Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی تم میں تمہیں میں سے بھیجا ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بعد سے انہی کی نسل میں نبوت رہی ۔ یہ سب انبیاء تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے ۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ختم ہوا ، پھر خاتم الانبیاء و الرسل حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی ، آپ اسماعیل کے واسطہ سے حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے ، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے ۔ اللہ آپ پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے ، بیویاں دیں ، گھر بار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے ، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں ۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا تیری بیوی ہے؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے؟ کہا ہاں ، کہا پھر تو تو غنی ہے ، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے ، آپ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں سواری اور خادم ملک ہے ۔ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے ۔ بقول قتادہ خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان لوگوں میں جس کے پاس خادم ، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا ۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے ۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو ، اس کا نفس امن و امان میں ہو ، دن بھر کفایت کرے ، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آ گئی ۔ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے اور آیت میں ہے ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب ، حکم ، نبوت ، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی ۔ حضرت موسیٰ سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے ۔ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے ، کیا شرعی حیثیت سے ، کیا احامی حیثیت سے ، کیا نبوت کی حیثیت سے ، کیا بادشاہت ، عزت ، مملکت ، دولت ، حشمت مال ، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے ، خود قرآن فرماتا ہے آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:110 ) اور فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من و سلویٰ کا اترنا ، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں ۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے واللہ اعلم ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ بیت المقدس دراصل ان کے دادا حضرت یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی ، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی ۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے ، مقدسہ سے مراد پاک ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لئے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا ، نہ وہ ان کے راستے میں تھا ، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آ رہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے ، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا اللہ نے اسے تمہارے لئے لکھ دیا ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا ، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے ۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ فرما رہے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں ، ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں ، ہم اس شہر میں نہیں جا سکتے ، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے ، ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ نے بارہ جاسوس مقرر کئے ، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں ۔ یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہو گئے ۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے ، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آ گیا ، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جاکر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی ، جس میں یہ سب کے سب تھے ، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے ، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کر دو ۔ چنانچہ انہوں نے جاکر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آ گئے ۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا ، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ کی قوم کے لوگ ہیں ، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے ۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں ۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہدیا ، اب حضرت موسیٰ نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں ۔ حضرت انس نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا ، پھر اسے گاڑ کر فرمایا ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے ۔ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے ، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے ، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا ، جس کا قد لمبائی میں ( 3333 ) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا ، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں ، ان کے تو ذکر سے بھی حیا مانع ہے ، پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا ، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے ، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا ، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا ۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے ، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے ، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی ، قرآن فرماتا ہے ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی ، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کر دیا ۔ خود قرآن میں ہے کہ آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے ، کوئی بھی بچنے کا نہیں تعجب سا تعجب ہے کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے ۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم ۔ بنی اسرائیل جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بے ادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا ، وہ انہیں سمجھاتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا ، وہ ڈرتے تھے ، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آ جائے ، ایک قرأت میں ( یخافون ) کے بدلے ( یھابون ) ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی ۔ ایک کا نام حضرت یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے ، تم دروازے تک تو چلے چلو ، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے ۔ لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے ۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوشع اور حضرت کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی ۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کر دیا ، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بےطرح مخالفت رسول پر تل گئے ۔ ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے حال کو دیکھئے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے ، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا ، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہئے؟ اللہ ان سب سے خوش رہے ، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا ، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ قربان ہیں ۔ سب سے پہلے حضرت صدیق نے اس قسم کی گفتگو کی ، پھر مہاجرین صحابہ میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی ۔ لیکن پھر بھی آپ نے فرمایا ؟ اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے ، آپ کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں ، اس لئے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے ۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری و انصار کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے شاید آپ کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کر کے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے ۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہو گا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے ۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں ، آپ جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں ، آپ اللہ کا نام لیجئے ، کھڑے ہو جایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر انشاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے اور آپ کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم ۔ ایک روایت میں ہے کہ بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ، حضرت عمر نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں ، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ، جو کہدیں کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑیں ، ہم یہاں بیٹھے ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے ، ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ حضرت مقداد انصاری نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا ۔ حضرت ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مقداد کے اس قول سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے ۔ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش کر سکتا ۔ ایک روایت میں حضرت مقداد کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے جبکہ مشرکین نے آپ کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ نے فرمایا میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بین اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں تو حضرت مقداد بن اسود نے فرمایا ہم اصحاب موسیٰ کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیھٹے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ کے ساتھی ہیں ، یہ سن کر اصحاب نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کر دیئے ۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہو سکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو واللہ اعلم ۔ حضرت موسیٰ کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے ، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما ۔ جناب باری نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے ۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے ، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے ۔ یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا ، من و سلویٰ کا اترنا ۔ ایک ٹھوس پتھر سے ، جو ان کے ساتھ تھا ، پانی کا نکلنا ، حضرت موسیٰ نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہو گئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہ نکلا ، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے ، یہیں تورات اتری ، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی ۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا ۔ فتون کی مطول حدیث میں ابن عباس سے یہ سب مروی ہے ۔ پھر حضرت ہارون کی وفات ہو گئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ حضرت موسیٰ بھی انتقال فرما گئے ، پھر آپ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون نبی بنائے گئے ۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف حضرت یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے ۔ بعض مفسرین سنتہ پر وقف تام کرتے ہیں اور اربعین سنتہ کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل ( یتبھون فی الارض ) کو بتلاتے ہیں ۔ اس سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہو لئے اور آپ نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا ۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے ، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں ، اے اللہ اسے ذرا سی دیر روک دے ۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کر لیا ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو کہدو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما ۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا ۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی ( حبتہ فی شعرۃ ) کہتے ہوئے شہر میں گئے ، مزید تفصیل سورہ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی حضرت یوشع نے فرمایا تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے چنانچہ یونہی کیا گیا ، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چپک گیا ، آپ نے فرمایا تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے ، اسے لے آ ۔ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا ، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے ، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا ، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا ۔ امام ابن جریر نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے ( اربعین سنتہ ) میں ( فانھا محرمتہ ) عامل ہے ، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو حضرت کلیم اللہ نے ہی قتل کیا ہے ۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے حضرت موسیٰ پر بددعا کی ۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ۔ اس لئے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا ۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مر گیا ، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا ، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ اس کا تخت تین گز کا تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر ، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں ، اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے ، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے ، جہاد سے جی چراتے تھے ، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا ، ان کے وعدے کا ، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا ، دن رات معجزے دیکھتے تھے ، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا ، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر ساتھ ہیں ، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں ، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں ، نبی اللہ کی بے ادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں ۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے سازو سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا ۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے ۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے ۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ رب کی نظروں سے یہ گر گئے تھے ، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے ، سور بندر بھی بنائے گئے ، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے ۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کا بوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران، مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمران عادل و متقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ 20۔ 2 یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من وسلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنادیا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد کی رسالت و بعث کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) 003:110 تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] بنی اسرائیل کے انبیاء جو بادشاہ بھی تھے :۔ بنی اسرائیل مصر میں نہایت ذلت سے غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تو انہیں عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۔ مصر اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں آپ ہی کی فرمانروائی تھی اس زمانہ میں بنی اسرائیل کو عزت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہوئی اور دینی اور دنیوی قیادت سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن بعد میں اپنی نافرمانیوں کی بنا پر وہ عزت ان سے چھین لی گئی تاآنکہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) جس وقت مبعوث ہوئے تو بنی اسرائیل مصر میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود فرعون کے تحت محکومانہ اور نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) آئے تو انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ حاکم قوم کی دیکھا دیکھی گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ خدائے واحد کی پرستش کا تصور ہی ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا اور غضب یہ کہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پرستش اور اس دین سے محبت یوں گھر کرچکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ پھر ان میں سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان مبعوث کیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہی بھی عطا کی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ : اس آیت کا تعلق (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ ) [ المائدۃ : ١٢ ] کے ساتھ ہے، یعنی ان سے عہد لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ان انعامات الٰہی کو یاد دلا کر ارض مقدس واپس لینے کے لیے جہاد کا حکم دیا۔ اس وقت وہاں عمالقہ (جبارین) کی حکومت تھی، لیکن بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ (کبیر)- يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۔ : اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر خصوصیت سے کیا ہے، ایک یہ کہ ان میں جلیل القدر انبیاء مبعوث فرمائے، جیسے اسحاق، یعقوب، یوسف اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ دوسری یہ کہ ان سب (بنی اسرائیل) کو بادشاہ بنادیا، یعنی ان کو فرعون سے آزادی دی اور اپنی حکومت عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ آزاد اور حاکم قوم کا ہر فرد ہی بادشاہ اور محکوم قوم کا ہر فرد غلام ہوتا ہے۔ تیسری یہ کہ انھیں توحید کا علم بردار بنایا، جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں۔ اس تیسری نعمت میں وہ معجزات بھی شامل ہیں جو بنی اسرائیل کی مدد کے لیے وجود میں آئے، مثلاً سمندر کا پھٹنا، بادل کا سایہ، پتھر سے چشمے کا پھوٹنا، من وسلویٰ وغیرہ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر۔- اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم (یعنی بنی اسرائیل) سے (اول ترغیب جہاد کی تمہید میں یہ) فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو کہ تم پر ہوا ہے، یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے (جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) اور خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) وغیرہم اور کسی قوم میں پیغمبروں کا ہونا ان کا دنیوی اور دینی شرف ہے۔ یہ تو نعمت معنوی دی) اور ( حسیِّ نعمت یہ دی کہ) تم کو صاحب ملک بنایا (چنانچہ فرعون کے ملک پر ابھی قابض ہوچکے ہو) اور تم کو (بعض بعض) وہ چیزیں دی ہیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (جیسا دریا میں راستہ دینا دشمن کو عجیب طور پر غرق کرنا جس کے بعد دفعةً غایت ذلت و زحمت سے نہایت رفعت و راحت میں پہنچ گئے یعنی اس میں تم کو خاص امتیاز دیا پھر اس تمہید کے بعد اصلی مقصود کے ساتھ ان کو خطاب فرمایا کہ) اے قوم میری (ان نعمتوں اور احسانوں کا مقتضا یہ ہے کہ تم کو جو اس جہاد کے متعلق حکم خداوندی ہوا ہے اس پر آمادہ رہو اور) اس متبرک ملک (یعنی شام کے دار الحکومت) میں (جہاں یہ عمالقہ حکمران ہیں جہاد کے ارادہ سے) داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے (اس لئے قصد کرتے ہی فتح ہوگی) اور پیچھے (وطن کی طرف) واپس مت چلو کہ پھر بالکل خسارہ میں پڑجاؤ گے (دنیا میں بھی کہ توسیع ملک سے محروم رہو گے اور آخرت میں کہ ترک فریضہ جہاد سے گنہگار رہو گے) ۔ کہنے لگے اے موسیٰ وہاں تو بڑے بڑے زبردست آدمی (رہتے) ہیں اور ہم تو وہاں پر ہرگز قدم نہ رکھیں گے۔ جب تک کہ وہ (کسی طرح) وہاں سے نہ نکل جائیں ہاں اگر وہ وہاں سے کہیں چلے جاویں تو ہم بیشک جانے کو تیار ہیں (موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید قول کے لئے) ان دو شخصوں نے (بھی) جو کہ (اللہ سے) ڈرنے والوں (یعنی متقیوں) میں سے تھے (اور) جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تھا (کہ اپنے عہد پر ثابت رہے تھے ان کم ہمتوں کو سمجھانے کے طور پر) کہا کہ تم ان پر (چڑھائی کرکے اس شہر کے) دروازہ تک تو چلو سو جس وقت تم دروازہ میں قدم رکھو گے اس وقت غالب آجاؤ گے (مطلب یہ ہے کہ جلدی فتح ہوجاوے گا، خواہ رعب سے بھاگ جائیں یا تھوڑا ہی مقابلہ کرنا پڑے) اور اللہ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو (یعنی تم ان کی تنومندی پر نظر مت کرو مگر ان لوگوں پر فہمائش کا اصلاً اثر نہیں ہوا بلکہ ان دو بزرگوں کو تو انہوں نے قابل خطاب بھی نہ سمجھا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے نہایت لا ابالی پن اور گستاخی کے ساتھ) کہنے لگے کہ اے موسیٰ ہم تو (ایک بات کہہ چکے ہیں کہ ہم) ہرگز کبھی بھی وہاں قدم نہ رکھیں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں موجود ہیں (اگر ایسا ہی لڑنا ضرور ہے) تو آپ اور آپ کے اللہ میاں چلے جائیے اور دونوں (جاکر) لڑ بھڑ لیجئے ہم تو یہاں سے سرکتے نہیں (موسیٰ (علیہ السلام) نہایت زِچ اور پریشان ہوئے اور تنگ آکر) دعا کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار (میں کیا کروں ان پر کچھ بس نہیں چلنا) ہاں اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر البتہ (پورا) اختیار رکھتا ہوں کہ آپ ہم دونوں (بھائیوں) کے اور اس بےحکم قوم کے درمیان (مناسب) فیصلہ فرما دیجئے (یعنی جس کی حالت کا جو مقتضا ہو وہ ہر ایک کے لئے تجویز فرما دیجئے) ارشاد ہوا (بہتر) تو (ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ) یہ ملک ان کے ہاتھ چالیس برس تک نہ لگے گا (اور گھر جانا بھی نصیب نہ ہوگا راستہ ہی نہ ملے گا) یوں ہی (چالیس برس تک) زمین میں سرمارتے پھریں گے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فیصلہ سنا جس کا گمان نہ تھا خیال یہ تھا کہ کوئی معمولی تنبیہ ہوجاوے گی تو طبعاً مغموم ہونے لگے۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ جب ان سرکشوں کے لئے ہم نے یہ تجویز کیا تو یہی مناسب ہے) سو آپ اس بےحکم قوم (کی اس حالت زار) پر (ذرا) غم نہ کیجئے۔ - معارف و مسائل - آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں اس میثاق کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کے بارے میں بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ان کی عام عہد شکنی، اور میثاق کی خلاف ورزی اور اس پر سزاؤں کا بیان تھا۔ ان آیات مذکورہ میں ان کی عہد شکنی کا ایک خاص واقعہ مذکور ہے۔- وہ یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات پاکر حکومت مصر کے مالک بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید انعام اور ان کے آبائی وطن ملک شام کو بھی ان کے قبضہ میں واپس دلانے کے لئے بذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کو یہ حکم دیا کہ وہ جہاد کی نیت سے ارض مقدسہ یعنی ملک شام میں داخل ہوں۔ اور ساتھ ہی ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اس جہاد میں فتح ان کی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس زمین کو ان کے حصہ میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ان کو مل کر رہے گی۔ مگر بنی اسرائیل اپنی طبعی خصوصیات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات، غرق فرعون اور فتح مصر وغیرہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے باوجود یہاں بھی عہد و میثاق پر پورے نہ اترے۔ اور جہاد شام کے اس حکم الہٰی کے خلاف ضد کرکے بیٹھ گئے۔ جس کی سزا ان کو قدرت کی طرف سے اس طرح ملی کہ چالیس سال تک ایک محدود علاقہ میں محصور و مقید ہو کر رہ گئے کہ بظاہر نہ ان کے گرد کوئی حصار تھا، نہ ان کے ہاتھ پاؤں کسی قید میں جکڑے ہوئے تھے۔ بلکہ کھلے میدان میں تھے۔ اور اپنے وطن مصر کی طرف واپس چلے جانے کے لئے ہر روز صبح سے شام تک سفر کرتے تھے۔ مگر شام کو پھر وہیں نظر آتے تھے جہاں سے صبح چلے تھے۔ اسی دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کی وفات ہوگئی۔ اور یہ لوگ اسی طرح وادی تیہ میں حیران و پریشان پھرتے رہے۔ ان کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے پیغمبر ان کی ہدایت کے لئے بھیجے۔- چالیس برس اس طرح پورے ہونے کے بعد پھر ان کی باقی ماندہ نسل نے اس وقت کے پیغمبر کی قیادت میں جہاد شام و بیت المقدس کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہوا کہ یہ ارض مقدس تمہارے حصہ میں لکھ دی گئی ہے۔ اور یہ اجمال ہے اس واقعہ کا جو آیات مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔ اب اس کی تفصیل قرآنی الفاظ میں دیکھئے۔ - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ ہدایت ملی کہ اپنی قوم کو بیت المقدس اور ملک شام فتح کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیں تو انہوں نے پیغمبرانہ حکمت و موعظت کے پیش نظر یہ حکم سنانے سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات یاد دلائے جو بنی اسرائیل پر اب تک ہوچکے تھے۔ ارشاد فرمایا :- (آیت) اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ فضل و انعام یاد کرو جو تم پر ہوا ہے کہ تمہاری قوم میں بہت سے انبیاء بھیجے اور تم کو صاحب ملک بنادیا اور تمہیں وہ نعمتیں بخشیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں ملیں۔- اس میں تین نعمتوں کا بیان ہے جن میں سے پہلی نعمت ایک روحانی اور معنوی نعمت ہے کہ ان کی قوم میں مسلسل انبیاء بکثرت بھیجے گئے۔ جس سے بڑھ کر اخروی اور معنوی اعزاز کوئی نہیں ہوسکتا۔ تفسیر مظہری میں نقل کیا ہے کہ کسی قوم اور کسی امت میں انبیاء کی کثرت اتنی نہیں ہوئی کہ جتنی بنی اسرائیل میں ہوئی ہے۔- امام حدیث ابن ابی حاتم نے بروایت اعمش نقل کیا ہے کہ قوم بنی اسرائیل کے آخری دور میں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہے۔ صرف اس دور میں ایک ہزار انبیاء بنی اسرائیل میں بھیجے گئے۔ دوسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، وہ دینوی اور ظاہری نعمت ہے کہ ان کو ملوک یعنی صاحب ملک و سلطنت بنادیا گیا۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل جو مدت سے فرعون اور قوم فرعون کے غلام بنے ہوئے دن رات ان کے مظالم کا شکار رہتے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو نیست و نابود کرکے ان کو ان کی حکومت و سلطنت کا مالک بنادیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے معاملہ میں تو ارشاد ہوا کہ (آیت) جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ یعنی تمہاری قوم میں سے بہت سے لوگوں کو انبیاء بنادیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ پوری قوم انبیاء نہیں تھی۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ انبیاء معدوددے چند ہوتے ہیں اور پوری قوم ان کی امت اور متبع ہوتی ہیں۔ اور جہاں دنیا کے ملک و سلطنت کا ذکر آیا تو وہاں فرمایا : وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی بنادیا تم کو ملوک جس کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ تم سب کو ملوک بنادیا۔ لفظ ملوک ملک کی جمع ہے۔ جس کے معنی عرف عام میں بادشاہ کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس طرح پوری قوم نبی اور پیغمبر نہیں ہوتی، اسی طرح کسی ملک میں پوری قوم بادشاہ بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ قوم کا ایک فرد یا چند افراد حکمران ہوتے ہیں۔ باقی قوم ان کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن قرآنی الفاظ نے ان سب کو ملوک قرار دیا۔ - اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جو بیان القرآن میں بعض اکابر کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ عرف عام میں جس قوم کا بادشاہ ہوتا ہے اس کی سلطنت و حکومت کو اسی پوری قوم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے اسلام کے قرون وسطی میں بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت کہلاتی تھی۔ اسی طرح ہندوستان میں غزنوی اور غوریوں کی حکومت پھر مغلوں کی حکومت پھر انگریزوں کی حکومت پوری قوم کے افراد کی طرف منسوب کی جاتی تھی۔ اس لئے جس قوم کا ایک حکمران ہو وہ پوری قوم حکمران اور بادشاہ کہلاتی ہے۔- اس محاورہ کے مطابق پوری قوم بنی اسرائیل کو قرآن کریم نے ملوک قرار دیا۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ اسلامی حکومت در حقیقت عوامی حکومت ہوتی ہے۔ عوام ہی کو اپنا امیر و امام منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے اور عوام ہی اپنی اجتماعی رائے سے اس کو معزول بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے صورةً اگرچہ فرد واحد حکمران ہوتا ہے مگر درحقیقت وہ حکومت عوام ہی کی ہوتی ہے۔ - دوسری وجہ وہ ہے جو ابن کثیر اور تفسیر مظہری وغیرہ میں بعض سلف سے نقل کی ہیں کہ لفظ ملک بادشاہ کے مفہوم سے زیادہ عام ہے۔ ایسے شخص کو ملک کہہ دیا جاتا ہے۔ جو آسودہ حال ہو، مکان، جائیداد، نوکر چاکر رکھتا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے اس وقت بنی اسرائیل سے ہر فرد ملک کا مصداق تھا۔ اس لئے ان سب کو ملوک فرمایا گیا۔ - تیسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ معنوی اور ظاہری دونوں قسم کی نعمتوں کا مجموعہ ہے کہ فرمایا : (آیت) وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤ ْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ یعنی تم کو وہ نعمتیں عطا فرمائیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں دی گئیں ان نعمتوں میں معنوی، شرف اور نبوت و رسالت بھی داخل ہے، اور ظاہری حکومت و سلطنت اور مال و دولت بھی البتہ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ بنص قرآن امت محمدیہ ساری امتوں سے افضل ہے۔- ارشاد قرآنی : (آیت) کنتم خیر امة اخرجت للناس اور وکذلک جعلنکم امة وسطا۔ اس پر شاہد ہے اور حدیث نبوی کی بیشمار روایات اس کی تائید میں ہیں۔ جواب یہ کہ اس آیت میں دنیا کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کے موسوی عہد میں موجود تھے۔ کہ اس وقت پورے عالم میں کسی کو وہ نعمتیں نہیں دی گئی تھیں جو بنی اسرائیل کو ملی تھیں۔ آئندہ زمانہ میں کسی امت کو ان سے بھی زیادہ نعمتیں مل جائیں یہ اس کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝ ٠ۤۖ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٢٠- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (وجعلکم ملوکا اور تمہیں ملوک یعنی فرمانروا بنایا) حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) زید بن اسلم اور حسن کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا اپنا گھر بیوی اور نوکر چاکر ہوں، دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس اتنی پونجی اور اتنا سامان ہو جس کی وجہ سے وہ کام کرنے کی تکلیف اٹھانے اور معاش کے لئے مشقتیں برداشت کرنے سے بچ جائے۔- حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ انہیں من و سلویٰ (بنی اسرائیل کو ان کی دشت گردی کے دوران ملنے والی خدائی خوراک) سر پر سایہ کرنے والے بادل اور بارہ چشمے بہانے والے چٹان کی بنا پر ملوک قرار دیا گیا۔ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ مال و دولت کی بنا پر انہیں ملوک کہا گیا۔ - حسن کا قول ہے کہ انہیں ملوک کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو مصر کے قبطیوں سے چھڑا لیا جنہوں نے انہیں غلام بنا رکھا تھا تو اپنی ذات کے آپ مالک ہوگئے۔ سدی کا قول ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال نیز اپنے مال کا مالک تھا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل پہلے لوگ تھے جنہوں نے نوکر چاکر رکھے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) اس وقت کو یاد کرو جب تم لوگ فرعون کے غلام تھے، اس اللہ نے فرعون سے نجات دے کر تمہیں صاحب ملک بنایا اور وادی تیہ میں تمہیں ” من وسلوی “ جیسی آسمانی نعمت دی، جو دنیا میں کسی اور نبی کی امت کو نہیں دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ آ رہا ہے جب آپ ( علیہ السلام) مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے ‘ صحرائے سینا میں رہے ‘ آپ ( علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلایا گیا اور تورات دی گئی۔ اس کے بعد انھیں حکم ہوا کہ فلسطین میں داخل ہوجاؤ اور وہاں پر آباد مشرک اور کافر قوم (جو فلسطی کہلاتے تھے) کے ساتھ جنگ کرو اور انہیں وہاں سے نکالو ‘ کیونکہ یہ ارض مقدس تمہارے لیے اللہ کی طرف سے موعود ہے۔ اس لیے کہ ان کے جد امجدّ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا تعلق اسّ خطہ سے تھا۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں منتقل ہوئے تو انہیں حکم ہوا کہ اب جاؤ ‘ اپنے اصل گھر (ارضِ ‘ فلسطین) کو دوبارہ حاصل کرو۔ لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کو را جواب دے دیا کہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مزاج میں جو تلخی پیدا ہوئی اور طبیعت کے اندر بےزاری کی جو کیفیت پیدا ہوئی ‘ اس کی شدت یہاں نظر آتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رسول اپنی امت کے حق میں سراپا شفقت ہوتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کی مانند ہے۔ جیسے اللہ رؤف بھی ہے ‘ وَدُود بھی ‘ لیکن ساتھ ہی وہ عزیزٌ ذُوانتقام بھی ہے (اللہ کی یہ دونوں شانیں ایک ساتھ ہیں) اسی طرح رسول کا معاملہ ہے کہ رسول شفیق اور رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہوتا ہے۔ نبی کے دل میں دین کی غیرت اپنے پیروکاروں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا قوم کے منفی ردّ عمل پر نبی کی بےزاری لازمی ہے ۔- یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو پے درپے معجزات کے ظہور نے تساہل پسند بنادیا تھا۔ پیاس لگی تو چٹان پر موسیٰ (علیہ السلام) کی ایک ہی ضرب سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ‘ بھوک محسوس ہوئی تو منّ وسلویٰ نازل ہوگیا ‘ دھوپ نے ستایا توابر کا سائبان ساتھ ساتھ چل پڑا ‘ سمندر راستے میں آیا تو عصا کی ضرب سے راستہ بن گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئے ‘ آرام طلب ہوگئے ‘ مشکل کی ہر گھڑی میں انھیں معجزے کے ظہور کی عادت سی پڑگئی اور جنگ کے موقع پر دشمن کا سامنا کرنے سے انکار کردیا ‘ باوجودیکہ ان کے کم ‘ ازکم ایک لاکھ افراد تو ایسے تھے جو جنگ کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی حکمت ہے کہ محمد رٌسول ‘ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی میں اس قسم کا کوئی معجزہ نظر نہیں آتا ‘ بلکہ یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ مسلمانو تمہیں جو کچھ کرنا ہے اپنی جان دے کر ‘ ایثار و قربانی سے ‘ محنت و مشقت سے ‘ بھوک جھیل کر ‘ فاقے برداشت کر کے کرنا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کے برعکس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ‘ ساتھیوں میں ایثار و قربانی ‘ جرأت و بہادری اور بلندہمتی نظر آتی ہے ‘ جس کی واضح مثال غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت مقداد (رض) کا یہ قول ہے : - یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ لِمُوْسٰی (فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ) وَلٰکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ ‘ فَکَاَنَّہٗ سُرِّیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (١) - یارسول اللہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب جا کر قتال کرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ (ہم کہیں گے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قدم بڑھایئے ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیں اس پر گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پریشانی کا ازالہ ہوگیا۔- آیت ٠ ٢ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ) (یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ) ( اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ ) - یعنی خود میں نبی ہوں ‘ میرے بھائی ہارون نبی ہیں۔ حضرت یوسف ‘ حضرت یعقوب ‘ حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب نبی تھے۔- (وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًاق) - اگرچہ اس وقت تک ان کی بادشاہت تو قائم نہیں ہوئی تھی مگر ہوسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی ہو کہ آئندہ تمہیں اللہ تعالیٰ زمین کی سلطنت اور خلافت عطا کرنے والا ہے۔ چناچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے اقتدار کی طرف اشارہ ہے ‘ وہ اگرچہ مصر کے بادشاہ تو نہیں تھے لیکن بادشاہوں کے بھی مخدوم و ممدوح تھے اور بنی اسرائیل کو مصر میں پیرزادوں کا سا عزت و احترام حاصل ہوگیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :42 یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس عظمت گذشتہ کی طرف جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کسی زمانہ میں ان کو حاصل تھی ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر ان کی قوم میں پیدا ہوئے ۔ اور دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں اور ان کے بعد مصر میں ان کو بڑا اقتدار نصیب ہوا ۔ مدت دراز تک یہی اس زمانہ کی مہذب دنیا کے ساب سے بڑے فرماں روا تھے اور انہی کا سکہ مصر اور اس کے نواح میں رواں تھا ۔ عموماً لوگ بنی اسرائیل کے عروج کی تاریخ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع کرتے ہیں ، لیکن قرآن اس مقام پر تصریح کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل زمانہ عروج حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے گزر چکا تھا جسے خود حضرت موسیٰ اپنی قوم کے سامنے اس کے شاندار ماضی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani