22۔ 1 بنو اسرائیل عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہوگئے تھے اور پہلے مرحلے پر ہی ہمت ہار بیٹھے۔ اور جہاد سے دست بردار ہوگئے۔ اللہ کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی کوئی پروا کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین کیا وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔
[٥٣] وفد کی رپورٹ اور جہاد سے انکار :۔ لیکن ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جب فلسطین کے علاقہ کا دورہ کر کے واپس آئے، تو اس کی رپورٹ خفیہ طور پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو دینے کی بجائے ہر ایک کو وہاں کے حالات بتانا شروع کردیئے۔ اور وہ رپورٹ یہ تھی کہ فلسطین کا علاقہ واقعی بڑا زرخیز و شاداب ہے۔ وہاں پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں لوگوں کی معاشی حالتاچھی ہے لیکن وہ لوگ بڑے طاقتور، زور آور اور قدآور ہیں۔ ہم ان کے مقابلہ میں ٹڈے معلوم ہوتے تھے اور وہ بھی ہمیں ٹڈے ہی سمجھتے تھے۔ لہذا ان لوگوں پر فتح حاصل کرنا ہماری بساط سے باہر ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ان طاقتور لوگوں کی موجودگی میں ہمارا وہاں داخل ہونا اور پھر مقابلہ کر کے فتح یاب ہونا ناممکنات سے ہے اور اگر اللہ نے یہ علاقہ ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے تو وہ کوئی ایسا انتظام کر دے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں تو تب ہی ہم اس میں داخل ہوسکتے ہیں۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ۔۔ : ایمان کمزور ہونے کی وجہ سے انھوں نے کہا کہ وہاں بڑے زبردست جنگ جو ( جبارین) لوگ رہتے ہیں، جن کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں۔ جب تک وہ لوگ آپ کے معجزے کی بدولت وہاں سے نہ نکل جائیں، ہم ہرگز وہاں داخل نہیں ہوں گے، اگر وہ خود بخود نکل جائیں تو پھر ہم ضرور داخل ہوجائیں گے۔- ” جَبَّارِيْنَ “ سے بڑے ڈیل ڈول والے، بہت اسلحے والے جنگ جو مراد ہیں، مگر جس انداز سے بعض تفسیروں میں ان لوگوں کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ سب ایسی اسرائیلی روایات ہیں جنھیں ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا، خصوصاً عوج بن عنق کا افسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آدم (علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، اس کے بعد سے برابر لوگ گھٹ رہے ہیں۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ٣٣٢٦۔ مسلم : ٢٨٤١ ] پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تینتیس (٣٣٣٣) ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے ؟ (ابن کثیر)
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اس سے پہلے آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) قوم عمالقہ سے جہاد کرکے ملک شام فتح کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ ملک شام کی زمین اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لکھ دی ہے۔ اس لئے کہ فتح یقینی ہے۔- اس آیت متذکرہ میں اس کا بیان ہے کہ اس کے باوجود بنی اسرائیل نے اپنی معروف سرکشی اور کج طبعی کی وجہ سے اس حکم کو بھی تسلیم نہ کیا۔ بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ اس ملک پر تو بڑے زبردست قوی لوگوں کا قبضہ ہے۔ ہم تو اس زمین میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں قابض ہیں۔ ہاں وہ کہیں اور چلے جاویں تو بیشک ہم وہاں جاسکتے ہیں۔- واقعہ اس کا جو ائمہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس اور عکرمہ اور علی بن ابی طلحہ وغیرہ سے منقول ہے یہ ہے کہ اس وقت ملک شام اور بیت المقدس پر قوم عمالقہ کا قبضہ تھا جو قوم عاد کی کوئی شاخ اور بڑے ڈیل ڈول اور ہیبت ناک قدوقامت کے لوگ تھے۔ جن سے جہاد کرکے بیت المقدس فتح کرنے کا حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو ملا تھا۔ - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حکم خدا وندی کی تعمیل کے لئے اپنی قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ جانا بیت المقدس پر تھا۔ جب نہر اردن سے پار ہو کر دنیا کے قدیم ترین شہر اریحا پر پہنچے، تو یہاں قیام فرمایا۔ اور بنی اسرائیل کے انتظام کے لئے بارہ سرداروں کا انتخاب کرنا قرآن کریم کی پچھلی آیات میں بیان ہوچکا ہے۔ ان سرداروں کو آگے بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں کے حالات اور محاذ جنگ کی کیفیات معلوم کرکے آئیں جو بیت المقدس پر قابض ہیں اور جن سے جہاد کرنے کا حکم ملا ہے۔ یہ حضرات بیت المقدس پہنچے تو شہر سے باہر ہی قوم عمالقہ کا کوئی آدمی مل گیا۔ اور وہ اکیلا ان سب کو گرفتار کرکے لے گیا۔ اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا کہ یہ لوگ ہم سے جنگ کرنے کے قصد سے آئے ہیں۔ شاہی دربار میں مشورہ ہوا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے یا کوئی دوسری سزا دی جائے۔ بالآخر رائے اس پر ٹھہری کہ ان کو آزاد کردیں تاکہ یہ اپنی قوم میں جا کر عمالقہ کی قوت و شوکت کے ایسے عینی گواہ ثابت ہوں کہ کبھی ان کی طرف رخ کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔- اس موقع پر اکثر کتب تفسیر میں اسرائیلی روایات کی لمبی چوڑی کہانیاں درج ہیں جن میں اس ملنے والے شخص کا نام عوج بن عنیق بتلایا ہے۔ اور اس کی بےپناہ قدوقامت اور قوت و طاقت کو ایسی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کسی سمجھ دار آدمی کو اس کا نقل کرنا بھی بھاری ہے۔- امام تفسیر ابن کثیر نے فرمایا کہ عوج بن عنق کے جو قصے ان اسرائیلی روایات میں مذکور ہیں نہ عقل ان کو قبول کرسکتی ہے اور نہ شرع میں ان کا کوئی جواز ہے۔ بلکہ یہ سب کذب و افترا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ قوم عمالقہ کے لوگ چونکہ قوم عاد کے بقایا ہیں جن کے ہیبت ناک قدوقامت کا خود قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اس قوم کا ڈیل ڈول اور قوت و طاقت ضرب المثل تھی۔ ان کا ایک آدمی قوم بنی اسرائیل کے بارہ آدمیوں کو گرفتار کرکے لے جانے پر قادر ہوگیا۔ - بہرحال بنی اسرائیل کے بارہ سردار عمالقہ کی قید سے رہا ہو کر اپنی قوم کے پاس مقام اریحا پر پہنچے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس عیجب و غریب قوم اور اس کی ناقابل قیاس قوت و شوکت کا ذکر کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قلب پر تو ان سب باتوں کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی فتح و کامیابی کی بشارت سنا دی تھی۔ - بقول اکبر - مجھ کو بےدل کر دے ایسا کون ہے - یاد مجھ کو انتم الاعلون ہے - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کی قوت و شوکت کا حال سن کر اپنی جگہ کوہ استقامت بنے ہوئے اقدام جہاد کی فکر میں لگے رہے۔ مگر خطرہ یہ ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اگر حریف مقابل کی اس بےپناہ طاقت کا علم ہوگیا تو یہ لوگ پھسل جائیں گے۔ اس لیے ان بارہ سرداروں کو ہدایت فرمائی کہ قوم عمالقہ کے یہ حالات بنی اسرائیل کو ہرگز نہ بتائیں، بلکہ راز رکھیں۔ مگر ہوا یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے دوستوں سے خفیہ طور پر اس کا تذکرہ کردیا۔ صرف دو آدمی جن میں سے ایک نام یوشع بن نون اور دوسرے کا لب بن یوقنا تھا۔ انہوں نے موسوی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس راز کو کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ - اور (ظاہر ہے کہ بارہ میں سے جب دس نے راز فاش کردیا) تو اس کا پھیل جانا قدرتی امر تھا۔ بنی اسرائیل میں جب ان حالات کی خبریں شائع ہونے لگیں تو لگے رونے، پیٹنے اور کہنے لگے کہ اس سے تو اچھا یہی تھا کہ فرعون کی طرح ہم بھی غرق دریا ہوجاتے۔ وہاں سے بچا لا کر ہمیں مروایا جا رہا ہے۔ انہیں حالات میں بنی اسرائیل نے یہ الفاظ کہے :- قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ڰ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْهَا ۚ یعنی اے موسیٰ اس شہر میں تو بڑی زبردست قوم آباد ہے جن کا مقابلہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جب تک وہ لوگ آباد ہیں موجود ہیں ہم وہاں جانے کا نام نہ لیں گے۔ اگلی آیت میں ہے کہ وہ شخص جو ڈرنے والے تھے اور جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا تھا انہوں نے بنی اسرائیل کی یہ گفتگو سن کر بطور نصیحت ان کو کہا کہ تم پہلے ہی کیوں ڈرے مرتے ہو، ذرا قدم اٹھا کر شہر بیت المقدس کے دروازہ تک تو چلو۔ ہمیں یقین ہے کہ تمہارا اتنا ہی عمل تمہاری فتح کا سبب بن جائے گا۔ اور دروازہ بیت المقدس میں داخل ہوتے ہی تم غالب ہوجاؤ گے۔ اور دشمن شکست کھا کر بھاگ جائے گا۔ یہ دو شخص جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک وہ ہی بارہ میں سے دو سردار ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر عمالقہ کا پورا حال بنی اسرائیل کو نہ بتایا تھا۔ یعنی یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا۔
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ٠ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا ٠ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ ٢٢- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- جبر - أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، - والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] - ( ج ب ر ) الجبر - اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معیل اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔
لفظ جبار کی تشریح - قول باری ہے (ان فیھا قوما جبارین۔ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں) ایک قول یہ ہے کہ لفظ جبار راحبار علی الامر “ کسی بات پر مجبور کرنا) سے نکلا ہے۔ ٹوٹی ہوئی ہڈی پر پلستر چڑھانے کو ” جبر العظم “ اس لئے کہتے ہیں کہ پلستر یا جبیرہ کے ذریعے اس ہڈی کو ٹھیک ہوجانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔- خون رائیگاں جانے اور خونبہا لازم نہ ہونے کو جبار کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس کے اندر بھی زبردستی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ لمبے کھجور کے درخت کو جس تک ہاتھ نہ پہنچ سکے جبارۃ کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی جبار انسان کی طرح ہوتا ہے۔ جبار انسان اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو لوگوں کو اپنے مقصد اور مطلب پر مجبور کردیتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ جبار مدح کی صفت ہے اور غیر اللہ کے لئے صفت ذم ہے۔ اس لئے کہ غیر اللہ ایسی چیز کی بنا پر بڑا بنتا ہے جو اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی دی ہوئی ہوتی ہے، جب عظمت اور بڑائی صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے وہی جبار اور صاحب عظمت ہے اور ہمیشہ رہے گا۔- جب اللہ کے لئے جبار کی صفت کا اطلاق کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے اللہ تعالیٰ عارف باللہ کو اپنی ذات بےہمتا کی تعظیم کی دعوت دیتا ہے۔ جبار اور قہار میں یہ فرق ہے کہ قہار کے اندر اس شخص پر غلبہ پالینے کے معنی پائے جاتے ہیں جو اللہ کی نافرمانی کر کے اس کے ساتھ دشمنی کرتا ہو یا دشمنی کرنے والے کے حکم میں ہو۔
آیت ٢٢ (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ق) - ہم فلسطین میں کیسے داخل ہوجائیں ؟ یہاں تو جو لوگ آباد ہیں وہ بڑے طاقت ور ‘ گراں ڈیل اور زبردست ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟