے قریب) میں (یعنی حدیبیہ میں) روک دیئے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا (یہ اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جو قصہ حدیبیہ کے جزو ہشتم میں شروع میں بیان ہوچکا ہے کہ قریش کے پچاس آدمیوں کو صحابہ کرام نے گرفتار کرلیا تھا اور پھر کچھ لوگ بھی گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے تھے اس وقت اگر مسلمان ان کو قتل کردیتے تو دوسری طرف مکہ میں حضرت عثمان غنی اور ان کے چند ساتھی روک لئے گئے تھے وہ ان کو شہید کردیتے اس کا لازمی نتیجہ مکمل طور پر جنگ چھڑ جانا ہوتا اور اگرچہ مذکور الصدر آیات کی پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ اگر جنگ ہو بھی جاتی تو فتح مسلمانوں ہی کی ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں مسلمانوں کی بڑی مصلحت اس میں تھی کہ اس وقت جنگ نہ ہو اس لئے اس طرف مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے قیدیوں کو قتل نہ کریں اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ ان کے قتل سے روک دیئے دوسری طرف قریش کے دلوں پر اللہ نے مسلمانوں کا رعب ڈال دیا کہ انہوں نے صلح کی طرف مائل ہو کر سہیل کو آپ کی خدمت میں بھیجا، اس طرح حق تعالیٰ کی حکمت نے دو طرفہ انتظام جنگ نہ ہونے کا کردیا) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو (اس وقت) دیکھ رہا تھا (اور ان کاموں کے نتائج کو جانتا تھا اس لئے ایسا کام نہیں ہونے دیا جس سے جنگ چھڑ جائے۔ آگے اس کا بیان ہے کہ اگر جنگ ہوجاتی تو کفار کی مغلوبیت کس طرح اور کیوں ہوتی) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو (عمرہ کرنے کے لئے) مسجد حرام سے روکا (مراد مسجد حرام اور صفا مروہ کے درمیان کا میدان جہاں سعی ہوتی ہے دونوں ہی ہیں مگر چونکہ طواف اصل اور اول ہے اور وہ مسجد حرام میں ہوتا ہے اس لئے اس سے روکنے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا) اور قربانی کے جانور کو جو (حدیبیہ میں) رکا ہوا رہ گیا اس کو اس کے موقع میں پہنچنے سے روکا (جانوروں کی قربانی کا موقع منیٰ ہے ان لوگوں نے جانوروں کو منیٰ تک نہیں جانے دیا، ان کے ان جرائم) اور (حرم محترم میں بیٹھ کر ایسا ظلم کرنے کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کو جنگ کا حکم دے کر ان کو مغلوب کردیا جاتا، لیکن بعض حکمتیں اس تقاضے کو پورا کرنے سے مانع ہوگئیں ان حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت مکہ میں بہت سے مسلمان کفار کے ہاتھوں محبوس اور مظلوم تھے جیسا کہ قصہ حدیبیہ کے جزو دہم میں اس کا ذکر آیا ہے اور ان میں سے ابو جندل کا حضور کی خدمت میں پہنچ کر فریاد کرنا بیان ہوچکا ہے، اگر اس وقت جنگ چھڑ جاتی تو غیر شعوری طور پر ان مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچ جاتا اور ممکن تھا کہ ان کے ہاتھ سے ہی وہ قتل ہوجاتے اور عام مسلمانوں کو پھر اس پر ندامت و افسوس ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرما دیئے کہ جنگ نہ ہو۔ اسی مضمون کو آگے فرمایا ہے کہ) اگر (مکہ میں اس وقت) بہت سے مسلمان مرد اور بہت سی مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بیخبر ی ہیں (رنج و افسوس کا) ضرر پہنچتا ( اگر یہ بات نہ ہوتی) تو سب قصہ طے کردیا جاتا، لیکن ایسا اس لئے نہیں کیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے (چنانچہ جنگ نہ ہونے سے ان مسلمانوں کی جان بچی اور تم ان کے قتل کے گناہ اور پھر اس پر رنج و افسوس سے بچے البتہ) اگر یہ (مذکور مسلمان مکہ سے کہیں) ٹل گئے ہوتے تو ان (اہل مکہ) میں جو کافر تھے ہم ان کو (مسلمانوں کے ہاتھ سے) درد ناک سزا دیتے (اور ان کفار کے مغلوب و مقتول ہونے کا ایک مقتضیٰ اور بھی تھا) جبکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی (اس عار سے وہ ضد مراد ہے جو بسم اللہ اور لفظ رسول اللہ کے لکھنے پر انہوں نے مزاحمت کی جیسا کہ اوپر صلح نامہ حدیبیہ کے بیان میں اس کا ذکر آ چکا ہے) سو ( اس کا مقتضا یہ تھا کہ مسلمان جوش میں آ کر لڑ پڑتے مگر) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور مومنین کو اپنی طرف سے تحمل عطا فرمایا۔ ( جس کی وجہ سے انہوں نے اس کلمہ کے لکھنے پر اصرار چھوڑ دیا اور صلح ہوگئی) اور (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا (تقویٰ کی بات سے مراد کلمہ طیبہ یعنی توحید و رسالت کا اقرار ہے اور مطلب اس پر جمائے رکھنے کا یہ ہے کہ توحید و رسالت کے اعتقاد کا تقاضا اطاعت ہے اللہ اور رسول کی اور مسلمانوں کا یہ صبر و ضبط اپنے جذبات کے خلاف صرف اس وجہ سے تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضبط و صبر کا حکم فرمایا تھا ایسے سخت مرحلہ میں اپنے جذبات کے خلاف رسول کی اطاعت ہی کا نام کلمہ تقویٰ پر جمنا ہے) اور وہ (مسلمان) اس (کلمہ تقویٰ ) کے (دنیا میں بھی) زیادہ مستحق ہیں (کیونکہ ان کے قلوب میں طلب حق ہے اور یہ طلب ہی ایمان تک پہنچاتی ہے) اور (آخرت میں بھی) اس (کے ثواب) کے اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝ ٢٢- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] - ( لو ) لو - ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر تم سے غطفان اور خیبر والے ملکر لڑتے تو ضرور شکست کھا کر بھاگتے پھر اس قتل و شکست کے مقابلہ میں ان کو کوئی دوست ملتا اور نہ کوئی مددگار۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ وَلَوْ قٰــتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا ” اور اگر یہ کافر (قریش ِمکہ) ّتم سے جنگ کرتے تو لازماً پیٹھ پھیر جاتے اور پھر نہ پاتے وہ اپنے لیے کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :41 یعنی حدیبیہ میں جنگ کو اللہ نے اس لیے نہیں روکا کہ وہاں تمہارے شکست کھا جانے کا امکان تھا ، بلکہ اس کی مصلحت کچھ دوسری تھی جسے آگے کی آیتوں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ اگر وہ مصلحت مانع نہ ہوتی ، اور اللہ تعالی اس مقام پر جنگ ہو جانے دیتا تو یقیناً کفار ہی کو شکست ہوتی اور مکہ معظمہ اسی وقت فتح ہو جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: یعنی حدیبیہ کے مقام پر کافروں سے جو صلح کرائی گئی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے، اور جنگ کی صورت میں انہیں شکست اٹھانی پڑتی، بلکہ اگر مقابلہ ہوجاتا تو یہ کافر ہی شکست کھاتے، اور پیٹھ پھیر کر بھاگتے، لیکن اس وقت کئی مصلحتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جنگ کو روکا تھا، ان میں سے ایک مصلحت کا بیان آگے آیت نمبر ٢٥ میں آرہا ہے۔