Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے ۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے جبرائیل علیہ السلام والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں ۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر حضرت سعد نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان ؟ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے حضرت سعد نے یہی کہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا اے سعد میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں ، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گر پڑیں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے پس اس حدیث میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہو گیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے ۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی کتاب الایمان کی شرح میں ذکر کر دیا ہے فالحمد للہ ۔ اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لئے کہ آپ نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کر دیا ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہو جانے کا ابھی سے دعویٰ کر دیا تھا اس لئے انہیں ادب سکھایا گیا ۔ حضرت ابن عباس اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے ( یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اسوقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ حضرت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کتاب الایمان میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے واللہ اعلم ۔ ( مترجم ) حضرت سعید بن جبیر ، حضرت مجاہد ، حضرت ابن زید فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم ( اسلمنا ) کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لئے تابع ہو گئے ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورہ برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا ۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اللہ اور اسی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا ۔ پھر فرمایا جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں ۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں ( ١ ) وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا ( ٢ ) وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا نہ یہ کسی کا مال ماریں نہ کسی کی جان لیں ( ٣ ) وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہدو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا ۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ۔ ( اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے ۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے ، مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں مترجم ) پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے وہ کہتے بیشک اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں بزار میں ہے کہ بنو اسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سمجھ بہت کم ہے شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے اور یہ آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17؀ ) 49- الحجرات:17 ) ، نازل ہوئی پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے الحمد اللہ سورہ حجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے ۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لیے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سے اسلام کا اظہار کیا تھا ان کے دل ایمان اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثبر کے نزدیک ان سے وہ اعراب مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا لیکن دعوی انہوں نے اپنی اصل حثییت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعوی صحیح نہیں آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] بدوی منافق قبائل کا اسلام کیسا تھا ؟ یہ بدوی وہی لوگ تھے جو قبیلہ غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے نفاق کی وجہ سے غزوہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے۔ تھے اور جب آپ اس غزوہ سے واپس آئے تو حیلے بہانے تراش کر اپنے لئے استغفار کی التجا کر رہے تھے۔ ان کا ذکر سورة احزاب کی آیت نمبر ١١ تا ١٦ میں گزر چکا ہے۔ یہ لوگ کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان تو ہوگئے تھے اور ارکان اسلام بھی بجا لاتے تھے۔ مگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ انہیں آسان اور میٹھا میٹھا اسلام تو گوارا تھا لیکن وہ اس کے لئے کوئی مالی یا جانی قربانی پیش کرنے یا مشکلات برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔- خ اسلام اور ایمان میں فرق :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز ہے۔ حدیث جبریل سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ جب جبریل نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں اور رسولوں کا یقین رکھے اور اس بات کا بھی کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے اور جب جبریل نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ : تو صرف اللہ کی عبادت کرے اور اس کا شریک نہ بنائے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سؤال جبریل النبی۔۔ )- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کا تعلق دل کے افعال سے ہے اور اسلام کا ظاہری اعمال سے۔ یہ ان میں فرق کا پہلو ہے اور مماثلت کا پہلو یہ ہے کہ اگر ارکان اسلام کو باقاعدہ اور خلوص نیت سے ادا کیا جائے تو اس سے ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایمان میں اضافہ سے ظاہری اعمال میں حسن پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے مؤید اور لازم و ملزوم بن جاتے ہیں۔ منافقوں میں کمی یہ ہوتی ہے کہ ان کے اعمال میں نہ خلوص ہوتا ہے اور نہ حسن عمل لہذا ان کا ایمان شہادتین کے اقرار سے آگے بڑھتا ہی نہیں یعنی ایمان یا یقین ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوتا۔ اسی بات کو اللہ نے ایمان نہ لانے کے مترادف قرار دیا ہے۔- [٢٤] یعنی اب بھی اگر تم اپنا رویہ درست کرلو اور دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگو تو اللہ تمہارے سابقہ اعمال کا اجر تمہیں دے دے گا۔ اس میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اور تمہاری سابقہ خطائیں بھی معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) قالت الاعراب :” الاعراب “ کی تشریح کیلئے دیکھیں سورة توبہ (٩٧) کی تفسیر۔ یہاں ” الاعراب “ پر الف لام جنس کا نہیں عہد کا ہے اور اس سے مراد تمام اعراب نہیں، کیونکہ ان میں کئی مخلص مومن بھی تھے۔ (دیکھیے توبہ : ٩٩) بلکہ مراد وہ بعض اعراب ہیں جو مدینہ کے گرد رہتے تھے اور اسلام کی قوت کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے تھے، دل میں تکذیب بھی نہیں تھی کہ انہیں منافق کہا جاسکے، مگر ابھی تک کچھ تردد باقی تھا اور ایمان و یقین پوری طرح دل میں داخل نہیں ہوا تھا، اس لئے یہ عمرہ حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے۔ ان کا ذکر اس سے پہلے سورة فتح کی آیت (١١):(سیقول لک المخلقون من الاعراب) میں بھی گزرا ہے۔- (٢) امنا : سورت کی ابتدا میں ان اعراب کا ذکر ہے کہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آداب اور اسلام کے دوسرے احکام سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان آداب و احکام کی تلقین فرمائی اور جاہلیت کے فخر و غرور اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں سے منع فرمایا۔ اس سلسلے میں واضح فرمایا کہ آدمی کو دوسروں پر فخر کا حق ہی نہیں، کیونکہ وہ عزت جو دوسروں پر برتری دلاتی ہے وہ صرف تقویٰ سے حاصل ہتوی ہے، جس کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال صرف علیم وخبیر جانتا ہے۔ یہاں سے ان اعربا کے کچھ دعوے ذکر فرما کر، جن سے ان کے فخر کا اظہار ہوتا تھا۔ ان کی تردید فرمائی۔ سب سے پہلے ان کے اس دعوے کا ذکر فرما کر کہ ہم ایمان لے ائٓے ہیں، اس کی نفی فرمائی۔ - (٣) قل لم یومنوا ولکن قولوا اسلمنا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عام طور پر ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں دل کا یقین اور ظاہری فرماں برداری دونوں شامل ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو عبدالقیس کو ایمان کی تشریح کرتے ہؤے بتایا کہ ایمان کلمہ شہادت ، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ” ان الذین عند اللہ الاسلام “ کہہ کر اپنی جناب میں معتبر دین اسلام کو قرار دیا اور ظاہر ہے وہاں وہی دین معتبر ہے جو دل کے یقین سے ہو صرف ظاہری امال تو وہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات اسلام سے مراد ظاہری احکام کی پابندی اور ایم ان سے مراد قلبی یقین ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے۔ یہاں بیھ ایسا ہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایمان سے مراد دلی یقین اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اسلام سے مراد دل سے مان لینا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا (فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام) (الانعام : ١٢٥)” تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدیات دے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ “ جس طرح بعض اوقات ایمان سے مراد صرف زبانی کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یایھا الذین امنوا امنوا باللہ و رسولہ) (النسائ : ١٣٦)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے) ایمان لے آؤ (یعنی دل سے مان لو۔ ) “ یہاں فرمایا : ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے) ایمان لے آؤ (یعنی دل سے مان لو۔ ) “ یہاں فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہ وہ کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ یعنی ہم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور اس کے ظاہری احکام پر عمل شروع کردیا ہے۔ یہاں الفاظ پر غور فرمائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” قل لم یومنوا ولکن اسلمتم “ ” ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ تم مسلم ہوگئے ہو۔ “ بلکہ فرمایا :(لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا)” تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے مومن ہونے کی نفی کے بعد ان کے مسلم ہونے کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا - کہ تم مسلم ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلم وہی تسلیم ہوسکتا ہے جو مومن بھی ہو۔ اس کے ہاں اگر کسی کے دل میں یقین نہیں تو ظاہری اعماال کا بھی کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں، ظاہری طور پر سالامی احکام کی پابندی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کا دعویٰ کرنے کی اجازت ہے۔- (٤) ولما یدخل الایمان فی قلوبکم :” اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، “ اس جملے سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اگرچہ پکے مومن نہیں تھے مگر منافق بھی تھے، کیونکہ وہ دل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا نہیں جانتے تھے۔ ان کے شک کی وجہ سے ان کے ایمان کی نفی کی گئی اور اگلی آیت میں مومن ان لوگوں کو قرار دیا جو ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہیں نہیں کیا۔ ” لما “ کے لفظ سے ظاہر ہے ہ اگرچہ وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، مگر آئندہ ان کے دلوں کے اندر ایمان داخل ہونے کی امید تھی۔- (٥) وان تطیعوا اللہ و رسولہ لایلتکم…:” لایلث “ اصل میں ” لایلث “ تھا،” ان تطیعوا “ شرط کا جواب ہونے کی وجہ سے تاء پر جزم آگئی، تویاء اور تاء دو ساکن جمع ہونے کی وجہ سے یاء گرگئی۔ ” لاٹ یلیت “ کسی کے حق میں کمی کرنا۔ یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے ان دونوں کی اطاعت کی شرط اول ان پر سچے دل سے ایمان و یقین رکھنا ہے۔ اس میں انہیں اخلاص و یقین کی ترغیب دلائی ہے، یعنی اسلام کے احکام پر ثواب کی امید بھی اس وقت ہوسکتی ہے جب ظاہر و باطن سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد اعمال کا پورا ثواب دینا اور اس میں کمی نہ کرنا صرف اللہ کا کام ہے، رسول کا نہیں۔ اس لئے ” لایلث “ واح کا صیغہ استعمال فرمایا۔- (٦) ان اللہ غفور رحیم : یعنی اطاعت کے بعد پہلی کوتاہیوں کو اللہ معاف کر دے گا، کیونکہ وہ گناہوں پر بےحد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ (بعضے) گنوار (بنی اسد وغیرہ کے آپ کے پاس آ کر جو ایمان لانے کے مدعی ہوتے ہیں یہ اس میں کئی گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں ایک تو کذب کہ بلا تصدیق قلب محض زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، آپ فرما دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے (کیونکہ وہ موقوف ہے، تصدیق قلبی پر، اور وہ موجود نہیں جیسا عنقریب آتا ہے (آیت) ولما یدخل الایمان) لیکن (ہاں) یوں کہو کہ (ہم مخالفت چھوڑ کر) مطیع ہوگئے (اور اطاعت بمعنی ترک مخالفت محض ظاہری موافقت سے بھی متحقق ہوجاتی ہے) اور (باقی) ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ( اس لئے ایمان کا دعویٰ مت کرو) اور (گو اب تک تم ایمان نہیں لائے لیکن اب بھی) اگر تم اللہ و رسول کا (سب باتوں میں) کہنا مان لو (جس میں یہ بھی داخل ہے کہ دل سے ایمان لے آؤ) تو اللہ تمہارے اعمال میں سے ( جو کہ بعد ایمان کے ہوں گے محض اس وقت کے کفر و کذب کی وجہ سے جو کہ اس وقت کے اعتبار سے گزشتہ ہوگا) ذرا بھی کم نہ کرے گا (بلکہ سب کا پورا پورا ثواب دے گا کیونکہ) بیشک اللہ غفور رحیم ہے (اب ہم سے سنو کہ کامل مومن کون ہیں تاکہ اگر تم کو مومن بننا ہے تو ویسے بنو سو) پورے مومن وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر (ایمان پر مستمر بھی رہے یعنی عمر بھر کبھی) شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستہ میں (یعنی دین کے لئے) محنت اٹھائی (جس میں جہاد وغیرہ سب آ گیا سو) یہ لوگ ہیں سچے (یعنی پورے سچے اور یوں اگر صرف تصدیق ہی ہو تب بھی نفس صدق ہوجائے گا، بخلاف تمہارے کہ ادنیٰ درجہ کا ایمان کہ تصدیق ہے وہ تک حاصل نہیں اور دعویٰ کرتے ہیں ایمان کامل کا، پس ایک امر قبیح تو ان سے یہ صادر ہوا یعنی کذب کماقال تعالیٰ (آیت) ومن الناس من یقول امنا الی قولہ ماھم بمومنین، اور دوسرا امر قبیح یہ ہے کہ یہ دھوکہ دیتے ہیں کماقال تعالیٰ (یخدعون اللہ سو) آپ (ان سے) فرما دیجئے کہ کیا خدا تعالیٰ کو اپنے دین (قبول کرنے) کی خبر دیتے ہو (یعنی اللہ تعالیٰ تو جانتے ہیں کہ تم نے ایمان قبول نہیں کیا باوجود اس کے جو تم دعوے قبول کرنے کا کرتے ہو تو لازم آتا ہے کہ خلاف علم خداوندی خدا تعالیٰ کو ایک بات بتلاتے ہو) حالانکہ (یہ محال ہے کیونکہ) اللہ کو تو سب آسمان اور زمین کی سب چیزوں کی (پوری) خبر ہے اور (علاوہ سمٰوٰت والارض کے) اللہ (اور بھی) سب چیزوں کو جانتا ہے (تو اس کو کوئی کیا بتلاوے گا اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو جو تمہارے متعلق علم ہے کہ تم ایمان نہیں لائے وہی صحیح ہے اور تیسرا امر قبیح جس کے یہ مرتکب ہوتے ہیں یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے اسلام لانے کا آپ پر احسان رکھتے ہیں ( جو نہایت درجہ گستاخی ہے کہ دیکھئے ہم نے لڑے نہ بھڑے مسلمان ہوگئے اور دوسرے لوگ بہت پریشان کر کر کے مسلمان ہوئے ہیں سو) آپ کہہ دیجئے کہ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ رکھو ( اس لئے کہ قطع نظر گستاخی کے تمہارے اسلام سے میرا کیا نفع ہوگیا اور اسلام نہ لانے سے میرا کیا ضرر ہوگیا اگر تم سچے ہوتے تو تمہاری ہی آخرت کا نفع تھا اور جھوٹے ہونے میں بھی تمہارا ہی دنیا کا نفع ہے کہ قتل و قید سے بچ گئے سو مجھ سے احسان رکھنا محض جہل ہے) بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تم کو ایمان کی ہدایت دی بشرطیکہ تم (اس دعویٰ ایمان میں) بچے ہو (کیونکہ ایمان بڑی نعمت ہے اور بدون تعلیم و توفیق حق تعالیٰ کے نصیب نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ ایسی بڑی نعمت عطا فرما دی، پس دھوکے اور احسان جتلانے سے باز آؤ اور یہ یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی سب مخفی باتوں کو جانتا ہے اور (اسی علم محیط کی وجہ سے) تمہارے سب اعمال کو بھی جانتا ہے ( اور ان ہی کے موافق تم کو جزا دے گا پھر اس کے سامنے باتیں بنانے سے کیا فائدہ) ۔- معارف ومسائل - سابقہ آیات میں بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و شرافت کا مدار تقویٰ پر ہے جو ایک باطنی چیز ہے اللہ تعالیٰ ہی اس کو جانتے ہیں کسی شخص کے لئے اپنے تقدس کا دعویٰ جائز نہیں، مذکور الصدر آیات میں ایک خاص واقعہ کی بنا پر یہ بتلایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل مدار قلبی تصدیق پر ہے اس کے بغیر محض زبان سے اپنے کو مومن کہنا صحیح نہیں، اس پوری سورت میں اول نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق تعظیم و تکریم کا پھر باہمی حقوق اور آداب معاشرت کا ذکر آیا ہے ختم سورت پر یہ بتلایا گیا کہ آخرت میں سب اعمال کی مقبولیت کا مدار ایمان اور تصدیق قلبی اور اللہ و رسول کی اطاعت پر ہے۔- شان نزول :- واقعہ اس آیت کے نزول کا امام بغوی کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ قبیلہ بنی اسد کے چند آدمی مدینہ طیبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک قحط شدید کے زمانے میں حاضر ہوئے، یہ لوگ دل سے تو مومن تھے نہیں محض صدقات حاصل کرنے کے لئے اپنے اسلام لانے کا اظہار کیا اور چونکہ واقع میں مومن نہ تھے اسلامی احکام و آداب سے بیخبر اور غافل تھے انہوں نے مدینہ کے راستوں پر غلاظت و نجاست پھیلا دی اور بازاروں میں اشیاء ضرورت کی قیمت بڑھا دی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک تو جھوٹا دعویٰ ایمان لانے کا کیا، دوسرے آپ کو دھوکا دینا چاہا، تیسرے آپ پر احسان جتلایا کہ دوسرے لوگ تو ایک زمانہ تک آپ سے بر سر پیکار رہے آپ کے خلاف جنگیں لڑیں پھر مسلمان ہوئے ہم بغیر کسی جنگ کے خود آپ کے پاس حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے اس لئے ہماری قدر کرنی چاہئے جو شان رسالت میں ایک طرح کی گستاخی بھی تھی کہ اپنے مسلمان ہوجانے کا احسان آپ پر جتلایا اور مقصود اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کی صدقات سے اپنی مفلسی دور کریں اور اگر یہ واقعی اور سچے مسلمان ہی ہوجاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا احسان تھا خود اپنا ہی نفع تھا اس پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں جن میں ان کے جھوٹے دعوے کی تکذیب اور احسان جتلانے پر مذمت کی گئی ہے۔- (آیت) وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا، چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ تھا جھوٹا دعویٰ صرف ظاہری افعال کی بناء پر کر رہے تھے اس لئے قرآن نے ان کے ایمان کی نفی اور دعوائے ایمان کے غلط ہونے کو بیان کر کے یہ فرمایا کہ تمہارا آمنا کہنا تو جھوٹ ہے تم زیادہ سے زیادہ اسلمنا کہہ سکتے ہو کیونہ اسلام کے لفظی معنی ظاہری افعال میں اطاعت کرنے کے ہیں اور یہ لوگ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرنے کے لئے کچھ اعمال مسلمانوں جیسے کرنے لگے تھے اس لئے لفظی اعتبار سے ایک درجہ کی اطاعت ہوگئی اس لئے لغوی معنی کے اعتبار سے اسلمنا کہنا صحیح ہوسکتا ہے۔- اسلام و ایمان ایک ہیں یا کچھ فرق ہے ؟:- اوپر کی تقریر سے معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں اسلام کے لغوی معنی مراد ہیں اصطلاحی معنی مراد ہی نہیں اس لئے اس آیت سے اسلام اور ایمان میں اصطلاحی فرق پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا اور اصطلاحی ایمان اور اصطلاحی اسلام اگرچہ مفہوم و معنی کے اعتبار سے الگ الگ ہیں کہ ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے یعنی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا اور اسلام نام ہے اعمال ظاہرہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر جوارح کے اعمال و افعال تک نہ پہنچ جائے جس کا دانیٰ درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ اسلام کا اقرار کرے۔ اس طرح اسلام اگرچہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے لیکن شریعت میں وہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ دل میں تصدیق نہ آجائے ورنہ وہ نفاق ہے۔ اس طرح اسلام و ایمان مبدا اور منہتی کے اعتبار سے تو الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہو کر ظاہر اعمال تک پہنچتا ہے اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہو کر باطن کی تصدیق تک پہنچتا ہے مگر مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں تلازم ہے کہ ایمان اسلام کے بغیر معتبر نہیں اور اسلام ایمان کے بغیر شرعاً معتبر نہیں، شریعت میں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص مسلم تو ہو مومن نہ ہو یا مومن ہو مسلم نہ ہو مگر یہ کلام اصطلاحی ایمان و اسلام میں ہے۔ لغوی معنی کے اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مسلم ہو مومن نہ ہو جیسے تمام منافقین کا یہی حال تھا کہ ظاہری اطاعت احکام کی بنا پر مسلم کہلاتے تھے مگر دل میں ایمان نہ ہونے کے سبب مومن نہ تھے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- تمت بحمداللہ تعالیٰ وعونہ سورة الحجرات للثامن - من شعبان 92 ھ 13 یوم الاحد وللہ الحمد و المنة

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۝ ٠ ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا يَـلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَـيْـــــًٔا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عرب ( اعرابي)- العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية .- قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ :- أَعَارِيبُ ، قال الشاعر :- أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح،- والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» «1» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم،- ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ - الاعرابی :- یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - ليت - يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت - «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ.- أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل .- ( ل ی ت ) لا تہ - ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اگلی آیت بنی اسد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لوگ سخت فاقہ میں مبتلا ہوگئے تھے تو مع اپنے اہل و عیال سب کے سب اسلام لے آئے اور رسول اکرم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ سے کچھ مال و متاع حاصل کرلیں، چناچہ ان لوگوں نے آکر مدینہ منورہ میں گرانی پھیلا دی اور اس کے رستوں کو گندگی سے بھر دیا، حقیقت میں یہ لوگ منافق تھے مگر ظاہرا کہتے تھے یا رسول اللہ ہمیں کہلایئے اور ہمارا احترام کیجیے، ہم مخلص ہیں اور اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مگر یہ منافق تھے اپنے قول میں جھوٹے تھے، حق تعالیٰ نے انہیں کے مقابلہ کو روایت کردیا کہ کچھ گنوار یعنی بنی اسد والے آپ کے پاس آکر بلا تصدیق لب محض زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے۔- آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم ایمان تو نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے تاکہ قید اور قتل سے محفوظ رہیں۔ باقی ابھی تک تصدیق ایمان اور حلاوت ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوئی۔- لیکن اب دل سے تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہا مان لو اور کفر و نفاق سے توبہ کرلو جیسا کہ زبان سے اس چیز کا اظہار کرتے ہو، تو پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نیکیوں کے ثواب میں سے ذرا بھی کمی نہ کرے گا تائب اور توبہ پر مرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے اور اس پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ” یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ “- قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ) کہہ دیجیے : تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہوگئے ہیں “- ” لَمْ تُـؤْمِنُوْا “ میں نفی جحد بِلَمْ کا نہایت موکد اسلوب ہے ‘ یعنی یہاں مضارع سے پہلے لَمْ تاکیدی نفی کے لیے آیا ہے۔ چناچہ ” لَمْ تُؤْمِنُوْا “ میں جو خاص تاکید پائی جاتی ہے وہ ” مَـا آمَنْتُمْ “ جیسے الفاظ میں نہیں ۔- وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ” اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ “- اس آیت میں جو نکتہ بیان ہوا ہے وہ اسلامی معاشرے کی رکنیت اور اسلامی ریاست کی شہریت کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایمان دراصل ایک نظریے کا نام ہے جو دل کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی طریقے یا ذریعے سے کسی شخص کے ایمان کی تصدیق یا تردید نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اسلامی معاشرے کے افراد یا اسلامی ریاست کے شہریوں کی قانونی حیثیت کا تعین ” اسلام “ کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ ” ایمان “ کی بنیاد پر۔ البتہ آخرت میں اللہ کے ہاں ہر شخص کے معاملات کا فیصلہ ایمان کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ چناچہ ہمارے ہاں مردم شماری کے فارم کے اندر مذہب کے خانے میں کسی کے لیے ” مسلم “ کا لفظ لکھ دینے سے متعلقہ شخص کو قانونی طور پر تو مسلمان تسلیم کرلیا جائے گا لیکن دنیا میں قانونی طور پر مسلمان بن جانے سے اللہ کے ہاں چھوٹ نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ تو ہر شخص کے دل میں ایمان کی کیفیت کو دیکھے اور پرکھے گا۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَـنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ ) (١) ” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے “۔ چناچہ دنیوی قانون کے تقاضوں اور نجاتِ اُخروی کے حوالے سے ایمان اور اسلام کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔- وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا ” لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کوئی کمی نہیں کرے گا۔ “- اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ” یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت مہربان ہے۔ “- اگرچہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اعمال کا دارومدار ایمان پر ہے ‘ یعنی جب تک کسی کے دل میں ایمان نہیں اللہ کے ہاں اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے ‘ اس نے اپنی شان غفاری و رحیمی کے طفیل تم لوگوں کو خصوصی رعایت عطا کی ہے ‘ چناچہ اگرچہ تم نے ایمان کا ابھی صرف زبانی اقرار ہی کیا ہے اور یہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں راسخ نہیں ہوا ‘ پھر بھی اس اقرار کے بعد اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو شرف قبولیت بخشتا رہے گا۔ اس حوالے سے یہ اہم قانونی اور اصولی نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ یہاں جس اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد کلی اطاعت ہے۔ کیونکہ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص ( البقرۃ : ٢٠٨) کے واضح حکم کے بعداسلام میں جزوی داخلہ اور اللہ تعالیٰ کی جزوی اطاعت قابل قبول ہی نہیں۔ - آیت زیر مطالعہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کردیا گیا ہے اور یہ قرآن مجید کا واحد مقام ہے جہاں مسلمانوں کے ایک گروہ کو واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ تا حال ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ بھی ہوا کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے ‘ حالانکہ اس بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ منافقین کا تو کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ‘ جبکہ یہاں متعلقہ لوگوں کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ چناچہ اس حکم کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔ - جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جزیرۃ العرب میں غلبہ عطا فرما دیا تو کفار و مشرکین کے تمام قبائل پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اب ان میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ دوسری طرف سورة التوبہ کی ابتدائی آیات میں ان کے لیے یہ الٹی میٹم بھی نازل ہوچکا تھا : فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍج (آیت ٥) ” اور جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو قتل کرو ان مشرکین کو جہاں پائو ‘ اور پکڑو ان کو ‘ اور گھیرائو کرو ان کا ‘ اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو “۔ ٩ ہجری کے حج کے موقع پر یہ الٹی میٹم ہر خاص و عام تک پہنچا بھی دیا گیا تھا۔ اس کے بعد متعلقہ لوگوں کے پاس صرف چار ماہ کا وقت تھا۔ ان حالات میں ان قبائل کے پاس اطاعت قبول کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ چناچہ انہوں نے یہی راستہ اپنایا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قبول کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے اپنے وفد بھیجنے شروع کردیے۔ اس طرح اس سال مدینہ میں وفود کا تانتا بندھ گیا۔ گویا ہر قبیلہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرنے اور اسلام میں داخل ہونے کے لیے دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتا تھا۔ اس صورت حال کا نقشہ سورة النصر میں یوں دکھایا گیا ہے : اِذَاجَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ - اطاعت قبول کرنے والے ان لوگوں میں تین طرح کے افراد تھے۔ کچھ تو ظاہر ہے خلوص نیت سے ایمان لانے والے تھے اور کچھ منافق اور دھوکہ باز جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن ان دواقسام کے درمیان تیسری قسم کے کچھ لوگ بھی تھے ‘ جن کے دلوں میں نہ تو دھوکے کی نیت تھی اور نہ ہی ایمان لانے کا سچا جذبہ تھا۔ یعنی وہ مثبت اور منفی دو انتہائوں کے درمیان ” زیرو پوائنٹ “ پر کھڑے تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں دراصل ان ہی لوگوں کا ذکر ہے۔ ان لوگوں کو نہ صرف اطمینان دلایا گیا کہ اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی ‘ بلکہ آگے آیت ١٧ میں انہیں خوشخبری بھی سنا دی گئی کہ اگر تم خلوص دل سے اطاعت کے اس راستے پر چلتے رہو گے تو تمہارے دلوں میں سچا اور حقیقی ایمان بھی پیدا ہوجائے گا۔ - دراصل ایمانِ حقیقی اور عمل صالح باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ایک طرف دل میں ایمانِ حقیقی کی موجودگی اگر اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اعمالِ صالحہ کی مداومت بھی ایمان کی تقویت کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اس حوالے سے ٹھوس نتائج کے لیے دل میں مضبوط ارادے اور نیت کا موجود ہونا نا گزیر ہے۔ یعنی دل میں پختہ نیت ہو کہ مجھے ایک سچا اور پکا مومن بننا ہے ‘ مومن بن کر جینا ہے اور مومن کی حیثیت سے اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ آج کل کے ماحول میں اول تو ایسی نیت یا آرزو کا دل میں پیدا ہونا ہی مشکل ہے ‘ اور اگر کسی دل میں یہ آرزو پیدا ہو ہی جائے تو اس کا زندہ رہنا محال ہے۔ کیونکہ آج کا معاشرہ اور خارج کا موجودہ ماحول ایسی مثبت سوچ کو غذا فراہم نہیں کرتا اور ظاہر ہے جس ماحول میں آکسیجن نہیں ہوگی وہاں کوئی متنفس ّکیسے زندہ رہ سکے گا۔ اقبالؔ نے اس صورت حال کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے : ؎- آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں - ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام - بلکہ ہمارا موجودہ معاشرہ تو اس حوالے سے منفی کردار کے لیے غیر معمولی طور پر حساس اور فعال ہے۔ ایسی کوئی آرزو کسی دل میں ابھی پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولنے پاتی کہ ماحول کی تمام منفی قوتین اپنے اپنے ہتھیار سجا کر اس جانِ ناتواں کے محاصرے کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ اس میں سب سے موثر کردار ” اپنوں “ کی ایسی نصیحتوں کا ہوتا ہے کہ دیکھو اپنے گھر بار کی بھی کچھ فکر کرو کیوں تم اپنا بنا بنایا کیرئیر تباہ کرنے پر ُ تل گئے ہو ؟ کیا تمہیں اپنے مستقبل اور اپنے بیوی بچوں کا بھی خیال نہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس دبائو کا فطری اور منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ ” نوزائیدہ آرزو “ لمحہ بہ لمحہ کمزور ہونے لگتی ہے اور بالآخر سسک سسک کر دم توڑ جاتی ہے ‘ اِلا یہ کہ کسی کے ارادے میں غیر معمولی خلوص و استقامت ہو اور اللہ کی خصوصی توفیق و نصرت بھی اس کے شامل حال ہو۔- بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے یہ بحث تو اسلام اور ایمان کے فرق سے متعلق تھی۔ لیکن اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ حقیقی مومن کسے کہتے ہیں تو وہ ” مومن “ کی اس تعریف ( ) کو اپنے پیش نظر رکھے جو اگلی آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ (اس مضمون کی وضاحت قبل ازیں سورة الانفال کی آیات ٢ ‘ ٣ اور ٧٤ کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :30 اس سے مراد تمام بدوی نہیں ہیں بلکہ یہاں ذکر چند خاص بدوی گروہوں کا ہو رہا ہے جو اسلام میں بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہو گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ بھی رہیں گے اور اسلامی فتوحات کے قواعد سے متمتع بھی ہوں گے ۔ یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے ، محض زبانی اقرار ایمان کر کے انہوں نے مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا لیا تھا ۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت فاش ہو جاتا تھا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے ، اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے ۔ روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویے کا ذکر آیا ہے ۔ مثلاً مُزینہ ، جہینہ ، اسلم ، اشجع ، غِفار وغیرہ ۔ خاص طور پر بنی اَسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جُبیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آئے اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کہا کہ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوئے ہیں ، ہم نے آپ سے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلاں اور فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کر لینا ان کا ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے ۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :31 اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہو ہم مسلمان ہو گئے ہیں ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں مومن اور مسلم دو متقابل اصطلاحیں ہیں ، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو ۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں ۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے ، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں ، اور مسلم وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ ( آل عمران 19 ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۔ ( آل عمران ۔ 85 ) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً ( المائدہ ۔ 3 ) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے ۔ فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلَامِ ۔ ( الانعام ۔ 125 ) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان آیات میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان نہیں ہے ۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں: قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ ۔ ( الانعام ۔ 14 ) اے نبی کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں ۔ فَاِنْ اَسْلَمُوا فَقَدِ اھْتَدَوْا ( آل عمران ۔ 20 ) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی ۔ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ( المائدہ ۔ 44 ) تمام انبیاء جو اسلام لائے تھے تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح مسلم کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ ( آل عمرآن ۔ 102 ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا ( الحج ۔ 78 ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی ۔ مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُودِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً ۔ ( آل عمران ۔ 67 ) ابراہیم ( علیہ السلام ) نہ یہودی تھا نہ نصرانی ، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۔ ( البقرہ ۔ 128 ) ( تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا ) اے ہمارے رب ، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو ۔ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ( البقرہ ۔ 132 ) ( حضرت یعقوب کی وصیت اپنی اولاد کو ) اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لءے یہی دین پسند کیا ہے پس تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے ، بس ظاہری طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے ، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں ، لیکن بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گئے ہیں ، اور یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوئے ہوں ، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں ، یا ضعیف الایمان ، یا محض منافق ۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران ، آیت 156 ۔ النساء ، 136 ۔ المائدہ ، 54 ۔ الانفال ، 20 ۔ 27 ۔ التوبہ ، 38 الحدید ، 28 ۔ الصّف ، 2 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: دیہات کے کچھ لوگ دل سے ایمان لائے بغیر ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہے تھے، جس کا مقصد مسلمانوں جیسے حقوق حاصل کرنا تھا، مدینہ منورہ میں آکر انہوں نے راستوں پر گندگی بھی پھیلائی تھی، ان آیات میں ان کی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے، اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ سچا مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ دل سے اسلامی عقائد کو ماننا اور اپنے آپ کو اسلامی احکام کا پابند سمجھنا ضروری ہے۔