نسل انسانی کا نکتہ آغاز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے یعنی حضرت آدم سے ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی ۔ شعوب قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو شعوب میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے بعض کہتے ہیں شعوب سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں ۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو اسباط کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابو عمر بن عبداللہ کی کتاب الانباہ اور کتاب القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم سے جمع کیا ہے مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے ۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلفیوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے پھر فرمایا حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت ، تقویٰ اور پرہیز گاری سے ملتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو ۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں ۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں کتاب الاحکام میں ذکر کر چکے ہیں فالحمد اللہ ۔ طبرانی میں حضرت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں پس فرمایا تیرے سوا میں بھی بہت زیادہ قریب ہوں ان سے بہ نسبت تیرے جو تجھے آپ سے نسبت ہے ۔
13۔ 1 یعنی آدم وحوا (علیہما السلام) سے یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی مان باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہی جا کر ملتا ہے۔ 13۔ 2 شعوب شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کرسکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بدقسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔ 13۔ 3 یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقوی ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر۔
[٢٢] اقوام کی لڑائی جھگڑوں کی بنیاد اور ان کا سد باب :۔ موجودہ دور میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ خدا یا معبود بنا لئے گئے ہیں۔ انہی میں سے کسی کو بنیاد قرار دے کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جو آپس میں ہر وقت متحارب اور ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ کسی کو قومیت پر ناز ہے کہ وہ مثلاً جرمن یا انگریز قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی سفید رنگ کی نسل ہونے پر فخر کرتا ہے۔ کوئی سید اور فاروقی یا صدیقی ہونے پر ناز کرتا ہے۔ گویا ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ حالانکہ سب انسان ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ یہ آیت ایسے معبودوں یا بالفاظ دیگر فتنہ و فساد اور لامتناہی جنگوں کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔- خ برتری کی بنیاد صرف تقویٰ ہے :۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو تمہارے قبیلے اور قومیں اس لئے بنائے تھے کہ تم ایک دوسرے سے الگ الگ پہنچانے جاسکو، مثلاً دو شخصوں کا نام زید ہے اور دونوں کے باپ کا نام بکر ہے۔ تو الگ الگ قبیلہ یا برادری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان میں امتیاز ہوجائے، لیکن تم نے یہ کیا ظلم ڈھایا کہ ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنالیا۔ کوئی نسل کی بنیاد پر شریف اور اعلیٰ درجہ کا انسان بن بیٹھا اور دوسروں کو حقیر، کمینہ اور ذلیل سمجھنے لگا تو کوئی قوم اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر بڑا بن بیٹھا ہے۔ ان سب چیزوں کے بجائے اللہ تعالیٰ نے عزوشرف کا معیار تقویٰ قرار دیا۔ یعنی جتنا کوئی شخص گناہوں سے بچنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوگا۔ اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک معزز و محترم ہوگا۔ اسی مضمون کو رسول اللہ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں، جو نہایت اہم دستوری دفعات پر مشتمل تھا، یوں بیان فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ کیونکہ تم سبھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔
(١) یایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی : پچھلی آیت میں جن چھ گناہوں سے منع فرمایا ان کا بنیادی سبب اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھنا ہے۔ جاہلیت میں اپنے قبیلے کی خوبیوں پر فخر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی بیماری عام تھی۔ اس کی وجہ سے ہر قبیلے کے شاعر اور خطیب اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے قبیلے کو استہزاء تمسخر اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ، اس کے لئے وہ ان کے عیب تلاش کرتے، جاسوسی کرتے، غیبت، بہتان اور ہجو کا بازار گرم رکھتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے کئی قبیلوں کو بالکل ہی لوگوں کی نگاہوں سے گرا دیا۔ دنیا میں اپنی برتری پر فخر کا باعث کسی خاص قبیلے یا قوم میں پیدا ہونا ہی نہیں رہا، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کو اپنے لئے باعث فخر اور دوسروں پر برتری کی دلیل قرار دیا گیا۔ چناچہ رنگ و نسل، وطن اور زبان کی بنا پر نوع انسان تقسیم ہوئی اور ہر طبقے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور دوسروں کو حقیر قرار دیا، جس کے نتیجے میں بیشمار جنگیں ہوئیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔ وطن سے بےوطن ہوئے، غربت، بیماری اور بےآبروئی کا نشانہ بنے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں ” یایھا الذین امنوا “ کے ساتھ خطاب کے بعد یہاں تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ” یایھا الناس “ کہ اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا علیہما السلام) سے پیدا کیا ہے، اس لئے انسان ہونے میں تم سب برابر ہ۔ کسی خاص قوم، قبیلے یا ملک میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں، کیونکہ اصل سب کی ایک ہے۔ پھر کسی قوم، ملک یا قیبلے میں پیدا ہونے یا کسی رنگ یا زبان والاہونے میں کسی کا اپنا کوئی دخل یا اختیار نہیں، یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لئے ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت یا عطیہ تو ہوسکتی ہے، جس پر اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، مگر دوسروں پر برتری کا باعث نہیں ہوسکتی، کیونکہ برتری اس چیز میں کامیابی کی بدولت حاصل ہوتی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور وہ ہے اللہ کا تقویٰ ۔ اس لئے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ اس کے بغیر کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر یا آزاد کو غلام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ہاں تقویٰ کے ساتھ فضیلت کی کوئی اور جہ بھی جمع ہوجائے تو اسے برتری حاصل ہوگی، جیسے کسی کو متقی ہونے کیساتھ قریشی یا ہاشمی ہونے کا شرف بھی حاصل ہو، یا ایسی قوم کا فرد ہونے کا جو شجاعت یا ذہانت یا کسی اور خبوی میں معروف ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دو آدمی قرآن کی قرأت میں برابر ہوں تو امامت کے وقت ان میں سے بڑی عمر والے کو جوان پر مقدم کیا جائے گا۔- (٢) وجعلنکم شعوباً و قبآئل :” شعوباً “ ” شعب “ (شین کے فتحہ کے ستاھ) کی جمع ہے، بہت بڑا قبیلہ ، جیسے ربیعہ مضر، اوس اور خزرج وغیرہ ۔ یہ ان چھ طبقوں میں سب سے پہلا طبقہ ہے جن میں عرب تقسیم ہوتے ہیں۔ وہ چھ طبقے یہ ہیں۔ (١) شعب (٢) قبیلہ (٣) عمارہ (٤) بطن (٥) فخذ (٦) فصیلہ۔ شعب میں کئی قبائل ہوتے ہیں، قبیلہ میں کئی عمائر، عمارہ میں کئی بطون، بطن میں کئی افخاذ، اور فخذ میں کئی فصائل ہوتے ہیں۔ چناچہ عرب میں خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ، قریش عمارہ، قصی بطن، ہاشم فخذ اور عباس فصلیہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک لفظ دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ شعب کا معنی شاخ ہے، اسے شعب اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان سے قبائل کی شاخیں نلکتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان چھ طبقوں میں سے تین کا ذکر آیا ہے، دو کا اس آیت میں اور ایک کا سورة معارج میں، فرمایا :(وفصیلتہ التی تسویہ) (المعارج : ١٣)” اور اپنے خاندان کو جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ “ (قرطبی و شنقیطی)- (٣) لتعارفوا : یعنی قوموں، قبیلوں یا خاندانوں میں تقسیم کا مطلب کسی کی برتری نہیں، بلکہ ہم نے یہ تقسیم تمہاری ایک دوسرے سے پہچان کے لئے بنائی ہے۔ مثلاً عبداللہ نا مکہ کئی آدمی ہیں، ان میں سے ایک کی تعیین قریشی، اس کے بعد ہاشمی اور اس کے بعد عباسیکے ساتھ ہوسکتی ہے۔ اس پہچان ہی کے ذریعے سے آدمی اپنی رشتہ داری سے آگاہ ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا اور صلہ رحمی کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(تعلموا من انسابکم ماتصلون بہ ارحامکم ، فان صلہ الرحیم مجۃ فی الاھل مثراۃ فی المال ، منساہ “ فی الائر) (ترمذی، البروالصلہۃ باب ماجاء فی تعلیم النسب :1989 ء عن ابی ہریرہ (رض) وقال الالبانی صحیح) (” اپنے نسب سیکھو، جن کے ذریعے سے تم اپنی رشتہ داریاں ملاؤ ، کیونکہ رشتہ داری کو ملانا رشتہ داروں میں محبت، خ مال میں ثروت اور زندگی میں اضافے کا باعث ہے۔ “- (٤) ان اکرمکم عند اللہ ا تقکم : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ قد اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ وفخر ھا بالاباء مومن تقی وفاجر شقی انتم بنو آدم و آدم من تراب لیدعن رجال فخرھم ب اقوام انما ھم فحم من فحم جھنم، اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان التی تدفع بانفھا النن) (ابو داؤد، الادب، باب فی التفاخر بالاحساب :5116، عن ابی ھریۃ (رض) وقال الالبانی صحیح)” اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اس کے آباؤ اجداد پر فخر کو ختم کردیا ہے۔ (آدمی دو ہی قسم کے ہیں) متوقی مومن ہے یا بدبخت فاجر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے۔ کچھ آدمی ایسے لوگوں پر اپنا فخر ترک کردیں گے جو جہنم کے کوئلوں میں سے محض ایک کوئلہ ہیں، یا پھر وہ (فخر کرنے والے) اللہ تعالیٰ کے سامنے پاخانے کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے، جو گندگی کو اپنی ناک کے ساتھ دھکیلتے رہتے ہیں۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا :(ای الناس اکرم ؟ )” لوگوں میں سب سے عزت والا کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اکرمھم عند اللہ اتقاھم)” ان میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ فرمایا :(فاکرم الناس یوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن خلیل اللہ)” تو سب سے زیادہ عزت والے یوسف (علیہ السلام) ہیں جو اللہ کے نبی ہیں، نبی کے بیٹے ہیں، دادا بھی نبی ہے اور پردادا اللہ کا خلیل ہے۔ “ انہوں نے کہا :” ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فعن معادن العرب تسالونی ؟ )” تو پھر تم مجھ سے عرب کے خاندانوں کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا :” جی ہاں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فخیار کم فی الجھلیۃ خیرکم فی الاسلام اذا فقھوا) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(لقد کان فی یوسف واخوتہ…): ٧٢٨٩)” تو جاہلیت میں جو تم میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں تم سب سے بہتر ہیں، جب وہ (دین کی) سمجھ حاصل کرلیں۔ “ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ مجھے اس صحابی نے بیان کیا جس نے ایام تشریق کے درمیان والے دن میں رسول اللہ ں کا خطبہ سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد، وان اباکم واحد، الا لافضل لعربی علی اعجمی، ولا لعجمی علی عربی ، ولا لاحمر علی اسود، ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ ) (مسند احمد : ٥ ٧١١، ح : ٢٣٣٨٩، قال شعیب الارنوط اسنادہ صحیح)” اے لوگو سن لو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ سن لو نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر ، مگر تقویٰ کی بنا پر۔ “ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ لاینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم) (مسلم البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم…: ٣٣ ٢٥٦٣)” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہاری مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔ “ عیاض بن حمار مجاشعی (رض) نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(وان اللہ اوخی الی ان تواضعوا حتی لا یفخر احد علی احد ولا یبغی احد علی احد) (مسلم، الجنۃ وصفۃ تعیمھا، باب ال صفات التی یعرف بھا…: ٦٣ ٢٨٦٥)” اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ آپس میں تواضح اختیار کرو، حتی کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔- (٥) اہل علم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح میں کفو (جوڑ) ہونے کے لئے اسلام کے علاوہ کوئی شرط معتبر نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت حجش (رض) کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ (رض) سے کردیا۔ اس لیء یہ جو مشہور ہے کہ سید لڑکی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہوسکتا، درست نہیں۔ ویسے فاطمہ (رض) کی اولاد کو لفظ ” سید “ کے ساتھ خاص کرنا بھی محض رواج ہے۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا ہونے کے باوجود ابولہب جہنمی ہے اور غلام ہونے کے باوجود بلال (رض) کے جوتوں کی آواز جنت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے (بطور خادم) سنائی دے رہی ہے اور جابر (رض) نے بیان کیا کہ عمر (رض) فرمایا کرتے تھے :(ابوبکر سیدنا، واعتق سیدنا یعنی بلالاً ) (بخاری، فضائل، اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باب مناقب بلال بن رباح…: ٣٨٥٣)” ابوبکر ہمارا سید ہے اور اس نے ہمارے سید بلال کو آزاد کیا۔ “- (٦) ان الہر علیم خبیر : یعنی اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے اولا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کے دل میں تقویٰ زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اسے سب سے زیادہ معزز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تو جب کسی کو دلوں کا حال معلوم ہی نہیں تو کوئی کسی پر فخر کیسے کرسکتا ہے اور کسی کو حقیر کیوں جانتا ہے ؟
خلاصہ تفسیر - اے لوگو ہم نے (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت (یعنی آدم و حوا) سے پیدا کیا ( اس لئے اس میں تو سب انسان برابر ہیں) اور (پھر جس بات میں فرق رکھا ہے کہ) تم کو مختلف قومیں اور (پھر ان قوموں میں) مختلف خاندان بنایا (یہ محض اس لئے) تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو (جس میں بہت سی مصلحتیں ہیں نہ اس لئے کہ ایک دوسرے پر تفاخر کرو کیونکہ) اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو (اور پرہیزگاری ایسی چیز ہے جس کا پورا حال کسی کو معلوم نہیں بلکہ اس کے حال کو محض) اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پورا خبردار ہے ( اس لئے کسی نسب اور قومیت پر فخر نہ کرو)- معارف و مسائل - اوپر کی آیات میں انسانی اور اسلامی حقوق اور آداب معاشرت کی تعلیم کے سلسلے میں چھ چیزوں کو حرام و ممنوع کیا گیا ہے جو باہمی منافرت اور عداوت کا سبب ہوتی ہیں۔ اس آیت میں ایک جامع تعلیم انسانی مساوات کی ہے کہ کوئی انسان دوسرے کو کمتر یا رذیل نہ سمجھے اور اپنے نسب اور خاندان یا مال و دولت وغیرہ کی بنا پر فخر نہ کرے کیونکہ یہ چیزیں درحقیقت تفاخر کی ہیں نہیں، پھر اس تفاخر سے باہمی منافرت اور عداوت کی بنیادیں پڑتی ہیں اس لئے فرمایا کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں اور خاندان اور قبائل یا مال و دولت کے اعتبار سے جو فرق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ تفاخر کے لئے نہیں بلکہ تعارف کے لئے ہے۔- شان نزول :- یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال حبشی (رض) کو اذان کا حکم دیا تو قریش مکہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میرے والد پہلے ہی وفات پا گئے ان کو یہ روز بد دیکھنا نہیں پڑا اور حارث بن ہشام نے کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کالے کوے کے سوا کوئی آدمی نہیں جڑا کہ جو مسجد حرام میں اذان دے۔ ابوسفیان بولے کہ میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمانوں کا مالک ان کو خبر کر دے گا، چناچہ جبرئیل امین تشریف لائے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تمام گفتگو کی اطلاع دی، آپ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا انہوں نے اقرار کرلیا اسی پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے بتلایا کہ فخر و عزت کی چیز درحقیقت ایمان اور تقویٰ ہے جس سے تم لوگ خالی اور حضرت بلال آراستہ ہیں اس لئے وہ تم سب سے افضل و اشرف ہیں (مظہری عن البغوی) - حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف فرمایا (تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں) طواف سے فارغ ہو کر آپ نے یہ خطبہ دیا۔- الحمد للہ الذی اذھب عنکم عبیة الجاھلیة وتکبرھا۔ الناس رجلان بر تقی کریم علی اللہ و فاجر شقی ھین علی اللہ ثم تلا۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ لآیتہ (ترمذی و بغوی)- شکر ہے اللہ کا جس نے فخر جاہلیت کو اور اس کے تکبر کو تم سے دور کردیا، اب تمام انسانوں کی صرف دو قسمیں ہیں ایک نیک اور متقی وہ اللہ کے نزدیک شریف اور محترم ہے، دوسرا فاجر شقی وہ اللہ کے نزدیک ذلیل و حقیر ہے اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی جو اوپر مذکور ہے - حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک عزت مال و دولت کا نام ہے اور اللہ کے نزدیک تقویٰ کا۔- شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ ، شعوب، شعب کی جمع ہے بہت بڑی جماعت کو شعب کہتے ہیں جو کسی ایک اصل پر مجتمع ہوں پھر ان میں مختلف قبائل اور خاندان ہوتے ہیں، پھر خاندانوں میں بھی بڑے خاندان اور اس کے مختلف حصوں کے عربی زبان میں الگ الگ نام ہیں، سب سے بڑا حصہ شعب اور سب سے چھوٹا حصہ عشیرہ کہلاتا ہے او ابورواق کا قول ہے کہ شعب اور شعوب عجمی قوموں کے لئے بولا جاتا ہے جس کے انساب محفوظ نہیں اور قبائل عرب کے لوگوں کے لئے جن کے انساب محفوظ چلے آتے ہیں اور اسباط بنی اسرائیل کے لئے۔- نسبی اور وطنی یا لسانی امتیاز میں حکمت و مصلحت تعارف کی ہے :- قرآن کریم نے اس آیت میں واضح کردیا کہ حق تعالیٰ نے اگرچہ سب انسانوں کو ایک ہی باپ اور ماں سے پیدا کر کے سب کو بھائی بھائی بنادیا ہے مگر پھر اس کی تقسیم مختلف قوموں قبیلوں میں جو حق تعالیٰ ہی نے فرمائی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا تعارف اور شناخت آسان ہوجائے مثلاً ایک نام کے دو شخص ہیں تو خاندان کے تفاوت میں ان میں امتیاز ہوسکتا ہے اور اس سے دور اور قریب کے رشتوں کا علم ہوسکتا ہے اور نسبی قرب و بعد کی مقدار پر ان کے حقوق شرعیہ ادا کئے جاتے ہیں۔ عصبات کا قرب و بعد معلوم ہوتا ہے جس کی ضرورت تقسیم میراث میں پیش آتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نسبی تفاوت کو تعارف کیلئے استعمال کرو تفاخر کے لئے نہیں۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ٠ ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ١٣- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة .- ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر :- ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال :- ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب :- فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط .- ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات .- ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً- [ مریم 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ .- ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- شعب - الشِّعْبُ : القبیلة المتشعّبة من حيّ واحد، وجمعه : شُعُوبٌ ، قال تعالی: شُعُوباً وَقَبائِلَ- [ الحجرات 13] ، والشِّعْبُ من الوادي : ما اجتمع منه طرف وتفرّق طرف، فإذا نظرت إليه من الجانب الذي تفرّق أخذت في وهمک واحدا يتفرّق، وإذا نظرت من جانب الاجتماع أخذت في وهمک اثنین اجتمعا، فلذلک قيل : شَعِبْتَ الشیء : إذا جمعته، وشَعِبْتُهُ إذا فرّقته وشُعَيْبٌ تصغیر شعب الذي هو مصدر، أو الذي هو اسم، أو تصغیر شعب، والشَّعِيبُ : المزادة الخلق التي قد أصلحت وجمعت . وقوله : إِلى ظِلٍّ ذِي ثَلاثِ شُعَبٍ [ المرسلات 30] ، يختصّ بما بعد هذا الکتاب .- ( ش ع ب ) الشعب اس قبیلہ کو کہتے ہیں جو ایک قوم سے پھیلا ہو اس کی جمع شعوب آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات 13] قومیں اور قبیلے ( بنائے ) اشعب من الودی ۔ وادی کا وہ مقام جہاں اس کا کنارہ ملتا اور دوسرا جدا ہوتا ہو جب تم اس جگہ کو دیکھو جہاں اس کا کنارہ جدا رہا ہے تو ایسا معلوم ہو کہ ایک چیز کے ٹکڑے ہو رہے ہیں اور جب اس سرے کو دیکھو جہاں دوسرا اس سے ملتا ہے تو ایسا محسوس ہو کہ دونوں سرے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شعب کے معنی جمع کرنا اور متفرق کرنا دونوں آتے ہیں اور شعیب یا تو شعب کی تصغیر ہے جو مصدر یا اسم ہے اور یا شعب کی ۔ الشعیب پرانی مشک جو مرمت اور درست کی گئی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ظِلٍّ ذِي ثَلاثِ شُعَبٍ [ المرسلات 30] اس سائے کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں ، کی تشریح اس کتاب کے بعد بیان ہوگی ۔- شعب سے قبیلے پھوٹتے ہیں پھر شاخ در شاخ سلسلہ کثرت سے قلت کی طرف چلا جاتا ہے۔ - عرب میں قبیلہ کی تدریجی تقسیم کثرت سے قلت کی طرف ترتیب حسب ذیل ہے :۔ (1) پہلے شعب، (2) پھر قبیلہ (3) پھر عمارہ (4) پھر بطن (5) پھر فخد (6) پھر فیصلہ۔ ابو اسامہ نے تصریح کی ہے کہ یہ طبقے انسانی خلقت کی ترتیب پر ہیں ۔ شعب ، سب سے عظیم تر ہے۔ شعب، الراس ( جہاں دماغ کے چاروں حصے جڑ تے ہیں سے مشتق ہے پھر قبیلہ اپنے اجتماع کی بنا پر قبیلۃ الراس ( کھوپری کا وہ حصہ جو شاخ در شاخ ہوتا ہے) سے پھر عمارۃ ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں۔ پھر بطن ( پیٹ) ہے پھر فخذ ( ران) ہے پھر فیصلہ ہے جس کے معنی پنڈلی کے ہیں۔ پھر عرب کے قبیلوں کی تقسیم یوں کی گئی ہے۔ شعب ( خزیمہ) ، قبیلہ ( کنانہ) عمارۃ ( قریش) ، بطن ( قصی) فخذ ( ہاشم) قبیلہ ( العباس) ۔- تعارف - والعَارِفُ في تَعَارُفِ قومٍ : هو المختصّ بمعرفة الله، ومعرفة ملکوته، وحسن معاملته تعالی، يقال : عَرَّفَهُ كذا . قال تعالی: عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ [ التحریم 3] ، وتَعَارَفُوا : عَرَفَ بعضهم بعضا . قال : لِتَعارَفُوا[ الحجرات 13] ، وقال : يَتَعارَفُونَ بَيْنَهُمْ [يونس 45] ، وعَرَّفَهُ : جعل له عَرْفاً. أي : ريحا طيّبا . قال في الجنّة : عَرَّفَها لَهُمْ [ محمد 6] ، أي : طيّبها وزيّنها لهم - اور ایک گروہ ( یعنی صوفیہ کرام ) کی اصطلاح میں عارف کا لفظ خاص کر اس شخص پر بولا جاتا ہے جسے عالم ملکوت اور ذات الہی اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کے متعلق خصوصی معرفت حاصل ہو ۔ عرفہ کذا فلاں نے اسے اس چیز کا تعارف کروا دیا ۔ قرآن پاک میں ہے عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ [ التحریم 3] تو پیغمبر نے کچھ بات تو بتادی اور کچھ نہ بتائی ۔ تعارفوا انہوں نے باہم ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ قرآن پاک میں ہے : لِتَعارَفُوا[ الحجرات 13] تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو ۔ يَتَعارَفُونَ بَيْنَهُمْ [يونس 45] آپس میں ایک دوسرے کو پٌہچان بھی لیں گے ۔ عرفہ کسی چیز کو خوشبودار کردیا معطر بنا دیا چناچہ جنت کے بارے میں عَرَّفَها لَهُمْ [ محمد 6] فرمایا ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کو خوشبو سے بسادیا ہے اور ان کیلئے آراستہ کر رکھا ہے اور بعض نے اس کے معنی توصیف کرنا ، شوق دلانا اور اس کی طرف رہنمائی کرنا بھی بیان کئے ہیں - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے - - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
قبیلے ، برادریاں محض تعارف کے لئے ہیں - قول باری ہے (انا خلقنا کم من ذکروانثیٰ وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ، ہم نے تم سب کو ایک مراد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو) مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ شعوب سے دور کی رشتہ داریاں مراد ہیں اور قبائل سے قریب کی رشتہ داریاں اس لئے کہا جاتا ہے ” بنو فلاں وفلاں “ (فلاں فلاں قبیلے)- قول باری ہے (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ بیشک تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے) اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ بیان کی تخلیق انسانیت کے ذکر سے ابتدا کی اور یہ بتایا کہ پوری انسانیت کی تخلیق ایک مرد اور ایک عورت یعنی حضرت آدم اور حضرت حوا سے شروع ہوئی۔ پھر اللہ نے اولاد آدم کی مختلف قومیں بنادیں جو نسبی لحاظ سے بکھری ہوئی تھیں۔ مثلاً عربی، ایرانی ، رومی اور ہندی وغیرہ مختلف قومیں۔ پھر ان قوموں سے مختلف قبائل وجود میں آئے۔- قبیلہ کا مفہوم قوم کے مفہوم کے مقابلہ میں اخص ہے۔ جیسے عرب کے قبائل اور عجم کی برادریاں اور قومیتیں وغیرہ۔ تاکہ ان کی نسبتوں کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی شناخت کی خاطر لوگوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بیان کرکے یہ وضاحت فرمادی کہ نسبی جہت سے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سب کے سب آدم اولاد ہیں۔ ان سب کا باپ اور ان کی ماں بھی ایک ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کے فعل کی بنا پر کسی دوسرے شخص کے لئے فضیلت کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت اس لئے کردی تاکہ نسب کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کا اظہار نہ کرسکیں۔ اس بات کی مزید تاکید قول باری (ان اکرمکم عند اللہ اثقاکم) کے ذریعے ہوگئی ۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ فضیلت اور رفعت کا استحقاق صرف اور صرف اللہ کی اطاعت اور تقویٰ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا : ” لوگو اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے تکبر اور غرور نیز آباء واجداد کی عظمت پر فخر کی بات ختم کردی ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے سوا کسی اور بات میں فضیلت حاصل نہیں ہے۔ “- حضرت ابن عباس (رض) اور عطاء کا قول ہے کہ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے سب سے اونچے گھرانے والا معزز تر نہیں ہے۔
اگلی آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے ایک شخص سے کہا تھا کہ تو فلاں کا لڑکا ہے اور کہا گیا ہے کہ حضرت بلال قریش کے ایک گروہ سہل بن عمرو حارث بن ہشام اور ابو سفیان بن حرب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، فتح مکہ کے سال ان لوگوں نے جب حضرت بلال کی اذان سنی تو یہ بولے کہ حق تعالیٰ اور اس کے رسول کو اس کے علاوہ کوئی موذن نہیں ملا، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک مرد و عورت یعنی آدم و حوا سے پیدا کیا ہے، پھر تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا یا یہ کہ پھر تمہیں غلام اور آزاد بنایا صرف اس لیے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو کہ جس وقت تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو جواب میں کہہ سکو کہ قریش سے ہوں یا کندہ وغیرہ سے۔- قیامت کے دن تو تم سب میں اللہ کے نزدیک بڑا شریف وہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو اور وہ حضرت بلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب و نسب کو اچھی طرح جاننے والا اور وہ وہی تمہارے اعمال اور اللہ کے نزدیک عزت والا ہونے سے پورا خبردار ہے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ (الخ)- ابن ابی حاتم نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت بلال خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اذان دی تو اس پر بعض لوگ کہنے لگے کیا یہ سیاہ غلام بیت اللہ کی چھت پر اذان دیتا ہے تو اس پر ان میں سے بعض نے کہا یہ اپنے علاوہ دوسرے سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کردے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔- اور ابن عساکر نے کہا ہے کہ میں نے ابن بشکوال کی تحریر میں پایا ہے کہ ابوبکر بن داؤد نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابی ہند کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اکرم نے بنی بیاضہ کو حکم دیا کہ اپنے میں سے کسی عورت کی ان سے شادی کردیں اس پر وہ لوگ بولے یا رسول اللہ ہم اپنی لڑکیوں کی اپنے غلاموں سے شادی کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١٣ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی ” اے لوگو ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے “- تم میں سے چاہے کوئی مومن ہے یا کوئی کافر و مشرک لیکن تم سب آدم ( علیہ السلام) اور حوا کی ہی اولاد ہو۔- وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ” اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ “- ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر اگر تمام انسان ایک رنگ اور ایک جیسی شکل و صورت کے حامل ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور پھر انہیں رنگ ‘ نسل زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ کروڑوں ‘ اربوں انسانوں کی پہچان اور تعارف میں کسی سطح پر کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ - یہاں دراصل اس اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کا فرق اوراقوام و قبائل میں ان کی تقسیم ‘ اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز و تفریق کے لیے نہیں بلکہ ان کی باہمی جان پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوادع میں اس مضمون کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی :- (یَا اَیُّھَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَ بَاکُمْ وَاحِدٌ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی ) (١)- ” لوگو آگاہ ہو جائو ‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ “- ایچ جی ویلز (١٨٦٦ ء۔ ١٩٤٦ ء) اپنی کتاب ” “ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ مبارک کے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد گھٹنے ٹیک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ چناچہ عیسائی ہونے کے باوجود اس نے لکھا ہے : - ” اگرچہ انسانی اخوت ‘ مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں ‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔ “- . . کے اس تبصرے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا مداح تھا ‘ بلکہ اس نے اپنی اسی کتاب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت پر بہت رکیک حملے بھی کیے ہیں۔ اس حوالے سے اس کا انداز سلمان رشدی ملعون سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن اپنے تمام تر تعصب کے باوجود اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے تاریخ کی یہ عظیم حقیقت تسلیم کرنا پڑی۔ مقامِ افسوس ہے کہ بعد کے ایڈیٹرز نے مصنف کے اس اعترافی بیان کو مذکورہ کتاب سے خارج کردیا ہے۔ اس لیے مذکورہ اقتباس کی تصدیق کے خواہش مند حضرات کو کسی لائبریری سے اس کتاب کا کوئی پرانا ایڈیشن تلاش کرنا پڑے گا۔- اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ ” یقینا تم میں سب سے زیادہ با عزت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہے۔ “- اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ” یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “
" سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :28 پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ۔ اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے ، یعنی نسل ، رنگ ، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا ، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے ۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں ۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان ، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے ، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو ، بلکہ اس تمیز نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں ۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں ۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں ۔ قوانین بنائے گئے ہیں ۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے ۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل كو خدا كی چیدا مخلوق ٹہرایا اور اپنے مذہبی احكام تك میں غیر اسرائیلیوں كے حقوق اور مرتبے كو بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا ۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی ، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے ، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا ۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے ۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان ، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں ، غلام بنائیں ، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے ، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے ، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی ۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو ۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو ۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو ، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں ۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو ، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا ۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا ۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں ۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ ، خد و خال ، زبانیں ، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے ، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا ۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ ، شریف اور کمین ، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں ، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے ، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں ، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے ، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو ۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی ۔ اسی طریقے سے ایک خاندان ، ایک برادری ، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک معاشرت بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے تھے ۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی ۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے ۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں ، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے ، ان کا مادہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے ، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے ۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو ۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا ، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل ، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے ۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا ، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں ۔ یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا: الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبرھا ۔ یاایھا الناس ، الناس رجلان ، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَ من ترابٍ ۔ ( بیہقی فی شعب الایمان ۔ ترمذی ) شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا ۔ لوگو ، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ ایک ، نیک اور پرہیز گار ، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے ۔ دوسرا فاجر اور شقی ، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا: یا ایھا الناس ، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقویٰ ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ۔ الا ھل بلغتُ؟ قالوا بلیٰ یا رسول اللہ ، قال فلیبلغ الشاھد الغائب ۔ ( بیہقی ) لوگو ، خبردار رہو ، تم سب کا خدا ایک ہے ۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے ۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ بتاؤ ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۔ فرمایا ، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں ۔ ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے : کلکم بنو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بآبائِھم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعلان ۔ ( بزار ) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے ۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم ۔ ( ابن جریر ) اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُورکم و اموالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ( مسلم ۔ ابن ماجہ ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں ، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے ۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے ۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے ۔ لیکن دراصل یہ ایک غلط خیال ہے ۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے ، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات ، خصائل ، طرز زندگی ، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں ۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے ۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بعد ہو وہاں عمر بھر کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے ، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے ، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :29 یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے ۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے ، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو ، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے ۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو ۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں ۔ "
9: اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقوی ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حواء علیہما السلام سے پیدا ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔