حسد و بغض سے ممانعت اس قصے میں حسد و بغض سرکشی اور تکبر کا بدانجام بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح حضرت کے دو صلبی بیٹوں میں کشمکش ہو گئی اور ایک اللہ کا ہو کر مظلوم بنا اور مار ڈالا گیا اور اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا اور دوسرے نے اسے ظلم و زیادتی کے ساتھ بےوجہ قتل کیا اور دونوں جہان میں برباد ہوا ۔ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حضرت آدم کے دونوں بیٹوں کا صحیح صحیح بےکم و کاست قصہ سنا دو ۔ ان دونوں کا نام ہابیل و قابیل تھا ۔ مروی ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی ، اس لئے یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم کے ہاں ایک حمل سے لڑکی لڑکا دو ہوتے تھے ، پھر دوسرے حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا ، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے چاہا کہ اپنی ہی بہن سے اپنا نکاح کر لے ، حضرت آدم نے اس سے منع کیا آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے نام پر کچھ نکالو ، جس کی خیرات قبول ہو جائے اس کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا ۔ ہابیل کی خیرات قبول ہو گئی پھر وہ ہوا جس کا بیان قرآن کی ان آیات میں ہوا : مفسرین کے اقوال سنئیے حضرت آدم کی صلبی اولاد کے نکاح کا قاعدہ جو اوپر مذکور ہوا بیان فرمانے کے بعد مروی ہے کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا ، قابیل کی بہن بہ نسبت ہابیل کی بہن کے خوب رو تھی ۔ جب ہابیل کا پیغام اس سے ہوا تو قابیل نے انکار کر دیا اور اپنا نکاح اس سے کرنا چاہا ، حضرت آدم نے اس سے روکا ۔ اب ان دونوں نے خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے حضرت آدم اس وقت مکہ چلے گئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایا زمین پر جو میرا گھر ہے اسے جانتے ہو؟ آپ نے کہا نہیں حکم ہوا مکہ میں ہے تم وہیں جاؤ ، حضرت آدم نے آسمان سے کہا کہ میرے بچوں کی تو حفاظت کرے گا ؟ اس نے انکار کیا زمین سے کہا اس نے بھی انکار کر دیا ، پہاڑوں سے کہا انہوں نے بھی انکار کیا ، قابیل سے کہا ، اس نے کہا ہاں میں محافظ ہوں ، آپ جایئے آکر ملاحظہ فرما لیں گے اور خوش ہوں گے ۔ اب ہابیل نے ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے نام پر ذبح کیا اور بڑے بھائی نے اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کیلئے نکالا ۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی ، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی ، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی ، اس نے راہ اللہ کرنے کے بعد اس میں سے اچھی اچھی بالیں توڑ کر کھا لیں تھیں ۔ چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے نکاح میں اس کی بہن نہیں آ سکتی ، اس لئے اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی قبول فرمایا کرتا ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچے کے بدلے ذبح کیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے نام اور خوشی کے ساتھ قربان کیا ، برخلاف اس کے قابیل نے اپنی کھیتی میں سے نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بےدلی سے اللہ کے نام نکالی ۔ ہابیل تنو مندی اور طاقتوری میں بھی قابیل سے زیادہ تھا تاہم اللہ کے خوف کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کا ظلم و زیادتی سہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا ۔ بڑے بھائی کی قربانی جب قبول نہ ہوئی اور حضرت آدم نے اس سے کہا تو اس نے کہا کہ چونکہ آپ ہابیل کو چاہتے ہیں اور آپ نے اس کیلئے دعا کی تو اس کی قربانی قبول ہو گئی ۔ اب اس نے ٹھان لی کہ میں اس کانٹے ہی کو اکھاڑ ڈالوں ۔ موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً حضرت ہابیل کے آنے میں دیر لگ گئی تو انہیں بلانے کیلئے حضرت آدم نے قابیل کو بھیجا ۔ یہ ایک چھری اپنے ساتھ لے کر چلا ، راستے میں ہی دونوں بھائیوں کی ملاقات ہو گئی ، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوئی اور میری نہ ہوئی اس پر ہابیل نے کہا میں نے بہترین ، عمدہ ، محبوب اور مرغوب چیز اللہ کے نام نکالی اور تو نے بیکار بےجان چیز نکالی ، اللہ تعالیٰ اپنے متقیوں ہی کی نیکی قبول کرتا ہے ۔ اس پر وہ اور بگڑا اور چھری گھونپ دی ، ہابیل کہتے رہ گئے کہ اللہ کو کیا جواب دے گا ؟ اللہ کے ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے بری طرح لیا جائیگا ۔ اللہ کا خوف کر مجھے قتل نہ کر لیکن اس بےرحم نے اپنے بھائی کو مار ہی ڈالا ۔ قابیل نے اپنی تو ام بہن سے اپنا ہی نکاح کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ ہم دونوں جنت میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ دونوں زمین میں پیدا ہوئے ہیں ، اسی لئے میں اس کا حقدار ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قابیل نے گیہوں نکالے تھے اور ہابیل نے گائے قربان کی تھی ۔ چونکہ اس وقت کوئی مسکین تو تھا ہی نہیں جسے صدقہ دیا جائے ، اس لئے یہی دستور تھا کہ صدقہ نکال دیتے آگ آسمان سے آتی اور اسے جلا جاتی یہ قبولیت کا نشان تھا ۔ اس برتری سے جو چھوٹے بھائی کو حاصل ہوئی ، بڑا بھائی حسد کی آگ میں بھڑکا اور اس کے قتل کے درپے ہو گیا ، یونہی بیٹھے بیٹھے دونوں بھائیوں نے قربانی کی تھی ۔ نکاح کے اختلاف کو مٹانے کی وجہ نہ تھی ، قرآن کے ظاہری الفاظ کا اقتضا بھی یہی ہے کہ ناراضگی کا باعث عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور ۔ ایک روایت مندرجہ روایتوں کے خلاف یہ بھی ہے کہ قابیل نے کھیتی اللہ کے نام نذر دی تھی جو قبول ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا حافظہ ٹھیک نہیں اور یہ مشہور امر کے بھی خلاف ہے واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول کرتا ہے جو اپنے فعل میں اس سے ڈرتا رہے ۔ حضرت معاذ فرماتے ہیں لوگ میدان قیامت میں ہوں گے تو ایک منادی ندا کرے گا کہ پرہیزگار کہاں ہیں؟ پس پروردگار سے ڈرنے والے کھڑے ہو جائیں گے اور اللہ کے بازو کے نیچے جا ٹھہریں گے اللہ تعالیٰ نہ ان سے رخ پوشی کرے گا نہ پردہ ۔ راوی حدیث ابو عفیف سے دریافت کیا گیا کہ متقی کون ہیں؟ فرمایا وہ جو شرک اور بت پرستی سے بچے اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے پھر یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے ۔ جس نیک بخت کی قربانی قبول کی گئی تھی ، وہ اپنے بھائی کے اس ارادہ کو سن کر اس سے کہتا ہے کہ تو جو چاہے کر ، میں تو تیری طرح نہیں کروں گا بلکہ میں صبر و ضبط کروں گا ، تھے تو زور و طاقت میں یہ اس سے زیادہ مگر اپنی بھلائی ، نیک بختی اور تواضع و فروتنی اور پرہیز گاری کی وجہ سے یہ فرمایا کہ تو گناہ پر آمادہ ہو جائے لیکن مجھ سے اس جرم کا ارتکاب نہیں ہو سکتا ، میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں وہ تمام جہان کا رب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر بھڑ گئے تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا قاتل تو خیر لیکن مقتول کیوں ہوا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا ۔ حضرت سعد بن وقاص نے اس وقت جبکہ باغیوں نے حضرت عثمان ذوالنورین کو گھیر رکھا تھا کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عنقریب فتنہ برپا ہوگا ۔ بیٹھا رہنے والا اس وقت کھڑے رہنے والے سے اچھا ہو گا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ۔ کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی میرے گھر میں بھی گھس آئے اور مجھے قتل کرنا چاہے ۔ آپ نے فرمایا پھر بھی تو حضرت آدم کے بیٹے کی طرح ہو جا ۔ ایک روایت میں آپ کا اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ۔ حضرت ایوب سختیاتی فرماتے ہیں اس امت میں سب سے پہلے جس نے اس آیت پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک جانور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اور آپ کے ساتھ ہی آپ کے پیچھے حضرت ابو ذر تھے ، آپ نے فرمایا ابو ذر بتاؤ تو جب لوگوں پر ایسے فاقے آئیں گے کہ گھر سے مسجد تک نہ جا سکیں گے تو تو کیا کرے گا ؟ میں نے کہا جو حکم رب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو فرمایا صبر کرو ۔ پھر فرمایا جبکہ آپس میں خونریزی ہو گی یہاں تک کہ ریت کے تھر بھی خون میں ڈوب جائیں تو تو کیا کرے گا ؟ میں نے وہی جواب دیا تو فرمایا کہ اپنے گھر میں بیٹھ جا اور دروازے بند کر لے کہا پھر اگرچہ میں نہ میدان میں اتروں؟ فرمایا تو ان میں چلا جا ، جن کا تو ہے اور وہیں رہ ۔ عرض کیا کہ پھر میں اپنے ہتھیار ہی کیوں نہ لے لوں؟ فرمایا پھر تو تو بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہو جائے گا بلکہ اگر تجھے کسی کی تلوار کی شعائیں پریشان کرتی نظر آئیں تو بھی اپنے منہ پر کپڑا ڈال لے تا کہ تیرے اور خود اپنے گناہوں کو وہی لے جائے ۔ حضرت ربعی فرماتے ہیں ہم حضرت حذیفہ کے جنازے میں تھے ، ایک صاحب نے کہا میں نے مرحوم سے سنا ہے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنی ہوئی حدیثیں بیان فرماتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر تم آپس میں لڑو گے تو میں اپنے سب سے دور دراز گھر میں چلا جاؤں گا اور اسے بند کر کے بیٹھ جاؤں گا ، اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے گا تو میں کہدوں گا کہ لے اپنا اور میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے ، پس میں حضرت آدم کے ان دو بیٹوں میں سے جو بہتر تھا ، اس کی طرح ہو جاؤں گا ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے سر رکھ لے جائے ۔ یعنی تیرے وہ گناہ جو اس سے پہلے کے ہیں اور میرے قتل کا گناہ بھی ۔ یہ مطلب بھی حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ میری خطائیں بھی مجھ پر آ پڑیں اور میرے قتل کا گناہ بھی ۔ لیکن انہی سے ایک قول پہلے جیسا بھی مروی ہے ، ممکن ہے یہ دوسرا ثابت نہ ہو ۔ اسی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قاتل مقتول کے سب گناہ اپنے اوپر بار کر لیتا ہے اور اس معنی کی ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ۔ بزار میں ایک حدیث ہے کہ بے سبب کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ گویہ حدیث اوپر والے معنی میں نہیں ، تاہم یہ بھی صحیح نہیں اور اس روایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ قتل کی ایذاء کے باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اب وہ قاتل پر آ جاتے ہیں ۔ یہ بات ثابت نہیں ممکن ہے بعض قاتل ویسے بھی ہوں ، قاتل کو میدان قیامت میں مقتول ڈھونڈھتا پھرے گا اور اس کے ظلم کے مطابق اس کی نیکیاں لے جائے گا ۔ اور سب نیکیاں لے لینے کے بعد بھی اس ظلم کی تلافی نہ ہوئی تو مقتول کے گناہ قاتل پر رکھ دیئے جائیں گے ، یہاں تک کہ بدلہ ہو جائے تو ممکن ہے کہ سارے ہی گناہ بعض قاتلوں کے سر پڑ جائیں کیونکہ ظلم کے اس طرح کے بدلے لئے جانے احادیث سے ثابت ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ قتل سب سے بڑھ کر ظلم ہے اور سب سے بدتر ۔ واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مطلب اس جملے کا صحیح تر یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہ اور میرے قتل کے گناہ سب ہی اپنے اوپر لے جائے ، تیرے اور گناہوں کے ساتھ ایک گناہ یہ بھی بڑھ جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میرے گناہ بھی تجھ پر آ جائیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کی جزا ملتی ہے ، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقتول کے عمر بھر کے گناہ قاتل پر ڈال دیئے جائیں ، اور اس کے گناہوں پر اس کی پکڑ ہو؟ باقی رہی یہ بات کہ پھر ہابیل نے یہ بات اپنے بھائی سے کیوں کہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے آخری مرتبہ نصیحت کی اور ڈرایا اور خوف زدہ کیا کہ اس کام سے باز آ جا ، ورنہ گہنگار ہو کر جہنم واصل ہو جائے گا کیونکہ میں تو تیرا مقابلہ کرنے ہی کا نہیں ، سارا بوجھ تجھ ہی پر ہوگا اور تو ہی ظالم ٹھہرے گا اور ظالموں کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ اس نصیحت کے باوجود اس کے نفس نے اسے دھوکا دیا اور غصے اور حسد اور تکبر میں آکر اپنے بھائی کو قتل کر دیا ، اسے شیطان نے قتل پر ابھار دیا اور اس نے اپنے نفس امارہ کی پیروی کر لی ہے اور لوہے سے اسے مار ڈالا ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ اپنے جانوروں کو لے کر پہاڑیوں پر چلے گئے تھے ، یہ ڈھونڈھتا ہوا وہاں پہنچا اور ایک بھاری پتھر اٹھا کر ان کے سر پر دے مارا ، یہ اس وقت سوئے ہوئے تھے ۔ بعض کہتے ہیں مثل درندے کے کاٹ کاٹ کر ، گلا دبا دبا کر ان کی جان لی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان نے جب دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا ، یہ اس کی گردن مروڑ رہا ہے تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر اسے دوسرا پتھر زور سے دے مارا ، جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا ، یہ دیکھ اس نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ یہی کیا یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اب تک زمین پر کوئی قتل نہیں ہوا تھا ، اس لئے قابیل اپنے بھائی کو گرا کر کبھی اس کی آنکھیں بند کرتا ، کبھی اسے تھپڑ اور گھونسے مارتا ۔ یہ دیکھ کر ابلیس لعین اس کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ پتھر لے کر اس کا سر کچل ڈال ، جب اس نے کچل ڈالا تو لعین دوڑتا ہوا حضرت حوا کے پاس آیا اور کہا قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا ، انہوں نے پوچھا قتل کیسا ہوتا ہے؟ کہا اب نہ وہ کھاتا پیتا ہے نہ بولتا چالتا ہے ، نہ ہلتا جلتا ہے کہا شاید موت آ گئی اس نے کہا ہاں وہی موت ۔ اب تو مائی صاحبہ چیخنے چلانے لگیں ، اتنے میں حضرت آدم آئے پوچھا کیا بات ہے؟ لیکن یہ جواب نہ دے سکیں ، آپ نے دوبارہ دریافت فرمایا لیکن فرط غم و رنج کی وجہ سے ان کی زبان نہ چلی تو کہا اچھا تو اور تیری بیٹیاں ہائے وائے میں ہی رہیں گی اور میں اور میرے بیٹے اس سے بری ہیں ۔ قابیل خسارے ٹوٹے اور نقصان والا ہو گیا ، دنیا اور آخرت دونوں ہی بگڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے ، اس کے خون کا بوجھ آدم کے اس لڑکے پر بھی پڑتا ہے ، اس لئے کہ اسی نے سب سے پہلے زمین پر خون ناحق گرایا ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ قاتل کے ایک پیر کی پنڈلی کو ران سے اس دن سے لٹکا دیا گیا اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا ، اس کے گھومنے کے ساتھ گھومتا رہتا ہے ، جاڑوں اور گرمیوں میں آگ اور برف کے گڑھے میں وہ معذب ہے ۔ حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ جہنم کا آدھوں آدھ عذاب صرف اس ایک کو ہو رہا ہے ، سب سے بڑا معذب یہی ہے زمین کے ہر قتل کے گناہ کا حصہ اس کے ذمہ ہے ۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں اس پر اور شیطان پر ہر خون ناحق کا بوجھ پڑتا ہے ۔ جب مار ڈالا تو اب یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کرے ، کس طرح اسے چھپائے؟ تو اللہ نے دو کوے بھیجے ، وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے ، یہ اس کے سامنے لڑنے لگے ، یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ، پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی ، یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں بھی یہ ترکیب آ گئی اور اس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ از خود مرے ہوئے ایک کوے کو دوسرے کوے نے اس طرح گڑھا کھود کر دفن کیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ سال بھر تک قابیل اپنے بھائی کی لاش اپنے کندھے پر لادے لادے پھرتا رہا ، پھر کوے کو دیکھ کر اپنے نفس پر ملامت کرنے لگا کہ میں اتنا بھی نہ کر سکا ، یہ بھی کہا گیا ہے مار ڈال کر پھر پچھتایا اور لاش کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا اور اس لئے بھی کہ سب سے پہلی میت اور سب سے پہلا قتل روئے زمین پر یہی تھا ۔ اہل توراۃ کہتے ہیں کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اللہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے بھائی ہابیل کو کیا ہوا ؟ اس نے کہا مجھے کیا خبر؟ میں اس کا نگہبان تو تھا ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سن تیرے بھائی کا خون زمین میں سے مجھے پکار رہا ہے ، تجھ پر میری لعنت ہے ، اس زمین میں جس کا منہ کھول کر تو نے اسے اپنے بےگناہ بھائی کا خون پلایا ہے ، اب تو زمین میں جو کچھ کام کرے گا وہ اپنی کھیتی میں سے تجھے کچھ نہیں دے گی ، یہاں تک تم زمین پر عمر بھر بےچین پھٹکتے رہو گے پھر تو قابیل بڑا ہی نادم ہوا ۔ نقصان کے ساتھ ہی پچھتاوا گویا عذاب پر عذاب تھا ۔ اس قصہ میں مفسرین کے اقوال اس بات پر تو متفق ہیں کہ یہ تو دونوں حضرت آدم کے صلبی بیٹے تھے اور یہی قرآن کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے اور یہی حدیث میں بھی ہے کہ روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ کا حضرت آدم کے اس پہلے لڑکے پر ہوتا ہے ، اس لئے کہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے ، لیکن حسن بصری کا قول ہے کہ یہ دونوں بنی اسرائیل میں تھے ، قربانی سب سے پہلے انہی میں آئی اور زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم کا انتقال ہوا ہے لیکن یہ قول غور طلب ہے اور اس کی اسناد بھی ٹھیک نہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ واقعہ بطور ایک مثال کے ہے تم اس میں سے اچھائی لے لو اور برے کو چھوڑ دو ۔ یہ حدیث مرسل ہے کہتے ہیں کہ اس صدمے سے حضرت آدم بہت غمگین ہوئے اور سال بھر تک انہیں ہنسی نہ آئی ، آخر فرشتوں نے ان کے غم کے دور ہونے اور انہیں ہنسی آنے کی دعا کی ۔ حضرت آدم نے اس وقت اپنے رنج و غم میں یہ بھی کہا تھا کہ شہر اور شہر کی سب چیزیں متغیر ہو گئی ۔ زمین کا رنگ بدل گیا اور وہ نہایت بدصورت ہو گئی ، ہر ہر چیز کا رنگ و مزہ جاتا رہا اور کشش والے چہروں کی ملاحت بھی سلب ہو گئی ۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ اس مردے کے ساتھ اس زندے نے بھی گویا اپنے تئیں ہلاک کر دیا اور جو برائی قاتل نے کی تھی ، اس کا بوجھ اس پر آ گیا ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قابیل کو اسی وقت سزا دی گئی چنانچہ وارد ہوا ہے کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے لٹکا دی گئی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا تھا یعنی جدھر سورج ہوتا ادھر ہی اس کا منہ اٹھا رہتا ۔ حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جتنے گناہ اس لائق ہیں کہ بہت جلد ان کی سزا دنیا میں بھی دی جائے اور پھر آخرت کے زبردست عذاب باقی رہیں ان میں سب سے بڑھ کر گناہ سرکشی اور قطع رحمی ہے ۔ تو قابیل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو گئیں آتی ( فانا للہ و انا الیہ راجعون ) ( یہ یاد رہے کہ اس قصہ کی تفصیلات جس قدر بیان ہوئی ہے ، ان میں سے اکثر و بیشر حصہ اہل کتاب سے اخذ کیا ہوا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مترجم )
27۔ 1 آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ 27۔ 2 یہ نذرانہ یا قربانی کس لئے پیش کی گئی ؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتداء میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا اور لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بھائی بہن سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا بالا خر حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔
[٥٨] بنی اسرائیل کا جہاد سے اس طرح گریز کرنے کا قصہ بیان کرنے کے بعد اب آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ان میں سے قابیل عمر میں بڑا تھا۔ کاشت کاری کرتا تھا۔ جسم کا قوی اور تند مزاج تھا اس کا چھوٹا بھائی ہابیل بھیڑ بکریاں پالتا اور چرایا کرتا تھا۔ نیک، سرشت، فرمانبردار اور منکسر المزاج تھا۔ ان دونوں میں کسی بات پر تنازعہ پیدا ہوا اور بالآخر قابیل نے ظلم و تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائی کو جان ہی سے مار ڈالا۔ سابقہ آیات سے اس قصہ کا ربط یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود بھی مظلوموں کے قتل میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے۔ یعنی یہود قتل کی سازشوں میں اور مظلوموں کو قتل کرنے میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے مگر جب جہاد کا موقعہ آیا تو ایسی بزدلی دکھائی کہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام ہی نہ لیتے تھے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مکر و فریب کی چالوں سے مظلوموں پر ہاتھ اٹھانے والے لوگ معرکہ کار زار میں نامرد ہی ثابت ہوا کرتے ہیں۔ دور نبوی میں بھی مدینہ کے یہودیوں کی بالکل یہی صورت حال تھی۔- خ قصہ ہابیل اور قابیل :۔ ہابیل اور قابیل میں تنازعہ کس بات پر تھا ؟ قرآن اس سوال کا جواب دینے سے خاموش ہے البتہ تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) جس لڑکی سے ہابیل کا نکاح کرنا چاہتے تھے، قابیل یہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے نکاح میں آئے۔ اس کا یہ مطالبہ چونکہ بےانصافی پر مبنی تھا لہذا اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ اس سے قابیل اور بھی طیش میں آگیا۔ جس کا حل سیدنا آدم نے یہ پیش کیا کہ دونوں اللہ کے حضور قربانی پیش کرو۔ جس کی قربانی کو آگ آ کر کھاجائے یعنی جس کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجائے اسی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا جائے گا۔ اور یہ تنازعہ ختم ہوجائے گا۔- [٥٩] چناچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل ویسے بھی نیک سیرت انسان تھا اور اس لڑکی سے نکاح کا حق بھی اسی کا بنتا تھا۔ نیز اس نے قربانی میں جو اشیاء پیش کی تھیں وہ سب اچھی قسم کی تھیں اور خالصتاً رضائے الٰہی کی نیت سے پیش کی تھیں لہذا اسی کی قربانی کو اللہ کے حضور شرف قبولیت بخشا گیا اس کے مقابلہ میں قابیل بےانصاف اور اچھے کردار کا مالک نہ تھا اور قربانی میں بھی ناقص اور ردی قسم کی اشیاء رکھی تھیں۔ لہذا اس کی قربانی کی چیزیں جوں کی توں پڑی رہیں گویا اس قربانی کی کسوٹی نے بھی ہابیل ہی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ : آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کا نام ہابیل اور قابیل مشہور ہے، اگرچہ قرآن یا حدیث میں یہ نام نہیں آئے۔ - ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ ۔۔ : یہ نذر یا قربانی کس لیے پیش کی گئی اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں آدم اور حوا ( علیہ السلام) کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتے تھے، دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتے، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بد صورت تھی، جبکہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی، اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا، لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کے بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ، جو خوب صورت تھی، نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا۔ بالآخر آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس سے کردیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی، لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے یہ بات ثابت نہیں ہے۔ - اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمانوں پر مصائب و شدائد لانا چاہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ ) [ المائدۃ : ١١ ] ” جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تمہاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں۔ “ مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کی حفاظت فرما رہا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے، جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے، لوگ اس سے ہمیشہ حسد و بغض سے پیش آتے رہے ہیں، چناچہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بھی ان کی سرکشی اور بغض و حسد پر مبنی ہے، لہٰذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجیے۔ اب یہاں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا، جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، کیونکہ ایک بھائی کا دوسرے کو قتل کرنا حسد کی بنا پر تھا۔ الغرض ان تمام واقعات سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہوسکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہتے ہیں : (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۭ ) [ المائدۃ : ١٨ ] اور انبیاء کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے، مگر کفر اور حسد و عناد کے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا، آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے۔ (کبیر، قرطبی) اس سے مقصد حسد سے بچنے کی تاکید ہے۔ حسن بصری (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے۔ یہود کا حسد بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اس قصے کے آخر میں آنے والی آیت ہے : ( مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ۃ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) [ المائدۃ : ٣٢ ] یعنی اس قصے ہی کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا۔۔ (کبیر۔ قرطبی) - مگر صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کی وجہ سے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص بھی ظلم سے قتل کیا جاتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم ( (علیہ السلام) ) کے پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا کام شروع کیا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیا، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ و ذریتہ : ٣٣٣٥۔ مسلم : ١٦٧٧ ]- اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ : یعنی تم بھی اگر اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور اللہ سے ڈرتے تو تمہاری قربانی بھی قبول ہوجاتی۔
خلاصہ تفسیر - اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل کتاب کو (حضرت) آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا (یعنی ہابیل و قابیل کا) قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے (تاکہ ان کو انتساب بالصٰلحین کا گھمنڈ جاتا رہے، جس کا نحن ابناء اللہ میں اظہار ہو رہا ہے، اور وہ قصہ اس وقت ہوا تھا) جب کہ دونوں نے (اللہ تعالیٰ کے نام کی) ایک ایک نیاز پیش کی اور ان میں سے ایک کی (یعنی ہابیل کی) تو مقبول ہوگئی اور دوسرے کی (یعنی قابیل کی) مقبول نہ ہوئی (کیونکہ جس معاملہ کے فیصلہ کے لئے یہ نیاز چڑھائی گئی تھی اس میں ہابیل حق پر تھا، اس لئے اس کی نیاز قبول ہوگئی اور قابیل حق پر نہ تھا اس کی قبول نہ ہوئی، ورنہ پھر فیصلہ نہ ہوتا، بلکہ اور خلط و اشتباہ ہوجاتا جب) وہ دوسرا (یعنی قابیل اس میں بھی ہارا تو جھلا کر) کہنے لگا کہ میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا، اس ایک نے (یعنی ہابیل نے) جواب دیا (کہ تیرا ہارنا تو تیری ہی ناحق پرستی کی وجہ سے ہے میری کیا خطا، کیونکہ) خدا تعالیٰ متقیوں ہی کا عمل قبول کرتے ہیں (میں نے تو تقویٰ اختیار کیا اور خدا کے حکم پر رہا، خدائے تعالیٰ نے میری نیاز قبول کی، تو نے تقویٰ چھوڑ دیا اور خدا کے حکم سے منہ موڑا تیری نیاز قبول نہیں کی، سو اس میں تیری خطا ہے یا میری انصاف کر، لیکن اگر پھر بھی تیرا یہی ارادہ ہے تو تو جان، میں نے تو پختہ قصد کرلیا ہے) اگر تو مجھ پر میرے قتل کرنے کے لئے دست درازی کرے تو تب بھی میں تجھ پر تیرے قتل کرنے کے لئے ہرگز دست درازی کرنے والا نہیں (کیونکہ) میں تو خدائے پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں (کہ باوجود یہ کہ تیرے جواز قتل کا بظاہر ایک سبب موجود ہے، یعنی یہ کہ تو مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے، مگر اس وجہ سے کہ یہ جواز اب تک کسی نص جزئی سے مجھ کو محقق نہیں ہوا، اس لئے اس کے ارتکاب کو احتیاط کے خلاف سمجھتا ہوں، اور اس شبہ کی وجہ سے خدا سے ڈرتا ہوں، اور یہ ہمت تجھی کو ہے کہ باوجود یہ کہ میرے جواز قتل کا کوئی امر مقتضی نہیں بلکہ مانع موجود ہے لیکن پھر بھی خدا سے نہیں ڈرتا) میں یوں چاہتا ہوں کہ (مجھ سے کوئی گناہ کا کام نہ ہو گو تو مجھ پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کرے جس سے کہ) تو میرے گناہ اور اپنے گناہ سب اپنے سر رکھ لے، پھر تو دوزخیوں میں شامل ہوجاوے اور یہی سزا ہوتی ہے ظلم کرنے والوں کی سو (یوں تو پہلے ہی سے قتل کا ارادہ کرچکا تھا یہ جو سنا کہ مدافعت بھی نہ کرے گا، چاہئے تو تھا کہ گداختہ ہوجاتا مگر بےفکر ہو کر اور بھی) اس کے جی نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا (پھر) آخر اس کو قتل ہی کر ڈالا جس سے (کمبخت) بڑے نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوگیا (دنیا میں تو یہ نقصان کہ اپنا قوت بازو اور راحت روح گم کر بیٹھا، اور آخرت میں یہ نقصان کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اب جب قتل سے فارغ ہوا تو اب حیران ہے کہ لاش کو کیا کروں جس سے یہ راز پوشیدہ رہے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو) پھر (آخر) اللہ تعالیٰ نے ایک کوّا (وہاں) بھیجا کہ وہ (چونچ اور پنجوں سے) زمین کو کھودتا تھا (اور کھود کر ایک دوسرے کوّے کو کہ وہ مرا ہوا تھا اس گڑھے میں دھکیل کر اس پر مٹی ڈالتا تھا) تاکہ وہ (کوا) اس (قابیل) کو تعلیم کردے کہ اپنے بھائی (ہابیل) کی لاش کو کس طریقہ سے چھپاوے (قابیل یہ واقعہ دیکھ کر اپنے جی میں بڑا ذلیل ہوا کہ مجھ کو کوّے کے برابر بھی فہم نہیں، اور غایت حسرت سے) کہنے لگا کہ افسوس میری حالت پر کیا میں اس سے بھی گیا گزرا کہ اس کوّے ہی کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا (سو اس بدحالی پر) بڑا شرمندہ ہوا، اسی (واقعہ کی) وجہ سے (جس سے قتل ناحق کے مفاسد ثابت ہوتے ہیں) ہم نے (تمام مکلّفین پر عموماً اور) بنی اسرائیل پر (خصوصاً ) یہ (حکم) لکھ دیا (یعنی مقرر کردیا) کہ (قتل ناحق اتنا بڑا گناہ ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ دوسرے شخص کے (جو ناحق مقتول ہوا ہو) یا بدون کسی (شر) فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو (خواہ مخواہ) قتل کر ڈالے تو اس کو بعض اعتبار سے ایسا گناہ ہوگا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا، (وہ بعض اعتبار یہ ہے کہ اس گناہ پر جرأت کی، خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کی، خدائے تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے دنیا میں مستحق قصاص ہوا، آخرت میں مستحق دوزخ ہوا، یہ امور ایک کے اور ہزار کے قتل کرنے میں مشترک ہیں، گوشدت و اشدّیت کا تفاوت ہو، اور یہ دو قیدیں اس لئے لگائیں کہ قصاص میں قتل کرنا جائز ہے، اسی طرح دوسرے اسباب جواز قتل سے بھی جس میں قطع طریق جو آگے مذکور ہے، اور کفر حربی جس کا ذکر احکام جہاد میں آچکا ہے سب داخل ہیں، قتل کرنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے) اور (یہ بھی لکھ دیا تھا کہ جیسا ناحق قتل کرنا گناہ عظیم ہے، اسی طرح کسی کو قتل غیر واجب سے بچا لینا اس میں ثواب بھی ایسا ہی عظیم ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بچا لے تو (اس کو ایسا ثواب ملے گا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا، (غیر واجب کی قید اس لئے لگائی کہ جس شخص کا قتل شرعاً واجب ہو اس کی امداد یا سفارش حرام ہے، اور اس مضمون احیاء کے لکھنے سے بھی تشدید قتل کی ظاہر ہوگئی کہ جب احیاء ایسا محمود ہے تو ضرور قتل مذموم ہوگا، اس لئے اس کا ترتب و تسبّب بھی بواسطہ عطف کے (آیت) من اجل ذلک۔ پر صحیح ہوگیا) اور بنی اسرائیل کے پاس (اس مضمون کے لکھ دینے کے بعد) ہمارے بہت سے پیغمبر بھی دلائل واضح (نبوت کے) لے کر آئے (اور وقتاً فوقتاً اس مضمون کی تاکید کرتے رہے) مگر پھر اس (تاکید و اہتمام) کے بعد بھی بہتیرے ان میں سے دنیا میں زیادتی کرنے والے ہی رہے (اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا حتیٰ کہ بعض نے خود ان انبیاء ہی کو قتل کردیا) ۔- معارف ومسائل - قصہ ہابیل و قابیل - ان آیات میں حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب کو یا پوری امت کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح سنا دیجئے۔ قرآن مجید پر نظر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانی یا تاریخ کی کتاب نہیں جس کا مقصد کسی واقعہ کو اول سے آخر تک بیان کرنا ہو، لیکن واقعات ماضیہ اور گزشتہ اقوام کی سرگزشت اپنے دامن میں بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں رکھتی ہے، وہی تاریخ کی اصلی روح ہے، اور ان میں بہت سے حالات و واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر مختلف احکام شرعیہ کی بنیاد ہوتی ہے، انہی فوائد کے پیش نظر قرآن کریم کا اسلوب ہر جگہ یہ ہے کہ موقع بہ موقع کوئی واقعہ بیان کرتا ہے، اور اکثر پورا واقعہ بھی ایک جگہ بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے جتنے حصہ سے اس جگہ کوئی مقصد متعلق ہوتا ہے اس کا وہی ٹکڑا یہاں بیان کردیا جاتا ہے۔- حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا یہ قصہ بھی اسی اسلوب حکیم پر نقل کیا جا رہا ہے، اس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے بہت سی عبرتیں اور مواعظ ہیں، اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام شرعیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔- اب پہلے الفاظ قرآن کی تشریح اور اس کے تحت میں اصل قصہ دیکھئے، اس کے بعد اس کے متعقہ احکام و مسائل کا بیان ہوگا۔ - اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کو حکم جہاد اور اس میں ان کی کم ہمتی اور بزدلی کا ذکر تھا، اس قصہ میں اس کے بالمقابل قتل ناحق کی برائی اور اس کی تباہ کاری کا بیان کرکے قوم کو اس اعتدال پر لانا مقصود ہے کہ جس طرح حق کی حمایت اور باطل کو مٹانے میں قتل و قتال سے دم چرانا غلطی ہے، اسی طرح ناحق قتل و قتال پر اقدام دین و دنیا کی تباہی ہے۔- پہلی آیت میں ابن آدم ( کا لفظ مذکور ہے، یوں تو ہر انسان، آدمی اور آدم کی اولاد ہے، ہر ایک کو ابن آدم کہا جاسکتا ہے، لیکن جمہور علماء تفسیر کے نزدیک اس جگہ ابن آدم سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو صلبی اور حقیقی بیٹے مراد ہیں، یعنی ہابیل و قابیل، ان دونوں کا قصہ بیان کرنے کے لئے ارشاد ہوا۔ - تاریخی روایات کی نقل میں احتیاط اور سچائی واجب ہے - وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ۔ یعنی ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح واقعہ کے مطابق سنا دیجئے۔ اس میں بالحق کے لفظ سے تاریخی روایات کی نقل میں ایک اہم اصول کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ تاریخی روایات کی نقل میں بڑی احتیاط لازم ہے، جس میں نہ کوئی جھوٹ ہو نہ کوئی تلبیس اور دھوکہ اور نہ اصل واقعہ میں کسی قسم کی تبدیلی یا کمی زیادتی (ابن کثیر) ۔- قرآن کریم نے صرف اسی جگہ نہیں بلکہ دوسرے مواقع میں بھی اس اصول پر قائم رہنے کی ہدایات دی ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ان ھذا لھو القصص الحق۔ ، دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) نحن نقص علیک نباھم بالحق۔ ، تیسری جگہ ارشاد ہے (آیت) ذلک عیسیٰ ابن مریم قول الحق۔ ان تمام مواقع میں تاریخی واقعات کے ساتھ لفظ حق لاکر اس بات کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ نقل واقعات میں حق و صدق کی رعایت لازمی ہے، روایات و حکایات کی بناء پر جس قدر مفاسد دنیا میں ہوتے ہیں ان سب کی بنیاد عام طور پر نقل واقعات میں بےاحتیاطی ہوتی ہے، ذرا سا لفظ اور عنوان بدل دینے سے واقعہ کی حقیقت مسخ ہوجاتی ہے، پچھلی اقوام کے مذاہب و شرائع اسی بےاحتیاطی کی راہ سے ضائع ہوگئے، اور ان کی مذہبی کتابیں چند بےسند و بےتحقیق کہانیوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں، اس جگہ ایک لفظ بالحق کا اضافہ کرکے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ فرما دیا گیا۔- اس کے علاوہ اسی لفظ میں قرآن کریم کے مخاطبین کو اس طرف بھی رہنمائی کرنا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو امی محض ہیں، اور ہزاروں سال پہلے کے واقعات بالکل سچے اور صحیح بیان فرما رہے ہیں تو اس کا سبب بجز وحی الہٰی اور نبوت کے کیا ہوسکتا ہے۔- اس تمہید کے بعد ان دونوں بیٹوں کا واقعہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا : ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ، یعنی ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی اپنی قربانی پیش کی، مگر ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔- لفظ قربان، عربی لغت کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو کسی کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے، اور اصلاح شرع میں اس ذبیحہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ - اس قربانی کے پیش کرنے کا واقعہ جو صحیح اور قوی سندوں کے ساتھ منقول ہے اور ابن کثیر نے اس علماء سلف و خلف کا متفقہ قول قرار دیا ہے یہ ہے کہ جب حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) دنیا میں آئے اور توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر ایک حمل سے ان کے دو بچے توام پیدا ہوئے، ایک لڑکا اور دوسری لڑکی، اس وقت جبکہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بجز بہن بھائیوں کے کوئی اور نہ تھا، اور بھائی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تو اللہ جل شانہ نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم (علیہ السلام) میں یہ خصوصی حکم جاری فرما دیا تھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہو وہ تو آپس میں حقیقی بہن بھائی سمجھے جائیں، اور ان کے درمیان نکاح حرام قرار پائے، لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی، بلکہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج و مناکحت جائز ہوگا۔ - لیکن ہوا یہ کہ پہلے لڑکے قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ حسین و جمیل تھی اور دوسرے لڑکے ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی بدشکل تھی، جب نکاح کا وقت آیا تو حسب ضابطہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بدشکل لڑکی قابیل کے حصہ میں آئی اس پر قابیل ناراض ہو کر ہابیل کا دشمن ہوگیا، اور اس پر اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے وہی میرے نکاح میں دی جائے، حضرت آدم (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ قربانی اسی کی قبول ہوگی جس کا حق ہے، یعنی ہابیل کی۔- اس زمانہ میں قربانی قبول ہونے کی ایک واضح اور کھلی ہوئی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور قربانی کو کھا جاتی تھی، اور جس قربانی کو آگ نہ کھائے تو یہ علامت اس کے نامقبول ہونے کی ہوتی تھی۔ - اب صورت یہ پیش آئی کہ ہابیل کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں، اس نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی کی، قابیل کاشتکار آدمی تھا، اس نے کچھ غلہ، گندم وغیرہ قربانی کے لئے پیش کیا، اور ہوا یہ کہ حسب دستور آسمان سے آگ آئی، ہابیل کی قربانی کو کھا گئی، اور قابیل کی قربانی جوں کی توں پڑی رہ گئی، اس پر قابیل کو اپنی ناکامی کے ساتھ رسوائی کا غم و غصہ اور بڑھ گیا، تو اس سے رہا نہ گیا، اور کھلے طور پر اپنے بھائی سے کہہ دیا میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ - ہابیل نے اس وقت بھی غصہ کی بات کا جواب غصہ کے ساتھ دینے کے بجائے ایک ٹھنڈی اور اصولی بات کہی، جس میں اس کی ہمدردی و خیر خواہی بھی تھی کہ : اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ” یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ متقی پرہیزگار کا عمل قبول فرمایا کرتے ہیں “۔ اگر تم تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتے تو تمہاری قربانی بھی قبول ہوتی، تم نے ایسا نہیں کیا تو قربانی قبول نہ ہوئی، اس میں میرا کیا قصور ہے ؟- اس کلام میں حاسد کا علاج بھی ذکر کردیا گیا ہے، کہ حاسد کو جب یہ نظر آئے کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص نعمت عطا فرمائی ہے جو اس کو حاصل نہیں تو اس کو چاہیے کہ اپنی محرومی کو اپنی عملی کوتاہی اور گناہوں کے سبب سے سمجھ کر ان سے تائب ہونے کی فکر کرے، نہ یہ کہ دوسرے سے اس نعمت کے زوال کی فکر میں پڑجائے، کیونکہ یہ اس کے فائدہ کے بجائے ضرر کا سبب ہے، کیونکہ مقبولیت عند اللہ کا مدار تقویٰ پر ہے (مظہری) ۔- قبولیت عمل کا مدار اخلاص وتقویٰ پر ہے - یہاں ہابیل و قابیل کی باہمی گفتگو میں ایک ایسا جملہ آگیا جو ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے، کہ اعمال و عبادات کی قبولیت تقویٰ اور خوف خدا پر موقوف ہے، جس میں تقویٰ نہیں اس کا عمل مقبول نہیں، اسی وجہ سے علمائے سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عبادت گزاروں اور عمل کرنے والوں کے لئے بڑا تازیانہ ہے، یہی وجہ تھی کہ حضرت عامر بن عبداللہ اپنی وفات کے وقت رو رہے تھے، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو عمر بھر اعمال صالحہ اور عبادات میں مشغول رہے، پھر رونے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : تم یہ کہتے ہو، اور میرے کانوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گونج رہا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ، مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری کوئی عبادت قبول بھی ہوگی یا نہیں۔ - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ میرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو یہ وہ نعمت ہے کہ ساری زمین سونا بن کر اپنے قبضہ میں آجائے تو بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھوں۔- اسی طرح حضرت ابو الدرداء (رض) نے فرمایا کہ اگر یہ بات یقینی طور پر طے ہوجائے کہ میری ایک نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوگئی تو میرے لئے وہ ساری دنیا اور اس کی نعمتوں سے زیادہ ہے۔- حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک شخص کو خط میں یہ نصائح لکھیں کہ :- ” میں تجھے تقویٰ کی تاکید کرتا ہوں جس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، اور اہل تقویٰ کے سوا کسی پر رحم نہیں کیا جاتا، اور اس کے بغیر کسی چیز پر ثواب نہیں ملتا، اس بات کا وعظ کہنے والے تو بہت ہیں مگر عمل کرنے والے بہت کم ہیں “۔- اور حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے فرمایا کہ تقویٰ کے ساتھ کوئی چھوٹا سا عمل بھی چھوٹا نہیں ہے، اور جو عمل مقبول ہوجائے وہ چھوٹا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر)
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ٠ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ٠ۭ قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَ ٠ۭ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ٢٧- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- قُرْباناً - والقُرْبَانُ : ما يُتَقَرَّبُ به إلى الله، وصار في التّعارف اسما للنّسيكة التي هي الذّبيحة، وجمعه : قَرَابِينُ. قال تعالی: إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة 27] ، حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران 183] ، وقوله : قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف 28] ، فمن قولهم : قُرْبَانُ الملک : لِمَن يَتَقَرَّبُ بخدمته إلى الملک، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، ولکونه في هذا الموضع جمعا - القربان ( نیا ز ) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعیة نسیکۃ یعنی ذبیحۃ آتا ہے اس کی جمع قرابین ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة 27] ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ نیازیں چڑھائیں ۔ حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران 183] جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے کر آئے اور آیت کریمہ : ۔ قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف 28] تقرب خدا کے سوا معبود ( بنایا تھا ) میں قربان کا لفظ قربان الملک کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی بادشاہ کا ہم نشین اور ندیم خاص کے ہیں اور یہ واحد دونوں پر بولا جاتا ہے اور یہاں چونکہ جمع کے معنی میں ہے اس لئے الھۃ بلفظ جمع لا یا گیا ہے ۔- قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
ہابیل وقابیل کی قربانی - قول باری ہے (واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اذ قربا قربانا اور ذرا ابن آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم و کاست سنا دو ، جب ان دونوں نے قربانی کی) حضرت ابن حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے تھے، ہابیل اور قابیل۔ ہابیل مومن تھا جبکہ قابیل کافر تھا۔ ایک قول ہے کہ وہ ایک برا انسان تھا۔- حسن کا قول ہے کہ یہ دونوں بنی اسرائیل میں سے تھے اس لئے قربانی قبول ہونے کی نشانی بنی اسرائیل سے پہلے نہ تھی۔ قربان یا قربانی اس کارخیر کو کہتے ہیں جس میں اللہ کی رحمت سے مقصود ہوتا ہے۔ قربان قرب سے فلعان کے وزن پر ہے جس طرح فرقان کا لفظ فرق ہے۔ یا عدوان کا لفظ عدو سے اور کفران کا لفظ کفر سے بنا ہے۔- ایک قول ہے کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک کی قربانی اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس نے اپنے بدترین مال سے قربانی پیش کی تھی۔ جبکہ دوسرے نے اپنے بہترین مال سے قربانی دی تھی۔ اس لئے اس کی قربانی قبول ہوگئی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی قربانی اس لئے رد کردی گئی کہ وہ فاجر تھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ صرف پرہیزگاروں کی پیش کردہ قربانیاں قبول کرتا ہے۔- ایک قول ہے کہ قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ ایک آگ آتی اور مقبول قربانی کو کھا جاتی لیکن نامقبول قربانی کو چھوڑ جاتی۔ اسی امر کا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے (حتی یاتینا بقربان تاکلہ النار۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر آئے جسے آگ آ کر کھاجائے)
(٢٧ تا ٣١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بذریعہ قرآن کریم ان لوگوں کو یہ قصہ بھی سنائیے کہ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی، اور قابیل کی قربانی نہ ہوئی تو قابیل نے ہابیل سے کہا میں تجھے قتل کروں گا، ہابیل نے کہا کیوں قابیل نے کہا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری قربانی تو قبول کرلی اور میری قربانی قبول نہیں کی، ہابیل نے کہا جو قول وعمل میں چنے ہوتے ہیں اور ان کے دل پاکیزہ ہوتے ہیں انکا عمل قبول ہوتا ہے اور تو پاکیزہ قلب والا نہیں اس لئے اللہ نے تیری قربانی قبول نہیں کی اور اگر تو ظلم سے مجھ پر دست درازی کرے گا تو میں جوابا ایسا نہیں کروں گا تاکہ میرے خون سے پہلے جو تیرے اور گناہ ہیں اور میرے جو گناہ ہیں تو سب اپنے اوپر لے تاکہ تو جہنمی ہوجائے، کیوں کہ ظلم کرکے جو بھی بےحد حسد کرتے ہیں، ان کی سزا جہنم ہیں ہے۔- تو اس کے دل نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا، جس سے سزا کی بنا پر بڑا نقصان اٹھانے والا ہوگیا۔ بحکم الہی ایک کوا دوسرے مرے ہوے کو چھپانے کے لیے زمین کھود رہا تھا تاکہ قابیل بھی دیکھ لے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو مٹی میں چھپائے، تو یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا، افسوس میں تدبیر سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی لاش کو مٹی ہی میں چھپا دینے کی تدبیر تک نہ آئی ؟ چناچہ وہ اپنے بھائی کی لاش نہ چھپا سکنے پر شرمندہ ہوا اور اس کے قتل کرنے پر اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔
آیت ٢٧ (وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ٧) (فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط) - آدم ( علیہ السلام) کے یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کاشت کار تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی دی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے ‘ جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اترتا تھا اور وہ قربانی کی چیز کو جلا کر بھسم کردیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی کو قبول فرما لیا۔ - (قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط) اس نے کہا میں تمہیں قتل کر کے رہوں گا۔- قابیل نے ‘ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی ‘ حسد کی آگ میں جل کر اپنے بھائی ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ - (قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ) ۔- ہابیل نے کہا بھائی جان ‘ اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :48 یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے ، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے ۔
22: پیچھے بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کا ذکر تھا کہ جہاد کا حکم آجانے کے باوجود وہ اس سے جان چراتے رہے، اب بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک بامقصد جہاد میں کسی کی جان لے لینا تو نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے، لیکن ناحق کسی کو قتل کرنا بڑا زبردست گناہ ہے۔ بنی اسرائیل نے جہاد سے تو جان چرائی، لیکن بہت سے بے گنا ہوں کو قتل کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا۔ اس سلسلے میں وہ واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس دُنیا میں سب سے پہلے قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس واقعے میں قرآنِ کریم نے تو صرف اتنا بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں نے کچھ قربانی پیش کی تھی، ایک کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کی نہ ہوئی، اس پر دوسرے کو غصہ آگیا، اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، لیکن اس قربانی کا کیا پس منظر تھا؟ قرآنِ کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ البتہ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور کچھ دوسرے صحابہ کرام کے حوالے سے اس کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام قابیل تھا اور ایک کا ہابیل۔ اس وقت چونکہ دُنیا کی آبادی صرف حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد پر مشتمل تھی، اس لئے ان کی اہلیہ کے ہر حمل میں دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان دونوں کے درمیان تو نکاح حرام تھا، لیکن ایک حمل میں پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے ہوسکتا تھا۔ قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بڑی خوبصورت تھی، لیکن جڑواں بہن ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قابیل کا نکاح جائز نہ تھا۔ اس کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ اسی سے نکاح کرے۔ ہابیل کے لئے وہ لڑکی حرام نہ تھی، اس لئے وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا۔ جب دنوں کا یہ اختلاف بڑھا تو فیصلہ اس طرح قرار پایا کہ دونوں کچھ قربانی اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ جس کی قربانی اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمالی، اس کا دعویٰ برحق سمجھاجائے گا۔ چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ روایات میں ہے کہ ہابیل نے ایک دنبہ قربان کیا، اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار پیش کی۔ اس وقت قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھالیتی تھی، ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا، اور اس طرح اس کی قربانی واضح طور پر قبول ہوگئی، اور قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس پر بجائے اس کے کہ قابیل حق کو قبول کرلیتا، حسد میں مبتلا ہو کر اپنے بھائی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔