Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا : یعنی ہم یہ معجزہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر نہیں مانگ رہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل نے کہا تھا : ( لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ ) [ البقرۃ : ٥٥ ] ” ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں۔ “ بلکہ چند امور کے پیش نظر طلب کر رہے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم بھوکے ہیں یا برکت کے لیے کچھ کھانا چاہتے ہیں۔ - وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا : یعنی ہمیں اس بات کا اطمینان ہوجائے ( جو ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے) اور ہم عین الیقین کے درجے کا علم حاصل کرلیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور بنی اسرائیل کے سامنے آپ کے سچا رسول ہونے کی گواہی دے سکیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْہَا وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُوْنَ عَلَيْہَا مِنَ الشّٰہِدِيْنَ۝ ١١٣- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٣) جس کی بنا پر عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے۔- شمعون نے ان سے یہ کہہ دیا وہ بولے ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح جو معجزات آپ دکھا رہے ہیں اس پر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور جب ہم اپنی قوم کے پاس لوٹین تو گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْہَا وَتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُنَا) - یہ اس طرح کی بات ہے جیسی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہی تھی : (رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط) (البقرہ : ٢٦٠) ۔ اسی طرح کا مشاہدہ وہ بھی طلب کر رہے تھے۔- (وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُوْنَ عَلَیْہَا مِنَ الشّٰہِدِیْنَ ) - تا کہ ہمیں آپ ( علیہ السلام) کی کسی بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ایسایقین کامل ہوجائے کہ پھر ہم جب آپ ( علیہ السلام) کی جانب سے لوگوں کو تبلیغ کریں تو ہمارے اپنے دلوں میں کہیں شک وشبہ کا کوئی کانٹا چبھا ہو انہ رہ جائے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani