دہشت گرد اور ہراس پھیلانے والے ناپسندیدہ لوگ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بد گمانی کرنے ، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے ، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیے ۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا تو کتنا پاک گھر ہے ؟ تو کیسی بڑی حرمت والا ہے؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے ۔ یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بد گمانی سے بچو گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے بھید نہ ٹٹو لو ۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو ۔ مسلم وغیرہ میں ہے ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو ، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو ، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گذارو ۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے طبرانی میں ہے کہ تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا ، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا ۔ ایک شخص نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کا تدارک کیا ہے ؟ فرمایا جب حسد کرے تو استغفار کر لے ۔ جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجین کے پاس گئے حضرت عقبہ گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں ، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت معاویہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہو گا تو تو انہیں بگاڑ دے گا یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے ۔ حضرت ابو درداء فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہ کو بہت فائدہ پہنچایا ۔ ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو اسی سے جاسوس ماخذ ہے تجسس کا اطلاق عموما برائی پر ہوتا ہے اور تحسس کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر ۔ جیسے حضرت یعقوب اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں ( يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87 ) 12- یوسف:87 ) ، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے نہ تجسس کرو نہ تحسس کرو نہ حسد و بغض کرو نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ امام اوزاعی فرماتے ہیں تجسس کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تحسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں ۔ اور تدابر کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو ۔ پھر غیبت سے منہ فرماتا ہے ابو داؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیبت کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی ؟ فرمایا ہاں غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے ۔ ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے اور ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع ہی ملتا ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بی بی صاحبہ حضرت عائشہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کی غیبت کی الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا یہ بہت برا آدمی ہے اور جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا معاویہ مفلس شخص ہے اور ابو الجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیے ۔ جیسے حدیث میں ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لئے لائق نہیں ۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے ۔ ابو داؤد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے ۔ اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو جن کی زبانیں تو ایمان لاچکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ، مسند ابو یعلی میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا جس میں آپ نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی ، حضرت ابن عمر نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے ۔ ابو داؤد میں ہے جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے ( ابو داؤد ) اور روایت میں ہے کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے انکے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن ، غیبت گو ، چغل خور تھے ، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورہ سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہے فالحمد اللہ ۔ مسند ابو داؤد طیالسی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے شام کو لوگ آنے لگے اور آپ سے دریافت کرنے لگے آپ انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ اجازت دیجئے کہ روزہ کھول لیں آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ نے فرمایا وہ روزے سے نہیں ہیں کیا وہ بھی روزے دار ہو سکتا ہے ؟ جو انسانی گوشت کھائے جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں چنانچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے فرمایا اگر یہ اسی حالت میں مر جاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے کہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو مر گئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مر جائیں گی آپ نے فرمایا جاؤ انہیں بلا لاؤ جب وہ آئیں تو آپ نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا اس میں قے کر اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا ، اس وقت آپ نے فرمایا انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں ( یعنی غیبت کر رہی تھیں ) ( مسند احمد ) مسند حافظ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ماعز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے آپ نے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے پھر پانچویں دفعہ آپ نے کہا تو نے زنا کیا ہے ؟ جواب دیا ہاں فرمایا جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا ہاں جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا ۔ آپ نے فرمایا اب تیرا مقصد کیا ہے ؟ کہا یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں آپ نے فرمایا کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں ؟ کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہ رجم کر دئے گئے ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا ۔ آپ یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ نے دیکھا کہ راسے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں انہوں نے کہا یارسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے ؟ آپ نے فرمایا ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ نے فرمایا جانتے ہو ؟ یہ بو کس چیز کی ہے؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ حضرت سلمان سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ حضرت سلمان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھا لے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کر لے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت سلمان پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لئے سالن لے آؤ ۔ یہ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئے آپ نے فرمایا وہ سالن کا کیا کریں گے ؟ انہوں نے تو سالن پا لیا ۔ حضرت سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو سالن نہیں نہ آپ نے بھیجا آپ نے فرمایا تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھا لیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( میتاً ) اس لئے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے ۔ مختار ابو ضیا میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ یہ تو بڑا سونے والا ہے ان دونوں بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ ہمارے لئے استغفار کریں ابو یعلی میں ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا ( یعنی اس کی غیبت کی ) قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا ۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا ۔ یہ روایت بہت غریب ہے پھر فرماتا ہے اللہ کا لحاظ کرو اس کے احکام بجا لاؤ اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو ۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے ۔ جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے ۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لئے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا ۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولا بدلہ ہو جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا ( ابو داؤد )
12۔ 1 ظن کے معنی ہیں گمان کرنا مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقوی کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لیے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو اکذب الحدیث سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ایاکم والظن البخاری کتاب الادب باب یا ایھا الذین امنو اجتنبو امنو اجتنبوا کثیرا من الظن صحیح مسلم ورنہ فسق و فجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔ ان الظن القبیح بمن ظاہرہ الخیر لا یجوز وانہ لا حرج فی الظن القبیح بمن ظاہرہ القبیح۔ القرطبی۔ 12۔ 2 یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہوجائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی کوتاہی تمہارے علم میں آجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو بلکہ جستجو کر کے عیب تلاش کرو آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزدی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک جب تک وہ کھلے عام بےحیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہ ہو مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن و سکون برباد ہوگیا ہے۔ 12۔ 3 غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور گناہوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔ 12۔ 4 یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔
[١٩] سوئے ظن سے پرہیز :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ گمان کرنے سے بچو بلکہ یوں فرمایا کہ زیادہ گمان کرنے سے بچو۔ کیونکہ گمان تو ہر انسان کو کسی نہ کسی وقت کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور اگر ظن و گمان کو عادت بنا لیا جائے تو یہ بہت بری بات ہے کیونکہ اکثر ظن بدظنی پر مشتمل ہوتے ہیں اور کسی سے سوئے ظن رکھنا بذات خود گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظنی رکھی جائے تاآنکہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جو حسن ظن کو بدظنی میں تبدیل کر دے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق کوئی برا خیال پیدا ہوجائے تو جب تک زبان سے اس کا اظہار نہ کرے وہ قابل مواخذہ نہیں ہے۔ اس آیت میں دراصل اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جس شخص سے ان کا کوئی اختلاف یا جھگڑا ہو اس کی اچھی باتوں میں سے بھی کوئی برا پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی معاملہ میں چار پہلو حسن ظنی کے ہوں اور ایک پہلو بدظنی پر محمول کیا جاسکتا ہو تو ان کی نظر ہمیشہ بدظنی کے پہلو کی طرف اٹھے گی۔ ایسے لوگ عموماً عام لوگوں کے متعلق حسن ظن کے بجائے کوئی بری بات ہی سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔- [٢٠] کسی کی ٹوہ لگانے سے پرہیز :۔ تجسس کا تعلق عموماً ایسے افعال سے ہوتا ہے جو یا تو کبھی سرزد ہی نہ ہوئے ہوں اور یا ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ مثلاً کسی کی ٹوہ لگائے رکھنا یا کسی کے گھر میں جھانکنا، چوری چھپے کسی کی باتیں سننا، کسی کے خطوط دیکھنا یا درمیان میں ٹیلی فون کی گفتگو سننا وغیرہ۔ سب اسی ذیل میں آتے ہیں۔ جبکہ ایسے کاموں کا مقصد کوئی ایسی بات معلوم کرنا ہو جس سے اسے بدنام اور بےعزت کیا جاسکے۔ ایسی جاسوسی سے ممانعت کا حکم صرف اشخاص کے لئے ہی نہیں اسلامی حکومت کے لئے بھی ہے۔ اسلامی حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لائے اور پھر انہیں سزا دے۔ بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جو برائیاں ظاہر ہوجائیں، طاقت کے ذریعہ ان کا استیصال کرے۔ البتہ وہ کسی مجرم کی تحقیق کے سلسلہ میں ایسے کام کرسکتی ہے۔ اور جو برائیاں ظاہر نہ ہوں بلکہ مخفی یا گھروں کے اندر ہوں تو ان کا علاج جاسوسی نہیں بلکہ ان کی اصلاح تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے سے کی جائے گی۔- [٢١] غیبت سے اجتناب :۔ غیبت کی تعریف جو رسول اللہ نے خود بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو صحابہ نے عرض کیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر ؟ آپ نے فرمایا : اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الغیبۃ) اور یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت خواہ کسی زندہ انسان کی، اس کی پیٹھ پیچھے کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔- غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا۔ کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لئے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ - غیبت کی حرمت سے استثناء کی صورتیں :۔ البتہ بعض اہم ضرورتوں کے پیش نظر شریعت نے چند صورتوں کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ مثلاً :۔- ١۔ مظلوم حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرکے ظلم کی فریاد کرسکتا ہے۔ اور اس کی بنیاد سورة النساء کی آیت نمبر ١٤٨ ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر عدالت کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ مظلوم کو عام لوگوں کے سامنے بلاضرورت اور تحقیر کی خاطر بھی ظالم کی غیبت کرنا یا اپنے ظلم کی داستان بیان کرنا جائز نہیں۔ پھر جس طرح ایک مظلوم عدالت کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرسکتا ہے۔ اسی طرح استفتاء کی صورت میں مفتی کے سامنے بھی بیان کرسکتا ہے۔- ٢۔ کسی شخص کے شر سے بچنے کے لئے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب وثواب سے مطلع کردینا تاکہ وہ اس کے شر یا اپنے نقصان سے بچ سکے۔ مثلاً کوئی شخص رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی سے کاروباری اشتراک کرنا چاہتا ہو یا کسی کے ہمسایہ میں مکان خریدنا چاہتا ہو یا اسے قرضہ دینا یا امانت سونپنا چاہتا ہو اور وہ اپنے کسی دوسرے بھائی سے مشورہ لے۔ تو مشورہ دینے والے کو نہایت دیانتداری سے متعلقہ شخص کے عیب وثواب بیان کردینے چاہئیں تاکہ وہ کسی دھوکہ میں نہ رہے اور اس کی بنیاد یہ حدیث ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ نے پوچھا : تم نے اس کو دیکھا بھی ہے ؟ اس نے کہا، نہیں۔ آپ نے فرمایا : جا اور اسے دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ (عیب) ہوتا ہے (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امراۃً )- ٣۔ محدثین کا قانون جرح و تعدیل۔ جس پر تمام ذخیرہ حدیث کی جانچ پرکھ کا انحصار ہے اور جس کے ذریعہ عامۃ المسلمین کو عام گمراہی سے بچانا مقصود ہے۔ اس صورت میں راویوں کے عیب وثواب بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ بالاتفاق واجب ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی وہی حدیث ہے جو اوپر بیان ہوئی نیز اس سورة کی آیت نمبر ٦ بھی۔ یعنی فاسق کی خبر کی تحقیق ضروری ہے۔- ٤۔ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہیں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں۔ یا خلق خدا کو بےدینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔
(١) یا یھا الذین امنوا اجتنبوا…: پچھلی آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات خراب کرنے والی ایسی چیزوں سبے منع فرمایا تھا جو ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں، یعنی مذاق اڑانا، عیب لگانا اور برے نام سے پکارنا، اب ان تین چیزوں سے منع فرمایا جو دوسرے بھائیوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر انہیں ان کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہیں بدگمانی، جاسوسی اور غیبت۔ یہ تینوں کام انتہائی کمینگی اور بزدلی کے کام ہیں، کیونکہ انہیں کرنے والے میں جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کے سامنے آسکے۔ یہ اس سورت کی پانچویں آیت ہے جس کا آغاز ” یایھا الذین امنوا “ سے ہوا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں کا م ایمان اور اس کے دعوے کے منافی ہیں، اسلئے ان سے بچ جاؤ۔- (٢) اجتنبوا کثیراً من الظن…: یہلی بات یہ فرمائی کہ اس چیز سے بچو کہ کسی کے متعق جو سنو یا دیکھو اس کے متعلق براگمان ہی قائم کرلو، بلکہ جہاں تک ہو سکے مومن کے تمام اقوال و اعمال کے متعلق اچھا گمان رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ بعض گمان بالکل بےبنیاد اور گناہ ہوتے ہیں۔ اس لئے زیادہ گمان سے بچو، کیونکہ اس کا نتیجہ ایسے گمانوں میں پڑجانا ہے۔ جو گنا ہ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے، سب گمانوں کو نہیں، کیونکہ ظن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک ظن غالب ہے، جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہوجائے، اس پر عمل کرنا دسرت ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اس پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلاً عدلاتوں کے فیصلے، گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے سے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایات۔ ان سب چیزوں میں غور و فکر، جانچ پڑتالا ور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے، مگر اس پر عمل واجب ہے۔ اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی مخالف جانب کا یعنی اس کے درست نہ ہونے کا نہایت ادنیٰ سا امکان رہتا ہے، مثلاً ہوسکتا ہے کہ گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، یا راوی کو غلطی لگی ہو، مگر اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس مکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو اس پر بھی اگرچہ ظن کا لفظ بول لیا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ علم ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔- ظن کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی وجہ سے دل میں ایک خیال آکر ٹھہغر جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں، یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے کے امکان سے کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے۔ ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔” ان بعض الظن اثم “ (بےشک بعض گمان گناہ ہیں) سے یہی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :(ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً ) (یونس : ٣٦) (بےشک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا) اور اللہ کے فرمان :(ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس) (النجم : ٢٣) (یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں) میں اسی ظن کا ذکر ہے اور اسی کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ایاکم والظن ، فان الظن اکذب الحدیث) (بخاری، الادب، باب :(یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن…): ٦٠٦٦)” گمان سے بچوچح کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔ “ اسے سب سے جھوٹی بات اس لئے کہاک گیا کہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ دلیل کے بغیر فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے۔ چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا ہے اور سب سے بڑا جھوٹ اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس یا شیطان کے کہعنے پر اسے برا قرار دے لیا، جب کہ اس کے برے ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔- (٣) آیت میں ایسے گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بےدل یل ہو، مثلاً ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اور اس کے بددیانت یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت موجود نہیں، اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں ، اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہے تو اس وقت گمان منع نہیں۔ مثتاً ایک شخص کا اٹھنا بیٹھنا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو چویر یا زنا کے ساتھ معروف ہیں، یا رتا کو واں پھرتا ہے جہاں اس کا کوئی کام نہیں، اس کے متعلق گمان پیدا ہونا فطری بات ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا : بلکہ فرمایا :(اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم)” بہت سے گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ “- امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح بخاری میں فرمایا :” باب مایجوز من ال ظن “ ” وہ گمان جو جائز ہیں۔ “ اور اس باب میں عائشہ (رض) سے حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ما اظن فلاناً و فلانا یعرفان من دیننا شیئاً قال اللیث کانا رجلبن من المنافقین) (بخاری ، الادب ، باب مایحوز من الظن…:6069)” میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔ “ لیث نے فرمایا :” یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ “ اس جائز گمان سے مراد وہ گمان ہے جس کی علامات یا دلیلیں وضاح ہوں۔- (٤) جس طرح دوسرے مسلمان کے حق میں بدگمانی کرنا منع ہے اسی طرح خود مسلمان کو بھی لازم ہے کہ ایسے ہر کام سے اجتباب کرے جس سے کسی کے دل میں اس کے متعلق براگمان پیدا ہو۔ علی بن حسین بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی صفیہ (رض) نے خبر دی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں بھی آپ کے پاس تھیں ۔ وہ جانے لگیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ (رض) سے فرمایا :” جلدی نہ کرنا، یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں۔ “ ان کا مکان اسامہ کی حویلی میں تھا۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ نکلے تو آپ کو دو انصاری ملے، انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سے فرمایا :(تعالیا انھا صفیۃ بنت حیی)” ادھر آؤ یہ (میری بیوی) صفیہ بنت حیی ہے۔ “ انہوں نے کہا : ” سبحان اللہ یا رسول اللہ (بھلا ہم آپ کے متعلق براگمان کرسکتے ہیں۔ ) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم، وانی خشیت ان یلقی فی انفسکما شیئاً ) (بخاری، الاعتکاف، باب زیارۃ المراۃ زوجھا فی اعتکافہ :2038)” شیطان انسان میں خون کے پھرنے کی طرح پھرتا ہے، تو میں ڈرا کر وہ تمہارے دلں میں کوئی بات ڈال دے۔ “- (٥) ولا تحبسوا :” جس یجس جساً “ (ي) کسی چیز کو معلوم کرنے کیلئے ہاتھ سے ٹٹولنا، تجسس، جاسوی کرنا، خفیہ باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ جاسوسی برے گمان کا لازمی نتیجہ ہے، کیونکہ آدمی جب کسی کے متعلق دل میں برا گمان قائم کرلیتا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لئے اس کی جاسوسی کرتا ہے اور اس کے ان عیوب کی ٹوہ لگاتا رہتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال رکھا ہے، تاکہ یہ اپنے گمان کو سچا ثابت کرسکے۔ یہ ایمانی مودت و اخوت کے سراسر خلاف ہے۔ جب مسلمان بھائی کے ان عیوب پر بھی پردہ ڈالنے کا حکم ہے جو آدمی کو معلوم ہوں تو ان عیوب کی ٹوہ لگانا کیسے جائز ہوس کتا ہے جو محض اس کے گمان کی پیدا ار ہیں، یا جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولاتناجثوا، ولا تحاسدوا، ولاتباغضوا، ولاتدابروا، وکونوا عباد اللہ اخوانا) (بخاری، الفرائض، باب تعلیم الفرئاض :6863، ٦٠٦٦)” گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے اور ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خریدو فروخت میں) بولی بڑھاؤ ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو، نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ “ ابو برزہ اسلمی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یا معشر من امن بلسانہ ولم یدخل الایمان قلبہ لاتعنابوا المسلمین ولاتتبعوا عوراتھم فانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورتہ، ومن یتبع اللہ عورتہ یفضسحہ فی بینہ) (ابوداؤد، الادب، باب فی الغیۃ : 3880 قال الالبانی حسن صحیح)” اے ان لوگوں کی جماعت جو اپنی زبان کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور ایمان کے دلوں میں داخل نہ ہوا مسلمانوں کی غیب مت کرو اور نہ ہی ان کے چھپے ہوئے عیبوں کا پیچھا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کا پچیھا کرے گا اور سج کے عیبوں کا پیچھا اللہ تعالیٰ کرے وہ اسے اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔ “- بعض اوقات آدمی اصلاح کی نیت سے جاسوسی کرتا ہے، مگر یہ اصلاح کا طریقہ نہیں، اس سے باہمی عداوت پیدا ہتوی ہے اور خرابی بڑھتی ہے، اصلاح نہیں ہوتی۔ معاوضہ (رض) نے فرمایا، میں نے رسول اللہ (رض) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، آپ فرماتے تھے :(انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم او کذت ان تفسدھم)” یقیناً جب تو لوگوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا تو انہیں خراب کر دے گا “ یا فرمایا :” قریب ہے تو انہیں خراب کر دے۔ “ ابوالدرداء (رض) نے فرمایا :” یہ ایسی بات تھی جو معاوضہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کیساتھ نفع دیا (کہ انہوں نے بیس سال شام کی امارت کی اور بیس سال پورے عالم اسلام پر خلافت کی اور رعایا کو ان سے کوئی خاص شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ ) “ (ابو داؤد ، الادب، باب فی النھی عن التجسس : ٣٨٨٨، وقال الابانی صحیح)- (٦) جس طرح کوئی دلیل یا قرینہ موجود ہو تو بدگمانی کی گنجائش ہے اسی رطح اسلام کے دشمنوں کی جاسوسی یا امن و امان کی خرابی کا باعث بننے والوں کی جاسوسی بھی جائز ہے، بلکہ مسلم حکمران پر لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کے حلاات سے واقف رہے اور اللہ کی حدود کو پامال کرنے والوں کا سدباب کرتا رہے، مگر اس کے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ محض گمان کی بنا پر تجسس یا کوئی کارروائی کرے۔- (٧) ولا یغتب بعضکم بعضاً :(لایعتب “ (غ، ی ، ب) سے باب افتعال ہے :” اغتاب یغتاب اغتیباباً “ کسی کے غائب ہونے کی حالت میں اس کی وہ بات کرنا جس کا ذکر اسے ناپسند ہو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اتدرون ما الغیۃ ؟ ) (” کیا تم جانتے ہو غیب کیا ہے ؟ “ انہوں نے کہا :” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ذکرک اخاک بما یکرہ) )” تمہارا اپنے بھائی کا ذکر ایسی چیز کیساتھ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ “ عرض کیا گیا :” آپ یہ بتائیں کہ اگر میرے بھئای میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں (تو کیا پھر بھی غیب ہے) “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان کان فیہ ماتقول فقداغتبتہ وان لم یکن فیہ فقد بھتہ) (مسلم ، البر والصلۃ ، باب تحریم الغیۃ :2589)” اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگیا ا۔ “- (٨) ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ : اس جملے میں غیبت سے کئی طریقوں سے شدید نفرت دلائی گئی ہے۔ چناچہ اس میں غیبت کے ساتھ کسی بھائی کی عزت و آبرو تار تار کرنے کو انسان کا گوشت کھانا قرار دیا، پھر کسی دوسرے انسان کا نہیں ، بلکہ اپنے بھائی کا اور وہ بھی زندہ کا نہیں ب ل کہ مردہ بھائی کا۔ پھر ایسی شدید قابل نفرت چیز سے محبت کرنے کی عار دلاتے ہوئے پوچھا کہ اتنی گندی اور مکروہ چیز سے تو شدید نفرت ہونی چاہیے تھی، تو کیا تم نفرت کے بجائے اس سے محبت کرتے ہو۔ “ پھر ” احدکم “ فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایک یہ پسند کرتا ہے ؟ مطلب یہ کہ لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک بیھ یہ پسند نہیں کرے گا تو تم میں سے کوئی ایک یہ کام کیوں کرے ؟- (٩) فکرھتموہ : یعنی اگر تمہارے سامنے یہ چیز پیش کی جائے تو یقینا تم اس سے نفرت کرو گے۔- (١٠) غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ساتھ تشبیہ اس لئے دی ہے کہ جس طرح مردہ اپنا گوشت کھانے سے کسی کو ہٹا نہیں سکتا اسی طرح جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔- (١١) جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسے سننا بھی حرام ہے، کیونکہ سننے والا بھی غیب میں برابر کا شریک ہے، اگر وہ خاموش رہ کر تائید نہ کرے تو غیبت کرنے والے کو اس کام کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی۔ دونوں ہی اپنے مردہ بھائی گوشت سے لذت حاصل کررہے ہیں، ایک غیبت کر کے اور دوسرا اسے سن کر۔ اس لئے غیبت سننے سے بھی بہت پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ اپنے مسلم بھائی کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے غیبت کرنے والے کو اس سے منع کرنا چاہیے۔- (١٢) واتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم : یعنی اللہ کا ڈر ہی ہے جو ان کاموں سے آدمی کو باز رکھ سکتا ہے جن سے ان آیات میں منع فرمایا گیا ہے، وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ اس لئے اللہ سے ڈرو اور ان تمام گناہوں سے توبہ کرو، یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔- (١٣) نووی نے ” الاذکار “ میں غیبت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :” خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین اور بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق، غضر اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے، تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشارہ خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے ، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کیساتھ ، غیبت میں شامل ہے۔ “- بدن کی غیبت مثلاً اس کی تنقیص کیلئے اندھا، لنگڑا، کانا گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ اسے فاسق ، چور، خائن ، ظالم، نماز میں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان یا بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے باے میں مثلاً اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً اسے بدخلق ، متکبر، ریا کار جلد باز، بزدل یا سٹریل قرار دے ۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً جولاہا، موچی، کالا حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان ، ہاتھ اور جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے، مثلاً اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت، جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیب ہے اور حرام ہے۔- (١٤) بعض اوقات کسی مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہوجاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جاسکتا ہے۔ قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوسکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہ۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ مواقع گنوائے ہیں :(١) ظلم پر فریاد، یعنی مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لایحب اللہ الجھر بالسوآء من القول الا من ظلم) (النسائ :138)” اللہ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔ ‘ ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فان لصاحب الحق مقالاً ) (بخاری، الاستقراض، باب استقراض الابل :2390)” یقیناً حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔ “ بہتر یہ ہے کہ وہ بادشاہ یا قاضی یا کسی ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کرسکتا ہ۔ - (٢) کسی گناہ یا برے کام سے روکنے کے لئے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔ اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذیل ہو توی ہ جائز نہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔- (٢) فتویٰ لینے کے لئے مفتی کے سامنے کسی کا نقص ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ (رض) نے اپنے خاوند ابوسفیان (رض) کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا :” ابوسفیان بخیل آدمی ہے (مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں اگر میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے لوں ؟ “ آپ نے فرمایا :(خذی انت و بنوک مایکفیک بالمعروف) (بخاری، البیوع ، باب من اجری امر الامصار…: ٢٢١١، ٥٣٦٣) ” تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہند (رض) کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے پر منع نہیں فرمایا : کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔- (٤) مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے اور انہیں شر سے بچانے کیلئے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے فرمایا، (ائذنوا لہ، بئس اخوالعشیرۃ) (بخاری، الادب، باب مایجوز من اغتیاب…٦٠٥٣)” اسے اجازت دے دو ، یہ خاندان کا برا آدمی ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عائشہ (رض) کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال کیا۔ مسلمانوں کی خیر خواہی میں اور انہیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آجاتیہیں، مثلاً حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ دوسرے جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، ک اور بار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتادے۔ فاطمہ بنت قیس (رض) نے معاویہ اور ابوجہم (رض) میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اما ابوجھم فلا یضع عصاہ عن عاتفہ، وما معاویۃ فصعلوک لا مال لہ ، انکحی اسامۃ بن زید) (مسلم ، الطلاق، المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا :1380) ” ابو جہم تو عورتوں کو بہت مارتا ہے اور معاویہ کنگال آدمی ہے، اس کے پاس کچھ نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو۔ “ اور صحیح مشروہ دینا مومن کا حق ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واذا استنصحک فانصح لہ) (مسلم ، السلام ، باب من حق المسلم رد السام : ٥ ٢١٦٢)” اور جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔ “ - (٥) جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، علانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی مں حسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے، خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو، مثلاً اعمش (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہں) ، ا عرج (لنگڑا) اصم (بہرا) اور اعمی (نابینا) وغیرہ۔ شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہ۔- (١٥) قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولایغتب بعضکم بعضاً ) کہ مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔ اسی طرح ” ذکرک اخاک بما یکرہ “ سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے، کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں، اس لئے اس کی غیبت میں کوئی گناہ نہیں۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں (اس لئے ظن و گمان کی جتنی قسمیں ہیں ان سب کے اقسام کے احکام کی تحقیق کرلو کہ کون سا گمان جائز ہے کون سا ناجائز، پھر جائز کی حد تک رہو) اور (کسی کے عیب کا) سراغ نہ لگایا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے ( آگے غیبت کی مذمت ہے کہ) کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھالے اس کو تو تم (ضرور) برا سمجھتے ہو (تو سمجھ لو کہ کسی بھائی کی غیبت بھی اسی کے مشابہ ہے) اور اللہ سے ڈرتے رہو (غیبت چھوڑ دو توبہ کرلو) بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔- معارف و مسائل - یہ آیت بھی باہمی حقوق اور آداب معاشرت کے متعلق احکام پر مشتمل ہے اس میں بھی تین چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اول ظن جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ دوسرے تجسس یعنی کسی پوشیدہ عیب کا سراغ لگانا، تیسرا غیبت یعنی کسی غیرحاضر آدمی کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا جس کو اگر وہ سنتا تو اس کو ناگوار ہوتی۔ پہلی چیز یعنی ظن کے معنی گمان غالب کے ہیں، اس کے متعلق قرآن کریم نے اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ ” بہت سے گمانوں سے بچا کرو “ پر اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ” بعض گمان گناہ ہوتے ہیں “ جس سے معلوم ہوا کہ ہر گمان گناہ نہیں تو یہ ارشاد سننے والوں پر اس کی تحقیق واجب ہوگئی کہ کون سے گمان گناہ ہیں تاکہ ان سے بچیں اور جب تک کسی گمان کا جائز ہونا معلوم نہ ہوجاوے اس کے پاس نہ جائیں۔ علماء و فقہا نے اس کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ قرطبی نے فرمایا کہ ظن سے مراد اس جگہ تہمت ہے یعنی کسی شخص پر بغیر کسی قوی دلیل کے کوئی الزام عیب یا گناہ کا لگانا، امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں ایک جامع تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ ظن کی چار قسمیں ہیں ایک حرام ہے دوسری ماموربہ اور واجب ہے، تیسری مستحب اور مندوب ہے چوتھی مباح اور جائز ہے، ظن حرام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی رکھے کہ وہ مجھے عذاب ہی دے گا یا مصیبت ہی میں رکھے گا اس طرح کہ اللہ کی مغفرت اور رحمت سے گویا مایوس ہے حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- لا یموتن احد کم الا وھو یحسن اظن باللہ - تم میں سے کسی کو اس کے بغیر موت نہ آنی چاہئے کہ اس کا اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہو - اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد آیا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ انا عند ظن عبدی بی، یعنی اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اب اس کو اختیار ہے کہ میرے ساتھ جو چاہے گمان رکھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے اور بدگمانی حرام ہے۔ اسی طرح ایسے مسلمان جو ظاہری حالت میں نیک دیکھے جاتے ہیں، ان کے متعلق بلا کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث، یعنی گمان سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہے۔ یہاں ظن سے مراد باتفاق کسی مسلمان کے ساتھ بلا کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا ہے اور جو کام ایسے ہیں کہ ان میں کسی جانب پر عمل کرنا شرعاً ضروری ہے اور اس کے متعلق قرآن و سنت میں کوئی دلیل واضح موجود نہیں، وہاں پر ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے۔ جیسے باہمی منازعات و مقدمات کے فیصلہ میں ثقہ گواہوں کی گواہی کے مطابق فیصلہ دینا کیونکہ حاکم اور قاضی جس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہے اس پر اس کا فیصلہ دنیا واجب و ضروری ہے اور اس خاص معاملے کے لئے کوئی نص قرآن و حدیث میں موجود نہیں تو ثقہ آدمیوں کی گواہی پر عمل کرنا اس کے لئے واجب ہے اگرچہ یہ امکان و احتمال وہاں بھی ہے کہ شاید کسی ثقہ آدمی نے اس وقت جھوٹ بولا ہو اس لئے اس کا سچا ہونا صرف ظن غالب ہے اور اسی پر عمل واجب ہے۔ اسی طرح جہاں سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور کوئی ایسا آدمی بھی نہ ہو جس سے معلوم کی جاسکے وہاں اپنے ظن غالب پر عمل ضروری ہے اسی طرح کسی شخص پر کسی چیز کا ضمان دینا واجب ہوا تو اس ضائع شدہ چیز کی قیمت میں ظن غالب ہی پر عمل کرنا واجب ہے اور ظن مباح ایسا ہے جیسے نماز کی رکعتوں میں شک ہوجاوے کہ تین پڑھی ہیں یا چار تو اپنے ظن غالب پر عمل کرنا جائز ہے اور اگر وہ ظن غالب کو چھوڑ کر امر یقینی پر عمل کرے یعنی تین رکعت قرار دے کر چوتھی پڑھ لے تو یہ بھی جائز ہے اور ظن مستحب و مندوب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ نیک گمان رکھے کہ اس پر ثواب ملتا ہے (جصاص ملخصاً )- قرطبی نے فرمایا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) لولا اذسمعتموہ ظن المومنون و المومنت بانفسہم خیرا، اس میں حسن ظن بالمومنین کی تاکید آئی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ ان من الحزم سوء الظن یعنی احتیاط کی بات یہ ہے کہ ہر شخص سے بدگمانی رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ ایسا کرے جیسے بدگمانی کی صورت میں کیا جاتا ہے کہ بدون قوی اعتماد کے اپنی چیز کسی کے حوالہ نہ کرے نہ یہ کہ اس کو چور سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو چور یا غدار سمجھے بغیر اپنے معاملہ میں احتیاط برتے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے۔- نگہ دار وآں شوخ در کیسہ در - کہ داند ہمہ خلق را کیسبہ بر - دوسری چیز جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے تجسس یعنی کسی کے عیب کی تلاش اور سراغ لگانا ہے۔ اس میں قراتیں دور ہیں ایک لاتجسسوا بالجیم دوسرے لاتحسسوا بالحاء اور حدیث صحیحین میں جو حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے یہ دونوں لفظ آئے ہیں ارشاد ہے لاتجسسوا ولا تحسسوا اور ان دونوں لفظوں کے معنی متقارب ہیں، اخفش نے دونوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ تجسس بالجیم کسی ایسے امر کی جستجو اور تلاش کو کہا جاتا ہے جس کو لوگوں نے آپ سے چھپایا ہو اور تجسس بالحاء مطلق تلاش اور جستجو کے معنی میں آیا ہے۔ سورة یوسف میں (آیت) تحسسوا من یوسف و اخیہ اسی معنی کے لئے آیا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو چیز تمہارے سامنے آجائے اس کو پکڑ سکتے ہو اور کسی مسلمان کا جو عیب ظاہر نہ ہو اس کی جستجو اور تلاش کرنا جائز نہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔- لاتغتابوا المسلمین ولا تتبعوا عوراتھم فان من اتبع عوراتہم یتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ (قرطبی)- مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب کی تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیب کی تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کی تلاش اللہ تعالیٰ کرے اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کردیتا ہے - بیان القرآن میں ہے کہ چھپ کر کسی کی باتیں سننا یا اپنے کو سوتا ہوا بنا کر باتیں سننا بھی تجسس میں داخل ہے البتہ اگر کسی سے مضرت پہنچنے کا احتمال ہو اور اپنی یا دوسرے کسی مسلمان کی حفاظت کی غرض سے مضرت پہنچانے والے کی خفیہ تدبیروں اور ارادوں کا تجسس کرے تو جائز ہے۔ تیسری چیز جس سے اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے وہ کسی کی غیبت کرنا ہے، یعنی اس کی غیر موجودگی میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا جس کو وہ سنتا تو اس کو ایذا ہوتی اگرچہ وہ سچی بات ہی ہو کیونکہ جو غلط الزام لگائے وہ تمہمت ہے جس کی حرمت الگ قرآن کریم سے ثابت ہے اور غیبت کی تعریف میں اس شخص کی غیر موجودگی کی قید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ موجودگی کی حالت میں ایسی رنجیدہ بات کہنا جائز ہے کیونکہ وہ غیبت تو نہیں مگر لمز میں داخل ہے جس کی حرمت اس سے پہلی آیت میں آ چکی ہے۔- (آیت) اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا، اس آیت نے کسی مسلمان کی آبرو ریزی اور توہین و تحقیر کو اس کا گوشت کھانے کی مثال و مشابہ قرار دیا ہے اگر اس کے وہ شخص سامنے ہو تو ایسا ہے جیسے کسی زندہ انسان کا گوشت نوچ کر کھایا جائے، اس کو قرآن میں بلفظ لمز تعبیر کر کے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی گزرا لا تلمزوا انفسکم اور آگے آئے گا (آیت) ویل لکل ھمزة لمزة اور وہ آدمی غائب ہو اس کے پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہنا جس سے اس کی آبرو میں خلل آئے اور اس کی تحقیر ہو یہ ایسا ہے جیسے کسی مردہ انسان کا گوشت کھایا جائے کہ جیسے مردہ کا گوشت کھانے سے مردے کو کوئی جسمانی اذیت نہیں ہوتی ایسے ہی اس غائب کو جب تک غیبت کی خبر نہیں ہوتی اس کو بھی کوئی اذیت نہیں ہوتی مگر جیسا کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھاناحرام اور بڑی خست و دناءت کا کام ہے اسی طرح غیبت حرام بھی ہے اور خست و دناءت بھی کہ پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہنا کوئی بہادری کا کام نہیں۔- اس آیت میں ظن اور تجسس اور غیبت تین چیزوں کی حرمت کا بیان ہے مگر غیبت کی حرمت کا زیادہ اہتمام فرمایا کہ اس کو کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس کی حرمت اور خست و دنائت کو واضح فرمایا، حکمت اس کی یہ ہے کہ کسی کے سامنے اس کے عیوب ظاہر کرنا بھی اگرچہ ایذا رسانی کی بنا پر حرام ہے مگر اس کی مدافعت وہ آدمی خود بھی کرسکتا ہے اور مدافعت کے خطرہ سے ہر ایک کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور وہ عادةً زیادہ دیر رہ بھی نہیں سکتا بخلاف غیبت کے کہ وہاں کوئی مدافعت کرنے والا نہیں ہر کمتر سے کمتر آدمی بڑے سے بڑے کی غیبت کرسکتا ہے اور چونکہ کوئی مدافعت نہیں ہوتی اس لئے اس کا سلسلہ بھی عموماً طویل ہوتا ہے اور اس میں ابتلاء بھی زیادہ ہے اس لئے غیبت کی حرمت زیادہ موکد کی گئی اور عام مسلمانوں پر لازم کیا گیا کہ جو سنے وہ اپنے غائب بھائی کی طرف سے بشرط قدرت مدافعت کرے اور مدافعت پر قدرت نہ ہو تو کم از کم اس کے سننے پر پرہیز کرے کیونکہ غیبت کا بقصد و اختیار سننا بھی ایسا ہی ہے جیسے خود غیبت کرنا۔- غیبت کے متعلق مسائل :- حضرت میمون (رح) نے فرمایا کہ ایک روز خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک زنگی کا مردہ جسم ہے اور کوئی کہنے والا ان کو مخاطب کر کے یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو کھاؤ، میں نے کہا کہ اے خدا کے بندے میں اس کو کیوں کھاؤں تو اس شخص نے کہا اس لئے کہ تو نے فلاں شخص کے زنگی غلام کی غیبت کی ہے۔ میں نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے تو اس کے متعلق کوئی اچھی بری بات کی ہی نہیں تو اس شخص نے کہا کہ ہاں، لیکن تو نے اس کی غیبت سنی تو ہے اور تو اس پر راضی رہا، حضرت میمون کا حال اس خواب کے بعد یہ ہوگیا کہ نہ خود کبھی کسی کی غیبت کرتے اور نہ کسی کو اپنی مجلس میں کسی کی غیبت کرنے دیتے تھے۔- حدیث میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ شب معراج کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے لیجایا گیا تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور بدن کا گوشت نوچ رہے ہیں، میں نے جبرئیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت کرتے اور ان کی آبرو ریزی کرتے تھے (رواہ البغوی، مظہری) اور حضرت ابوسعید اور جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، الغیبتہ اشدمن الزنا، یعنی غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ کیسے، تو آپ نے فرمایا کہ ایک شخص زنا کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے اور غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت کی گئی ہے (رواہ الترمذی و ابوداؤد، از مظہری)- اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس میں حق اللہ کی بھی مخالفت ہے اور حق العبد بھی ضائع ہوتا ہے اس لئے جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معاف کرانا ضروری ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ غیبت کی خبر جب تک صاحب غیبت کو نہ پہنچے اس وقت تک وہ حق العبد نہیں ہوتی اس لئے اس سے معافی کی ضرورت نہیں (نقلہ فی الروح عن الحسن و الخیاطی و ابن الصباغ و النووی و ابن الصلاح و الزرکشی و ابن عبدالبر عن ابن المبارک) مگر بیان القرآن میں اس کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس صورت میں گو اس شخص سے معافی مانگنا ضروری نہیں مگر جس شخص کے سامنے یہ غیبت کی تھی اس کے سامنے اپنی تکذیب کرنا یا اپنے گناہوں کا اقرار کرنا ضروری ہے اور اگر وہ شخص مر گیا ہے یا اس کا پتہ نہیں تو اس کا کفارہ حضرت انس کی حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان من کفارة الغیبة ان یستغفر لن اغتابہ تقول اللھم اغفرلنا ولہ (رواہ البیہقی، مظہری) یعنی کفارہ غیبت کا یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرے اور یوں کہے کہ یا اللہ ہمارے اس کے گناہوں کو معاف فرما۔- مسئلہ : بچے اور مجنون اور کافر ذمی کی غیبت بھی حرام ہے کیونکہ اس کی ایذا بھی حرام ہے اور جو کافر حربی ہیں اگرچہ ان کی ایذا حرام نہیں مگر اپنا وقت ضائع کرنے کی وجہ سے پھر بھی غیبت مکروہ ہے۔- مسئلہ : غیبت جیسے قول اور کلام سے ہوتی ہے ایسے ہی فعل یا اشارہ سے بھی ہوتی ہے جیسے کسی لنگڑے کی چال بنا کر چلنا جس سے اس کی تحقیر ہو۔ - مسئلہ : بعض روایات سے ثابت ہے کہ آیت میں جو غیبت کی عام حرمت کا حکم ہے یہ مخصوص البعض ہے یعنی بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوئی ہے مثلاً کسی شخص کی برائی کسی ضرورت یا مصلحت سے کرنا پڑے تو وہ غیبت میں داخل نہیں بشرطیکہ وہ ضرورت و مصلحت شرعاً معتبر ہو جیسے کسی ظالم کی شکایت کسی ایسے شخص کے سامنے کرنا جو ظلم کو دفع کرسکے، یا کسی کی اولاد و بیوی کی شکایت اس کے باپ اور شوہر سے کرنا جو ان کی اصلاح کرسکے، یا کسی واقعہ کے متعلق فتویٰ حاصل کرنے کے لئے صورت واقعہ کا اظہار یا مسلمانوں کو کسی شخص کے دینی یا دنیوی شر سے بچانے کے لئے کسی کا حال بتلانا، یا کسی معاملے کے متعلق مشورہ لینے کے لئے اس کا حال ذکر کرنا، یا جو شخص سب کے سامنے کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اور اپنے فسق کو خود ظاہر کرتا پھرتا ہے اس کے اعمال بد کا ذکر بھی غیبت میں داخل نہیں مگر بلا ضرورت اپنے اوقات ضائع کرنے کی بنا پر مکروہ ہے (یہ سب مسائل بیان القرآن میں بحوالہ روح المعانی بیان کئے گئے ہیں) اور ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ کسی کی برائی اور عیب ذکر کرنے سے مقصود اس کی تحقیر نہ ہو بلکہ کسی ضرورت و مجبوری سے ذکر کیا گیا ہو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ٠ ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ٠ ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ ١٢- اجتناب - ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ- [ النساء 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه .- الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- 7-- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔- جسس - قال اللہ تعالی: وَلا تَجَسَّسُوا[ الحجرات 12] ، أصل الجَسِّ : مسُّ العرق وتعرّف نبضه للحکم به علی الصحة والسقم، وهو أخص من الحسّ ، فإنّ الحس تعرّف ما يدركه الحس . والجَسُّ : تعرّف حال ما من ذلك، ومن لفظ الجسّ اشتق الجاسوس - ( ج س س ) الجس کے اصلی معنی ہیں رگ کر چھونا اور نبض دیکھ کر معلوم کرنا کہ بیمار ہے یا تندرست یہ حس سے خاص ہے ۔ کیونکہ حسن کے معنی قوۃ احساس سے کسی چیز کا ادارک کرنا کے ہیں ۔ لیکن جس کسی اندرونی حالت کے معلوم کرنے کو کہتے ہیں اور لفظ جس سے جاسوس کا لفظ مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تَجَسَّسُوا[ الحجرات 12] اورا یک دوسرے کے اندرونی حالات کا تجسس نہ کیا کرو ۔- غِيبَةُ- : أن يذكر الإنسان غيره بما فيه من عيب من غير أن أحوج إلى ذكره، قال تعالی: وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً [ الحجرات 12] ، والغَيَابَةُ : منهبط من الأرض، ومنه : الغَابَةُ للأجمة، قال : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] ، ويقال : هم يشهدون أحيانا، ويَتَغَايَبُونَ أحيانا، وقوله : وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ سبأ 53] ، أي : من حيث لا يدرکونه ببصرهم وبصیرتهم .- الغیبۃ کے معنی کسی انسان کی عدم موجودگی میں اس کے اس عیب کو بیان کرنے کے ہیں جو اس میں موجود تو ہو لیکن اس کا ذکر کرنا اس پر ناگوار گزرے قرآن پاک میں ہے : وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً [ الحجرات 12] اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے ۔ الغیابۃ کے معنی نشیبی زمین کے ہیں اور اسی سے گھنے جنگل کو غابۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي غَيابَتِ الْجُبِّ [يوسف 10] کسی کنویں کی گہرائی میں ۔۔۔۔ ایک محاورہ ہے َھم یشھدون احیانا ویتغایبون احیانا کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی چھپ جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ سبأ 53] کے معنی یہ ہیں کہ ۔۔۔ ( وہ یونہی اندھیرے میں تیرچلاتے ہیں اور ) نگاہ وبصیرت سے اس کا ادراک نہیں کرتے ۔- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
وہم وگمان سے بچنا چاہیے - قول باری ہے (اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم۔ بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) آیت بعض گمانوں سے نہی کی مقتضی ہے۔ تمام گمانوں سے نہیں۔ کیونکہ قول باری (کثیرا من الظن) بعض کا مقتضی ہے اس کے ساتھ ہی ارشاد ہوا۔ (ان بعض الظن اثم)- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام گمانوں سے نہی نہیں کی ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔ بیشک گمان حق کے سلسلے میں کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا) نیز فرمایا (وظننتم ظن الشوء وکنتم قوما بورا۔ اور تم نے برا گمان کیا اور تم لوگ بربادہوکر رہے) ظن کی چار صورتیں ہیں ایک تو وہ ظن جس کی ممانعت ہے۔- ایک وہ ظن جس کا حکم ہے۔ ایک وہ جس کی ترغیب دی گئی ہے اور ایک وہ ظن جو مباح ہے۔ جس گمان کی ممانعت کردی گئی وہ اللہ کی ذات کے ساتھ سوء ظن کی صورت ہے۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں معاذ بن المثنی اور محمد بن محمد بن حیان التمار نے ان دونوں کو محمد بن کثیر نے، انہیں سفیان نے اعمش سے، انہوں نے ابوسفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی وفات سے پہلے تین دفعہ یہ فرماتے ہوئے سنا تھا (لا یموتن احدکم الاوھم یحسن الظن باللہ عزوجل تم سے کوئی شخص موت سے ہمکنار نہ ہو مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ عزوجل کی ذات سے حسن ظن رکھتا ہو)- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابوسعید یحییٰ بن منصورالہروی نے، انہیں سوید بن نصر نے انہیں ابن المبارک نے ہشاک بن الغازی سے، انہوں نے حیان بن ابی النصر سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن الاسقع (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (یقول اللہ انا عندظن عبدی بی فلیظن بی مشاء۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان پر پورا اتروں گا جو وہ میرے بارے میں رکھے گا اس لئے وہ میرے بارے میں جو گمان چاہے رکھ لے)- ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی، انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد بن سلمہ نے محمد بن واسع سے، انہوں نے شتیر بن نہار سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (حسن الظن من العبادۃ حسن ظن عبادت ہے) یہ حدیث نصربن علی کی روایت میں مرفوع ہے اور موسیٰ بن اسماعیل کی روایت میں غیر مرفوع ہے۔- اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھنا فرض ہے اور سوء ظن رکھنا ممنوع ہے۔ اسی طرح ان مسلمانوں کے بارے میں سوء ظن رکھنا ممنوع ہے جن کی ظاہر حالت ان کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں سوء ظن کی ممانعت ہے اور اس سے ہمیں روکا گیا ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن محمد المروزی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے علی بن الحسین سے اور انہوں نے حضرت صفیہ (رض) سے۔ وہ فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں رات کے وقت آپ سے ملنے آئی، کچھ دیر تک آپ کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد واپس جانے کے لئے مڑی تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ مجھے واپس لوٹادیں۔- راوی کہتے ہیں کہ حضرت صفیہ (رض) اس وقت داراسامہ بن زید میں رہتی تھیں، عین اس وقت دو انصاری شخص وہاں سے گزرے، جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو اپنی رفتار تیز کردی یہ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا ۔ ٹھہرو میرے ساتھ یہ خاتون صفیہ بنت حی ہیں۔ “ دونوں نے یہ سن کرکہا۔ سبحان اللہ اللہ کے رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا کہتے ہیں ؟ “ ان کا مقصد یہ تھا کہ بھلا ہمیں آپ کی ذات کے متعلق کوئی شک ہوسکتا ہے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید فرمایا (ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم فخشیت ان یقذف فی قلوبکما شیئا اوقال سواء، شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے میں نے تمہیں روک کر یہ بات اس لئے کہی ہے کہ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ تمہارے دل کے اندر میرے بارے میں کوئی خیال پیدا نہ کردے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ کوئی برا گمان نہ ڈال دے)- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے رویت بیان کی، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں عبدالرحمن نے انہیں وہب نے، انہیں ابن طائوس نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہوتی ہے) یہ بھی ظن ممنوع کی ایک صورت ہے یعنی کسی مسلمان کے بارے میں بلاوجہ بدگمانی کرنے کی ممانعت ہے۔- اسی طرح ہر ایسے امر کے بارے میں بھی گمان سے کام لینا ممنوع ہے جس کی معرفت کی راہ موجود ہو اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہو جن کے بارے میں علم حاصل کرنے کی پابندی ہو کیونکہ جب ایک شخص اس امر کا پابند ہوگا تو اس کے بارے میں علم حاصل کرنے کا بھی وہ پابندہوگا اور علم تک رسائی کی خاطر اس کے لئے دلیل بھی قائم کردی گئی ہوگی۔ لیکن اگر وہ اس دلیل کو نظر انداز کرکے اپنے گمان سے کام لے گا تو اس صورت میں وہ اس حکم کا تارک سمجھا جائے گا جو اسے دیا گیا ہے۔- البتہ ایسے امور جن کے علم تک رسائی کے لئے دلیل قائم نہ کی گئی ہو اور دوسری طرف ان امور کے متعلق حکم کے نفاذ کی بھی پابندی ہو، ایسی صورت میں غالب ظن پر اقتصاد کرتے ہوئے ان پر حکم کا اجرواجب ہوگا مثلاً ہم عادل گواہوں کی گواہی قبول کرنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح سمت قبلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس کے متعلق تحری کرنے یعنی اولیٰ صورت کی جستجو کے پابند ہیں۔- نیز استعمال میں آکر ختم ہوجانے والی چیزوں کی قیمتیں لگانے اور ان جنایات یعنی جرائم کی دیتوں اور جرمانوں کی تعیین کے بھی ہم پابند ہیں جن کے بارے میں کوئی توقیف یعنی شرعی دلیل اور رہنمائی موجود نہ ہو۔ ان امور میں نیز ان جیسے دوسرے امور میں ہم غالب ظن کے مطابق حکم کے نفاذ کے پابند ہیں۔ ظن مباح کی صورت وہ ہے جب کسی شخص کو اپنی نماز کی رکعتوں کے بارے میں شک پیدا ہوجائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو تحری کرنے اور اپنے غالب ظن پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے۔ اگر رکعتوں کی تعداد کے متعلق وہ ظن غالب سے کام لے گا تو اس کا یہہ ظن مباح ہوگا لیکن اگر وہ ظن غالب کو چھوڑ کر یقینی امر پر اپنی نماز کی بنیاد رکھے گا تو یہ بھی جائز ہوگا۔ مثلاً اسے ایک رکعت پڑھ لینے کا پکا یقین ہے۔ اگر وہ اس ایک رکعت کی بنیاد پر باقی ماندہ رکعتیں ادا کرلے گا تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا۔- اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے متعلق منقول وہ روایت ہے جس کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا تھا کہ میں نے عالیہ کے مقام میں اپنے کھجور کے درختوں کا بیس وسق کھجور تمہیں ہمبہ کے طور پردے دیا تھا (یہ بات حضرت ابوبکر (رض) نے اس وقت کہی تھی جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے) تم نے وہ کھجور نہیں اتروائے اور ان کو اپنے قبضے میں نہیں لیا اس لئے اب یہ میرے ترکہ میں شمار کیا جائے گا اور اس پر وارثین یعنی تمہارے دو بھائیوں اور دو بہنوں کا حق ہوگا۔- یہ سن کر حضرت عائشہ (رض) نے کہا، ابا جان میری ایک ہی بہن اسماء ہے۔ یہ دوسری بہن کہاں سے آئی، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ” میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ میری حاملہ بیوی کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے دل میں پیدا ہونے والے خیال کی بنا پر اپنے اس ظن کو جائز قرار دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں ہشام بن عمار نے عبدالرحمن بن سعد سے، انہوں نے عبداللہ بن سعید سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا ظننتم فلا تحققوا ۔ جب تم گمان کرو تو اسے حقیقت بنا ہو) یہ وہ گمان ہے جو انسان کے دل میں اپنے بھائی کے متعلق پیدا ہوکر اسے شک وشبہ میں مبتلا کردیتا ہے اس لئے انسان کو اپنے ایسے گمان کی حقیقت کا رنگ نہیں دینا چاہیے۔- جس گمان کی ہمیں ترغیب دی گئی ہے اس سے مراد وہ حسن ظن ہے جو ہم اپنے مسلمان بھائی کے متعلق اپنے دل میں رکھیں۔ اس حسن ظن کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب سوء ظن ممنوع ہے تو پھر حسن ظن واجب ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حسن ظن واجب نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک واسطہ بھی موجود ہے وہ یہ کہ انسان اپنے بھائی کے متعلق کوئی ظن نہ رکھے نہ حسن ظن اور نہ ہی سوء ظن، اس لئے جب وہ اس کے متعلق حسن ظن پیدا کرے گا تو وہ اس فعل پر عمل کرلے گا جس کی اسے ترغیب دی گئی ہے۔- خواہ مخواہ ٹوہ میں نہ پڑنا چاہیے - قول باری (ولا تجسسوا اور ٹوہ میں مت لگے رہو) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابوداود نے العنیی سے، انہوں نے مالک سے، انہوں نے ابوالزناد سے، انہوں نے اعرج اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ولا تحسوا ولا تجسو بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے اور گن سن نہ لیا کرو اور نہ ہی ٹوہ میں لگے رہو)- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوداود نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے زید بن وہب سے کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ “ آپ نے یہ سن کر فرمایا : ” ہمیں کسی کی ٹوہ لگانے سے روکا گیا ہے البتہ اگر ہمارے سامنے اس کی کوئی بات ظاہر ہوجائے گی تو اسے پکڑ لیں گے۔- مجاہد سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو بلکہ اس کی ظاہری حالت کو دیکھو، اور اس کی جس حالت پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال رکھا ہے اسے نظرانداز کردو، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے مسلمان کے بارے میں سوء ظن سے منع فرمادیا ہے جس کی ظاہری حالت اس کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہو اور دوسرے حالات پر پردہ پڑا ہوا ہو۔- اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ جو شخص کسی پر اپنے گمان کی بنا پر تہمت وغیرہ لگائے اس کی تکذیب واجب ہے۔ ارشادباری ہے (لولا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم وقالوا ھذا افک مبین۔ جب تم لوگوں نے یہ افواہ سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا اور (یہ کیوں نہ ) کہہ دیا کہ یہ تو صریح طوفان بندی ہے) ۔- جب قاذف کی تکذیب واجب ہوگئی اور حسن ظن کا حکم دیا گیا تو یہ اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ جس شخص کے متعلق سوء ظن کیا جائے اس کی تحقیق وتفتیش اور اس سوء ظن کے اظہار کی بھی ممانعت سے۔ نیز اس کے ٹوہ میں رہنا بھی ممنوع ہے بلکہ اہل معاصی پر اس وقت تک پردہ ڈالے رکھنے کا حکم ہے جب تک وہ ان معاصی پر اصرار نہ کریں۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن فارس نے، انہیں الفریابی نے اسرائیل سے انہوں نے الولید سے (ابودائود کہتے ہیں کہ ہمیں زہیر بن حرب نے حسین بن محمد سے انہوں سے اسرائیل سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے الولید کی ولدیت بھی بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اولید بن ابی ہشام) انہوں نے زید بن زائد سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یبلغنی احد عن احمد شیئا فانی احب ان خراج الیکم و ناسلیم الصدرلکم، کوئی شخص کسی شخص کے متعلق کوئی بات مجھے نہ پہنچائے کیونکہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں جب تم لوگوں کے پاس آئو تو میرا سینہ تمہاری طرف سے بالکل پاک ہو) یعنی تمہارے بارے میں میرے دل میں کوئی بات نہ ہو۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں مسلم بن ابراہیم نے، انہیں عبداللہ بن المبارک نے ابراہیم بن نشیط سے، انہوں نے کعب بن علقمہ سے، انہوں نے ابوالہیثم سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من رای عورۃ فسترھا کان کمن احی موودۃ، جس شخص نے کسی کے پردے کی کوئی بات کی اور اس کی پردہ پوشی کی تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے کسی زندہ دفن ہونے والی لڑکی کو زندہ کردیا) یعنی اسے اس گڑھے سے زندہ باہر نکال لیا۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں قتیبہ بن سعید نے، انہیں لیث نے عقیل سے ، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ، من کان فی حاجۃ اخیہ فان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ کر بۃ من کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ)- مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بےیارومددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں قیامت کی تکلیفوں میں سے اس سے ایک تکلیف دور کردے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔- سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اوامرونواہی دیے ہیں اس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ کے اندر مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کی درستی اور بہتری پیدا ہوتی ہے اور آپس کے تعلقات کی درستی کی بنیاد پر دین اور دنیا دونوں سنور جاتے ہیں۔- باہمی تعلقات خوشگوار ہونے چاہئیں - قول باری ہے (فاتقوا اللہ واصلحواذات بینکم ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست رکھو) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن العلاء نے ، انہیں ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے حضرت ام الداردء (رض) سے انہوں نے ابوالدرداء (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصلوٰۃ والصدقۃ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جس کا درجہ روزہ ، نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کر ہے)- صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ضروربتا دیجئے۔ اس پر آپ نے فرمایا (اصلاح ذات البین وفساد ذات البینھی الحالقۃ، آپس کے تعلقات کی درستی، آپس کے تعلقات کا بگاڑ تباہی کا موجب ہے)- غیبت کی ممانعت - قول باری ہے (ولا یغتب بعضکم بعضا۔ اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں عبدالعزیز ترین محمد نے الحلاء سے، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیبت کسے کہتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نے فرمایا (ذکرک اخاک بما یکرہ غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرو جسے اگر وہ سن لے تو اسے برا لگے) آپ سے عرض کیا گیا ” میں اپنے بھائی کی جس برائی کا ذکررہا ہوں اگر وہ اس کیا ندر موجود ہو تو پھر کیا حکم ہوگا۔ “- اس کا جواب دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان کان فیہ ماتقول فقدا غتیتہ وان لم یکن فیہ ماتقول فقد بھتہ، اگر تمہارے بھائی کے اندر وہ بات موجود ہو جس کا تم ذکرکر رہے ہو تو یہ غیبت کی صورت ہوگی اور وہ بات سرے سے اس کے اندر موجود نہ ہو تو اس صورت میں تم اس پر بہتان طرازی کے مرتکب قرار پائو گے)- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابودائود نے، انہیں مسدد نے، انہیں سفیان نے علی بن الاقمر سے، انہوں نے ابو حذیفہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ آپ کے لئے صفیہ کے فلاں فلاں نقائص کافی ہیں۔ “ - مسدد کے سوا دوسرے راویوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کی مراد یہ تھی کہ حضرت صفیہ (رض) قصیر القامت ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا۔” عائشہ (رض) تم نے ایسی بات کہی ہے کہ جسے اگر سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس پر غالب آجائے ۔ “- حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دفعہ کسی شخص کے متعلق کوئی بات نقل کی جسے سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ اگر فلاں فلاں چیز کے بدلے کسی انسان کی کوئی بات مجھے نقل کی جائے تو بھی میں اسے پسند نہیں کروں گا۔ “- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں حسن بن علی نے، انہیں عبدالرزاق نے ابن جریج سے انہیں ابوالزبیر نے یہ بتایا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے چچا زاد بھائی عبدالرحمن بن الصامت نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ الا سلمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور اپنی ذات کے خلاف گواہی دیتے ہوئے چار دفعہ اقرار کیا کہ انہوں نے ایک عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) نے سلسلہ وحدیث کا ذکر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت کیا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں ۔ اسلمی نے جواب دیا۔” میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں۔ “ چناچہ آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا اور نہیں رجم کردیا گیا۔- اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوآدمیوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ اس شخص کو ذرا دیکھو، اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا لیکن اس نے اپنی جان خود گنوائی اور کتے کی طرح سنگسار ہوا۔ آپ یہ سن کر خاموش رہے پھر گھڑی بھر کے لئے اٹھ کر چل پڑے۔ آپکا گزرا ایک مردہ گدھے کے پاس سے ہوا جس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فلاں فلاں شخص کہا ہیں ؟ “۔- ان دونوں نے عرض کیا کہ ہم یہاں موجود ہیں، آپ نے فرمایا : ” نیچے اترو اور اس مردہ گدھے کا گوشت کھائو۔ “ انہوں نے حیران ہوکر عرض کیا :” اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ اس کا گوشت کون کھا سکتا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا : ابھی تم نے اپنے بھائی کی عزت وابرو کو جو ٹھیس پہنچائی ہے وہ اس مردہ گدھے کا گوشت کھانے سے بھی بدتر ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمہارا بھائی اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لے لے کر نہا رہا ہے۔ “- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں یزید بن مرہ نے 213 ھ میں، انہیں ابن عون نے کہ کچھ لوگ ابن سیرین کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اگر ہم کوئی ایسی بات کہیں جس سے آپ کی عزت وآبرو کو ٹھیس پہنچے تو آپ ہمارے لیے اس کی حلت کردیجئے۔ ابن سیرین نے یہ سن کر کہا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے میں اسے حلال نہیں کرسکتا۔- الربیع بن صبیح نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حسن بصری سے کہا۔” ابوسعید میں ایک بڑی ناپسندیدہ بات دیکھ رہا ہوں۔ “ انہوں نے کہا ” کون سی بات “۔ وہ شخص کہنے لگا کہ ” میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ آپ کی مجلس میں آتے ہیں اور آپ کی گری پڑی باتیں یاد کرلیتے ہیں، پھر آپ کی نقل اتارتے ہیں اور آپ کی عیب جوئی کرتے ہیں۔- زبان خلق سے بچنا محال ہے - حضرت حسن بصری یہ سن کر فرمانے لگے :” بھتیجے اس بات کا تم زیادہ اثر قبول نہ کرو، آئو میں تمہیں اس سے بڑھ کر عجیب بات سنائوں۔ “ اس شخص نے عرض کیا : ” چچا جان وہ کون سی بات ہے ؟ “ حسن بصری نے جواب دیا :” میں نے اپنے نفس کو اللہ کی ذات کے جوار ، جنت کے دخول ، جہنم کی آگ سے نجات اور انبیاء کرام کی صحبت اور رفاقت کی توقع تو دلائی ہے لیکن میں نے اسے لوگوں سے محفوظ رہنے کی کبھی توقع نہیں دلائی ہے۔- اس لئے کہ اگر لوگوں سے کوئی شخص محفوظ رہ سکتا تو یقینا ان کا خالق بھی ان سے محفوظ رہتا جس نے انہیں پیدا کیا۔ جب خالق محفوظ نہیں مخلوق بطریق اولیٰ محفوظ نہیں رہ سکتی۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں الحارث بن ابی اسامہ نے، انہیں دائود بن المجبر نے انہیں عنبسہ بن عبدالرحمن نے، انہیں خالد بن یزید الیمامی نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کفارۃ الاغتیاب ان تستغفرلمن اغتبتسہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم نے جس کی غیبت کی ہے اس کی بخشش کی دعامانگو۔ )- قول باری ہے (ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ۔ کیا تم میں سے کوئی یہ گوارا کرلے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، اس سے ضرور تمہیں کراہت آتی ہے) اس میں کئی وجوہ سے غیبت کی قباحت کی تاکید اور اس سے باز رہنے کی تلقین ہے۔- اول یہ کہ انسان کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اسی طرح غیبت بھی حرام ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان فطری طور پر انسان کا گوشت کھانے سے نفرت کرتا ہے اس لئے لوگوں کے نزدیک غیبت کی بھی یہی حیثیت ہونی چاہیے اور عقلی جہت سے غیبت سے پرہیز لازم ہونا چاہیے۔ کیونکہ عقلی اسباب کی پیروی طبعی اسباب کی پیروی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے صرف مردہ انسان کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے بھائی قرار دیا اس میں غیبت کی قباحت اجاگر کرنے اور اس سے باز رہنے کی تلقین کے انداز بیان میں زیادہ بلاغت موجود ہے یہ سب کچھ اس مسلمان کی غیبت کرنے کے بارے میں ہے جس کی ظاہری حالت اس کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہو اور ا س سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہوئی ہو جو اس کی تفسیق کی موجب بنتی ہو۔ ایسے مسلمان کے قاذف کی تکذیب بھی ہم پر واجب ہے۔- لیکن مقذوف اگر فاسق اور عیب زدہ ہو تو اس صورت میں اس کے قبیح افعال کا ذکر ممنوع نہیں ہے اور سننے والے پر قائل کی نکیر بھی واجب نہیں ہے۔ فاسق اور عیب زدہ انسان کا ایسے انداز میں تذکرہ جو اسے پسند نہ ہو دو طرح سے ہوسکتا ہے۔- ایک تو یہ کہ اس کے قبیح افعال کا ذکر کیا جائے دوسرے یہ کہ اس کی شکل وشباہت کے بھدے پن کا جو جسمانی طور پر اس کے اندر موجود ہو تذکرہ کیا جائے۔ اور اس کے ذریعے اس کی کمینگی اور پستی کا اظہار مقصود ہو۔ اس کی مذمت اور اس کے صانع یعنی اللہ تعالیٰ پر نکتہ چینی مقصود نہ ہو جیسا کہ ہم نے حسن بصری کے وہ الفاظ نقل کیے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے حجاج کی بدصورتی اور اس کے جسمانی نقائص کا ذکر کیا تھا۔- اگر کسی قوم اور برادری کے بعض نقائص اور عیوب کی اجمالی انداز میں نشاندہی کی جائے تو اس کا جواز ہوتا ہے ۔ لیکن متعین شخص کے بارے میں یہ نشاندہی غیبت کے ذیل میں آتی ہے جس کی ممانعت ہے۔ اگر صورت حال کی وضاحت کے لئے کسی عیب یا نقص کی عمومی انداز میں نشاندہی کی جائے تو یہ غیبت کے ذیل میں نہیں آئے گی۔- جس طرح ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے اس عورت کو دیکھ بھی لیا ہے کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ یعنی ان کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ غیبت کے ذیل میں نہیں آتے کیونکہ اس میں صورت حال کی وضاحت مقصود تھی اس کے برعکس حضرت عائشہ (رض) نے جب ایک شخص کے قد کی پستی کا ذکر کیا جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک روایت میں ذکر کر آئے ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے غیبت شمار کیا کیونکہ یہ بات اس کے ایک عیب کی نشاندہی کے طور پر کی گئی تھی۔- تعریف یعنی صورت حال کی وضاحت کے طور پر کہی گئی بات غیبت میں داخل نہیں ہوتی جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تمہاری جنگ ایک ایسی قوم سے نہ ہوجائے جن کے چہرے چوڑے ، کان چھوٹے اور ناک چپٹی ہوگی۔ چہرے ایسے ہوں گے گویا کہ زمین پر پڑی ہوئی ڈھالیں ہیں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ غیبت میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کے ذریعے صحابہ کے سامنے ایک قوم کی ساخت اور ان کی کیفیت کی وضاحت کی گئی ہے۔
اور اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔- یہ آیت دو صحابیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے اپنے ساتھی حضرت سلمان فارسی کی غیبت کی تھی اور حضرت اسامہ خادم رسول اکرم کے ساتھ بدگمانی کی تھی اور ان کا سراغ لگایا تھا کہ ان کے پاس کچھ چیز موجود ہے، جس کے بارے میں رسول اکرم نے ان کو دینے کا حکم دیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بدگمانی غیبت اور سراغ لگانے سے منع کردیا، یعنی اپنے بھائی کے آنے جانے کے بارے میں جو تم گمان کرتے ہو جیسا کہ اس مقام پر حضرت اسامہ کے بارے میں گمان کیا یہ گمان مت کرو۔- اور نہ کسی عیب کا کھوج لگاؤ اور نہ اس چیز کی تحقیق کرو جس کی حق تعالیٰ نے پردہ پوشی فرما دی ہے اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے جیسا کہ اس مقام پر حضرت سلمان فارسی کی غیبت کی ہے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس کو تم ضرور ناگوار اور حرام سمجھتے ہو، پس غیبت بھی اسی کے مشابہ ہے اسے بھی اسی طرح سمجھنا چاہیے۔ اور اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہو کہ کہیں کسی کی غیبت نہ کر بیٹھو۔- شان نزول : وَلَا يَغْتَبْ (الخ)- ابن منذر نے ابن جریح سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت حضرت سلمان فارسی کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے کھانا کھایا پھر سو گئے اور خراٹے لینے لگے تو ایک شخص نے ان کے کھانا کھانے اور ان کے سونے کا تذکرہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے۔
آیت ١٢ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ” اے اہل ِایمان زیادہ گمان کرنے سے بچو ‘ بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں “- کسی کے بارے میں خواہ مخواہ کوئی بات فرض کر کے یا کسی سنی سنائی بات کو بنیاد بنا کر کوئی برا گمان اپنے دل میں بٹھا لینا اور منفی رائے قائم کرلینا جبکہ متعلقہ شخص نے نہ تو ویسا کوئی اقدام کیا ہو اور نہ ہی اس کے عملی رویے سے ویسی کسی بات کی تصدیق ہوتی ہو ‘ یہ ہے اس گمان کی نوعیت جس سے یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ ایسے گمان کو بدگمانی یا سوئے ظن کہا جاتا ہے اور یہ بہتان اور تہمت کے زمرے میں آتا ہے۔- وَّلَا تَجَسَّسُوْا ” اور ایک دوسرے کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہا کرو “- عام طور پر ریاستی اور حکومتی سطح پر جاسوسی کے باقاعدہ محکمے بھی ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ضرورت کے تحت ایسا کوئی محکمہ ایک اسلامی حکومت کے تحت بھی قائم ہوسکتا ہے ‘ لیکن اس حوالے سے جو بات معیوب اور ممنوع ہے وہ افراد کی سطح پر ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں خواہ مخواہ کا تجسس ّہے۔ جیسے بعض لوگ عادتاً دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں رہتے ہیں اور ُ کرید کرید کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں گھر کے اندر کیا ہو رہا ہے ؟ فلاں دو بھائیوں کے معاملات کیا ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان میں کوئی جھگڑاوغیرہ نہیں ہوا ؟- وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ” اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ “- اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی غیر حاضری میں اس کی برائی بیان نہ کرے ‘ خواہ وہ برائی اس شخص میں بالفعل پائی بھی جاتی ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیبت کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے : (ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ ) ” تمہارا اپنے بھائی کا ذکر اس انداز سے کرنا جسے وہ ناپسند کرے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ” دیکھئے ‘ اگر میرے بھائی میں وہ برائی واقعتا پائی جاتی ہو جس کا میں ذکر کرتا ہوں (پھر بھی یہ غیبت ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ ‘ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہُ ) (١) ” اگر وہ برائی اس میں موجود ہے جس کا تم ذکر کر رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی ہے ‘ اور اگر وہ برائی اس میں موجود ہی نہیں تب تو تم نے اس پر بہتان لگا دیا۔ “- اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ” کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے ُ مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگا “- یعنی مردہ بھائی کے گوشت کھانے والی بات یا مثال سے تو تمہیں بہت گھن محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھو اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرتے ہو تو اخلاقی سطح پر یہ حرکت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ہی مترادف ہے۔ کیونکہ ایسی حرکت کا ارتکاب کر کے آپ اپنے بھائی کی عزت پر ایسی حالت میں حملہ کرتے ہیں جب وہ اس کا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ اگر تم اس کے سامنے اس کی برائی بیان کرتے تو وہ تمہارے الزامات کا ضرور جواب دیتا اور سو طرح سے اپنا دفاع کرتا۔ بہر حال کسی کی عدم موجودگی میں اسے برا بھلا کہنا ایسے ہے جیسے اس کی لاش آپ کے سامنے ہو اور آپ اس کی بوٹیاں نوچ رہے ہوں۔- وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ اللہ تو بہ کا بہت قبول فرمانے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ “- اس کے بعد اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے جو بہت اہم اور عظیم مضامین پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی نوٹ کرلیں کہ گزشتہ بارہ آیات میں اہل ایمان کو پانچ مرتبہ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا کے الفاظ میں مخاطب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پورے مکی قرآن میں یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا کا صیغہ گویا ہے ہی نہیں۔ بہر حال اب اس مدنی سورت میں بھی خطاب کا رخ نوع انسانی کی طرف پھیرا جا رہا ہے :
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :24 مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے : ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے ، مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو ۔ دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے ۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے ، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا ، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے ۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں ، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا ، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی ، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے ۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے ۔ اس سے آگے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھنا درست نہیں ہے ۔ چوتھی قوسم کا گمان جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرے ، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے ، یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں ۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوءِ ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں ۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کرلیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے ۔ حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہو سکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بد گمانی کے سوا نہیں ہے ۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے ، بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے ، بعض حالات میں ناگزیر ہے ، بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے ناجائز ہے ، اور بعض حالات میں بالکل ہی ناجائز ہے ۔ اسی بنا پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ گمان سے یا بدگمان سے مطلقاً پرہیز کرو ، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو ۔ پھر حکم کا منشا واضح کرنے کے لیے مزید بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ اس تنبیہ سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کبھی آدمی گمان کی بنا پر کوئی رائے قائم کر رہا ہو یا کسی اقدام کا فیصلہ کرنے لگے تو اسے اچھی طرح جانچ تول کر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ میں جو گمان کر رہا ہوں کہیں وہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیا فی الواقع اس گمان کی ضرورت ہے؟ کیا اس گمان کے لیے میرے پاس معقول وجوہ ہیں؟ کیا اس گمان کی بنا پر جو طرز عمل میں اختیار کر رہا ہوں وہ جائز ہے؟ یہ احتیاط لازماً ہر وہ شخص کرے گا جو خدا سے ڈرتا ہو ۔ اپنے گمان کو مطلق العنان بنا کر رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بے خوف اور آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہیں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :25 یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو ۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو ۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو ۔ یہ حرکت خواہ بد گمانی کی بنا پر کی جائے ، یا بد نیتی سے کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر کی جائے ، یا محض اپنا استعجاب ( ) دور کرنے کے لیے کی جائے ، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے ۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کرے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں ۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا ، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا ، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا ، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بد اخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا: یا معشر من امن بلسانہ ولم ید خل الایمان قلبہ لا تتبعوا عورات المسلمین فانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورتہ ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ ۔ ( ابوداؤد ) اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو ، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے ۔ حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم او کدت ان تفسدھم ۔ ( ابو داؤد ) ۔ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے ۔ ایک اور حدیث میں حضور کا ارشاد ہے : اذا ظننتم فلا تحققوا ( احکام القرآن للجصاص ) : جب کسی شخص کے متعلق تمہیں کوئی برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: من رأی عورۃ فسترھا کان کمن احیا موؤدۃ ( الجصاص ) : جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا ۔ تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے ۔ شریعت نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کر کے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے ، بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہو جائیں ۔ رہیں مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم ، وعظ و تلقین ، عوام کی اجتماعی تربیت ، اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گارہا تھا ۔ آپ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے ۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی ۔ آپ نے پکار کر کہا اے دشمن خدا ، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے ۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں ۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا ۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے ۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا ۔ ( مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخزائطی ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پتہ چلائے اور پھر انہیں پکڑے ۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ان الامیر اذا ابتغی الربیۃ فی الناس افسدھم ( ابوداؤد ) : حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ مخصوص حالات ہیں جن میں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو ۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کی کچھ علامات نمایاں نظر آ رہی ہوں اور اس کے متعلق یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کر سکتی ہے ۔ یا مثلاً کسی شخص کے ہاں کوئی شادی کا پیغام بھیجے ، یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے اس کے حالات کی تحقیق کر سکتا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :26 غیبت کی تعریف یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت جسے مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے ، اس میں حضور نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے : ذکرک اخاک بما یکرہ قیل افرأیت ان کان فی اخی ما اقول؟ قال ان کان فیہ ما تقول فقد اختنبتہ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتَّہٗ ۔ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو تو نے اس کی غیبت کی ، اور اگر اس میں وہ موجود نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا ۔ ایک دوسری روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ان رجلا سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما الغیبۃ؟ فقال ان تذکر من المرء مایکرہ ان یسمع ۔ قال یا رسول اللہ وان کان حقّا ؟ قال اذا قلت بَاطلاً فذٰلک البھتان ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو ۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے ۔ ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت ۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ و کنایہ میں ، بہر صورت حرام ہے ۔ اسی طرح یہ فعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد ، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے ۔ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رحم کی سزا دے دی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ اس شخص کو دیکھو ، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا ، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا ۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اسے کون کھائے گا ؟ فرمایا : فما نلتما من عِرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ ۔ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی ۔ اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے ، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو ، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو ، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے : ان من اربیٰ الربا الا ستطالۃ فی عرض المسلم بغیر حق ( ابوداؤد ) بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے ۔ اس ارشاد میں ناحق کی قید یہ بتاتی ہے کہ حق کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے ۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حق سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے ۔ ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر ، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھو اضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعوا الیٰ ما قال؟ تم لوگ کیا کہتے ہو ، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا ( ابو داؤد ) ۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے پیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی ، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے ، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں ۔ ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا ۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم ۔ انہوں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا ۔ آپ نے فرمایا معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں ۔ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے ۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی ۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا ۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّ شرّ الناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ ( اوترکہ ) الناس اتقاء فحشہ ۔ ‘’خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں ( بخاری و مسلم ) ۔ اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق بری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا ۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں اسے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے ۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبردار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے ۔ ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں ، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو ( بخاری و مسلم ) ۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگرچہ غیبت تھی ، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاء و محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ ایک صحیح ( یعنی شرعاً صحیح ) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو ۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں : 1 ) ۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے ۔ 2 ) ۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی برائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے ۔ 3 ) ۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جائے ۔ 4 ) ۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں ۔ مثلاً راویوں ، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے ، عدالتوں کو بے انصافی سے ، اور عوام یا طالبان علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے ۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو ، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو ، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو ، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے ۔ 5 ) ۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں ، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں ، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں ۔ 6 ) ۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، فتح الباری جلد 10 ، ص 362 ۔ شرح مسلم للنووی ، باب تحریم الغیبۃ ۔ ریاض الصالحین ، باب ما یباح من الغیبۃ ۔ احکام القرآن للجصاص و روح المعانی ، تفسیر آیہ ولا یغتب بعضکم بعضاً ) ۔ ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے ۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے ، جھوٹی ہو تو بہتان ہے ، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے ۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے ۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے ، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ما من امرئٍ یخذل امرءًا مسْلماً فی موضع تنتھک فیہ حرمتہ و ینتقص فیہ من عرضِہ الّا خذلہ اللہ تعالیٰ فی مواطن یحبّ فیھا نصرتہ ، وما من امریءٍ ینصر امرءًا مسْلماً فی موضع ینتقص فِیہ مِن عِرضہ وینتھک فیہِ مِنْ حرمتہ الّا نصرہ اللہ عز و جل فی مواطن یحب فیھا نصرتہ ( ابوداؤد ) ۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جا رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو ۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے ۔ رہا غیبت کرنے والا ، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے ، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے رک جائے ۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے ۔ اگر اس نے کسی مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے ۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے ۔ اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی ۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جبکہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو ، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے ، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتائے کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :27 اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کے انتہائی گھناؤنا ہونے کا تصور دلایا ہے ۔ مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے ، کجا کہ وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو ، اور انسان بھی کوئی اور نہیں خود اپنا بھائی ہو ۔ پھر اس تشبیہ کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے اور زیادہ مؤثر بنا دیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھ کر خود فیصلہ کرے کہ آیا وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں ہے اور اس کی فطرت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ کیسے یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے ایک مومن بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اور جہاں اس کو یہ خبر تک نہیں ہے کہ اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے؟ اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو ، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجائے خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے ۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ۔ مردہ بے چارہ تو اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے ۔ مگر یہ فعل بجائے خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے ۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بے خبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا ۔ اس بے خبری کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی ، مگر اس کی عزت پر بہرحال اس سے حرف آئے گا ، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے ۔
6: یعنی کسی کے خلاف تحقیق کے بغیر بدگمانی دل میں جما لینا گناہ ہے۔ 7: کسی دوسرے کے عیب تلاش کرنے کے لیے اس کی ٹوہ اور جستجو میں لگنا بھی اس آیت کی رو سے گناہ ہے۔ البتہ کوئی حاکم مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے تفتیش کرے تو وہ اس میں داخل نہیں ہے۔ 8: غیبت کی تعریف ایک حدیث میں خود حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ : تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو جو اسے ناگوار ہو۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تو (کیا اس کا بیان کرنا بھی غیبت ہے) آپ نے فرمایا : کہ اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تب تو وہ غیبت ہے اور اگر وہ نہ ہو تو بہتان ہے، یعنی وہ دہرا گناہ ہے۔