Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں صرف یہ دو شخص صحیح معنوں میں ایماندار نکلے، جنہیں نصرت الٰہی پر یقین تھا انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تم ہمت تو کرو، پھر دیکھو کس طرح اللہ تمہیں غلبہ عطا فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے بارہ افراد پر مشتمل جو وفد بھیجا گیا تھا ان میں دو آدمی یوشع بن نون اور کالب بھی تھے۔ اور یہ دونوں پکے مومن تھے یوشع تو غالباً وہی ہیں جنہوں نے سیدنا خضر کی تلاش میں سفر میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا تھا۔ اور بعد میں ان کے خلیفہ بھی بنے۔ ان دونوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق وہاں کے حالات کی عام لوگوں کے سامنے تشہیر نہیں کی تھی اور تمام حالات خفیہ طور پر سیدنا موسیٰ سے بیان کیے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اپنی قوم سے کہنے لگے، چونکہ اللہ نے فتح و نصرت کا ہم سے وعدہ کر رکھا ہے لہذا ان جباروں سے ڈرنے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرو۔ کمر ہمت باندھو اور دروازے میں داخل ہوجاؤ۔ اگر تم نے اتنی جرأت کرلی تو یقینا اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم ہی غالب ہو گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَجُلٰنِ : اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کا ذکر بطور نکرہ فرمایا ہے اور کسی حدیث میں بھی ان کے ناموں کی صراحت نہیں آئی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قرآن کریم نے اس جگہ ان دونوں بزرگوں کی دو صفتیں خاص طور پر ذکر فرمائی ہیں۔ ایک الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ یعنی یہ لوگ جو ڈرتے ہیں۔ اس میں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس سے ڈرتے ہیں۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ڈرنے کے لائق سارے عالم میں صرف ایک ہی ذات ہے۔ یعنی اللہ جل شانہ کیونکہ ساری کائنات اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کی مشیت و اذن کے بغیر کوئی نہ کسی کو ادنیٰ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ادنیٰ نقصان اور جب ڈرنے کے لائق ایک ہی ذات ہے اور وہ متعین ہے تو پھر اس کے تعین کی ضرورت نہ رہی۔- دوسری صفت ان بزرگوں کی قرآن کریم نے یہ بتلائی کہ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص میں جہاں کوئی خوبی اور بھلائی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا انعام و عطا ہے۔ ورنہ ان بارہ سرداروں میں قوی ظاہرہ ہاتھ، پاؤ ں، آنکھ، کان اور قوائے ظاہرہ و باطنہ اور عقل و ہوش اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صحبت و معیت یہ ساری ہی چیزیں سبھی کو حاصل تھیں۔ اس کے باوجود اور سب پھسل گئے اور یہی دو اپنی جگہ جمے رہے تو معلوم ہوا کہ اصل ہدایت انسان کے قوائے ظاہرہ و باطنہ اس کی سعی و عمل کے تابع نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ البتہ اس انعام کے لئے سعی و عمل شرط ضرور ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقل و ہوش اور دانائی و ہوشیاری عطا فرمائی ہو وہ اپنی ان طاقتوں پر ناز نہ کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی سے رشد و ہدایت طلب کرے عارف رومی نے خوب فرمایا ہے - فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ - جز شکستہ می نگیر و فضل شاہ - خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے اپنی برادری کو یہ نصیحت فرمائی کہ عمالقہ کی ظاہری قوت و شوکت سے نہ گھبرائیں۔ اللہ پر توکل کرکے بیت المقدس کے دروازہ تک چلے چلیں تو فتح اور غلبہ ان کا ہے۔ ان بزرگوں کا یہ فیصلہ کہ دروازہ تک پہنچنے کے بعد ان کو غلبہ ضرور حاصل ہوجائے گا اور دشمن شکست کھا کر بھاگ جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ قوم عمالقہ کے جائزہ لینے کی بنا پر ہو کہ وہ لوگ بڑے ڈیل ڈول اور طاقت و قوت کے باوجود دل کے کچے ہیں۔ جب حملہ کی خبر پائیں گے تو ٹھہر نہ سکیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ فرمان الہٰی جو بطور بشارت فتح موسیٰ (علیہ السلام) سے سن چکے تھے۔ اس پر یقین کامل ہونے کی وجہ سے یہ فرمایا ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۝ ٠ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۝ ٠ۥۚ وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٢٣- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خوف کے ہوتے ہوئے حق گوئی کی عظمت - قول باری ہے (قال رجلان من الذی یخافون انعم اللہ علیھما ادخلوا علیھم الباب۔ ان ڈرنے والوں میں سے دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا انہوں نے کہا کہ ان جباروں کے مقابلہ میں دروازوں کے اندر گھس جائو “ )- قتادہ سے مروی ہے کہ قول باری (یخافون) سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ سے ڈرتے تھے، لیکن دوسرے اہل علم کا قول ہے کہ وہ لوگ ان جباروں سے ڈرتے تھے لیکن اس خوف اور ڈرنے نے انہیں کلمۂ حق کہنے سے باز نہیں رکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دو مرد حق کی تعریف کی یہ چیز خوف اور ڈر کے موقعہ پر کلمۂ حق کہنے کی فضیلت اور اس کی شرف منزلت پر دلالت کرتی ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لایمنعن احدکم مخافۃ الناس ان یقول الحق اذا راأہ ولعمہ فانہ یبعد من الرزق ولا یدنی من اجل۔ تم میں سے کسی کو لوگوں کا خوف کلمۂ حق کہنے سے باز نہ رکھے جب وہ حق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے اور اس کا علم اسے حاصل ہوجائے اس لئے کہ بات نہ اسے ملنے والے رزق سے دور کرسکتی ہے اور نہ ہی آنے والے اجل سے قریب کرسکتی ہے)- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا تھا (وان لایا خذک فی اللہ لومۃ لائم اور یہ کہ کسی ملامت گر کی ملامت اللہ کے بارے میں تمہارے راستے کی رکاوٹ نہ بننے پائے) جب آپ سے افضل ترین جہاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (کلمۃ حق عند سلطان جائر ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے۔ )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) مگر یوشع بن نون اور کالب بن یوقتا جو اللہ تعالیٰ سے خوف رکھنے والے تھے، انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید میں فرمایا، ان لوگوں سے نہ ڈرو اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے اس علاقے میں داخل ہوجاؤ۔ اس کے معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ یہ دونوں حضرات موسیٰ (علیہ السلام) سے ڈرتے تھے اور ان کے زبردست لوگوں میں سے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرما کر انھیں دولت توحید سے بہرہ مند فرمایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ ) (اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمَا) - یہ دو اشخاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد اور قریبی حواری تھے۔ ایک تو یوشع بن نون تھے ‘ جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کے جانشین بھی ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ نبی بھی تھے ‘ جبکہ دوسرے شخص کالب بن یفنّا تھے۔ ان دونوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ ہمت کرو :- (ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ ج) ۔- تم لوگ ایک دفعہ دروازے میں گھس کر ان کا سامنا تو کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :45 قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو لوگ جباروں سے ڈر رہے تھے ان کے درمیان سے دو شخص بول اٹھے ۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ خدا سے ڈرنے والے تھے ان میں سے دو شخصوں نے یہ بات کہی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب علیہما السلام تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔