114۔ 1 اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بےہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آجکل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن عید منانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر وتحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بتانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے تیسرے عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں۔
[١٦٤] لیکن حواری سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے پر بھی اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے۔ آخر عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے حضور ان لوگوں کا یہ مطالبہ پیش کردیا اور دعا کی کہ ان لوگوں کے لیے غیب سے رزق عطا فرما، جو سب اگلوں پچھلوں کے لیے ایک یادگار خوشی کا دن قرار پائے۔ اور یہ ایسا معجزہ ہوگا جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ۔۔ : یہ انتہا درجے کی عاجزی کے ساتھ دعا ہے کہ ” اللھم “ ( اے اللہ ) کے ساتھ ” ربنا “ ( اے ہمارے پالنے والے ) بھی ملایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ اللہ تھے، نہ اللہ کے بیٹے، نہ اللہ کے اختیار رکھنے والے، ان کے حواری بھی ان میں سے کسی چیز کے قائل نہ تھے، ورنہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کیوں کرواتے اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اتنی عاجزی کے ساتھ دعا کیوں کرتے، بلکہ ان کے حواری خود ان سے مائدہ کا مطالبہ کرتے اور وہ خود ہی پورا کردیتے۔- تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا : علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ وہ دسترخوان اتوار کے دن اترا، کیونکہ وہ نصرانیوں کی عید ہے، سبت یہودیوں کی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید کا دن جمعہ تھا مگر یہودیوں اور نصرانیوں نے اصل دن میں اختلاف کیا اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پر کسی چون و چرا کے بغیر جمعہ کو تسلیم کرلیا۔ [ دیکھیے مسلم، الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الأمۃ۔۔ : ٨٥٦ ] لفظ عید ” عَادَ یَعُوْدُ “ سے ہے، یعنی ایسی خوشی جو بار بار لوٹ کر آئے، یہ سالانہ بھی ہوسکتی ہے اور ہفتہ وار بھی۔ مسلمانوں کی دو عیدیں سالانہ ہیں اور ایک ہر ساتویں دن عید جمعہ ہے۔ ان کے علاوہ کوئی عید قرآن و سنت سے ثابت نہیں، مثلاً عید میلاد یا عید غدیر وغیرہ، یہ سب خود ساختہ اور بدعت ہیں۔ - وَاٰيَةً مِّنْكَ ۚ: یعنی تیری توحید اور تیرے نبی کی رسالت کے حق ہونے پر دلیل قائم ہو۔ (کبیر) - وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : کیونکہ حقیقت میں تو ہی روزی دینے والا ہے، تیرے سوا ایک بھی روزی پیدا کرنے والا نہیں، سب تیرا دیا ہوا ہی کھاتے، یا کسی دوسرے کو دیتے ہیں۔
جب نعمت غیر معمولی بڑی ہو تو ناشکری کا وبال بھی بڑا ہوتا ہے - (قولہ تعالی) فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب نعمت غیر معمولی اور نرالی ہوگی تو اس کی شکر گزاری کی تاکید بھی معمولی سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئے، اور ناشکری پر عذاب بھی غیر معمولی اور نرالا آئے گا۔- مائدہ آسمان سے نازل ہوا تھا یا نہیں ؟ اس بارے میں مفسرین حضرات کا اختلاف ہے جمہور نزول کے قائل ہیں، چناچہ ترمذی کی حدیث میں عمار بن یاسر (رض) سے منقول ہے کہ مائدہ آسمان سے نازل ہوا، اس میں روٹی اور گوشت تھا، اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے (یعنی بعض نے) خیانت کی، اور اگلے دن کے لئے اٹھا کر رکھا، پس بندر اور خنزیر کی صورت میں مسخ ہوئے (نعوذ باللہ من غضب اللہ)- اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس میں سے کھاتے بھی تھے، جیسا ناکل میں ان کی یہ غرض بھی مذکور ہے، البتہ آگے کے لئے رکھ لینا ممنوع تھا۔ (بیان القرآن)
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَۃً مِّنْكَ ٠ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ١١٤- «اللهم»- قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- مائدَةُ- : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان .- المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ہم پر آسمان سے خواننازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔- عيد ( عادة)- والعَادَةُ : اسم لتکرير الفعل والانفعال حتی يصير ذلک سهلا تعاطيه کالطّبع، ولذلک قيل : العَادَةُ طبیعة ثانية . والعِيدُ : ما يُعَاوِدُ مرّة بعد أخری، وخصّ في الشّريعة بيوم الفطر ويوم النّحر، ولمّا کان ذلک الیوم مجعولا للسّرور في الشریعة كما نبّه النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «أيّام أكل وشرب وبعال» صار يستعمل العِيدُ في كلّ يوم فيه مسرّة، وعلی ذلک قوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً [ المائدة 114] . [ والعِيدُ : كلّ حالة تُعَاوِدُ الإنسان، والعَائِدَةُ : كلّ نفع يرجع إلى الإنسان من شيء ما ]- العادۃ کسی فعل یا انفعال کو بار بار کرنا حتی کہ رہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعت ثانیہ کا نام ہے ۔ العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے ۔ اصطلاح شریعت میں یہ لفظ اور یوم الضحیٰ پر بولا جاتا ہے ۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عید کے دن کھانے پینے اور جماع سے لطف اندوز ہونے کے دن ہیں اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً [ المائدة 114] ہم پر آسمان سے خوان ( نعمت ) نازل فرما ۔ ہمارے لئے ( وہ دن ) عید قرار پائے میں عید سے شاد مانی کا دن ہی مراد ہے اور العید اصل میں ( خوشی یا غم کی ) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو
(١١٤) چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آسمان سے کھانا نازل ہونے کی دعا کی یا یہ کہ کھانے کی برکت کی دعا کی کہ ہم میں جو موجودہ زمانہ میں ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں، ان کے لیے ایک خوشی کی چیز ہوجائے تاکہ ہم آپ کی عبادت کریں اور یہ اتوار کا دن تھا اور یہ ایک معجزاتی نشانی ہوجائے، مومنین کے لیے باعث اطمینان قلب اور کفار پر حجت لازم ہونے کے لیے پروردگار ہر نعمت ہمیں عطا کیجیے، آپ سب عطا کرنے والوں سے اچھے ہیں۔
آیت ١١٤ (قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآءِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ) (تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ج) - آسمان سے ‘ خاص تیرے ہاں سے کھانے سے بھرے ہوئے دستر خوان کا نازل ہونا یقیناً ہمارے لیے جشن کا موقع ہوگا ‘ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے ایک یادگار واقعہ اور تیری طرف سے ایک خاص نشانی ہوگا۔