محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً خاتم الانبیاء ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ میں نے تم سب کی طرف اپنا رسول بھیج دیا ہے جو خاتم الانبیاء ہے ، جس کے بعد کوئی نبی رسول آنے والا نہیں ، یہ سب کے بعد ہیں ، دیکھ لو حضرت عیسیٰ کے بعد سے لے کر اب تک کوئی رسول نہیں آیا ، ( فترۃ ) کی اس لمبی مدت کے بعد یہ رسول آئے ، بعض کہتے ہیں یہ مدت چھ سو سال کی تھی ، بعض کہتے ہیں ساڑھے پانچ سو برس کی ، بعض کہتے ہیں پانچ سو چالیس برس کی ، کوئی کہتا ہے چار سو کچھ اوپر تیس برس کی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت عیسیٰ کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کے درمیان نو سو تینتیس سال کا فاصلہ تھا ۔ لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے یعنی چھ سو سال کا ، بعض کہتے ہیں چھ سو بیس سال کا فاصلہ تھا ۔ ان دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ پہلا قول شمسی حساب سے ہو اور دوسرا قمری حساب سے ہو اور اس گنتی میں ہر تین سو سال میں تقریباً آٹھ کا فرق پڑ جاتا ہے ۔ اسی لئے اہل کہف کے قصے میں ہے ۔ ولبثوا فی کھفھم ثلاث مأتہ سنین وازدادو تسعا ۔ وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو برس اور زیادہ کئے ۔ پس شمسی حساب سے اہل کتاب کو جو مدت ان کی غار کی معلوم تھی ، وہ تین سو سال کی تھی ، نو بڑھا کر قمری حساب پورا ہو گیا ، آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ سے لے کر جو بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جو علی الا طلاق خاتم الانبیاء تھے ، فترۃ کا زمانہ تھا یعنی درمیان میں کوئی نبی نہیں ہوا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ سے یہ بہ نسبت اور لوگوں کے میں زیادہ اولیٰ ہوں ، اس لئے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔ اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو خیال کرتے ہیں کہ ان دونوں جلیل القدر پیغمبروں کے درمیان بھی ایک نبی گزرے ہیں ، جن کا نام خالد بن سنان تھا ۔ جیسے کہ قضاعی وغیرہ نے حکایت کی ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ خاتم الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس وقت تشریف لاتے ہیں جبکہ رسولوں کی تعلیم مٹ چکی ہے ، ان کی راہیں بےنشان ہو چکی ہیں ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، جگہ جگہ مخلوق پرستی ہو رہی ہے ، سورج چاند بت آگ کی پوجا جا رہی ہے ، اللہ کا دین بدل چکا ہے ، کفر کی تاریکی نور دین پر چھا چکی ہے ، دنیا کا چپہ چپہ سرکشی اور طغیانی سے بھر گیا ہے ، عدل و انصاف بلکہ انسانیت بھی فنا ہو چکی ہے ، جہالت و قساوت کا دور دورہ ہے ، بجز چند نفوس کے اللہ کا نام لیوا زمین پر نہیں رہا ، پس معلوم ہوا کہ آپ کی جلالت و عزت اللہ کے پاس بہت بڑی تھی اور آپ نے جو رسالت کی ذمہ داری ادا کی ، وہ کوئی معمولی نہ تھی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا مجھے میرے رب کا حکم ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں ، جن سے تم ناواقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجھے آج بھی بتائی ہیں ، فرمایا ہے میں نے اپنے بندوں کو جو کچھ عنایت فرمایا ہے وہ ان کیلئے حلال ہے ، میں نے اپنے سب بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ، لیکن پھر شیطان ان کے پاس آتا ہے اور انہیں بہکاتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ وہ میرے ساتھ باوجود دلیل نہ ہونے کے شرک کریں ۔ سنو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا اور تمام عرب و عجم کو ناپسند فرمایا بجز ان چند بقایا بنی اسرائیل کے ( جو توحید پر قائم ہیں ) پھر ( مجھ سے ) فرمایا ، میں نے تجھے اسی لئے اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ تیری آزمائش کروں اور تیری وجہ سے اوروں کی بھی آزمائش کر لوں ۔ میں تجھ پر وہ کتاب نازل فرمائی ہے ، جسے پانی دھو نہیں سکتا جسے تو سوتے جاگتے پڑھتا ہے ، پھر مجھے میرے رب نے حکم دیا کہ قریشیوں میں پیغام الٰہی پہنچاؤں میں نے کہا یا رب یہ تو میرا سر کچل کر روٹی جیسا بنا دیں گے ، پروردگار نے فرمایا تو انہیں نکال ، جیسے انہوں نے تجھے نکالا تو ان سے جہاد کر ، تیری امداد کی جائے گی ۔ تو ان پر خرچ کر ، تجھ پر خرچ کیا جائے گا ، تو ان کے مقابلے پر لشکر بھیج ، ہم اس سے پانچ گنا لشکر اور بھیجیں گے اپنے فرمانبرداروں کو لے کر اپنے نافرمانوں سے جنگ کر ، جنتی لوگ تین قسم کے ہیں ، بادشاہ عادل ، توفیق خیر والا ، صدقہ خیرات کرنے والا اور باوجود مفلس ہونے کے حرام سے بچنے والا ، حالانکہ اہل و عیال بھی ہے ، اور جہنمی لوگ پانچ قسم کے ہیں وہ سفلے لوگ جو بےدین ، خوشامد خورے اور ماتحت ہیں ، جن کی آل اولاد دھن دولت ہے اور وہ حائن لوگ جن کے دانت چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی ہوتے ہیں اور حقیر چیزوں میں بھی خیانت سے نہیں چوکتے اور وہ لوگ جو صبح شام لوگوں کو ان کے اہل و مال میں دھوکہ دیتے پھرتے ہیں اور بخیل ہیں فرمایا کذاب اور شنطیر یعنی بدگو ۔ یہ حدیث مسلم اور نسائی میں ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سچا دین دنیا میں نہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی وجہ سے لوگوں کو اندھیروں سے اور گمراہیوں سے نکال کر اجالے میں اور راہ راست پر لاکھڑا کیا اور انہیں روشن و ظاہر شریعت عطا فرمائی ۔ اس لئے کہ لوگوں کا عذر نہ رہے ، انہیں یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا ، ہمیں نہ تو کسی نے کوئی خوشخبری سنائی نہ دھمکایا ڈرایا ۔ پس کامل قدرتوں والے اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیج دیا ، وہ اپنے فرمانبرداروں کو ثواب دینے پر اور نافرمانوں کو عذاب کرنے پر قادر ہے ۔
19۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد رسول اللہ کے درمیان جو تقریباً 570 یا 600 سال کا فاصلہ ہے یہ زمانہ فترت کہلاتا ہے۔ اہل کتاب کو کہا جا رہا ہے کہ اس فترت کے بعد ہم نے اپنا آخری رسول بھیج دیا ہے اب تم یہ بھی نہ کہہ سکو گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر پیغمبر ہی نہیں آیا۔
[٥] اہل کتاب کو نبی آخر الزمان کا انتظار :۔ بنی اسرائیل میں بیک وقت ایک ہی زمانہ میں متعدد انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ دینی قیادت بھی انہیں کے پاس ہوتیتھی اور دنیوی قیادت بھی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ بند ہوا اور مسلسل چھ سو سال تک بند رہا۔ اس کے بعد نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے یہود اس نبی کے انتظار میں رہا کرتے اور مشرکین سے کہا کرتے کہ جب نبی آخر الزماں آئے گا تو ہم اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر تم پر فتح حاصل کریں گے۔ مگر جب نبی آخر الزمان تشریف لائے تو یہود نے انہیں دی ہوئی بشارات کے مطابق ٹھیک طرح پہچان لیا۔ پھر صرف اس بنا پر آپ کی نبوت کا انکار کردیا کہ آپ بنی سرائیل میں سے نہ تھے۔ انہی یہود کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ جس بشیر و نذیر کا تمہیں انتظار تھا وہ آچکا۔ اب تمہارے پاس کچھ عذر باقی نہیں رہ گیا۔ لہذا اگر اب تم اس سے انکار کر رہے ہو تو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس جرم کفر کی سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہود کی طرح نصاریٰ کو بھی نبی آخر الزماں کا انتظار تھا اور ان کا یہ خیال تھا کہ وہ نبی ہم میں سے ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر یہود سے بدلہ لیں گے۔ پھر جب ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی تو ان میں سے بھی اکثر نبی آخر الزماں کے مخالف ہوگئے۔
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا ۔۔ : یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہوچکا تھا، عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں ابن مریم ( علیہ السلام) کا تمام لوگوں سے زیادہ حق دار یا تمام لوگوں سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واذکر فی الکتاب مریم) : ٣٤٤٢ ] بقول سلمان فارسی (رض) ان کی بعثت پر بھی ٦٠٠ سال گزر چکے تھے۔ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب اسلام سلمان الانصاری : ٣٩٤٨ ] اور کوئی نبی نہیں آیا تھا، پھر آخری نبی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا، سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم کو رسول کی صحبت میسر ہوئی، غنیمت جانو اور اللہ قادر ہے، اگر تم قبول نہ کرو گے تو اور خلق کھڑی کر دے گا تم سے بہتر، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو محروم کردیا، اوروں کے ہاتھ سے ملک شام فتح کروا دیا۔ (موضح) - فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۭ: اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا بنیادی مقصد بیان فرمایا ہے، یعنی عرصۂ دراز سے کسی اولو العزم پیغمبر کے نہ آنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام میں تغیر و تبدل اور تحریف ہوچکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز نہ تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملت ابراہیم کو تغیر و تبدل اور تحریف سے پاک کر کے لوگوں کو حق سے روشناس کرایا تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے اور عذر کی گنجائش نہ رہے۔ (قرطبی)
خلاصہ تفسیر - اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ ہمارے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپہنچے جو کہ تم کو (شریعت کی باتیں) صاف صاف بتلاتے ہیں۔ ایسے وقت میں کہ رسولوں (کے آنے کا) سلسلہ (مدت سے) موقوف تھا (اور شرائع سابقہ مفقود اور گم ہوچکی تھیں اور انبیاء کا سلسلہ عرصہ دراز تک بند رہنے سے ان گم شدہ شرائع کے دوبارہ دریافت ہونے کا امکان بھی نہ رہا تھا۔ اس لئے اب کسی رسول کے آنے کی ضرورت شدید تھی تو ایسے وقت آپ کا تشریف لانا بڑی نعمت اور غنیمت سمجھنا چاہیے) تاکہ تم (قیامت میں) یوں نہ کہنے لگو (کہ دین کے معاملہ میں غلطی اور کوتاہی میں ہم اس لئے معزور ہیں کہ) ہمارے پاس (کوئی رسول جو کہ) بشیر اور نذیر (ہو جس سے ہم کو دین کا صحیح علم اور عمل پر ابھار پیدا ہوتا) نہیں آیا سو (اب اس عذر کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ) تمہارے پاس بشیر و نذیر (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آچکے ہیں (اب نہ مانو تو اپنے انجام کو خود سمجھ لو) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں (کہ جب چاہیں رحمت سے اپنے انبیاء بھیج دیں جب چاہیں حکمت سے ان کو روک لیں اس لئے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جب مدت دراز سے انبیاء کا سلسلہ بند ہے تو اب کوئی رسول نہیں آسکتا۔ کیونکہ یہ سلسلہ ایک مدت تک موقوف رکھنا حق تعالیٰ کی حکمت سے تھا، اس نے سلسلہ نبوت بند اور ختم کردینے کا کوئی اعلان اس وقت تک نہیں کیا تھا۔ بلکہ پچھلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ یہ خبریں بھی دے دیتھیں کہ آخر زمانے میں ایک خاص رسول خاص شان اور خاص صفات کے ساتھ آنے والے ہیں۔ جن پر بنوت کا اختتام ہوگا۔ اس اعلان کے مطابق خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے۔ - معارف و مسائل - (آیت) علی فترة من الرسل۔ فترت کے لفظی معنی سست ہونے، ساکن ہونے اور کسی کام کو معطل اور بند کردینے کے آتے ہیں۔ اس آیت میں ائمہ تفسیر نے فترت کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔ اور مراد اس سے کچھ عرصہ کے لئے سلسلہ نبوت و انبیاء بند رہنا ہے جو حضرت عیسیٰ کے بعد خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کا زمانہ ہے۔- زمانہ فترت کی تحقیق - حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا زمانہ ہے۔ اس تمام مدّت میں انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اس میں کبھی فترت نہیں ہوئی۔ صرف بنی اسرائیل میں سے ایک ہزار انبیاء اس عرصہ میں مبعوث ہوئے۔ اور غیر بنی اسرائیل میں سے جو انبیاء ہوئے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے درمیان صرف پانچ سو سال کا عرصہ ہے۔ اس میں سلسلہ انبیاء بند رہا، اسی لئے اس زمانہ کو زمانہ فترت کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کبھی اتنا زمانہ انبیاء کی بعثت سے خالی نہیں رہا۔ (قرطبی مع ایضاح)- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کی مدّت، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کے درمیان کی مدت میں اور بھی مختلف روایات میں جن میں اس سے کم وبیش مدتیں بیان ہوئی ہیں۔ مگر اصل مقصد پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ - امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت سلمان فارسی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور خاتم الانبیاء (علیہما السلام) کے درمیان کا زمانہ چھ سو سال کا تھا اور اس پوری مدت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے مشکوٰة شریف میں حدیث آئی ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا اولی الناس بعیسیٰ ۔ یعنی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں اور اس کا مطلب آخر حدیث میں یہ بیان فرمایا، لیس بیننا نبی یعنی ہم دونوں کے درمیان کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے۔ - اور سورة یٰسین میں جو تین رسولوں کا ذکر ہے وہ در حقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے فرستادہ قاصد تھے۔ جن کو لغوی معنیٰ کے اعتبار سے رسول کہا گیا ہے۔ - اور خالد بن سنان عربی کا جو بعض نے اس زمانہ فترت میں ہونا بیان کیا ہے اس کے متعلق تفسیر روح المعانی میں بحوالہ شہاب بیان کیا ہے کہ ان کا نبی ہونا تو صحیح ہے مگر زمانہ ان کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ہے بعد میں نہیں۔ - زمانہ فترت کے احکام - آیت مذکورہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی قوم ایسی یو کہ ان کے پاس نہ کوئی رسول اور نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ ان کے نائبین پہنچے، اور نہ پچھلے انبیاء کی شریعت ان کے پاس محفوظ تھی تو یہ لوگ اگر شرک کے علاوہ کسی غلط کاری اور گمراہی میں مبتلا ہوجاویں تو وہ معزور سمجھے جاویں گے۔ وہ مستحق عذاب نہیں ہوں گے۔ اسی لئے حضرات فقہاء کا اہل فترت کے معاملہ میں اختلاف ہے کہ وہ بخشے جاویں گے یا نہیں۔ - جمہور کا رجحان یہ ہے کہ امید اسی کی ہے کہ وہ بخش دیئے جاویں گے جب کہ وہ اپنے اس مذہب کے پابند رہے ہوں جو غلط ان کے پاس حضرت موسیٰ یا عیسیٰ (علیہما السلام) کی طرف منسوب ہو کر موجود تھا۔ بشرطیکہ وہ توحید کے مخالف اور شرک میں مبتلا نہ ہوں۔ کیونکہ مسئلہ توحید کسی نقل کا محتاج نہیں۔ وہ ہر انسان ذرا سا غور کرے تو اپنی ہی عقل سے معلوم کرسکتا ہے۔- ایک سوال اور جواب - یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جن اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو اس آیت میں خطاب ہے، ان کے لئے اگرچہ زمانہ فترت میں کوئی رسول نہیں پہنچا۔ مگر ان کے پاس تورات اور انجیل تو موجود تھی۔ ان کے علماء بھی تھے تو پھر قیامت میں ان کے لئے یہ عذر کرنے کا کیا موقع تھا کہ ہمارے پاس کوئی ہدایت نہیں پہنچی تھی۔ جواب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک تک تورات و انجیل اصلی باقی نہیں رہی تھی۔ تحریفات ہو کر ان میں جھوٹے قصے کہانیاں داخل ہوگئیں تھیں۔ اس لئے ان کا وجود عدم برابر تھا اور اتفاق سے کہیں کوئی اصلی نسخہ کسی کے پاس گمنام جگہ میں محفوظ رہا بھی تو وہ اس کے منافی نہیں۔ جیسا کہ بعض علماء ابن تیمیہ وغیرہ نے لکھا ہے کہ تورات و انجیل کے اصلی نسخے کہیں کہیں موجود تھے۔- خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخصوص کمالات کی طرف اشارہ - اس آیت میں اہل کتاب کو مخاطب کرکے یہ ارشاد فرمانا کہ ہمارے رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک طویل فترت کے بعد آئے ہیں۔ اس میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ تم لوگوں کو چاہیئے کہ آپ کے وجود کو غنیمت کبریٰ اور بڑی نعمت سمجھیں کیونکہ مدت دراز سے یہ سلسلہ بند تھا، اب تمہارے لئے پھر کھولا گیا ہے۔- دوسرا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ آپ کا تشریف لانا ایسے زمانے اور ایسے مقام میں ہوا ہے، جہاں علم اور دین کی کوئی روشنی موجود نہ تھی۔ مخلوق خدا خدا سے نہ آشنا ہو کر بت پرستی میں لگ گئی تھی۔ ایسے زمانے میں ایسی قوم کی اصلاح کوئی آسان کام نہ تھا۔ ایسے جاہلیت کے زمانے میں ایسی بگڑی ہوئی قوم آپ کے حوالہ ہوئی۔ آپ کے فیض صحبت اور نور نبوت سے تھوڑے ہی عرصہ میں یہ قوم ساری دنیا کے لئے علم، عمل، اخلاق، معاملات، معاشرت اور تمام زندگی کے شعبوں میں استاد اور قابل تقلید قرار دی گئی۔ جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت اور آپ کی پیغمبرانہ تعلیم کا تمام انبیاء سابقین میں افضل و اعلیٰ ہونا مشاہدہ سے ثابت ہوگیا۔ جو ڈاکٹر کسی مایوس العلاج مریض کا علاج کرے اور ایسی جگہ میں کرے جہاں طبی آلات اور دوائیں بھی مفقود ہوں۔ اور پھر وہ اس کے علاج میں اتنا کامیاب ہو کہ یہ لب دم مریض نہ صرف یہ کہ تندرست ہوگیا بلکہ ایک حاذق اور ماہر ڈاکٹر بھی بن گیا۔ تو اس ڈاکٹر کے کمال میں کسی کو کیا شبہ رہ سکتا ہے۔- اسی طرح طویل زمانہ فترت کے بعد جب کہ ہر طرف کفر و معصیت کی ظلمت ہی ظلمت چھائی ہوئی تھی۔ آپ کی تعلیمات اور تربیت نے ایسا اجالا کردیا کہ اس کی نظیر کسی پچھلے دور میں نظر نہیں آئی تو سارے معجزات ایک طرف، تنہا یہ معجزہ انسان کو آپ پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرسکتا ہے۔
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ٠ۡفَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ٠ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٩ۧ- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - فتر - الفُتُورُ : سکون بعد حدّة، ولین بعد شدّة، وضعف بعد قوّة . قال تعالی: يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة 19] ، أي : سکون حال عن مجیء رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم، وقوله : لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء 20] ، أي : لا يسکنون عن نشاطهم في العبادة . وروي عن النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أنه قال : «لكلّ عالم شرّة، ولكلّ شرّة فَتْرَةٌ ، فمن فَتَرَ إلى سنّتي فقد نجا وإلّا فقد هلك» «1» فقوله :«لكلّ شرّة فترة» فإشارة إلى ما قيل : للباطل جولة ثمّ يضمحلّ ، وللحقّ دولة لا تذلّ ولا تقلّ. وقوله : «من فَتَرَ إلى سنّتي» أي : سکن إليها، والطّرف الفَاتِرُ : فيه ضعف مستحسن، والفِتْرُ : ما بين طرف الإبهام وطرف السّبّابة، يقال : فَتَرْتُهُ بِفِتْرِي، وشبرته بشبري .- ( ف ت ر ) الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہر نے سختی کے بعد نرم اور قوت کے بعد کمزور پڑجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة 19] اے اہل کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصہ تک منقطع رہا تو اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آگئے ہیں ۔ یعنی سلسلہ رسالت کے منقطع اور ماند پڑجانے کے بعد آنحضرت تشریف لے آئے ہیں آیت کریمہ : ۔ لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء 20] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ عبادت میں سر گرم رہتے ہیں اور کبھی سست نہیں پڑتے اور ایک روایت میں ہے کہ ہر عالم میں تیری ہوتی ہے اور ہر تیزی کے بعد فترۃ یعنی سکون ہوتا ہے تو جو شخص میری سنت سے سکون حاصل کریگا وہ نجات یافتہ ہے ورنہ نہ وہ ہلاک ہوگا پس بکل شرۃ فترۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باطن میں پہلے پہل تو جوش ہوتا ہے مگر جلدی ہی مضمحل ہوجاتا ہے اور حق کی سلطنت کبھی ذلیل یا کمزور نہیں ہوتی ۔ اور من الیٰ سنتی کے معنی سنت نبوی کی پناہ میں سکون حاصل کرنے کے ہیں ۔ الطراف الفاتر لگاہ مست اور یہ اچھی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ الفتر انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کا فاصلہ اور شبرتہ بشیری کی طرح فترتہ بفرتی کا محاورہ ہے جس کے معنی انگوٹھا اور انگشت شہادت کے ساتھ کسی چیز کو ناپنے کے ہیں - بشیر - ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64]- والبشیر : المُبَشِّر، قال تعالی: فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] - ( ب ش ر ) البشر - اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- البشیر - خوشخبری دینے والا ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا پہنچا تو کرتہ یعقوب (علیہ السلام) کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
(١٩) جب رسولوں کا سلسلہ کچھ عرصہ کیلئے بند ہوگیا تو خاتم النبین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوامرو نواہی خداوندی تمہارے پاس لے کر آئے تو تاکہ قیامت کے دن تم بہانے بناتے ہوئے یوں نہ کہو کہ جنت کی بشارت اور دوزخ سے ڈرانے والا کوئی نبی و رسول ہمارے پاس نہیں آیا۔- یقیناً رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پاس آئے اور اللہ تعالیٰ رسولوں کے بھیجنے پر اور جو رسولوں کی دعوت قبول کرے اس کو ثواب دینے پر اور انکار کرنے والے سخت سزا دینے پر قادر ہیں۔
آیت ١٩ (یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا) (یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ ) - حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اورٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان چھ سو برس ایسے گزرے ہیں کہ اس دوران دنیا میں کوئی نبی ‘ کوئی رسول نہیں رہا۔ اس وقفے کو اصطلاح میں ’ فترت ‘ کہا جاتا ہے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور پھر اس کے بعد تاقیام قیامت رسالت کا دروازہ بند ہوگیا۔ - (اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّلاَ نَذِیْرٍز) (فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ ط) (وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) - سورۃ النساء میں یہی بات اس انداز سے بیان ہوچکی ہے : (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ )
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :41 اس موقع پر یہ فقرہ نہایت بلیغ و لطیف ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خدا پہلے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجنے پر قادر تھا اسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خد مت پر مامور کیا ہے اور وہ ایسا کرنے پر قادر تھا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس بشیر و نذیر کی بات نہ مانی تو یاد رکھو کہ اللہ قادر و توانا ہے ۔ ہر سزا جو وہ تمہیں دینا چاہے بلا مزاحمت دے سکتا ہے ۔