Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ میدان تیہ کہلاتا ہے جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من وسلویٰ کا نزول ہوا جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔ 26۔ 2 پیغمبر جب دیکھتا ہے دعوت و تبلیغ کے باوجود میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ جس میں اس کے لئے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی صدمہ ہوتا ہے۔ یہی نبی کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا لیکن آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطہ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بد دماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوگیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] وعدہ میں چالیس سال کی تاخیر سے بطور علاج :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی بزدل اور نافرمان قوم کی سزا یہ ہے کہ ان سے جو فلسطین کی فتح و نصرت کا وعدہ تھا وہ چالیس سال تک کے لیے موخر کردیا جاتا ہے۔ یہ چالیس سال کی تاخیر دراصل اس بزدل اور پس ہمت قوم کی امراض کا علاج تھا کہ وہ اتنی مدت اسی جنگل میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دھکے کھاتی پھرے جنگل میں زندگی گزارنے کی صعوبتیں برداشت کریں۔ اس چالیس سال کے عرصہ میں اس قوم کی جوان اور بزدل نسل مر کھپ جائے اور جو نئی نسل پیدا ہو آزاد فضاؤں میں پرورش پائے۔ نرمی گرمی برداشت کرنے کی عادی اور ہمت والی بن جائے۔ پھر وہ لوگ اس قابل ہوں گے کہ اگر انہیں جہاد کے لیے ترغیب دی جائے تو وہ اٹھ کھڑے ہوں۔ لہذا اے موسیٰ اس قوم کو جو یہ علاج کے طور پر سزا دی جا رہی ہے آپ کو ایسے لوگوں پر ترس نہ آنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۔۔ : ”ۚ يَتِيْھُوْنَ “ ” تَاہَ یَتِیْہُ تَیْھًا “ بھٹکتے پھرنا۔ ” اَرْضٌ تِیْہٌ“ وہ زمین جس میں کوئی راستہ نہ ملے۔ (قاموس) اس کے بعد یہ لوگ چالیس سال تک بیابان میں بھٹکتے رہے اور اس کا نام ” صحرائے تیہ “ پڑگیا۔ یہیں پہلے ہارون (علیہ السلام) کا انتقال ہوا، پھر موسیٰ (علیہ السلام) بھی وفات پا گئے۔ بعد میں کسی وقت بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اہل کتاب کو قصہ سنایا، اس پر اگر تم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت نہ کرو گے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی۔ آگے اس پر قصہ سنایا ہابیل قابیل کا کہ حسد مت کرو، حسد والا مردود ہے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَيْہِمْ اَرْبَعِيْنَ سَـنَۃً۝ ٠ۚ يَتِيْھُوْنَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٢٦ۧ- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- تيه - يقال : تَاهَ يَتِيهُ : إذا تحيّر، وتاه يتوه لغة في تاه يتيه، وفي قصة بني إسرائيل : أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 26] ، وتوّهه وتَيَّهَهُ : إذا حيّره وطرحه . ووقع في التِّيهِ والتوه، أي في مواضع الحیرة، ومفازة تَيْهَاء : تحيّر سالکوها .- ( ت ی ہ ) تاۃ ( ض) کے معنی متحیر ہونے کے ہیں اور یہ باب تاہ یتوہ ( و ا و ی ) بھی آتا ہے قصہ بنی اسرائیل میں فرمایا ؛۔ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 26] چالیس برس تک ۔۔۔ اور ( جنگل کی ) زمین میں سرگردان پھرتے رہیں گے ۔ تو ھہ ویتھہہ حیران کرنا اور پھینک دینا ۔ وقع فی لتیہ والتوہ ۔ ورطہ حیرت میں پھنس گیا ۔ مفازۃ تیھاء وہ جنگل جس میں مسافر بھٹک جائیں ۔- أسَا - الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته :- إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة 68] ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تحریم بمعنی بندش وغیرہ - قول باری ہے (فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض۔ اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے) اکثر اہل علم کا قول ہے کہ یہ تحریم انہیں روک دینے کی صورت میں تھی اس لئے کہ جس جگہ یہ شام کرتے تھے وہیں ان کی صبح ہوتی تھی۔- اس مقام کی مساحت چھ فرسخ یا اٹھارہ میل تھی۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ یہ بھی درست ہے کہ یہ تحریم تعبد کے طور پر تھی یعنی اسے بجا لانا ان پر لازم تھا۔ اس لئے کہ تحریم کے اصل معنی بندش اور منع کے ہیں۔- قول باری ہے (وحرمنا علیہ المراضع من قبل۔ اور ہم نے موسیٰ پر دائیوں کی بندش پہلے ہی کر رکھی تھی) یہاں تحریم سے مراد بندش ہے۔- شاعر ایک گھوڑے کی توصیف کرتے ہوئے کہتا ہے۔- حالت لتصرعتی فقلت لھا اقصری انی امرء صرعی علیک حرام - یہ گھوڑا مجھے نیچے گرانے کے لئے مڑا تو میں نے اس سے کہا کہ ٹھہر جائو، میں تو ایسا شخص ہوں جسے نیچے گرا دینا تمہارے لئے حرام یعنی ممنوع ہے۔- شاعر کی مراد یہ ہے کہ میں شہسوار ہوں، تمہارے لئے مجھے نیچے گرا دینا ممکن نہیں ہے۔ تحریم کے اصل معنی تو یہی ہے، پھر اس تحریم کو اس تحریم کے ہم معنی بنادیا گیا جو تعبد کے طورپ ر ہوتی اس لئے کہ تحریم تعبد میں اللہ تعالیٰ حکماً ایک شخص پر کسی چیز کی بندش لگا دیتا ہے اور پھر تحریم شدہ چیز کی حیثیت وہی ہوجاتی ہے جو ممنوع کی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس چیز کے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ وقوع پذیر نہ ہو جس طرح ممنوع چیز وقوع پذیر نہیں ہوتی۔- قول باری (حرمت علیکم المیتۃ ولادم تم پر مردار اور خون حرام کردیئے گئے ہیں) میں تحریم حکم اور تعبد کے طور ہے، حقیقۃً منع کرنے اور بندش لگانے کے طور پر نہیں ہے۔ ایک چیز میں تحریم تعبد اور تحریم منع کا اجتماع محال ہوتا ہے۔- اس لئے ممنوع شے کی نہ بندش درست ہوتی ہے اور نہ ہی اباحت اس لئے یہ چیز مقدور کے اندر نہیں ہوتی۔ جبکہ خطر یعنی بندش اور اباحت کا تعلق ہمارے افعال کے ساتھ ہوتا ہے ہمارا ہر فعل وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہمارے مقدور میں ہوتا ہے۔ اگر یہ ہمارے مقدور میں نہ ہو تو اس کا ہم سے وقوع پذیر ہونا ناممکن ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج) ‘ ۔- یہ ہماری طرف سے ان کی بزدلی کی سزا ہے۔ اگر یہ بزدلی نہ دکھاتے تو ارض فلسطین ابھی ان کو عطا کردی جاتی ‘ مگر اب یہ چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی۔- (یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ) ۔ - اس صحرائے سینا میں یہ چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ - (فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ ) ۔- اب آپ ان نافرمانوں کا غم نہ کھایئے۔ اب جو کچھ ان پر بیتے گی اس پر آپ ( علیہ السلام) کو ترس نہیں کھانا چاہیے۔ آپ بہرحال ان کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ‘ جب تک زندگی ہے آپ کو ان کے ساتھ رہنا ہے۔- اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق بنی اسرائیل چالیس برس تک صحرائے سینا میں بھٹکتے پھرے۔ اس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے اور صحرا میں ایک نئی نسل پروان چڑھی جو خوئے غلامی سے مبراّ تھی۔ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) دونوں کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔- اب ذرا اس پس منظر میں سورة النساء میں نازل ہونے والے حکم کو بھی یاد کریں۔ یہاں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول نقل ہوا ہے : (لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ ) لیکن وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا تھا : (فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ ) (النساء : ٨٤) ۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجیے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں ہیں ‘ البتہ اہل ایمان کو بھی ترغیب دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی جان کے ‘ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو جس قدر ترغیب و تشویق دلا سکتے ہیں دلائیں ‘ ان ‘ کے جذبات ایمانی کو جس جس انداز سے اپیل کرنا ممکن ہے کریں ‘ اور بس اس سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ - اب پانچویں رکوع میں قتل ناحق ‘ ملک میں فساد پھیلانے اور چوری ڈاکے جیسے جرائم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور پھر ان کی سزاؤں کا ذکر ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :46 اس قصے کی تفصیلات بائیبل کی کتاب گنتی ، استثناء اور یشوع میں ملیں گی ۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دشت فاران سے بنی اسرائیل کے 12 سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں ۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کرکے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ، لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زو آور ہیں ۔ ۔ ۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں ، اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے ، یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جاکر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھیریں گے ۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنالیں اور مصر کو لوٹ چلیں ۔ اس پر ان بارہ سرداروں میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے ، دوسردار ، یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی ۔ کالب نے کہا چلو ہم ایک دم جاکر اس ملک پر قبضہ کرلیں ، کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو ۔ ۔ ۔ اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو مگر قوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ انہیں سنگسار کردو آخر کار اللہ تعالی کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یوشع اور کالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سرزمین میں داخل نہ ہونے پائے گا ۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی یہاں تک کہ جب ان میں سے 20 برس سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سب مرد مرجائیں گے اور نئی نسل جوان ہوکر اٹھے تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس فیصلہ خداوندی کے مطابق بنی اسرائیل کو دشت فاران سے شرقی اردن تک پہنچتے پہنچتے پورے 38 برس لگ گئے ۔ اس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر چلے تھے ۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد خلاف میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :47 یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے کی غرض سلسلہ بیان پر غور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ قصہ کے پیرایہ میں دراصل بنی اسرائیل کو یہ جتانا مقصود ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں نافرمانی ، انحراف اور پست ہمتی سے کام لے کر جو سزا تم نے پائی تھی ، اب اس سے بہت زیادہ سزا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں باغیانہ روش اختیار کر کے پاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ چالیس سال تک فلسطین میں ان کا داخلہ بند کردیا گیا، یہ لوگ صحرائے سینا کے ایک مختصر علاقے میں بھٹکتے رہے، نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملتا تھا نہ پیچھے مصر واپس جانے کا، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یوشع اور حضرت کالب علیہم السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ تھے اور انہی کی برکت اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ان پر نازل ہوئیں، جن کا ذکر پیچھے سورۂ بقرہ (آیات ٥٧ تا ٦٠) میں گزرچکا ہے، بادل کے سائے نے انہیں دھوپ سے بچایا، کھانے کے لئے من وسلوی نازل ہوا، پینے کے لئے پتھر سے بارہ چشمے پھوٹے، بنی اسرائیل کے لئے خانہ بدوشی کی یہ زندگی ایک سزا تھی ؛ لیکن ان بزرگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو قلبی راحت کا سامان بنادیا، حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی یکے بعد دیگرے اسی صحرا میں وفات ہوئی، بعد میں حضرت یوشع (علیہ السلام) پیغمبر بنے اور شام کا کچھ علاقہ ان کی سر کردگی میں اور کچھ حضرت سموئیل (علیہ السلام) کے زمانے میں طالوت کی سر کردگی میں فتح ہوا جس کا واقعہ سورۃ بقرہ (آیات ١٤٢ تا ١٥٢) میں گزرچکا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ سرزمین بنی اسرائیل کے حق میں لکھنے کا جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔