Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بےبسی کا اظہار بھی ہے اور برات کا اعلان بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے یہ جواب سن کر سخت مایوس اور غمگین ہوگئے اور اللہ کے حضور دعا کی کہ ایسی قوم سے تو میں اکیلا ہی بھلا۔ جیسے تو حکم دے میں خود حاضر ہوں یا پھر میرا بھائی ہارون۔ جو خود نبی تھے اور مصر میں فرعون اور فرعونیوں کے سامنے ہر دکھ سکھ میں شریک رہے تھے، جو میرے کہنے میں ہے۔ اگر ایسی نافرمان قوم میری بات نہیں مانتی تو اب میں کیا کرسکتا ہوں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ ۔۔ : اس پر موسیٰ (علیہ السلام) ایسے بددل ہوئے کہ انھوں نے دعا کی کہ پروردگار میرے اختیار میں میری جان اور اپنے بھائی کے سوا کچھ نہیں، تو ہمیں ان لوگوں سے علیحدہ کر دے، ایسا نہ ہو کہ تیرا عذاب آئے اور ان کے ساتھ ہم بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں۔ (کبیر، ابن کثیر) معلوم ہوا کہ جب کوئی قوم سرکشی اور نافرمانی پر تل جائے تو بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء اور مصلحین کی بھی وہاں کچھ پیش نہیں جاتی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قوم کی انتہائی بےوفائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتہائی عزم و استقلال - قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ- قوم بنی اسرائیل کے سابقہ حالات و واقعات اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاملات کا جائزہ لینے والا اگر سرسری طور پر بھی اس کو سامنے رکھے کہ جو قوم بنی اسرائیل صدیوں سے فرعون کی غلامی میں طرح طرح کی ذلتیں اور عذاب برداشت کر رہی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم اور ان کی برکت سے ان کو خدائے عزوجل نے کہاں سے کہاں پہنچایا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کے کیسے کیسے مظاہر آئے۔ فرعون اور قوم فرعون کو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے ہاتھوں اپنے قائم کئے ہوئے دربار میں شکست فاش ہوئی۔ جن ساحروں پر ان کا بھروسہ تھا۔ وہی اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دم بھرنے لگے۔ پھر اس خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون اور شاہی محلات میں بسنے والے آل فرعون سے خدائے عزوجل کی قدرت قاہرہ نے کس طرح تمام محلات و مکانات اور ان کے سازوسامان کو بیک وقت خالی کرا لیا۔ اور کس طرح بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے اسے غرق دریا کردیا۔ اور کس طرح معجزانہ طور پر بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا۔ اور کس طرح وہ دولت جس پر فرعون یہ کہہ کر فخر کیا کرتا تھا۔ الیس ملک مصر وھذہ الانھر تجری من تحتی۔ اللہ تعالیٰ نے پورا ملک اور اس کی پوری ملک بغیر کسی قتل و قتال کے بنی اسرائیل کو عطا فرما دی۔ - ان تمام واقعات میں اللہ جل شانہ کی قدرت قاہرہ کے مظاہر اس قوم کے سامنے آئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قوم کو اول غفلت و جہالت سے پھر فرعون کی غلامی سے نجات دلانے میں کیا کیا روح فرسا مصائب برداشت کیں، ان سب چیزوں کو بعد جب اسی قوم کو خدائی امدا و انعامات کے وعدوں کے ساتھ ملک شام پر جہاد کرنے کا حکم ملا تو ان لوگوں نے اپنی اس دناءت کا اظہار کیا اور کہنے لگے : فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ دنیا کا بڑے سے بڑا مصلح دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھے کہ ان حالات اور اس کے بعد قوم کی ان حرکات کا اس پر کیا اثر ہوگا۔ مگر یہاں تو اللہ تعالیٰ کے اولو العزم رسول ہیں، کہ کوہ استقامت بنے ہوئے اپنی دھن میں لگے ہیں۔ - قوم کی مسلسل عہد شکنی اور وعدہ فراموشی سے عاجز آکر اپنے رب کے سامنے صرف اتنا عرض کرتے ہیں : اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ یعنی مجھے تو اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر اختیار نہیں۔ قوم عمالقہ پر جہاد کی مہم کو کس طرح سر کیا جائے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے قوم بنی اسرائیل میں سے کم از کم دو سردار یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا جنہوں نے پوری طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اتباع کا ثبوت دیا تھا اور قوم کو سمجھانے اور صحیح راستہ پر لانے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مسلسل کوشش کی تھی۔ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ صرف اپنا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا۔ اس کا سبب وہی قوم بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور نافرمانی تھی کہ صرف حضرت ہارون (علیہ السلام) بوجہ نبی و پیغمبر ہونے کے معصوم تھے۔ اور ان کا طریق حق پر قائم رہنا یقینی تھا۔ باقی یہ دونوں سردار معصوم بھی نہ تھے۔ اس انتہائی غم و غصہ کے عالم میں صرف اس کا ذکر کیا جس کا حق پر قائم رہنا یقینی تھا۔ اس اظہار کے ساتھ کہ مجھے اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر اختیار نہیں۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی : فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ یعنی ہم دونوں اور ہماری قوم کے درمیان آپ ہی فیصلہ فرما دیجئے۔ اس دعا کا حاصل حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق یہ تھا کہ یہ لوگ جس سزا کے مستحق ہیں ان کو وہ سزا دی جائے اور ہم دونوں جس صورت حال کے مستحق ہیں ہم کو وہ عطا فرمایا جائے۔ - اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو اس طرح قبول فرمایا کہ ارشاد ہوا کہ (آیت) فانھا محرمة علیہم تا فی الارض۔ یعنی ملک شام کی زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام قرار دے دیگئی۔ اب اگر وہ وہاں جانا بھی چاہیں تو نہ جاسکیں گے۔ اور پھر یہ نہیں کہ ملک شام نہ جاسکیں گے بلکہ وہ اگر اپنے وطن مصر کی طرف لوٹنا چاہیں گے تو وہاں بھی نہ جاسکیں گے بلکہ اس میدان میں ان کو نظر بند کردیا جائے گا۔ - خدائے عزوجل کی سزاؤں کے لئے نہ پولیس اور نہ ان کی ہتھکڑیاں شرط ہیں اور نہ جیل خانے کی مضبوط دیواریں اور آہنی دروازے۔ بلکہ جب وہ کسی کو محصور و نظر بند کرنا چاہیں تو کھلے میدان میں بھی قید کرسکتے ہیں۔ سبب ظاہر ہے کہ ساری کائنات اسی کی مخلوق اور محکوم ہے۔ جب کائنات کو کسی کی قید کا حکم ہوجاتا ہے تو ساری ہوا اور فضا اور زمین و مکان اس کے لئے جیلر بن جاتے ہیں - خاک و بادو آب و آتش بندہ اند - بامن و تو مردہ باحق زندہ اند - چناچہ یہ مختصر سا میدان جو مصر اور بیت المقدس کے درمیان ہے جس کی پیمائش حضرت مقاتل کی تفسیر کے مطابق تیس فرسخ لمبائی اور نو فرسخ چوڑائی ہے، ایک فرسخ اگر تین میل کا قرار دیا جائے تو نوے میل کے طول اور ستائیس میل کے عرض کا کل رقبہ ہوجاتا ہے، اور بعض روایات کے مطابق صرف تیس میل ضرب اٹھارہ میل کا رقبہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پوری قوم کو جس کی تعداد حضرت مقاتل کے بیان کے موافق چھ لاکھ نفوس تھی، اس مختصر سے کھلے میدانی رقبہ کے اندر اس طرح قید کردیا کہ چالیس سال مسلسل اس تگ و دو میں رہے کہ کسی طرح اس میدان سے نکل کر مصر واپس چلے جائیں، یا آگے بڑھ کر بیت المقدس پر پہنچ جائیں، مگر ہوتا یہ تھا کہ سارے دن کے سفر کے بعد جب شام ہوتی تو یہ معلوم ہوتا کہ پھر پھرا کر وہ اسی مقام پر پر پہنچ گئے ہیں، جہاں سے صبح چلے تھے۔ - علماء تفسیر نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ کسی قوم کو جو سزا دیتے ہیں وہ ان کے اعمال بد کی مناسبت سے ہوتی ہے، اس نافرمان قوم نے چونکہ یہ کلمہ بولا تھا کہ یعنی ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سزا میں چالیس سال تک کے لئے وہیں قید کردیا، تاریخی روایات اس میں مختلف ہیں، کہ اس چالیس سال کے عرصہ میں بنی اسرائیل کی موجودہ نسل جس نے نافرمانی کی تھی، سبھی فناہ ہوگئے، اور ان کی اگلی نسل باقی رہ گئی، جو اس چالیس سالہ قید سے نجات پانے کے بعد بیت المقدس میں داخل ہوئی، یا ان میں سے بھی کچھ لوگ باقی تھے، بہر حال قرآن کریم نے ایک تو یہ وعدہ کیا تھا کہ (آیت) کتب اللّٰہ لکم۔ یعنی ملک شام بنی اسرائیل کے حصہ میں لکھ دیا ہے، وہ وعدہ پورا ہونا ضرور تھا، کہ قوم بنی اسرائیل اس ملک پر قابض و مسلط ہو، مگر بنی اسرائیل کے موجودہ افراد نے نافرمانی کرکے اس انعام خداوندی سے اعراض کیا تو ان کو یہ سزا مل گئی کہ (آیت) محرمة علیہم اربعین سنة۔ یعنی چالیس سال تک وہ ارض مقدسہ فتح کرنے سے محروم کر دئیے گئے۔ پھر ان کی نسل میں جو لوگ پیدا ہوئے ان کے ہاتھوں یہ ملک فتح ہوا، اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا۔ - اس وادی تیہ میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) بھی اپنی قوم کے ساتھ تھے مگر یہ وادی ان کے لئے قید اور سزا تھی، اور ان دونوں حضرات کے لئے نعمائے آلہیہ کا مظہر۔- یہی وجہ ہے کہ چالیس سالہ دور جو بنی اسرائیل پر معتوب ہونے کا گزرا اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی برکت سے طرح طرح کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا، کھلے میدان کی دھوپ سے عاجز آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کی چھتری لگا دی، جس طرف یہ لوگ چلتے تھے بادل ان کے ساتھ ساتھ سایہ فگن ہو کر چلتے تھے، پیاس اور پانی کی قلت کی شکایت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ایسا پتھر عطا فرما دیا کہ وہ ہر جگہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، اور جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی، تو موسیٰ (علیہ السلام) اپنا عصا اس پر مارتے تھے تو بارہ چشمے اس میں سے جاری ہوجاتے تھے، بھوک کی تکلیف پیش آئی تو آسمانی غذا من وسلویٰ ان پر نازل کردی گئی، رات کو اندھیرے کی شکایت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے روشنی کا ایک مینار ان کے لئے کھڑا کردیا جس کی روشنی میں یہ سب کام کاج کرتے تھے۔ - غرض اس میدان تیہ میں صرف معتوب لوگ ہی نے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دو محبوب پیغمبر اور ان کے ساتھ دو مقبول بزرگ یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا بھی تھے، ان کے طفیل میں اس قید و سزا کے زمانے میں بھی یہ انعامات ان پر ہوتے رہے، اور اللہ تعالیٰ رحیم الرحمن ہیں، ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ان افراد نے بھی ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے جرم سے توبہ کرلی ہو، اس کے بدلہ میں یہ انعامات ان کو مل رہے ہوں۔ - صحیح روایات کے مطابق اسی چالیس سالہ دور میں اول حضرت ہارون (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی اور اس کے ایک سال یا چھ مہینہ بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی، ان کے بعد حضرت یوشع بن نون کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مامور فرمایا، اور چالیس سالہ قید ختم ہونے کے بعد بنی اسرائیل کی باقی ماندہ قوم حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں جہاد بیت المقدس کے لئے روانہ ہوئی، اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ملک شام ان کے ہاتھوں فتح ہوا، اور اس ملک کی ناقابل قیاس دولت ان کے ہاتھ آئی۔ - آخر آیت میں جو ارشاد فرمایا کہ (آیت) فلا تاس علی القوم الفسقین، یعنی اس نافرمان قوم پر آپ ترس نہ کھائیں، یہ اس بنا پر کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی طبیعت اور فطرت سے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی امت کی تکلیف و پریشانی کو برداشت نہیں کرسکتے، اگر ان کو سزا ملے تو یہ بھی اس سے مغموم و متاثر ہوا کرتے ہیں، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تسلی دی گئی کہ آپ ان کی سزا سے دل گیر نہ ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٢٥- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

انسان اپنے نفس کا کہاں تک مالک ہے - قول باری ہے (قال رب انی لا املک الا نفسی واحی۔ اس پر موسیٰ نے کہا۔ ” اے میرے رب میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی) یہ بات بھی مجازا کہی گئی ہے اس لئے کہ کوئی انسان نہ اپنی ذات کا حقیقۃً مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے آزاد بھائی کا۔ یہ اس لئے کہ ملک کے اصل معنی قدرت کے ہیں۔- اور یہ بات محال ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات پر یا اپنے بھائی پر قدرت رکھتا ہو پھر ملک کے اسم کا تصرف کے معنوں پر اطلاق کیا گیا اور اس طرح مملوک کو اس شخص کے حکم میں کردیا گیا جو پوری طرح قابو میں ہو۔ اس لئے کہ قابو پانے والا انسان یعنی آقا اپنے مملوک کو اسی طرح اپنے اشاروں پر چلاتا ہے جس طرح اس شخص کو جو پوری طرح اس کے قابو میں ہوتا ہے۔- اس جگہ آیت کے معنی ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کردیا کہ وہ اس کی اطاعت میں اپنی ذات کو جس رخ پر چاہیں چلا سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے بھائی پر بھی اس کا اطلاق کیا اس لئے کہ آپ کے بھائی آپ کے حکم پر چلتے اور آپ کی بات پر قائم رہتے تھے۔- ابوبکر (رض) کے احسانات کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعتراف فرمایا - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (ما احد من علی بنفسہ و ذات یدہ من ابی بکر کسی شخص نے اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے بڑھ کر مجھ پر احسان نہیں کیا) یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) رو پڑے اور عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول میں اور میرا مال سب کچھ آپ کے لئے ہے “ یعنی آپ مجھے جس طرح موڑیں گے میں مڑ جائوں گا اور میرے مال میں آپ جو تصرف کریں گے وہ جائز ہوگا۔- اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا تھا (انت ومالک لا بیک تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے) آپ نے یہاں ملکیت کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥۔ ٢٦) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تو محض اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر اختیار رکھتا ہوں، ان کی سرکشی کی حد ہوگئی اب ہمارے اور ان نافرمان قوم کی درمیان فیصلہ فرما دیجیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ اب ان پر اس جگہ داخل ہونا حرام ہوگیا یہ وادی تیہ ہی میں بطور سزا جس کی مسافت سات فرسخ کے برابر ہے، چکر کھاتے رہیں گے نہ یہ وہاں سے نکل سکیں گے اور نہ ان کو کوئی راستہ ہی ملے گا، اب آپ فکر مت کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ ) - باقی یہ پوری قوم انکار کر رہی ہے۔ میرا کسی پر کچھ زور نہیں ہے۔- (فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ ) ۔ - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے رویے ّ سے اس درجہ آزردہ خاطر ہوئے کہ قوم سے علیحدگی کی تمنا کرنے لگے کہ میں اب ان ناہنجاروں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔ انہوں نے تیری عطا کردہ کیا کچھ نعمتیں برتی ہیں اور میرے ہاتھوں سے کیا کیا معجزے یہ لوگ دیکھ چکے ہیں ‘ اس کے باوجود ان کا یہ حال ہے تو مجھے ان سے علیحدہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ درخواست قبول نہیں کی لیکن اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani