29۔ 1 میرے گناہ کا مطلب قتل کا وہ گناہ جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا (صحیح بخاری و مسلم کتاب الفتن)
[٦١] یعنی ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ نے فرمایا قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے (اور تم پر کوئی گناہ نہیں) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن مواقع القطر) نیز کئی احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْۗاَ بِاِثْمِيْ وَاِثْمِكَ ۔۔ : میرا گناہ، یعنی جو مجھے اس صورت میں ہوتا جب میں بھی تجھے قتل کرنے کے درپے ہوتا، جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا ہے، یا یہ کہ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تجھ پر ڈالا جائے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے :” قیامت کے دن ظالم کو لایا جائے گا اور اس کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی، اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ “ [ بخاری، المظالم، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل۔۔ : ٢٤٤٩ ]
اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْۗاَ بِـاِثْمِيْ وَاِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ٠ۚ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِــمِيْنَ ٢٩ۚ- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - باءَ- وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید .- اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
قول باری ہے (انی ارید ان تبوء باتمی واتمک۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے) حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حسن، مجاہد، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ ” میرے قتل کا گناہ اور تیرا گناہ جو تو نے میرے قتل سے پہلے کیا تھا “۔ دوسرے حضرات کا قول ہے۔ ” تیرا گناہ جس کی وجہ سے تیری قربانی قبول نہیں ہوتی “۔ آیت میں مراد یہ ہے۔- میں چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہوں کی سزا سمیٹ لے، اس لئے کہ اثم یعنی گناہ کی حقیقت یہاں مراد لینا درست نہیں ہے اس لئے کہ کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرے جس طرح یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اللہ کی نافرمانی کا حکم دے۔ تبوع کے معنی ترجع، (لوٹنے) کے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے ٹھکانے یعنی گھر کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس موقعہ پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” باء فلان “ (فلاں شخص واپس آگیا)- ” بائو بعضب اللہ “ کے معنی ہیں ” رجعوا “ یعنی وہ لوگ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ ’ بواء ‘ کے معنی ہیں ” قصاص کے ساتھ لوٹنا “۔ اسی طرح محاورہ ہے۔ ” وھم فی ھذا الامر بواء “ (وہ لوگ اس معاملے میں یکساں ہیں) اس فقرے میں ’ بواء ‘ کے معنی ” سواء “ کے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ فقرہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب اس بارے میں ایک ہی رخ پر لوٹتے اور رجوع کرتے ہیں۔
آیت ٢٩ ( اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓ اَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ ) (فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ج) - اگر آپ اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ مجھے قتل کر ہی دیں گے تو آپ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ میری خطاؤں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیں گے۔ ایک بےگناہ انسان کو قتل کرنے والاگویا مقتول کے تمام گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے۔ یعنی اگر آپ مجھے ناحق قتل کریں گے تو میرے گناہوں کا وبال بھی آپ کے سر ہوگا اور میرے لیے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ البتہ اس جرم کی وجہ سے آپ جہنمی ہوجائیں گے۔
23: اگرچہ اپنے دفاع کا اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو حملہ آور کو قتل کرنا جائز ہے، لیکن ہابیل نے احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اپنا یہ حق استعمال کرنے سے گریز کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بچاو کا اور ہر طریقہ اختیار کروں گا، مگر تمہیں قتل کرنے کا اقدام نہیں کروں گا۔ ساتھ ہی اسے یہ جتلادیا کہ اگر تم نے قتل کا ارتکاب کیا تو مظلوم ہونے کی بنا پر میرے گناہوں کی تو معافی کی امید ہے، مگر تم پر نہ صرف اپنے گناہوں کا بوجھ ہوگا، بلکہ میرے قتل کرنے کی وجہ سے کچھ میرے گناہ بھی تم پر لد جائیں تو بعید نہیں، کیونکہ آخرت میں مظلوم کا حق ظالم سے دلوانے کا ایک طریقہ احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں، اور اگر نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے گناہ ظالم ڈال دیئے جائیں۔(ماخوذ از تفسیر کبیر امام رازیؒ)