Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی، سوء ادبی اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو اور تیرا رب جا کر لڑے۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور پھر یہ کہا کہ یارسول اللہ ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] بنی اسرائیل کا موسیٰ کو جہاد کرنے سے جواب :۔ لیکن یہ قوم جو مدت دراز سے فرعونیوں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی تھی اور اللہ کی بجائے بچھڑے کی پرستش کر رہی تھی اس قدر پست ہمت اور بزدل بن چکی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہیں جاتے ہم وہاں کبھی نہ جائیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کو دیدہ دانستہ ہلاکت میں ڈالنے کو تیار ہیں اگر تمہیں جہاد پر اتنا ہی اصرار ہے تو جاؤ تم اور تمہارا رب جا کر ان سے مقابلہ کرو ہم تو یہاں سے آگے نہیں جائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا۔۔ : ان دو آدمیوں نے کہا تھا کہ تم لوگ ان پر حملے کے لیے بس دروازے میں داخل ہوجاؤ، یعنی اللہ کے وعدے اور بشارت کے مطابق تمہارے داخلے کی دیر ہے، دشمن بھاگ جائے گا لیکن انھوں نے حد سے بڑھا ہوا گستاخانہ جملہ کہا : ” جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ “ اس کے برعکس بدر کے موقع پر جنگ کے اچانک سامنے آنے کے باوجود اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کمال عزم و ہمت اور شجاعت و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ مقداد بن اسود (رض) نے بدر کے دن عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) ہم تو عرض کرتے ہیں کہ آپ چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ “ یہ سن کر ایسے محسوس ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب پریشانی دور ہوگئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( فاذھب أنت وربک فقاتلا ) : ٤٦٠٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مگر بنی اسرائیل نے جب اپنے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہ سنی تو ان دونوں بزرگوں کی کیا سنتے۔ پھر وہی جواب اور زیادہ بھونڈے انداز سے دیا کہ فاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ یعنی آپ اور آپ کے اللہ میاں ہی جاکر ان سے مقابلہ کرلیں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کا یہ کلمہ اگر استہزاء کے طور پر ہوتا تو صریح کفر تھا اور اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے ساتھ رہنا۔ ان کے لئے میدان تیہ میں دعائیں کرنا۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ اس کا امکان نہ تھا۔ - اس لئے ائمہ مفسرین نے اس کلمہ کا مطلب یہ قرار دیا کہ آپ جائیے اور ان سے مقابلہ کیجئے۔ آپ کا رب آپ کی مدد کرے گا۔ ہم تو مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ اس معنے کے اعتبار سے یہ کلمہ کفر کی حد سے نکل گیا۔ اگرچہ یہ جو اب نہایت بھونڈا اور دل آزار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ کلمہ ضرب المثل بن گیا۔ - غزوہ بدر میں نہتے اور بھوکے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک ہزار مسلح نوجوانوں کا لشکر آکھڑا ہوا۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دیکھ کر اپنے رب سے دعائیں فرمانے لگے۔ تو حضرت مقداد بن اسود صحابی آگے بڑھے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم ہے ہم ہرگز وہ بات نہ کہیں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی کہ فاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ بلکہ ہم آپ کے دائیں اور بائیں سے اور سامنے سے اور پیچھے سے مدافعت کریں گے۔ آپ بےفکر ہو کر مقابلہ کی تیاری فرمائیں۔ - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر بےحد مسرور ہوئے اور صحابہ کرام میں بھی جوش جہاد کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مقداد بن اسود کے اس کارنامہ پر مجھے بڑ ارشک ہے۔ کاش یہ سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی۔ - خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ایسے نازک موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کو را جواب دے کر اپنے سب عہد و میثاق توڑ ڈالے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ۝ ٢٤- ابد - قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا .- وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل :- آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء .- وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد .- وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد :- الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب .- اب د ( الابد)- :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔- دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیں کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قوم موسیٰ کا جنگی تعاون سے انکار - قول باری ہے (قالوا یموسی انا لن نذخلھا ابدا مادا مرا فیھ فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھتا قاعدون۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں، بس تم اور تمہارا رب، دونوں جائو اور لڑو ہم یہاں بیٹھتے ہیں۔ )- قول باری (فاذھب انت وربک فقاتلا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے یہ بات بطور مجاز کہی تھی یعنی تم جائو اور تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا “۔- دوسرے یہ کہ ذہاب یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے۔ اس صورت میں قائل کے اس قول کو اس کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو جسم اور جسمانیات کے مشابہ قرار دینے پر محمول کیا جائے گا۔ یہ معنی کلام کے مفہوم کے مدنظر اولیٰ ہے اس لئے کہ یہ کلام ان لوگوں کی تردید اور ان کی جہالت پر اظہار تعجب کے موقعہ میں وارد ہوا ہے۔- کبھی مجازاً یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” قاتلہ اللہ “ اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ کی اس کے ساتھ عداوت اس شخص کی عداوت کی طرح ہے جو اس سے برسرپیکار ہو اور اپنے اقتدار اور تسلط کے دبدبے کی بنا پر اس پر چھایا ہوا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) مگر قوم بولی آپ اور آپ کا اللہ یا ہارون اور تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا جیسا کہ تم دونوں کی فرعون اور اس کی قوم کی مقابلہ کے وقت مدد کی ہے، ہم نہیں جاسکتے تاہم انتظار میں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا) (مَّا دَامُوْا فِیْہَا) (فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا) - گویا وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ساتھ اپنی یہ لٹھیا بھی لیتے جاؤ ‘ جس نے بڑے بڑے کارنامے دکھائے ہیں ‘ اس کی مدد سے ان جباروں کو شکست دے دو ۔ - (اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ )- ہم تو یہاں ٹکے ہوئے ہیں ‘ یہاں سے نہیں ہلیں گے ‘ زمین جنبد ‘ نہ جنبد گل محمد - یہ مقام عبرت ہے ‘ تورات ( ) سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ لگ بھگ چھ لاکھ افراد نکلے تھے۔ ان میں سے عورتیں ‘ بچے اور بوڑھے نکال دیں تو ایک لاکھ افراد تو جنگ کے قابل ہوں گے۔ مزید محتاط اندازہ لگائیں تو پچاس ہزار جنگجو تو دستیاب ہوسکتے تھے ‘ مگر اس قوم کی پست ہمتی اور نظر یاتی کمزوری ملاحظہ ہو کہ چھ لاکھ کے ہجوم میں سے صرف دو اشخاص نے اللہ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار - اب نبی کی بیزاری ملاحظہ فرمائیں۔ وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جنہوں نے اپنے ہم قوم اسرائیلی کی مدافعت کرتے ہوئے ایک مکا رسید کر کے قبطی کی جان نکال دی تھی (فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِز) ( القصص : ١٥) اب اپنی قوم سے کس قدر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani