30۔ 1 چناچہ حدیث میں آتا ہے (لَا تَقْتُلُ نَفْسً ظُلُمًَا اِلَّا کَانَ عَلٰی اِبْنِ آدَمْ کفل من دمہا، لانہ کان اول من سن القتل) (الصحیح بخاری) جو قتل بھی ظلمًا ہوتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پردے دی گئی تھی۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرنے والوں کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے الگ ہوگی جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی۔ قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے اِنْا للہِ وَ اِنِّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ) 002:156 (ابن کثیر)
[٦٢] قابیل نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو کچھ عرصہ ان پر غور کرتا رہا، لیکن بالآخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ہابیل زندہ رہے گا اس کا نکاح اس لڑکی سے نہیں ہوسکتا لہذا اسے ختم کردینے سے ہی اسے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نفس کے شیطان نے اسے سبز باغ دکھا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے بھائی کا قصہ پاک کر دے۔ پھر جب اس نے اسے مار ڈالا تو اس پر ہر طرف سے لعنت اور پھٹکار پڑنے لگی کہ ایسے نیک سیرت اور مشفق بھائی کو اس نے بےقصور مار ڈالا ہے اور آخرت میں جو اس کے لیے سزا ہے وہ تو بہرحال مل کے رہے گی۔
فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ : یعنی اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور آخرت میں بھی سخت عذاب کا مستحق ٹھہرا، کیونکہ ہر بعد والے قتل کا گناہ اس کی گردن پر بھی ہوگا، جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا ہے۔
فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٣٠- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
قول باری ہے (فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لئے آسان کردیا) مجاہد کا قول ہے ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کا معاملہ بڑے مسجع اور منقش انداز میں پیش کیا۔- قتادہ کا قول ہے۔ ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے سامنے مزین کر کے پیش کیا “ ایک قول ہے۔ اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کے معاملے میں اس کی مساعدت کی “ تمام اقوال میں ایک معنی مشترک ہے وہ یہ کہ اس نے بخوشی اس قتل کا ارتکاب کیا تھا اس کام کو اس نے ناپسند نہیں کیا تھا۔- ایک قول ہے کہ عرب کہتے ہیں ” طاع لھذہ الظبیۃ اصول الشجر یا ” طاع لفادن “ (درختوں کی جڑیں اس ہرنی کے لئے خود بخود فرمانبردار ہوگئیں، یا وہ فلاں شخص کا فرمانبردار ہوگیا) یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی کسی کے پاس بخوشی آیا ہو۔ ” انطاع “ کے معنی ہیں ” انقاد “ (فرمانبردار ہوگیا) ۔- اسی مفہوم کی بنا پر محاورے میں ” طوعت لۃ نفسہ “ کہا جاتا ہے ” اطاعتہ نفسہ “ نہیں کہا جاتا۔ اس لئے کہ لفظ ” اطاع “ اطاعت کرنے والے کے ارادے کا مقتضیٰ ہے جو وہ امر اور حکم کے مفہوم کو بجا لانے کے لئے کرتا ہے، یہ بات حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے دل میں موجود نہیں تھی جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا۔ لیکن ” طوع “ کے لفظ میں یہ مفہوم پایا نہیں جاتا۔ اس لئے کہ یہ لفظ کسی امر اور حکم کا مقتضیٰ نہیں ہوتا۔- نیز یہ جائز بھی نہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کو کسی کام کا امر کرے یا کسی کام سے رک جانے کا حکم دے اس لئے کہ امر اور نہی میں اصل بات یہ ہے کہ امر یا نہی کرنے والا مرتبے میں اس سے اونچا ہو جسے یہ امر یا نہی کر رہا ہے۔- لیکن کبھی یہ درست ہوتا ہے کسی انسان کی طرف ایسے فعل کی نسبت کردی جائے جو اس کی ذات کو شامل ہو کسی اور کی طرف متعدی نہ ہو مثلاً آپ یہ کہیں ” حرک نفسہ “ یا ” قتل نفسہ “ (اس نے اپنے آپ کو بلایا یا اس نے اپنے آپ کو قتل کردیا) جس طرح یہ کہنا درست ہے ” حرک غیرہ “ یا ” قتل غیرہ “ (اس نے دوسرے شخص کو بلایا یا دوسرے شخص کو قتل کردیا)- قول باری ہے (فاصبح من الخاسرین پس وہ ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں) یعنی اس نے اسے قتل کر کے اپنی ذات کا نقصان اٹھایا۔ قول باری ہے (ان الخاسرین الذین خسروا انفسھم و اھلیھم یوم القیامۃ۔ بیشک نقصان اٹھانے والے لوگ وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے اہل و عیال کا نقصان اٹھائیں گے۔- قول باری (فاصبح من الخاسرین) میں کوئی دلالت نہیں کہ قتل کا یہ وقوعہ رات کے وقت ہوا تھا بلکہ اس سے ایک مبہم وقت مراد ہے ہوسکتا ہے کہ یہ رات کا وقت ہو اور ہوسکتا ہے کہ دن کا وقت ہو۔ جس طرح شاعر کا قول ہے۔- اصبحت عاذلتی معتلہ مجھے ملامت کرنے والی عورت بیمار پڑگئی۔- یہاں صرف دن کا وقت مراد نہیں ہے رات کا وقت بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے۔- بکدت علی عواذلی یلحیننی والومھنہ - میری ملامت گر عورتوں نے میری کھال اتارنی شروع کردی یعنی بہت زیادہ ملامت شروع کردی اور اس کے جواب میں بھی انہیں صلوٰتیں سناتا رہا۔- یہاں شاعر نے لفظ ’ بکرت ‘ سے دن کا ابتدائی حصہ یعنی سویرا مراد نہیں لیا، اس لفظ سے دن کا آخری حصہ یا کوئی اور حصہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ عرب کے لوگ عام طور پر ایسے الفاظ کا اطلاق کر کے مبہم وقت مراد لیتے تھے۔
آیت ٣٠ (فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ) - ان الفاظ کے بین السطور اس کے ضمیر کی کش مکش کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ ایک طرف اللہ کا خوف ‘ نیکی کا جذبہ ‘ خون کا رشتہ اور دوسری طرف شیطانی ترغیب ‘ حسد کی آگ اور نفسانی خواہش کی اکساہٹ۔ اور پھر بالآخر اس اندرونی کشمکش میں اس کا نفس جیت ہی گیا ۔