ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے حدیث شریف میں ہے تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے ۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہ عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ Ǻۙ ) 104- الهمزة :1 ) یعنی ہر طعنہ باز عیب جو کے لئے خرابی ہے ہمز فعل سے ہوتا ہے اور لمز قول سے ایک اور آیت میں ہے ( ھماز مشاء بنمیم ) الخ ، یعنی وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29 ) 4- النسآء:29 ) یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، مقاتل ، بن حیان فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس سے چڑتا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ( ابو داؤد ) پھر فرمان ہے کہ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے ۔
11۔ 1 ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بظور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔ 11۔ 2 یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔ 11۔ 3 یعنی اپنے طور پر استزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے 11۔ 4 یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجریز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلا اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے الاسم یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان فتح القدیر۔ البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہوجائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑجائے کالے رنگ کی بنا پر کا لیا یا کالو مشہور ہوجائے وغیرہ۔ القرطبی۔
[١٤] مذاق اڑانے سے پرہیز :۔ اس آیت میں ایسے معاشرتی آداب سکھائے جارہے ہیں ہیں جو عموماً لڑائی جھگڑے کا سبب بنتے ہیں۔ مذاق اڑانے کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک مذہبی یا نظریاتی اختلاف کا ہونا دوسرے مخاطب کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھنا۔ خواہ کوئی بھی صورت ہو مذاق اڑانے سے چونکہ لڑائی جھگڑے کا امکان ہے۔ لہذا لڑائی جھگڑے کے ان ابتدائی لوازمات سے بھی روک دیا گیا۔- [١٥] اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد، مردوں کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ عورتیں عورتوں کا، یہ نہیں فرمایا مرد عورت کا مذاق نہ اڑائے یا عورت کسی مرد کا مذاق نہ اڑائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مخلوط سوسائٹی یا آزادانہ اختلاط مرد و زن کا تصور ہی مفقود ہے۔- [١٦] طنز اور طعنہ سے اجتناب :۔ لَمَزَ بمعنی کسی شخص کے کسی فعل یا حرکت میں عیب جوئی کرنا۔ جیسے پھبتیاں کسنا، کسی کی نقلیں اتارنا، اشارے کرنا، یا زیر لب کسی کو نشانہ ملامت بنانا یا طنزیہ بات اور چوٹیں کرنا سب کچھ اس لفظ کے معنی میں داخل ہے۔ اس قسم کی حرکتیں چونکہ معاشرتی تعلقات کو بگاڑ دیتی ہیں۔ لہذا ان کو حرام قرار دیا گیا ہے۔- [١٧] لقب کا مفہوم اور قسمیں :۔ لقب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو پسند ہوتے ہیں اور ان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خود اپنے لئے کوئی پسندیدہ سا لقب اختیار کرلیتا ہے اور دوسری صورت یہ کہ کوئی دوسرا ایسا لقب رکھ دیتا ہے۔ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کا لقب صدیق یا سیدنا عمر کا لقب فاروق تھا۔ دوسرے وہ جو مذموم ہوتے ہیں اور ایسے لقب عموماً حریف یا فریق مخالف یا دشمن رکھ دیتے ہیں اور یہ صرف اس کی تحقیر یا اس کو چڑانے کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے القاب سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بطور گالی یا تمسخر کسی کو فاسق یا یہودی کہا جائے یا اس کے ایسے جرم سے منسوب کیا جائے جسے وہ چھوڑ چکا ہو جیسے کسی کو ایمان لانے اور توبہ کرلینے کے بعد زانی، چور یا ڈاکو وغیرہ کہا جائے۔ ایسی سب باتیں فتنہ فساد اور لڑائی کا موجب بن جاتی ہیں۔ اسی لئے ان سے منع کردیا گیا ہے اور ایسے کام کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چناچہ سیدنا ابوذر غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص کسی مسلمان کو فاسق یا کافر کہے اور درحقیقت وہ کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا شخص فاسق یا کافر ہوجائے گا (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) - خ برے نام رکھنے یا بلانے کی ممانعت :۔ اور بعض دفعہ کسی شخص کا ایسا لقب رکھ دیا جاتا ہے جس میں نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے اور نہ وہ خود اسے برا سمجھتا ہے بلکہ وہ محض تعارف کے طور پر ہوتا ہے۔ جیسے دور نبوی میں ایک صحابی کا اس کے لمبے ہاتھوں کے وجہ سے نام ہی ذوالیدین پڑگیا تھا۔ ایسے ہی عبداللہ طویل یا نابینا حکیم وغیرہ کہنے میں کچھ حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب مایجوز من ذکر الناس۔۔ )- [١٨] یعنی مندرجہ بالا سب کام فسق کے کام ہیں۔ کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی ایسے کام کرتا رہے۔ اور اگر کوئی ایسی باتوں میں نامور اور مشہور بھی ہوجائے تو یہ تو بہت ہی بری بات ہے۔
(١) یایھا الذین امنوا…: گزشتہ آیات میں مسلمانوں کے آپ س میں لڑنے کی صورت میں ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا، اس سے پہلے بلاتحقیق خبر پر عمل سے منع فرمایا تھا، کیونکہ اس سے لڑائی پیدا ہوسکتی ہے اور لاعلمی میں نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں سے مزید ان چیزوں سے منع فرمایا جو اسلامی اخوت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور باہمی عداوت اور لڑائی کا باعث بنتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی تین چیزیں ذکر فرمائیں :(١) کسی کا مذاق اڑانا۔ (٢) کسی پر عیب لگانا۔ (٣) کسی کو برے لقب سے پکارنا۔- (٢) لایسخر قوم من قوم :” سخر یسخر سخر وسخراً و سخراً و سخرا و سخرۃ و مسخراً بہ و منہ “ ( َ ) استہزائ، مذاق اڑانا، ٹھٹھا کرنا، و ہنسی جس سے دوسرے کی تحقیر اور دل آزاری ہو۔ وہ ہنسی جس سے دوسرے کا دل خوش ہو وہ مزاح کہلاتی ہے، وہ جائز ہے بلکہ مسنون ہے۔ کشاف میں ہے :” قوم کا لفظ مردوں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ مرد عورتوں کے ” قوام “ ہوتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔- ولا اذری و سوف اخال ادری اقوم ال حصن ام نساء - ” اور میں نہیں جانتا اور میرا خیال ہے کہ میں جل ہی جان لوں گا کہ آل حصن قوم (یعنی مرد) ہیں یا عورتیں۔ “- یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے ، کیونکہ قوم کو ٹھٹھا کرنے سے منع کرنے کے بعد عورتوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن میں مذکور قوم فرعون اور قوم ثمود وغیرہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں تو اصل یہ ہے کہ وہاں مردوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، کیونکہ عورتیں ان کے تابع ہیں۔- (٣) پہلی چیز جس سے منع فرمایا وہ کس کا مذاق اڑانا یا تمسخ رہے، کیونکہ اس سے دلوں میں شدید بغض پیدا ہوتا ہے۔ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ اسے اپنی تذلیل سمجھ کر ہر وقت اتنقام کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور ظاہر ہے انتقام میں بات کاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ کوئی شخص کسی کا ٹھٹھا اسی وقت اڑاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور یہ سمجھنا تکبر ہے، جس پر شدید وعید ائٓی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ولا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر، قال رجل ان الرجل یحب ان یکون نوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ، قال ان اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق و غمط الناس) (مسلم، الایمان ، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١)” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ یہاں قوم کو قوم کم مذاق اڑانے سے منع فرمایا، کیونکہ عموماً کسی مجلس ہی میں کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے ، ورنہ اکیلے کا مذاق اڑانا بھی منع ہے۔- (٤) عسی ان یکونوا خیراً منھم : مذاق اڑانے سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کے ہاں تم سے بہتر ہو، کیونکہ اچھا یا برا ہونے کا دار وم دار ظاہری شکل و صورت پر نہیں، بلکہ دل کے تقویٰ پر ہے اور اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ پھر دار و مدار موجودہ حالت پر نہیں بلکہ خاتمے پر ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ تم سے اچھا ہو جسے تم حقیر سمجھ کر ذلیل کر رہے ہو۔- (٥) ولا نسآء من نسآء عسی ان یکن خیراً منھن : قرآن مجید میں عموماً احکام کے لئے مردوں ہی کو مخطاب کیا گیا ہے، عورتوں کا ذکر تابع ہونے کی وجہ سے لاگ نہیں کیا گیا۔ یہاں عورتوں کو الگ بھی خطاب فرمایا، اس سے ظاہر ہے کہ عورتوں کو اس گناہ سے روکنے کی خاص ضرورت ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس آیت میں مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے ٹھٹھا کرنے سے منع فرمایا تو کیا مرد عورتوں سے یا عورتیں مردوں سے ٹھٹھا کرسکتی ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کے ملے جلے معاشرے کی گنجئاش ہی نہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کا بےتکلف مذاق اڑا سکیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی مجلسیں الگ الگ ہوتی ہیں، اس لئے دونوں کو الگ الگ منع فرمایا۔- (٦) مذاق خواہ زبان کے ساتھ اڑایا جائے یا کسی کے نقصک ی طرف اشارہ کر کے یہ نقل اتار کر، ہر طرح کا مذاق حرام ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہاک :(حسبک من صفیۃ کذا وکذا ، قال غیر مسدد تعنی فصیرۃ فقال لقد قلت کلمۃ لو مرجث بماء البحر لمرجنہ قالت و حکیت لہ انساناً فقال ما احب انی حکمت انسانًا و ان لی کذا وکذا) (ابوداؤد، الادب ، باب فی الغیۃ :3858 وقال الابانی صحیح)” آپ کو صفیہ سے یہی کچھ کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔ “ مسدد کے علاوہ دوسرے راوی نے وضاحت کی کہ مرادان کے قد کا چھوٹا ہونا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یقینا تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو سارے پانی کو خراب کر دے۔” عائشہ (رض) نے بیان کیا :” اور میں نے آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری (تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل ات اورں، خواہ مجھے یہ یہ کچھ مل جائے۔ “- (٧) ولا ت لمزوا انفسکم :” لمز یلمز لمزا “ (ض ، ن) کسی پر عیب لگانا ، خفی کلام کے ساتھ آنکھ کا اشار کرنا، دھکا دینا، مارنا۔ مزید دیکھیے سورة ہمزہ کی آیت (١):(ویل لکل ھمزۃ لمزۃ) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کسی پر عیب نہ لگاؤ، یہ فرمایا کہ اپنے آپ پر عیب نہ لاگوء جیسا کہ فرمایا :(لاتقتلوا انفسکم) (النسائ : ٢٩)” اپنے آپ کو قتتل نہ کرو۔ “ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ” کالجسد الواحد “ (ایک جسم کی مانند) ہیں، عیب لگانے والے کو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ جب وہ کسی مسلم بھائی پر عیب لگا رہا ہے تو درحقیقت وہ اپنے آپ ہی پر عیب لگا رہا ہے، سو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ دوسروں پر عیب لگائے گا تو عیب سے خالی تو یہ بھی نہیں اور دوسرں کی آنکھیں بھی ہیں اور زبان بھی، پھر اس کے عیوب بھی ظاہر کئے جائیں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” اپنے آپ پر عیب مت لگائگو۔ “ اس آیت میں لوگوں کے سامنے کسی کے عیب ظاہر کرنے اور ان کا طعنہ دینے سے منع فرمایا، اگلی آیت میں کسی کی عدم موجودگی میں اس کے عیب ذکر کرنے یعنی غیبت سے بھی منع کیا۔ صرف ایک بات کی اجازت ہے اور وہ ہے نصیحت کہ اپنے بھائی کو الگ لے جا کر اسے اس کی غلطی بات کر درست کرنے کی نصیحت کرے، جس طرح آئینہ غلطی بتاتا ہے مگر شور نہیں ڈالتا۔ لوگوں کے سامنے کسی مسلم کے منہ پر یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عیب کا اظہار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈلانے کا حکم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المسلم اخوالمسلم، لایظلمہ ولایسلمہ، ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ، ومن فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ کر بۃ من کر بات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ (بخاری، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا بسلمہ :2332 عن ابن عمر (رض) )” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرنا ہے اور نہ اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کے کام میں ہو اللہ اس کے کام میں ہوتا ہے اور جو کسی مسلم سے کوئی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف اس سے دور فرمائے گا اور جو کسی مسلم پر پردہ ڈلاے، (رض) اس پر پردہ ڈالے گا۔ “- (٨) ولا تنا بروا بالالقاب :” النبر “ (نون اور باء کے فتحہ کے ساتھ) برے لقب کو کہتے ہیں، مثلاً لنگڑا، لولا، اندھا، کالا، ٹھگنا، کبڑا، گدھا، لومڑ یا کوئی بھی نام جس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، مثلاً کسی سے کوئی گناہ ہوا ہو، تائب ہونے کے بعد عار دلانے کے لئے اسے چور یا زانی یا شربای کہہ کر پکارنا۔ لقب ایسے نام کو کہتے ہیں جس سے کسی خوبی یا خامی کا اظہار ہوتا ہو، خواہ آدمی نے خود اپنے لئے رکھا لیا ہو یا کسی دوسرے نے رکھ دیا ہو۔ یہاں ” لاتنابروا “ کے قرینے سے لقب سے مراد برا نام ہے، کیونکہ اچھے القاب سے پکارنا تو قابل تعریف ہے، جیسے ابوبکر صدیق، عمر فاورق، حمزہ اسد اللہ، خالد سیف اللہ ، ابوعبیدہ امین الامت، حذیفہ صاحب سر رسول اللہ ، عبداللہ بن مسعود صاحب المطہرۃ والو سادۃ والنعلین (رضی اللہ عنہ ) ۔ اس کے علاوہ عرب کا طریقہ اکرام کرتے ہوئے کنیت کے ساتھ پکارنے کا تھا، جس یا سلام نے برقرار رکھا۔ مومن کا حق یہ ہے کہ اسے اس نام سے پکارا جائے جو اسے اپنے لئے سب سے زیادہ پسند ہو، کیونکہ یہ محبت پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کا باعث ہے۔” ولا تنا بروا بالالقاب “ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کا برا نام نہ رکھے جس سے وہ ناراض ہو، یا اس کی توین و تذلیل ہوتی ہو اور نہ ایسے نام کیساتھ اسے آواز دے کر پکارے۔ جاہلیت میں یہ بات عام تھی کہ ایک شخص نے دوسرے کا برا لقب رکھا تو اس نے اس کا رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔- ابو جبیرہ بن ضحاک (رض) بیان کرتے ہیں :” آیت :(ولاتنا بزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان) ہم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تو ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو، تین تین نام تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو کوئی نام لے کر بلاتے تو لوگ کہتے :” یا رسول اللہ اسے اس نام سے نہ بلائیں، کیونکہ وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ “ تو اس پر آیت (ولا تنا بزوا بالالقاب) اتری۔ “ (ابوداؤد، الادب، باب فی الاقاب :3962)- (٩) اس حکم سے وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو کسی کی پہچان بن چکے ہوں، نہ اس نام والا اسے برا سمجھتا ہو اور نہ اس سے مقصود تحقیر یا تذلیل ہو، بلکہ مقصود صرف تعارف ہو، جیسے سلیمان الاعمش (چندھیائی ہوئی آنکھوں والا): واصل الاحدب (کبڑا) ، حمید الطویل (لمبا) ، ابوہریرہ اور ذوالیدین وغیرہ۔- (١٠) بئس الاسم الفسوق بعد الایمان : اس سے معلوم ہوا کہ اوپر جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ سب فسوق ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان کاموں کا ارتکاب کرے وہ مومن ہونے کے باوجود فاسق ہے اور یہ بہت بری بات ہے کہ آدمی کا نام فاسق رکھا جائے، اسکے بعد کہ اس کا نام ممنون ہے۔” بعد الایمان “ (ایمان کے بعد) اس لئے فرمایا کہ اگر تم ایمان کا شرف حاصل نہ کرچکے ہوتے تو فاسق یا بدمعشا کہلانے میں عار کی کئیو خاص بات نہ تھی، لیکن اب ایمان لے آنے کے بعد یہ نام تم پر آنا بہت بری بات ہے۔ تمہیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اب تم وہ ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم و کرہ الیکم الکفروا الفسوق والعصیان) (الحجرات : ٨) ” اور لیکن اللہ نے تمہاریلئے ایمان کو م حبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنادیا۔ “ تو تمہیں ہر ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے تم پر فسق کا نام آئے - (١١) ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون :” الف لام “ کمال کا ہے، یعنی اگرچہ جو بھی گناہ کرے ظالم ہے مگر توبہ سے اس ظلم کی تلافی ہوجاتی ہے۔ اصل ظالم وہی ہیں جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور توبہ کئے بغیر فوت ہوجاتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو نہ تو مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہئے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں (پھر وہ تحقیر کیسے کرتے ہیں) اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہئے کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستی ہیں) وہ ان (ہنسنے والیوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں (پھر وہ تحقیر کیسے کرتی ہیں) اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو (کیونکہ یہ سب باتیں گناہ کی ہیں اور) ایمان لانے کے بعد (مسلمان پر) گناہ کا نام لگتا (ہی) برا ہے (یعنی یہ گناہ کر کے تمہاری شان میں یہ کہا جا سکنا کہ فلاں مسلمان جس سے تم مراد ہو گناہ یعنی خدا کی نافرمانی کرتا ہے نفرت کی بات ہے تو اس سے بچو) اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے (اور حقوق العباد کو تلف کرنے والے) ہیں (جو سزا ظالموں کو ملے گی وہی ان کو ملے گی) ۔- سورة حجرات کے شروع میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق اور آداب کا بیان آیا پھر عام مسلمانوں کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا بیان شروع ہوا، سابقہ دو آیتوں میں ان کی اجتماعی و جماعتی اصلاح کے احکام بیان ہوئے، مذکور الصدر آیتوں میں اشخاص و افراد کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا ذکر ہے، ان میں تین چیزوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اول کسی مسلمان کے ساتھ تمسخر و استہزاء کرنا، دوسرے کسی پر طعنہ زنی کرنا، تیسرے کسی کو ایسے لقب سے ذکر کرنا جس سے اس کی توہین ہوتی ہو یا وہ اس سے برا مانتا ہو۔ - پہلی چیز سخریہ یا تمسخر ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سخریہ، تمسخر، استہزا کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔- سخریہ کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و تو سعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ قرآن میں مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ استہزاء کرنے اور اس کی حرمت کا ذکر فرمایا حالانکہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ یا کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ استہزاء کرے تو وہ بھی اس حرمت میں داخل ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہی شرعاً ممنوع اور مذموم ہے جب اختلاط نہیں تو تمسخر کا تحقق ہی نہیں ہوگا۔ حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آوے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرات نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں (قرطبی)- صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی صورتوں اور ان کے مال و دولت پر نظر نہیں فرماتا بلکہ ان کے قلوب اور اعمال کو دیکھتا ہے قرطبی نے فرمایا کہ اس حدیث سے ایک ضابطہ اور اصل یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے معاملہ میں اس کے ظاہری حال کو دیکھ کر کوئی قطعی حکم لگا دینا درست نہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس شخص کے ظاہری اعمال و افعال کو ہم بہت اچھا سمجھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ جو اس کے باطنی حالات اور قلبی کیفیات کو جانتا ہے وہ اس کے نزدیک مذموم ہو اور جس شخص کے ظاہری حال اور اعمال برے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس کے باطنی حالات اور قلبی کیفیات اس کے اعمال بد کا کفارہ بن جائیں اس لئے جس شخص کو بری حالت یا برے اعمال میں مبتلا دیکھو تو اس کی اس حالت کو تو برا سمجھو مگر اس شخص کو حقیر و ذلیل سمجھنے کی اجازت نہیں، دوسری چیز جس کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے وہ لمز ہے۔ لمز کے معنی کسی میں عیب نکالنے اور عیب ظاہر کرنے یا عیب پر طعنہ زنی کرنے کے ہیں آیت میں ارشاد فرمایا وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ، یعنی تم اپنے عیب نہ نکالو۔ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ہے لا تقتلوا انفسکم، جس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، دونوں جگہ اپنے آپ کو قتل کرنے یا اپنے عیب نکالنے سے مراد یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور اس عنوان سے تعبیر کرنے میں حکمت یہ بتلانا ہے کہ کسی دوسرے کو قتل کرنا ایک حیثیت سے اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے کیونکہ اکثر تو ایسا واقع ہو ہی جاتا ہے کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا دوسرے کے حمایتی لوگوں نے اس کو قتل کردیا اور اگر یہ بھی نہ ہو تو اصل بات یہ ہے کہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں اپنے بھائی کو قتل کرنا گویا خود اپنے آپ کو قتل کرنا اور بےدست و پا بنانا ہے یہی معنی یہاں وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ میں ہیں کہ تم جو دوسروں کے عیب نکالو اور طعنہ دو تو یاد رکھو کہ عیب سے تو کوئی انسان عادةً خالی نہیں ہوتا، تم اس کے عیب نکالو گے تو وہ تمہارے عیب نکالے گا جیسا کہ بعض علماء نے فرمایا کہ وفیک عیوب و للناس اعین، یعنی تم میں بھی کچھ عیوب ہیں اور لوگوں کی آنکھیں ہیں جو ان کو دیکھتی ہیں تم کسی کے عیب نکالو گے اور طعنہ زنی کرو گے تو وہ تم پر یہی عمل کریں گے اور بالفرض اگر اس نے صبر بھی کیا تو بات وہی ہے کہ اپنے ایک بھائی کی بدنامی اور تذلیل پر غور کریں تو اپنی ہی تذلیل و تحقیر ہے۔- علماء نے فرمایا ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہے کہ اپنے عیوب پر نظر رکھے ان کی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور جو ایسا کرے گا اس کو دوسروں کے عیب نکالنے اور بیان کرنے کی فرصت ہی نہ ملے گی۔ ہندوستان کے آخری مسلمان بادشاہ ظفر نے خوب فرمایا ہے۔- نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر - پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو جہان میں کوئی برا نہ رہا - تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو، جیسے کسی کو لنگڑا لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا اسی طرح جو نام کسی شخص کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو اس نام سے اس کو پکارنا، حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کردیئے تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعض اوقات وہی برا نام لے کر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنابزو بالا لقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری، زنا، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا (قرطبی)- بعض القاب کا استثناء - بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہوجاتے ہیں جو فی نفسہ برے ہیں مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانا ہی نہیں جاتا تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت پر علماء کا اتفاق ہے بشرطیہ ذکر کرنے والے کا قصد اس سے تحقیر و تذلیل کا نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ اعرج یا احدب مشہور ہے اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی کو جس کے ہاتھ نسبتاً زیادہ طویل تھے ذوالیدین کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آتے ہیں مثلاً حمید الطویل، سلیمان الاعمش، مروان الاصفر وغیرہ، تو کیا ان القاب کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے، آپ نے فرمایا جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے (قرطبی)- سنت یہ ہے کہ لوگوں کو اچھے القاب سے یاد کیا جائے :- حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کا حق دوسرے مومن پر یہ ہے کہ اس کا ایسے نام و لقب سے ذکر کرے جو اس کو زیادہ پسند ہو اس لئے عرب میں کنیت کا رواج عام تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو پسند فرمایا۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص خاص صحابہ کو کچھ لقب دیئے ہیں۔ صدیق اکبر کو عتیق اور حضرت عمر کو فاروق اور حضرت حمزہ کو اسد اللہ اور خالد بن ولید کو سیف اللہ فرمایا ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْہُنَّ ٠ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ٠ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ٠ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ١١- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- لمز - اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ- [ الحجرات 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] .- ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - نبز - النَّبْزُ : التَّلْقِيب . قال اللہ تعالی: وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] .- ( ن ب ز ) النبز کے معنی کسی کو برے نام کے ساتھ پکار نے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ۔- لقب - اللَّقَبُ : اسم يسمّى به الإنسان سوی اسمه الأول، ويراعی فيه المعنی بخلاف الأعلام، ولمراعاة المعنی فيه قال الشاعر : وقلما أبصرت عيناک ذا لقب ... إلّا ومعناه إن فتشت في لقبه واللَّقَبُ ضربان : ضرب علی سبیل التشریف كَأَلْقَابِ السّلاطین، وضرب علی سبیل النّبز، وإيّاه قصد بقوله : وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] .- ( ل ق ب ) اللقب ۔ اس نام کو کہتے ہیں جو اصلی نام کے علاوہ ہو ۔۔۔ لقب دینے میں معنی کی رعایت کی جاتی ہے بخلاف اعلام کے کہ ان میں معنوی رعایت نہیں ہوتی اس بنا پر شاعر نے کہا ہے وقلما ابصرت علینا ذالقب الاوسعناہ ان فتثت فی لقبہ تم نے کسی صاحب لقب کو نہیں دیکھا ہوگا ۔ مگر ذرا تلاش کرنے پر اس کے اوصاف اس کے لقب میں مل سکتے ہیں ۔ لقب دو قسم پر ہے ۔ ایک لقب تشریفی جیسا کہ سلاطین کے القاب ہوتے ہیں اور دو سرالقب تحقیر چانچہ آیت کریمہ : وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ۔ میں اس دوسری قسم کا القاب سے منع کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ان سے اہانت کا پہلو نکلتا ہے ۔- بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
تمسخرنہ اڑایا جائے - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا یسخرقوم من قوم، اے ایمان لانے والو مردوں کو مردوں پر ہنسنا نہیں چاہیے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تحقیر کی بنا پر کسی کا مذاق اڑانے اور اس پر ہنسنے سے منع فرمایا ہے جب کہ وہ شخص اس تمسخر کا سزا وارنہ ہو۔ مسخریہ اور تمسخر کے یہی معنی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بتادیا کہ مذاقاڑانے والا ہوسکتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے ارفع ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کا وہ مذاق اڑارہا ہے اللہ کے نزدیک اس کا درجہ اس سے بلند ہو۔- طعنہ زنی منع ہے - قول باری ہے (ولا تلمزوا انفسکم اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو ) حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلا تقتلوا انفسکم ، اور تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو) کیونکہ تمام مسلمان یک جان ہوتے ہیں اس لئے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی جان لیتا ہے وہ گویا اپنی جان لیتا ہے۔- یا جس طرح یہ قول باری ہے (فسلموا علی انفسکم، تو تم ایک دوسرے کو سلام کرلیاکرو) یعنی ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔ لمز عیب کو کہتے ہیں۔ جس کوئی شخص کسی کو طعنہ دے نکتہ چینی کرے اور اس پر عیب لگائے تو اس موقعہ پر کہا جاتا ہے ” لمزہ “ قول باری ہے (ومنھم من یلمزک فی الصدقات، اور ان میں بعض تو ایسے ہیں جو صدقات کی تقسیم کے سلسلے) میں آپ پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ زیادالاعجم کا شعر ہے، ؎- اذا لقیتک تبدی لی مکا شرۃ - وان تغیبت کنت لمزہ المزع - جب تمہارے سامنے آتا ہوں تو تم بتیسی نکالتے ہو اور جب تمہاری نظروں سے غائب ہوجاتا ہوں تو تم پس پشت میری عیب جوئی کرتے اور مجھے طعنے دیتے ہو۔- ماکنت اخشی وان کان الزمان بہ - حیف علی الناس ان یعتا بنی غنزل - مجھے تو اس بات کا خطرہ نہیں تھا کہ کوئی بکری میری غیبت کرے گی اگر چہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ کی طرف سے لوگوں پر ظلم ڈھائے جاتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر تمہیں میری غیبت کی جرات ہوئی۔- فاسق وفاجر کی نکتہ چینی جائز ہے - اس آیت میں ان لوگوں پر نکتہ چینی کرنے اور عیب نکالنے سے منع کیا گیا ہے جو اس کے سزاوار نہ ہوں لیکن اگر کسی شخص کا دامن فسق وفجور سے داغدار ہو تو اس پر اس سلسلے میں نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا جائز ہے۔ روایت ہے کہ جب حجاج کا انتقال ہوگیا تو حسن بصری نے یہ دعا کی۔ “ میرے اللہ تونے اسے اس دنیا سے اٹھا لیا ہے اب اس کے ظالمانہ طریق کار کو بھی مٹادے۔- جب یہ ہم پر حاکم بن کر آیا تھا تو اس کی ہیئت کذائی یہ تھی کہ آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں ، بینائی کمزور تھی گویا کہ چندھا تھا۔ جب ہاتھ آگے بڑھاتا توانگلیوں کے پورے بہت چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے۔ اللہ کے راستے میں ان پوروں کے اندر گھوڑے کی باگ کو کبھی پسینے سے تر ہونے کی نوبت نہ آئی۔ اپنی زلفوں کی کنگھی کرتا رہتا اور چلتے وقت اس کے قدم لڑکھڑاتے رہتے۔- منبر پر جا بیٹھتا اور یا وہ گوئی شروع کردیتا حتیٰ کہ نماز کا وقت فوت ہوجاتا۔ نہ اسے خدا کا خوف تھا اور نہ ہی مخلوق کی شرم۔ اس کے اوپر اللہ تھا اور اس کے نیچے یعنی کمان میں ایک لاکھ یا اس سے زائد نفری تھی۔ کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ ” بندہ خدا نماز کا وقت جارہا ہے۔ “ حسن بصری نے مزید کہا، ” یہ بات کہناکس قدر مشکل ہوگیا اور بعید ہوگیا تھا، بخدا، اس بات کے کہنے میں تلوار اور کوڑہ حائل ہوگیا تھا۔ “- برے ناموں سے نہ پکارو - قول باری ہے : (ولا تنابزوا بالانقاب، اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو) حماد بن سلمہ نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوذر غفاری (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے۔ ایک شخص کے ساتھ ان کا تنازعہ چل رہا تھا۔ حضرت دائو د (رض) نے غصے میں آکر اسے ” اے یہودن کے لڑکے “ کے الفاظ سے پکارا۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہاں جتنے بھی سرخ وسفید چل پھر رہے ہیں ان پر تمہیں صرف تقویٰ کی بنا پر فضیلت حاصل ہے۔ “ حسن کہتے ہیں کہ اللہ نے اس موقعہ پر درج بالا آیت نازل فرمائی۔- قتادہ نے آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو ” یا فاسق، یا منافق “ کہہ کر نہ پکارو۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” کوئی یہودی یا نصرانی مسلمان ہوجاتا تو اسے ” یا یہودی، یا نصرانی “ کہہ کر پکارا جاتا ، اس سے لوگو کو منع کردیا گیا۔ “- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، اسے موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں وہب نے دائود سے، انہوں نے عامر سے، انہیں ابوجبیرہ بن الضحاک نے بیان کیا کہ آیت (ولاتنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو، ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے) ہمارے بارے میں یعنی بنو سلمہ کے متعلق نازل ہوئی تھی، ہمارے پاسحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے اس وقت ہم میں سے ہر آدمی کے دو دو یا تین تین نام تھے، آپ جب کسی کو یا فلاں “ کہہ کر بلاتے تو لوگ عرض کرتے ” اللہ کے رسول اسے اس نام سے نہ پکارئیے، کیونکہ یہ نام سن کرا سے غصہ آجاتا ہے۔ “ اس پر یہ آیت (ولا تنابزوا بالالقاب) نازل ہوئی۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ناپسندیدہ لقب وہ ہوتا ہے جسے اس لقب والا ناپسند کرتا ہو اور اس سے اس کی مذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ کیونکہ یہ لقب اس کے حق میں ایک گالی کی حیثیت رکھتا ہے۔ رہ گئے ایسے نام اور القاب واو صاف جن میں مذمت کا پہلو موجود نہ ہو وہ ناپسندیدہ نہیں ہوتے، اور آیت میں نہی کا حکم انہیں شامل نہیں ہے کیونکہ اس کی حیثیت اشخاص کے اسماء نیز افعال سے مشتق ہونے والے ناموں جیسی ہوتی ہے۔- محمد بن اسحاق نے محمد بن یزیدبن خثیم سے روایت کی ہے، انہوں نے محمد بن کعب سے، انہیں محمد بن خثیم المحاربی نے حضرت عمار (رض) بن یاسر سے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت علی (رض) غزوہ عشیرہ کے اندر وادی ینبخ میں ایک ساتھ تھے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں پڑائو ڈالا تو ایک ماہ تک وہیں قیام فرمایا۔ اسی دوران آپ نے بنو مدلج اور بنو ضمرہ میں ان کے حلیفوں سے صلح کی اور ان سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔ حضرت علی (رض) نے مجھ سے فرمایا۔ بنو مدلج کے آدمیوں کے پاس چل کر انہیں اپنے جنگلی گدھوں پر کام کرتے ہوئے نہ دیکھیں ؟ “ میں اس پر راضی ہوگیا۔- چنانچہ ہم ان کے پاس گئے اور ایک گھڑی تک انہیں کام کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پھر ہمیں نیند آنے لگی۔ ہم کھجور کے ایک چھوٹے سے درخت کے پاس چلے گئے اور اس کے سائے میں بنجر زمین پر سوگئے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں کی چاپ سے ہماری آنکھ کھلی، ہم اٹھ بیٹھے، ہمارے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس روزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ” یا اباتراب “ (اے مٹی والے) کہہ کر پکارا کیونکہ ان کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی۔- ہم نے آپ کو ساری بات بتادی جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین انسانوں کے بارے میں نہ بتائوں ؟ “ ہم نے عرض کیا،” وہ کون ہیں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک تو قوم ثمود کا وہ شخص ہے جس کی رنگت سرخ تھی اور جس نے معجزہ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں اور دوسرا وہ شخص ہے جو تمہیں ” اے علی اس جگہ پر تلوار کی ضرب لگائے گا “۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنا ہاتھ حضرت علی (رض) کے سر پر رکھا۔ پھر فرمایا : ” اور یہ جگہ خون سے سرخ ہوجائے گی۔ “ یہ کہہ کر آپ نے اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی پر رکھا۔- سہل بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کو اپنے ناموں میں سے کوئی نام ابوتراب سے بڑھ کر پسند نہیں تھا، اس نام سے پکارے جانے کو آپ سب سے زیادہ پسند کرتے تھے، ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس جیسا نام ناپسندیدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں مذمت کا کوئی پہلو موجود ہے اور نہ ہی متعلقہ شخص اسے ناپسندیدہ خیال کرتا ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں ابراہیم مہدی نے، انہیں شریک نے عاصم سے اور انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یا ذا الاذمنین اے دوکانوں والے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے اشخاص کے نام تبدیل کردیے تھے چناچہ آپ نے عاص کا نام عبداللہ رکھ دیا، شہاب کا نام ہشام اور حرب کا نام مسلم رکھ دیا۔- یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آیت میں جس القاب سے روکا گیا ہے ان کی صورتیں وہ ہیں جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے۔ اس کے سوا دوسرے القاب پر اس نہی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک روایت کے مطابق ایک شخص نے ایک انصاری عورت سے نکاح کرنا چاہا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مشورہ دیا کہ اسے پہلے دیکھ لو کیونکہ انصاری کی عورتوں میں ایک بات موجود ہے یعنی ان کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے انصار کی عورتوں کے متعلق جو بات فرمائی تھی وہ غیبت میں شمار نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے یہ فرما کر ان کی مذمت اور نہ ہی ان کی بدگوئی کا ارادہ کیا تھا۔
اے ایمان والو نہ تو مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے ایک انصاری شخص کی ماں کا تذکرہ کر کے ان کو عار دلائی تھی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ان کو عار دلایا کرتے تھے، اس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اسی طرح اگلی آیت کا حصہ ازواج مطہرات میں سے دو بیویوں کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کا مذاق اڑایا تھا اس چیز سے بھی اللہ تعالیٰ نے روک دیا اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ ان سے ہنسنے والوں سے اللہ کے نزدیک بہتر اور افضل ہوں، اور نہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عیب جوئی کرو اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب اور گالی گلوچ کے ساتھ پکارو۔- کیونکہ ایمان لانے کے بعد مسلمان پر گناہ کا نام لگتا ہی برا ہے جب ایک شخص اسلام لے آیا اور کفر کو چھوڑ دیا پھر اسے یہودی نصرانی مجوسی کہہ کر پکارنا ہی برا اور گناہ کی بات ہے۔- شان نزول : وَلَا تَنَابَزُوْا بالْاَلْقَابِ (الخ)- سنن اربعہ نے ابی جبیر بن ضحاک سے روایت نقل کی ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کے دو نام تھے اور تیسرا بھی تھا، جب ایک نام لے کر اسے پکارا جاتا تو اسے ناگوار گزرتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔- اور امام حاکم نے انہیں سے روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت میں لوگوں کے لقب تھے، چناچہ رسول اکرم نے ایک شخص کو اس کے لقب کے ساتھ پکارا آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ یہ لقب اسے برا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ اور امام احمد نے انہی سے ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے کہ ہمارے یعنی بنی سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ جس کے دو یا تین نام نہ ہوں۔ چناچہ جب آپ ان میں سے کسی کو اس کے ان ناموں میں سے کسی نام کے ساتھ پکارتے تھے تو وہ لوگ کہتے یا رسول اللہ وہ اس نام سے غصہ ہوتا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١١ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ ” اے اہل ایمان تم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ‘ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں “- ممکن ہے مدمقابل شخص کی کوئی خوبی اس کے ظاہری عیب کے مقابلے میں بہت بڑی ہو۔ مثلاً آپ جس شخص کی بھدی ناک یا چھوٹے کان کا مذاق اڑا رہے ہوں ممکن ہے اس کے دل کا تقویٰ تمہارے تقویٰ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہو۔ یا ممکن ہے وہ تمہارے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہزار گنا زیادہ محبت کرتا ہو۔ - وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ” (اسی طرح) عورتیں بھی دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں ‘ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ “- گویا پہلے حکم میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے اپنے حلقوں میں ایک دوسرے کا مذاق اور تمسخر اڑانے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اس سلسلے کا دوسرا حکم ملاحظہ ہو :- وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ” اور اپنے آپ کو عیب مت لگائو “- اپنے بھائی بندوں پر عیب لگانے سے منع کرنے کا یہ بہت ہی بلیغ انداز ہے کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگائو۔ یعنی کسی کو عیب لگانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لو کہ وہ تمہاری اپنی ہی ملت کا ایک فرد ہے اور اپنی ملت کے کسی فرد کو عیب لگانا گویا خود اپنے آپ ہی کو عیب لگانے کے مترادف ہے۔- وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ” اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے چڑانے والے نام رکھا کرو۔ “- یہ تیسرا حکم ہے کہ کسی فرد یا کسی گروہ کے اصل نام کو چھوڑ کر اس کے لیے کوئی ایسا نام نہ رکھ لوجو اسے پسند نہ ہو۔ یہ ایک مذموم اور ناپسندیدہ حرکت ہے۔- بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ” ایمان کے بعد تو برائی کا نام بھی برا ہے۔ “- تم تو وہ لوگ ہو جن کے دل ایمان کے نور سے منور ہوچکے ہیں۔ یہ بہت بڑی فضیلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو نوازا ہے۔ ایسے اعلیٰ مقام و مرتبے پر فائز ہوجانے کے بعد ایسی گھٹیا حرکات کا ارتکاب اب تمہارے شایانِ شان نہیں۔- وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ” اور جو باز نہیں آئیں گے وہی تو ظالم ہیں۔ “- پچھلے فقرے میں معیوب روش کو ترک کرنے کے لیے ترغیب و تشویق کی جھلک تھی جبکہ ان الفاظ میں اس روش سے تائب ہو کر باز نہ آنے والوں کے لیے زجرو توبیخ کا انداز پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص بادی النظر میں مذکورہ برائیوں کو معمولی سمجھے ‘ لیکن کسی معاشرے یا تنظیم میں ایسی برائیوں کا عادتاً رائج ہوجانا انتہائی نقصان دہ ہے۔ - گزشتہ آیت میں جن تین برائیوں کا ذکر ہوا ہے ان کا ارتکاب عام طور پر دوسرے فریق کے رو برو کیا جاتا ہے ‘ جبکہ اگلی آیت میں تین ایسے رذائل سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو عموماً کسی فرد کی پیٹھ پیچھے سرزد ہوتے ہیں۔
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :19 پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ، ایک دوسرے کی دل آزاری ، ایک دوسرے سے بد گمانی ، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس ، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت ( ) مرتب کیا جا سکتا ہے ۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے ۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہو یا نہ ہو ، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی حیثیت عرفی ہو یا نہ ہو ۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے ، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی شرعی جواز ثابت کر دیا جائے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :20 مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے ، بلکہ کسی کی نقل اتارنا ، اس کی طرف اشارے کرنا ، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا ، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں ، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں ۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے ، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں ، اور مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے ۔ مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لیے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے ۔ دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے ، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں ۔ اس لیے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :21 اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں ، مثلاً چوٹیں کرنا ، پھبتیاں کسنا ، الزام دھرنا ، اعتراض جڑنا ، عیب چینی کرنا ، اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا ۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے ۔ کلام الہیٰ کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا یَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ( ایک دوسرے پر طعن نہ کرو ) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ ( اپنے اوپر طعن نہ کرو ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لیے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لیے تیار نہ ہو گیا ہو ۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے ۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لیے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے ۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :22 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو ۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا ۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا ۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا ۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا ۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو ۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش ( چندے سلیمان ) اور واصل الاخدَب ( کبڑے واصل ) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے ۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ وہ بجائے خود برا ہو ۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ، انہیں پسند کرتے ہیں ، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :23 یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے ۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے ، یا پھبتیاں خوب کستا ہے ، یا برے برے نام خوب تجویز کرتا ہے ، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے ۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے ۔
5: معاشرے میں جن باتوں سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، ان آیتوں میں ان باتوں کو نہایت جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ کسی دوسرے کا کوئی ایسا برا نام رکھ دیا جائے جو اسے ناگوار ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ایسا کرنا گناہ ہے، اور اس سے خود تم گنہگار ہو گے، اور خود تم پر گنہگار ہونے کا نام لگے گا، اور کسی مسلمان پر یہ نام لگنا کہ وہ گنہگار ہے، ایمان لانے کے بعد بہت بری بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی دوسرے پر برا نام لگا رہے تھے، اور اس عمل سے خود تم پر برا نام لگ گیا۔