Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چناچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چروا ہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا کرلے گئے۔ جب نبی کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ ڈالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چروا ہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتّٰی کہ وہیں مرگئے۔ صحیح بخاری میں یہ بھی آتا ہے انہوں نے چوری بھی کی اور قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ و رسول کے ساتھ محاربہ بھی (صحیح بخاری) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل و غارت گری کرنا، سلب ونہب، اغوا اور آبرو ریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ امام خلیفہ وقت کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل وسلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلا وطن کردیا جائے گا لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦] اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کی صورتیں اور سزائیں :۔ اس آیت میں اللہ اور رسول سے جنگ سے مراد عموماً حرابہ یعنی ڈکیتی یا راہزنی سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس آیت میں چار قسم کی سزاؤں کو جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے اس طرح متعلق کیا جاتا ہے کہ :- (١) اگر مجرم نے قتل تو کردیا ہو مگر مال لینے کی نوبت نہ آئی ہو تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا اور - (٢) اگر قتل بھی کردیا ہو اور مال بھی لوٹ لیا ہو تو اسے سولی پر لٹکایا جائے گا۔ اور - (٣) اگر صرف مال ہی چھینا ہو قتل نہ کیا ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت میں کاٹے جائیں گے اور - (٤) اگر ابھی قتل بھی نہ کیا اور مال بھی چھیننے سے پہلے گرفتار ہوجائے تو اسے جلاوطن کیا جائے گا۔- نیز قاضی جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ان سزاؤں میں سے کسی دو کو اکٹھا بھی کرسکتا ہے اور کسی ایک میں کمی بیشی بھی کرسکتا ہے۔- مگر اس آیت کے الفاظ میں عموم ہے چناچہ محدثین اسی آیت کے تحت عکل اور عرینہ کے واقعہ کو درج کرتے ہیں۔ یہ حدیث درج ذیل ہے :- قصہ عکل اور عرینہ :۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ عکل اور عرینہ (قبیلوں) کے کچھ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں آئے اور اسلام کا کلمہ پڑھنے لگے۔ انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ہم گوجر لوگ ہیں کسان نہیں۔ انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی۔ آپ نے چند اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کیا اور کہا کہ تم لوگ (جنگل میں) چلے جاؤ۔ ان اونٹوں کا دودھ اور بول پیتے رہو۔ وہ حرہ کے پاس اقامت پذیر ہوئے اور اس علاج سے وہ خوب موٹے تازے ہوگئے۔ پھر ان کی نیت میں فتور آگیا اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ آپ کے چرواہے (یسار) کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر اسے کئی طرح کی تکلیفیں پہنچا کر مار ڈالا اور اونٹ بھگا کر چلتے بنے۔ آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے آدمی روانہ کیے۔ جب وہ گرفتار ہو کر آگئے تو آپ نے حکم دیا تو ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور حرہ کے ایک کونے میں پھینک دیئے گئے اور وہ اسی حال میں مرگئے۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن کوئی پانی نہ دیتا تھا۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ انہوں نے چوری کی، خون کیا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قصۃ عکل و عرینۃ نیز کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ۔ نیز کتاب الوضوء باب ابو ال الابل )- اس واقعہ میں محض ڈکیتی کی ہی واردات نہیں بلکہ مکر و فریب سے لوٹ مار، قتل اور ارتداد بھی شامل ہے اور یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور فساد فی الارض کے ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈہ، مجرمانہ سازشیں، اسلامی حکومت سے غداری اور بغاوت یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور فساد فی الارض کے ضمن میں تو آسکتے ہیں مگر ڈکیتی کے ضمن میں نہیں آتے۔ لہذا اس آیت کے مفہوم کو اپنے وسیع مفہوم پر ہی محمول کرنا چاہیے اور قاضی ہر جرم کی نوعیت کے مطابق ان سزاؤں میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ ۔۔ : یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے، مراد وہ لوگ ہیں جو اس حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام نافذ کرنے والی ہے اور اسلام کی سرزمین میں ڈاکا ڈالتے، لوٹ مار کرتے، فساد پھیلانے کی کوشش کرتے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ حاکم وقت ان چار سزاؤں میں سے کوئی بھی سزا انھیں دے سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف اسی کو قتل کیا جائے گا جس نے قتل کیا ہو اور اتنی ہی سزا دی جائے گی جتنا اس کا جرم ہوگا، مگر آیت کے صریح الفاظ اس کی موافقت نہیں کرتے، بلکہ ان لوگوں کا حکم حربیوں ( جنگ کرنے والوں) کا ہے، حاکم وقت ان سزاؤں میں سے جو چاہے سزا دے سکتا ہے، عام اس سے کہ مشرک ہوں یا یہودی یا باغی مسلمان ہوں۔ - اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : باب تفعیل کی وجہ سے معنی میں زیادتی کے اظہار کے لیے ترجمہ میں ” بری طرح “ کا اضافہ کیا گیا ہے، اسی طرح ” اَوْ يُصَلَّبُوْٓا ‘ اور ” اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ “ میں بھی باب کا خیال رکھا گیا ہے۔ - اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت عکل اور عرینہ کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کا قصہ انس (رض) نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، لیکن وہاں کی آب و ہوا انھیں موافق نہ آئی اور وہ بیمار ہوگئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مدینہ سے باہر صدقہ کے اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب (ملا کر) پییں۔ یہ لوگ وہاں چلے گئے، تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھرگئے اور چرواہے (یسارنوبی) کو قتل کر کے اونٹ ہانک کرلے گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انھیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں، پھر انھیں دھوپ میں پھینک دیا گیا، یہاں تک کہ سب مرگئے۔ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب اذا حرق المشرک المسلم ھل یحرق : ٣٠١٨۔ مسلم : ١٦٧١ ] مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انھوں نے چرواہے کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا۔ [ مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین : ١٤؍١٦٧١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

جرم و سزا کے چند قرآنی ضابطے - اِنَّمَا جَزٰۗؤ ُ ا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادً ۔- خلاصہ تفسیر - جو لوگ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑتے ہیں اور (اس لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ) ملک میں فساد (یعنی بدامنی) پھیلاتے پھرتے ہیں ( مراد اس سے رہزنی یعنی ڈکیتی ہے، ایسے شخص پر جس کو اللہ نے قانون شرعی سے جس کا اظہار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے ہوا ہے امن دیا ہو یعنی مسلمان پر اور ذمی پر، اور اسی لئے اس کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنا کہا گیا ہے، کہ اس نے اللہ کے دئیے ہوئے امن کو توڑا، اور چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے اس کا ظہور ہوا اس لئے رسول کا تعلق بھی بڑھا دیا غرض جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں) ان کی یہی سزا ہے کہ (ایک حالت میں تو) قتل کئے جائیں ( وہ حالت یہ ہے کہ ان رہزنوں نے کسی کو صرف قتل کیا ہو اور مال لینے کی نوبت نہ آئی ہو) یا (اگر دوسری حالت ہوئی ہو تو) سولی دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ انہوں نے مال بھی لیا ہو اور قتل بھی کیا ہو) یا (اگر تیسری حالت ہوئی ہو تو) ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے (یعنی داہنا ہاتھ بایاں پاؤ ں) کاٹ دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ صرف مال لیا قتل نہ کیا ہو) یا (اگر چوتھی حالت ہوئی ہو تو) زمین پر (آزادانہ آباد رہنے) سے نکال (کر جیل میں بھیج) دیئے جائیں (یہ وہ حالت ہے کہ نہ مال لیا ہو نہ قتل کیا ہو قصد کرنے کے بعد ہی گرفتار ہوگئے ہوں) یہ (سزائے مذکور تو) ان کے لئے دنیا میں سخت رسوائی (اور ذلت) ہے، اور ان کو آخرت میں (جو) عذاب عظیم ہوگا (سو الگ) ہاں مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان کو گرفتار کرو توبہ کرلیں تو (اس حالت میں) جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ (اپنے حقوق) بخش دیں گے (اور توبہ قبول کرنے میں) مہربانی فرما دیں گے (مطلب یہ کہ اوپر جو سزا مذکور ہوئی ہے، وہ حد اور حق اللہ کے طور پر ہے جو کہ بندہ کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتی قصاص و حق العبد کے طور پر نہیں جو کہ بندہ کے معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے، پس جب کہ قبل گرفتاری کے ان لوگوں کا تائب ہونا ثابت ہوجاوے تو حد ساقط ہوجاوے گی، جو کہ حق اللہ تھا، البتہ حق العبد باقی رہے گا، پس اگر مال لیا ہوگا تو اس کا ضمان دینا ہوگا، اور اگر قتل کیا ہوگا تو اس کا قصاص لیا جاوے گا، لیکن اس ضمان و قصاص کے معاف کرنے کا حق صاحب مال و ولی مقتول کو حاصل ہوگا) ۔ - معارف و مسائل - قرآنی قوانین کا عجیب و غریب انقلابی اسلوب - پہلی آیتوں میں ہابیل کا واقعہ قتل اور اس کا جرم عظیم ہونا مذکور تھا، مذکورہ آیات میں اور ان کے بعد قتل و غارت گری، ڈاکہ زنی اور چوری کی شرعی سزاؤں کا بیان ہے، ڈاکہ اور چوری کی سزاؤں کے درمیان خوف خدا اور بذریعہ طاعات اس کا قرب حاصل کرنے کی تلقین ہے، قرآن کریم کا یہ اسلوب نہایت لطیف طریقہ پر ذہنی انقلاب پیدا کرنے والا ہے، کہ وہ دنیا کی تعزیرات کی کتابوں کی طرح صرف جرم و سزا کے بیان پر کفایت نہیں کرتا، بلکہ ہر جرم و سزا کے ساتھ خوف خدا و آخرت مستحضر کرکے انسان کا رخ ایک ایسے عالم کی طرف موڑ دیتا ہے، جس کا تصور اس کو ہر عیب و گناہ سے پاک کردیتا ہے، اور اگر حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ خوف خدا و آخرت کے بغیر دنیا کا کوئی قانون، پولیس اور فوج دنیا میں انسداد جرائم کی ضمانت نہیں دے سکتی، قرآن کریم کا یہی اسلوب حکیمانہ اور مربّیانہ طرز ہے، جس نے دنیا میں انقلاب برپا کیا، اور ایسے انسانوں کا ایک معاشرہ پیدا کیا جو اپنے تقدس میں فرشتوں سے بھی اونچا مقام رکھتے ہیں۔- شرعی سزاؤں کی تین قسمیں - ڈاکہ اور چوری کی شرعی سزائیں جن کا ذکر آیات مذکورہ میں ہے، ان کی تفصیل اور متعلقہ آیات کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ان سزاؤں سے متعلق شرعی اصطلاحات کی کچھ وضاحت کردی جائے، جن سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لکھے پڑھے لوگوں کو بھی اشکالات پیش آتے ہیں، دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو مطلقاً تعزیرات پاکستان کا نام دیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی جرم سے متعلق ہو، تعزیرات ہند، تعزیرات پاکستان وغیرہ کے ناموں سے جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں، وہ ہر قسم کے جرائم اور ہر طرح کی سزاؤں پر مشتمل ہیں، لیکن شریعت اسلام میں معاملہ ایسا نہیں، بلکہ جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں قرار دی گئیں۔- حدود، قصاص، تعزیرات، ان تینوں قسموں کی تعریف اور مفہوم سمجھنے سے پہلے ایک یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ جن جرائم سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف یا نقصان پہنچتا ہے اس میں مخلوق پر بھی ظلم ہوتا ہے، اور خالق کی بھی نافرمانی ہوتی ہے، اس لئے ہر ایسے جرم میں حق اللہ اور حق العبد دونوں شامل ہوتے ہیں، اور انسان دونوں کا مجرم بنتا ہے۔- لیکن بعض جرائم میں حق العبد کی حیثیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، اور بعض میں حق اللہ کی حیثیت زیادہ نمایاں ہے، اور احکام میں مدار کار اسی غالب حیثیت پر رکھا گیا ہے۔- دوسری بات یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت اسلام نے خاص خاص جرائم کے علاوہ باقی جرائم کی سزاؤں کے لئے کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا، بلکہ قاضی کے اختیار میں دیا ہے کہ ہر زمانہ اور ہر مکان اور ہر ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے، یہ بھی جائز ہے کہ ہر جگہ اور ہر زمانے کی اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ رکھتے ہوئے قاضیوں کے اختیارات پر کوئی پابندی لگاوے اور جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ دے کر اس کا پابند کر دے، جیسا کہ قرون متاخرہ میں ایسا ہوتا رہا ہے، اور اس وقت تمام ممالک میں تقریباً یہی صورت رائج ہے۔- اب سمجھئے کہ جن جرائم کی کوئی سزا قرآن و سنت نے متعین نہیں کی بلکہ حکام کی صواب دید پر رکھا ہے، ان سزاؤں کو شرعی اصطلاح میں ” تعزیرات “ کہا جاتا ہے، اور جن جرائم کی سزائیں قرآن و سنت نے متعین کردی ہیں وہ دو قسم پر ہیں، ایک وہ جن میں حق اللہ کا غالب قرار دیا گیا ہے ان کی سزا کو ” حد “ کہا جاتا ہے جس کی جمع ” حدود “ ہے، دوسرے وہ جن میں حق العبد کو ازروئے شرع غالب مانا گیا ہے، اس کی سزا کو “ قصاص “ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے حدود و قصاص کا بیان پوری تفصیل و تشریح کے ساتھ خود کردیا ہے باقی تعزیری جرائم کی تفصیلات کو بیان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حکام وقت کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جن جرائم کی سزا کو بطور حق اللہ متعین کرکے جاری کیا ہے ان کو حدود کہتے ہیں، اور جن کو بطور حق العبد جاری فرمایا ہے ان کو قصاص کہتے ہیں، اور جن جرائم کی سزا کا تعین نہیں فرمایا اس کو تعزیر کہتے ہیں، سزا کی ان تینوں قسموں کے احکام بہت سی چیزوں میں مختلف ہیں، جو لوگ اپنے عرف عام کی بناء پر ہر جرم کی سزا کو تعزیر کہتے ہیں اور شرعی اصطلاحات کے فرق پر نظر نہیں کرتے ان کو شرعی احکام میں بکثرت مغالطے پیش آئے ہیں۔- تعزیری سزائیں حالات کے ماتحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں، سخت سے سخت بھی اور معاف بھی کی جاسکتی ہیں، ان میں حکام کے اختیارات وسیع ہیں، اور حدود میں کسی حکومت یا کسی حاکم و امیر کو ادنیٰ تغیر و تبدّل یا کمی بیشی کی اجازت نہیں ہے، اور نہ زمان و مکان کے بدلنے کا ان پر کوئی اثر پڑتا ہے، نہ کسی امیر و حاکم کو اس کے معاف کرنے کا حق ہے، شریعت اسلام میں حدود صرف پانچ ہیں، ڈاکہ، چوری، زنا، تہمت زنا کی سزائیں، یہ سزائیں قرآن کریم میں منصوص ہیں، پانچویں شراب خوری کی حد ہے، جو اجماع صحابہ کرام سے ثابت ہوئی ہے، اس طرح کل پانچ جرائم کی سزائیں معین ہوگئیں، جن کو ” حدود “ کہا جاتا ہے، یہ سزائیں جس طرح کوئی حاکم و امیر کم یا معاف نہیں کرسکتا، اسی طرح توبہ کرلینے سے بھی دنیوی سزا کے حق میں معافی نہیں ہوتی، ہاں آخرت کا گناہ مخلصانہ توبہ سے معاف ہو کر وہاں کا کھاتہ بیباق ہوجاتا ہے، ان میں سے صرف ڈاکو کی سزا میں ایک استثناء ہے کہ ڈاکو اگر فتاری سے قبل توبہ کرے اور معاملات سے اس کی توبہ پر اطمینان ہوجائے تو بھی یہ حد ساقط ہوجائے گی، گرفتاری کے بعد کی توبہ معتبر نہیں، اس کے علاوہ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں، خواہ یہ توبہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں، تمام تعزیری جرائم میں حق کے موافق سفارشات سنی جاسکتی ہیں، حدود اللہ میں سفارش کرنا بھی جائز نہیں، اور ان کا سننا بھی جائز نہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی سخت ممانعت فرمائی ہے، حدود کی سزائیں عام طور پر سخت ہیں، اور ان کے نفاذ کا قانون بھی سخت ہے، کہ ان میں کسی کو کسی کمی بیشی کی کسی حال میں اجازت نہیں، نہ کوئی ان کو معاف کرسکتا ہے، جہاں سزا اور قانون کی سختی رکھی گئی ہے وہیں معاملہ کو معتدل کرنے کے لئے تکمیل جرم اور تکمیل ثبوت جرم کے لئے شرطیں بھی نہایت کڑی رکھی گئی ہیں، ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو حد ساقط ہوجاتی ہے، بلکہ ادنیٰ سا شبہ بھی ثبوت میں پایا جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے، اسلام کا مسلم قانون اس میں یہ ہے کہ الحدود تندرء بالشبھات یعنی حدود کو ادنیٰ شبہ سے ساقط کردیا جاتا ہے۔- یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جن صورتوں میں حد شرعی کسی شبہ یا کسی شرط کی کمی کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے جس سے اس کو جرم پر اور جرأت پیدا ہو، بلکہ حاکم اس کے مناسب حال اس کو تعزیری سزا دے گا اور شریعت کی تعزیری سزائیں بھی عموماً بدنی اور جسمانی سزائیں ہیں، جن میں عبرت انگیز ہونے کی وجہ سے انسداد جرائم کا مکمل انتظام ہے، فرض کیجئے کہ زنا کے ثبوت پر صرف تین گواہ ملے، اور گواہ عادل ثقہ ہیں جن پر چھوٹ کا شبہ نہیں ہو سکتا، مگر ازروئے قانون شرع چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر حد شرعی جاری نہیں ہوگی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو کھلی چھٹی دے دیجائے، بلکہ حاکم وقت اس کو مناسب تعزیری سزا دے گا جو کوڑے لگانے کی صورت میں ہوگی، یا چوری کے ثبوت کے لئے جو شرائط مقرر ہیں اس میں کوئی کمی یا شبہ پیدا ہونے کی وجہ سے اس پر حدّ شرعی ہاتھ کاٹنے کی جاری نہیں ہوسکتی، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل آزاد ہوگیا، بلکہ اس کو دوسری تعزیری سزائیں حسب حال دی جائیں گی۔ - قصاص کی سزا بھی حدود کی طرح قرآن میں متعین ہے، کہ جان کے بدلہ میں جان لی جائے زخموں کے بدلہ میں مساوی زخم کی سزا دی جائے، لیکن فرق یہ ہے کہ حدود کو بحیثیت حق اللہ نافذ کیا گیا ہے، اگر صاحب حق انسان معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہ ہوگا، اور حد ساقط نہ ہوگی، مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے وہ معاف بھی کر دے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی، بخلاف قصاص کے کہ اس میں حق العبد کی حیثیت کو قرآن و سنت نے غالب قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ قاتل پر جرم قتل ثابت ہوجانے کے بعد اس کو ولی مقتول کے حوالہ کردیا جاتا ہے وہ چاہے تو قصاص لے لے، اور اس کو قتل کرا دے، اور چاہے معاف کر دے۔- اسی طرح زخموں کے قصاص کا بھی یہی حال ہے، یہ بات آپ پہلے معلوم کرچکے ہیں کہ حدود یا قصاص کے ساقط ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے بلکہ حاکم وقت تعزیری سزا جتنی اور جیسی مناسب سمجھے دے سکتا ہے، اس لئے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ اگر خون کے مجرم کو اولیاء مقتول کے معاف کرنے پر چھوڑ دیا جائے تو قاتلوں کی جرأت بڑھ جائے گی اور قتل کی واردات عام ہوجائیں گی، کیونکہ اس شخص کی جان لینا تو ولی مقتول کا حق تھا وہ اس نے معاف کردیا، لیکن دوسرے لوگوں کی جانوں کی حفاظت حکومت کا حق ہے، وہ اس حق کے تحفظ کے لئے اس کو عمر قید کی یا دوسری قسم کی سزائیں دے کر اس خطرہ کا انسداد کرسکتی ہے۔- یہاں تک شرعی سزاؤں حدود، قصاص اور تعزیرات کی اصطلاحات شرعیہ اور ان کے متعلق ضروری معلومات کا بیان ہوا، اب ان کے متعلق آیات کی تفسیر اور حدود کی تفصیل دیکھئے، پہلی آیت میں ان لوگوں کی سزا کا بیان ہے جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مقابلہ اور محاربہ کرتے ہیں، اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ - یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ محاربہ اور زمین میں فساد کا کیا مطلب ہے، اور کون لوگ اس کے مصداق ہیں، لفظ ” محاربہ “ حرب سے ماخوذ ہے، اور اس کے اصلی معنی سلب کرنے اور چھین لینے کے ہیں، اور محاورات میں یہ لفظ سَلَم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی امن و سلامتی کے ہیں، تو معلوم ہوا کہ حرب کا مفہوم بدامنی پھیلانا ہے، اور ظاہر ہے کہ اِکّا دکا چوری یا قتل و غارت گری سے امن عامہ سلب نہیں ہوتا، بلکہ یہ صورت جبھی ہوتی ہے جبکہ کوئی طاقتور جماعت رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہوجائے، اس لئے حضرات فقہاء نے اس سزا کا مستحق صرف اس جماعت یا فرد کو قرار دیا ہے جو مسلح ہو کر عوام پر ڈاکے ڈالے، اور حکومت کے قانون کو قوت کے ساتھ توڑنا چاہے جس کو دوسرے لفظوں میں ڈاکو یا باغی کہا جاسکتا ہے، عام انفرادی جرائم کرنے والے چورگرہ کٹ وغیرہ اس میں داخل نہیں ہیں (تفسیر مظہری) ۔ - دوسری بات یہاں یہ قابل غور ہے کہ اس آیت میں محاربہ کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ ڈاکو یا بغاوت کرنے والے جو مقابلہ یا محاربہ کرتے ہیں وہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ کوئی طاقتور جماعت جب طاقت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قانون کو توڑنا چاہے تو اگرچہ ظاہر میں اس کا مقابلہ عوام اور انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی جنگ حکومت کے ساتھ ہے اور اسلامی حکومت میں جب قانون اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نافذ ہو تو یہ محاربہ بھی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے مقابلہ میں کہا جائیگا۔ - خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں جس سزا کا ذکر ہے یہ ان ڈاکوؤں اور باغیوں پر عائد ہوتی ہے جو اجتماعی قوت کے ساتھ حملہ کرکے امن عامہ کو برباد کریں، اور قانون حکومت کو اعلانیہ توڑنے کی کوشش کریں اور ظاہر ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مال لوٹنے، آبرو پر حملہ کرنے سے لے کر قتل و خونریزی تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں، اسی سے مقاتلہ اور محاربہ میں فرق معلوم ہوگیا کہ لفظ مقاتلہ خون ریز لڑائی کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی قتل ہو یا نہ ہو، اور گو ضمناً مال بھی لوٹا جائے، اور لفظ محاربہ طاقت کے ساتھ بدامنی پھیلانے اور سلامتی کو سلب کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی لئے یہ لفظ اجتماعی طاقت کے ساتھ عوام کی جان و مال و آبرو میں سے کسی چیز پر دست درازی کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس کو رہزنی، ڈاکہ اور بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔- اس جرم کی سزا قرآن کریم نے خود متعین فرما دی اور بطور حق اللہ یعنی سرکاری جرم کے نافذ کیا، جس کو اصطلاح شرع میں حد کہا جاتا ہے، اب سنئے کہ ڈاکہ اور رہزنی کی شرعی سزا کیا ہے آیت مذکورہ میں، رہزنی کی چار سزائیں مذکور ہیں :- اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۔ ” یعنی اس کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو زمین سے نکال دیا جائے “۔ اس میں سے پہلی سزاؤں میں مبالغہ کا لفظ باب تفعیل سے استعمال فرمایا جو تکرار فعل اور شدت پر دلالت کرتا ہے، اس میں صیغہ جمع استعمال فرما کر اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ ان کا قتل یا سولی چڑھانا یا ہاتھ پاؤں کاٹنا عام سزاؤں کی طرح نہیں کہ جس فرد پر جرم ثابت ہو صرف اسی فرد پر سزا جاری کی جائے بلکہ یہ جرم جماعت میں سے ایک فرد سے بھی صادر ہوگیا تو پوری جماعت کو قتل یا سولی یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا دی جائے گی۔ - نیز اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ یہ قتل و صلب وغیرہ قصاص کے طور پر نہیں کہ اولیاء مقتول کے معاف کردینے سے معاف ہوجائے، بلکہ یہ حد شرعی بحیثیت حق اللہ کے نافذ کی گئی ہے جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے وہ معاف بھی کردیں تو شرعاً سزا معاف نہ ہوگی، یہ دونوں حکم بصیغہ تفعیل ذکر کرنے سے مستفاد ہوئے (تفسیر مظہری وغیرہ) ۔- رہزنی کی یہ چار سزائیں حرف اَو کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں، جو چند چیزوں میں اختیار دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تقسیم کار کے لئے بھی، اسی لئے فقہاء امت صحابہ وتابعین کی ایک جماعت حرف اَو کو تخییر کے لئے قرار دے کر اس طرف گئی ہے کہ ان چار سزاؤں میں امام و امیر کو شرعاً اختیار دیا گیا ہے کہ ڈاکوؤں کی قوت و شوکت اور جرائم کی شدت و خفت پر نظر کرکے ان کے حسب حال یہ چاروں سزائیں یا ان میں سے کوئی ایک جاری کرے۔ - سعید بن مسیب (رض)، عطاء (رض) داؤد رحمة اللہ علیہ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ، نخغی رحمة اللہ علیہ، مجاہد رحمة اللہ علیہ، اور ائمہ اربعہ رحمة اللہ علیہم میں سے امام مالک رحمة اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، شافعی رحمة اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور ایک جماعت صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہم نے حرف اَو کو اس جگہ تقسیم کار کے معنے میں لے کر آیت کا مفہوم یہ قرار دیا کہ رہزنوں اور رہزنی کے مختلف حالات پر مختلف سزائیں مقرر ہیں، اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بردہ اسلمی سے معاہدہ صلح کا فرمایا تھا، مگر اس نے عہد شکنی کی، اور کچھ لوگ مسلمان ہونے کے لئے مدینہ طیبہ آرہے تھے، ان پر ڈاکہ ڈالا، اس واقعہ میں جبرئیل امین یہ حکم سزا لے کر نازل ہوئے، کہ جس شخص نے کسی کو قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا اس کو سولی چڑھایا جائے، اور جس نے صرف قتل کیا مال نہیں لوٹا اس کو قتل کیا جائے، اور جس نے کوئی قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا ہے اس کے ہاتھ پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں، اور جو ان میں سے مسلمان ہوجائے اس کا جرم معاف کردیا جائے، اور جس نے قتل و غارت گری کچھ نہیں کیا صرف لوگوں کو ڈرایا جس سے امن عامّہ مختل ہوگیا، اس کو جلاوطن کیا جائے، اگر ان لوگوں نے دار الاسلام کے کسی مسلم یا غیر مسلم شہری کو قتل کیا ہے مگر مال نہیں لوٹا تو ان کی سزا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا یعنی ان سب کو قتل کردیا جائے اگرچہ فعل قتل بلاواسطہ صرف بعض افراد سے صادر ہوا ہو، اور اگر کسی کو قتل بھی کیا مال بھی لوٹا تو ان کی سزا يُصَلَّبُوْٓا ہے، یعنی ان کو سولی چڑھایا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ ان کو زندہ سولی پر لٹکایا جائے، پھر نیزہ وغیرہ سے پیٹ چاک کیا جائے، اور اگر ان لوگوں نے صرف مال لوٹا ہے کسی کو قتل نہیں کیا تو اس کی سزا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ ہے، یعنی ان کے داہنے ہاتھ گٹوں پر سے اور بائیں پاؤں ٹخنوں پر سے کاٹ دیئے جائیں، اور اس میں بھی یہ مال لوٹنے کا عمل بلاواسطہ اگرچہ بعض سے صادر ہوا ہو، مگر سزا سب کے لئے یہی ہوگی، کیونکہ کرنے والوں نے جو کچھ کیا ہے اپنے ساتھیوں کے تعاون و امداد کے بھروسہ پر کیا ہے، اس لئے سب شریک جرم ہیں اور اگر ابھی تک قتل و غارت گری کا کوئی جرم ان سے صادر نہیں ہوا تھا کہ پہلے ہی گرفتار کر لئے گئے تو ان کی سزا اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ہے، یعنی ان کو زمین سے نکال دیا جائے۔ - زمین سے نکالنے کا مفہوم ایک جماعت فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ ان کو دار الاسلام سے نکال دیا جائے، اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ جس مقام پر ڈاکہ ڈالا ہے وہاں سے نکال دیا جائے، حضرت فاروق اعظم (رض) اس قسم کے معاملات میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر مجرم کو یہاں سے نکال کر دوسرے شہروں میں آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہاں کے لوگوں کو ستائے گا اس لئے ایسے مجرم کو قید خانہ میں بند کردیا جائے، یہی اس کا زمین سے نکالنا ہے کہ زمین میں کہیں چل پھر نہیں سکتا، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے بھی یہی اختیار فرمایا ہے۔ - رہا یہ سوال کہ اس طرح کے مسلح حملوں میں آج کل عام طور پر صرف مال کی لوٹ کھسوٹ یا قتل و خون ریزی ہی پر اکتفاء نہیں ہوتا بلکہ اکثر عورتوں کی عصمت دری اور اغوا وغیرہ کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور قرآن مجید کا جملہ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا، اس قسم کے تمام جرائم کو شامل بھی ہے تو وہ کس سزا کا مستحق ہوں گے، اس میں ظاہر یہی ہے کہ امام و امیر کو اختیار ہوگا کہ ان چاروں سزاؤں میں سے جو ان کے مناسب حال دیکھے وہ جاری کرے اور بدکاری کا شرعی ثبوت بہم پہنچے تو حدّ زنا جاری کرے۔ - اسی طرح اگر صورت یہ ہو کہ نہ کسی کو قتل کیا نہ مال لوٹا، مگر کچھ لوگوں کو زخمی کردیا تو زخموں کے قصاص کا قانون نافذ کیا جائے گا (تفسیر مظہری) ۔- آخر آیت میں فرمایا ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ یعنی یہ سزائے شرعی جو دنیا میں ان پر جاری کی گئی ہے، یہ تو دنیا کی رسوائی ہے اور سزا کا ایک نمونہ ہے، اور آخرت کی سزا اس سے بھی سخت اور دیرپا ہے اس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی سزاؤ ں، حدودو قصاص یا تعزیرات سے بغیر توبہ کے آخرت کی سزا معاف نہیں ہوتی، ہاں سزا یافتہ شخص دل سے توبہ کرلے تو آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ لَہُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ٣٣ۙ- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب،- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] - ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ - صلب - والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، - ( ص ل ب ) الصلب - الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔- ۔ الصلیب - اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔ - قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- (ينفوا)- ، فيه إعلال بالحذف جری فيه مجری يسعون حيث حذف منه الألف قبل واو الجماعة وزنه يفعوا بضمّ الیاء وفتح العین لأنه مبني للمجهول .- خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

محاربین کی حد یعنی سزا - قول باری ہے (انما جزاء الذین یحادبون اللہ و رسولہ و یسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لئے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کئے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں) ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (یجادبون اللہ) مجازی معنی پر محمول ہے۔ حقیقی معنی پر نہیں اس لئے کہ اللہ سے لڑنا امر محال ہے۔ اس میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک یہ کہ جو لوگ طاقت پکڑ کر کھلم کھلا اسلحہ استعمال کرنے اور لوٹ مار کے لئے نکل آئیں انہیں محاربین کے نام سے موسوم کیا گیا اس لئے کہ ان کی حیثیت اس شخص جیسی ہے جو دوسرے لوگوں سے لڑنے بھڑنے پر کمربستہ ہوجانے اور ان کے لئے رکاوٹیں پیدا کردے۔- انہیں برسرپیکار لوگوں کے مشابہ قرار دے کر محاربین کے نام سے موسوم کیا گیا جس طرح یہ ارشاد باری ہے (ذلک بانھم شاقوا اللہ و رسولہ یہ (حکم قتال) اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی) نیز فرمایا (ان الذین یحادون اللہ ورسولہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں) مشاقت کے معنی یہ ہیں کہ فریقین میں سے ہر فریق دوسرے فریق کی مخالف جانب ہو۔- محادت کے معنی یہ ہیں کہ ہر فریق دوسرے فریق سے علیحدگی کی بنا پر ایک کنارے پر ہو۔ یہ بات اللہ کی ذات کی نسبت سے محال ہے اس لئے کہ اس کی ذات مکان اور مکانیت سے ماورا ہے اس لئے اس کے ساتھ نہ مناقشت ہوسکتی ہے اور نہ ہی محادت نہ ہی اس کی ذات کے لئے مبانیت اور مفارقت کا جواز ہوسکتا ہے۔ اس میں صرف باہم دشمنی رکھنے والے دو افراد کے ساتھ لفظی تشبہ ہے اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب اور علیحدہ کنارے پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت مخالفت اور مبانیت کے اظہار میں مبالغہ کے طور پر ہوئی ہے۔- اسی طرح قول باری (یحاربون اللہ) میں احتمال ہے کہ انہیں ان لوگوں کے مشابہ قرار دے کر جو دوسروں کے ساتھ مخالفت کا اظہار کرتے اور ان سے لڑتے ہیں، اس نام سے موسوم کردیا گیا۔- محاربت کی یہ علامت صرف مذکورہ بالا گروہ کے ساتھ اس لئے خاص کردی گئی کہ طاقت پکڑنے کے بعد یہ اللہ کے احکام کی مخالفت، قابل احترام چیزوں اور عورتوں کی بےحرمتی نیز اسلحہ کی نمائش کے لئے نکل آتا ہے۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے ہر شخص کو اس نام سے موسوم نہیں کیا گیا اس لئے کہ وہ طاقت اور قوت پکڑنے نیز لوٹ مار کرنے اور ڈاکے ڈالنے کے لحاظ سے اس درجے پر نہیں پہنچتا “۔- دوسرا احتمال یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہوں جو اللہ کے دوستوں اور اس کے رسول سے برسرپیکار ہوتے اور لڑتے ہیں جس طرح یہ ارشاد باری ہے (الذین یوذون اللہ وہ لوگ جو اللہ کو اذیت پہنچاتے ہیں) یعنی اللہ کے دوستوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ )- اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کے رسول سے برسرپیکار ہوتے تو اس بنا پر کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محاربت کا اظہار کیا ہے انہیں مرتد قرار دے دیا جاتا۔ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربت کے لفظ کا اس شخص پر اطلاق درست ہوتا ہے جو کھلم کھلا معصیت کا ارتکاب کر کے اپنے جرم کو انتہائی سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ وہ اہل ملت میں سے کیوں نہ ہو۔- اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے زید بن اسلم نے اپنے والد سے نقل کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاذ (رض) کو روتے ہوئے دیکھا تو ان سے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت معاذ (رض) نے جواب میں فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الیسیر من الریا شرک ، من عادی اولیہ اللہ فقد بارز اللہ بالمحاربۃ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے، جس شخص نے اللہ کے دوستوں سے دشمنی کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو جنگ کے لئے للکارا) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص پر محاربت کے اسم کا اطلاق کیا اور ارتداد کا ذکر نہیں کیا جو شخص کسی مسلمان کا مال چھیننے کی غرض سے اس کے ساتھ لڑائی کرے گا وہ اللہ کے دوستوں سے دشمنی کا مرتکب ہوگا اور اس بنا پر اللہ تعالیٰ سے برسرپیکار قرار پائے گا۔- اسیاط نے سدی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کے غلام صبیح سے، اور انہوں نے حضرت زید بن ارقم سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن (رض) و حضرت حسین (رض) سے فرمایا (ان حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم جس کے ساتھ تم جنگ کرو گے میری بھی اس کے ساتھ جنگ ہے اور جس کے ساتھ تم صلح کرو گے میری بھی اس کے ساتھ صلح ہے) ۔- اس طرح ان حضرات کے ساتھ جنگ کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے والا کہلانے کا مستحق ہوگیا اگرچہ وہ مشرک نہ بھی ہو۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قاطع الطریق یعنی رہزن پر بھی اس اسم یعنی محارب کا اطلاق ہوتا ہے۔- اس پردہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے اشعث نے شعبی سے اور انہوں نے سعد بن قیس سے نقل کیا ہے کہ حارثہ بن بدر نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے تگ و دو کی لیکن قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی۔ حضرت علی (رض) نے بصرہ میں اپنے گورنر کو لکھا کہ حارثہ بن بدر نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربت کی اور ہمارے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی اس لئے تم اس سے کوئی تعرض نہ کرو اور بھلائی سے پیش آئو۔ حضرت علی (رض) نے اس شخص پر محارب کے اسم کا اطلاق کیا۔ جبکہ یہ مرتد نہیں ہوا تھا اس نے صرف رہزنی کی تھی۔- یہ روایات اور ہمارے بیان کے مطابق آیت کا مفہوم اس بات کی دلیل ہیں کہ محارب کا اسم رہزنوں کو بھی لاحق ہوتا ہے اگرچہ یہ کافر اور مشرک نہ بھی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ فقہائے امصار جن کا تعلق سلف سے بھی ہے اور بعد میں آنے والے حضرات یعنی خلف سے بھی، ان کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ یہ حکم مرتدین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو رہزنی کرتے ہیں خواہ وہ اہل ملت میں سے کیوں نہ ہوں۔- بعض متاخرین سے جو کسی طرح قابل اعتنا نہیں ہیں یہ منقول ہے کہ یہ حکم مرتدین کے ساتھ خاص ہے لیکن یہ قول نہ صرف ساقط اور رد کردینے کے قابل ہے بلکہ یہ آیت اور سلف و خلف کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔- ان لوگوں سے مراد ایسے رہزن ہیں جو ملت اسلام سے تعلق رکھتے ہوں اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پائو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے)- یہ بات معلوم ہے کہ مرتدین اگر قابو میں آنے سے پہلے یا اس کے بعدت وبہ کرلیں تو ان سے سزا ٹل جاتی ہے اس لحاظ سے ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر قابو میں آنے سے پہلے یا قابو میں آنے کے بعد ایسے لوگوں کی توبہ میں فرق رکھا ہے۔ نیز ایک شخص کے مسلمان ہوجانے سے وہ حد ساقط نہیں ہوتی جو سزا کے طور پر اس پر واجب ہوچکی ہو۔- اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان لوگوں سے راہزن مراد ہیں جن کا تعلق اہل ملت سے ہوتا ہے نیز یہ کہ قابو میں آنے سے پہلے ان کی توبہ ان سے سزا کو ساقط کردیتی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرتد نفس ارتداد کی بنا پر قتل کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کی بات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ محاربت یعنی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کی بنا پر قتل کے مستحق قرار پاتے ہیں۔- اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں مرتدین مراد نہیں ہیں۔ نیز آیت میں ان لوگوں کی جلاوطنی کا ذکر ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ نہیں کرتے، جبکہ مرتد کو جلاوطن نہیں کیا جاتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت کا حکم اہل ملت یعنی مسلمانوں کے اندر جاری ہوگا۔- ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی شخص کفر کی بنا پر ہاتھ اور پائوں کاٹے جانے کا سزاوار نہیں ہوتا نیز یہ کہ مرتدین میں سے کوئی قیدی اگر ہمارے ہاتھ آ جائے تو اس پر اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو فبہا ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے نہیں جائیں گے۔- ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو ظاہر ہوگا کہ آیت نے محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی اور سزا واجب نہیں کی ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ مرتد کو ہاتھ پائوں کاٹ دینے کے بعد چھوڑ دینا جائز نہیں بلکہ اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک صورت میں صرف ہاتھ پائوں کاٹنے تک سزا کو محدود رکھنا واجب کردیا ہے اس کے ساتھ کوئی اور سزا تجویز نہیں کی ہے۔- ایک اور پہلو بھی ہے۔ سولی دینے کی سزا کا مرتدین کے حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مرتدین کے علاوہ ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفر لھم ما قد سلفہ کافروں سے کہہ دیں کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے) ۔- محاربین کے بارے میں ارشاد باری ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم) اللہ تعالیٰ نے محاربین سے سزا کے ٹل جانے کی شرط یہ رکھی ہے کہ وہ قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں جبکہ کفر کی سزا کو توبہ کی بنا پر ساقط کردیا خواہ یہ توبہ قابو میں آنے سے پہلے یا بعد کی گئی ہو۔- اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے محاربین سے مرتدین مراد نہیں لیا ہے۔ یہ تمام وجوہ اس شخص کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آیت مرتدین کے ساتھ خاص ہے۔- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قتادہ، عبد العزیز بن صہیب اور دوسرے حضرات نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ آپ نے ان سے فرمایا : اگر تم لوگ ہمارے اونٹوں کے گلوں کی طرف نکل جاتے اور ان کا دودھ اور پیشاب پی لیتے (تو تمہاری بیماری دور ہوجاتی) “- چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ چرواہے کو قتل کردیا اور کفر اختیار کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں کو بھی … گئے۔ آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے چناچہ وہ پکڑے گئے آپ نے ان کے ہاتھ پائوں کاٹنے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دینے کا حکم دیا، اس کے بعد انہیں حرہ کے مقام پر چھوڑ دیا گیا جہاں وہ سب مرگئے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عرینہ کے ان لوگوں کے متعلق روایات میں اختلاف ہے بعض راویوں نے حضرت انس (رض) سے وہی روایت بیان کی ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ آیت کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے۔- کلبی نے ابو صالح سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ آیت کا نزول ابو برزہ اسلمی کے ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا، ابوبرزہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے ایسے لوگوں کو لوٹ لیا جو اسلام لانے کے ارادے سے آ رہے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آیت قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس روایت میں ان کے ارتداد کا ذکر نہیں ہے۔ اوپر کی وضاحت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آیت یا قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی یا امن کا معاہدہ کرنے والوں کے بارے میں، اگر آیت کا نزول عرنیین کے بارے میں تھا اور یہ کہ وہ مرتد ہوگئے تھے تو پھر ان کے متعلق اس کا نزول اسے صرف ان کی ذات تک محدود کرنے کا موجب نہیں ہے۔- اس لئے کہ ہمارے نزدیک سبب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے الایہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے جو حکم کو اس کے سبب تک محدود کردے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت عرنیین کے بارے میں نازل ہوئی۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کے نزول کے بعد کچھ کیا ہو۔ آپ نے بس انہیں حرہ کے مقام پر چھوڑ دیا جہاں وہ مرگئے۔- اب یہ بات محال ہے کہ آیت ان لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹنے کا حکم لے کرنا زل ہو جن کے ہاتھ پائوں پہلے ہی کٹ چکے تھے یا ان لوگوں کے قتل کا حکم لے کر آئے جو پہلے ہی قتل ہوچکے تھے اس لئے کہ یہ بات ناممکن ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں قبیلہ عرینہ کے لوگ مراد نہیں ہیں۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت ان تمام لوگوں کے لئے عام ہے جنہیں محاربین کا اسم شامل ہے اور یہ صرف مرتدین تک محدود نہیں ہے۔ ہمام نے قتادہ سے، انہوں نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ عرنیہ والوں کا واقعہ حدود کے نزول سے پہلے پیش آیا تھا، اس طرح ابن سیرین نے یہ اطلاع دی کہ یہ واقعہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھیں پھوڑنے کا حکم دیا تھا اور یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی بنا پر منسوخ ہوگیا تھا جس میں آپ نے مثلہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ نیز جب آیت کا نزول عرنیین کے واقعہ کے بعد ہوا تھا اور اس واقعہ کے سلسلے میں جن باتوں کا ذکر ہوا اس میں آنکھیں پھوڑنے کی بات کا ذکر نہیں تھا تو گویا آنکھیں پھوڑنے کا حکم آیت کی بنا پر منسوخ ہوگیا تھا اس لئے کہ اگر آنکھیں پھوڑنا بھی سزا میں داخل ہوتا تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔- اس کی مثال وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت عبادہ (رض) ہیں۔ اس میں ارشاد ہے (فی البکر بالبکر جلد مائۃ و تغریب عام و الثیب بالشیب الجلد و الرحم۔ اگر کنوارا کنواری کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرے تو ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ منہ کالا کرے تو ان کی سزا کوڑے اور سنگساری ہے) ۔- پھر اس کے بعد اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (الزانیۃ والزانی فاجلد وا کل واحد منہما مائۃ جلدہ) زنا کار عورت اور زنا کار مردان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو) اس طرح آیت میں مذکورہ سزا زنا کی حد بن گئی۔ اس کے سوا اور کوئی چیز اس کی حد مقرر نہیں ہوئی۔ جلاوطنی کی سزا آیت کی بنا پر منسوخ ہوگئی۔- زیر بحث آیت عرنیین کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آیت میں قتل اور سولی کی سزا کا ذکر ہے لیکن آنکھیں پھوڑنے کی سزا کا ذکر نہیں ہے۔ اب یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ آیت کا نزول ان لوگوں پر حکم جاری کرنے کے بعد ہوا اور آیت میں یہی لوگ مراد ہیں۔ اس لئے کہ اگر ایسی بات ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر آیت کا حکم جاری کرتے۔- لیکن جب سولی کی سزا نہیں دی گئی بلکہ ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آیت کا حکم اس واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کا حکم مرتدین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تمام محاربین کے لئے عام ہے۔- اس بارے میں اختلاف کا ذکر - سلف اور فقہائے امصار کے مابین آیت کے حکم کے متعلق کئی پہلوئوں سے اختلاف رائے ہے جن کا اہم ابھیذکر کریں گے۔ پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت کا حکم ان لوگوں پر بھی جاری ہوگا جو اہل ملت میں سے ہوں اور رہزنی کرتے ہوں۔- حجاج بن ارطاۃ نے عطیہ العوفی سے روایت کی ہے۔ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ) تاآخر آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے لڑے اور اس کا مال چھین کر اسے قتل کر دے تو ایسے شخص کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں گی اور پھر اسے قتل کر کے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔- اگر اس نے صرف قتل کیا ہو اور مال نہ چھینا ہو تو ایسی صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر اس نے قتلنہ کیا ہو صرف مال چھینا ہو تو اس کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے قطع کردیئے جائیں گے۔ اگر اس نے نہ قتل کیا ہو اور نہ ہی مال چھینا ہو تو ایسے شخص کو جلاوطن کردیا جائے گا۔- امام ابوحنیفہ نے حماد سے روایت کی ہے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ایک شخص رہزنی کرتا، مال لوٹنا اور لوگوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں امام المسلمین کو اختیار ہوگا چاہے تو اس کے ہاتھ اور پائوں مخالف سے کاٹ کر اسے قتل کر دے اور بعد ازاں سولی پر لٹکا دے اور اگر چاہے تو ہاتھ پائوں کاٹے بغیر سولی پر لٹکا دے، اگر چاہے تو پھانسی دیئے بغیر صرف اس کی گردن اڑا سکتا ہے۔- اگر اس نے صرف مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو تو ایسی صورت میں اس کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے قطع کردیئے جائیں گے۔ اگر اس نے نہ مال چھینا ہو نہ ہی کسی کی جان لی ہو تو تعزیری سزا دے کر اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ جلاوطنی کے معنی یہ ہیں کہ اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ - ایک روایت میں ہے کہ اسے سخت ترین سزا دے کر قید میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ نیک چلنی کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلے۔ ایک روایت کے مطابق حسن کا بھی یہی قول ہے۔ سعید بن جبیر، حماد، قتادہ اور عطاء خراسانی کا بھی یہی قول ہے۔- یہ سلف کے ان حضرات کا قول ہے جنہوں نے آیت کے حکم کو اسی ترتیب سے جاری کیا جس ترتیب سے الفاظ میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جب لوگ خروج کریں تو امام المسلمین کو اختیار ہے کہ ان سزائوں میں سے جو بھی سزا وہ مناسب سمجھے انہیں دے دے خواہ انہوں نے نہ کوئی مال چھینا ہو اور نہ کسی کی جان لی ہو۔ سعید بن المسیب، مجاہد، حسن (ایک روایت کے مطابق) عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ محاربین نے اگر صرف جانیں لی ہوں گی اور مال وغیرہ لوٹا نہ ہوگا تو سزا میں ان کی گردنیں اڑا دی جائیں گی۔ اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہوگا اور اس سے تجاوز نہ کیا ہوگا تو ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں گے۔- ان دو صورتوں میں ہمارے اصحاب کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔- لیکن ان لوگوں نے اگر مال بھی لوٹا ہو اور جان بھی لی ہو تو اس بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ امام المسلمین کو چار باتوں کا اختیار ہوگا۔ اگر وہ چاہے گا تو ان کے ہاتھ پائوں کاٹ کر ان کی گردن اڑا دے گا اور اگر چاہے گا تو ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دینے کے بعد انہیں سولی پر لٹکا دے گا، اگر چاہے گا تو صرف ان کی گردنیں اڑا دے گا اور اگر چاہے گا تو انہیں سولی پر چڑھا دے گا اور ہاتھ کاٹنے کی سزا ترک کر دے گا۔- امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے اگر ان لوگوں نے مال بھی چھینا ہو اور جان بھی لی ہو تو انہیں سولی پر چڑھایا جائے گا اور ان کی گردنیں اڑا دی جائیں گی، ان کے ہاتھ پائوں قطع نہیں کئے جائیں گے۔ امام ابو یوسف سے املائً یہ مروی ہے کہ امام المسلمین اگر چاہے گا تو اس کے ہاتھ پائوں کاٹ کر اسے سولی پر لٹکا دے گا۔ سولی پر چڑھنے کی سزا معاف کرنے کی میں اجازت نہیں دیتا۔- رہزنوں کے متعلق امام شافعی کا قول ہے کہ اگر ان لوگوں نے جان بھی لی ہو اور مال بھی چھینا ہو تو انہیں قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ اگر انہوں نے صرف جان لی ہو اور مال نہ چھینا ہو تو ایسی صورت میں انہیں قتل کردیا جائے گا سولی پر لٹکایا نہیں جائے گا۔- اگر انہوں نے مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو تو ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے صرف لوگوں کو ہراساں کیا ہو تو انہیں جلاوطن کردیا جائے گا۔ اگر وہ بھاگ کھڑے ہوں اور پھر پکڑے جائیں تو ان پر ان کے حسب حال سزائیں دی جائیں گی۔- البتہ اگر قابو میں آنے سے پہلے وہ تائب ہوجائیں تو ان سے حد ساقط ہوجائے گی لیکن انسانوں کے حقوق ساقط نہیں ہوں گے۔ یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ توبہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ساقط ہوجائیں اور چوتھائی دینار یا اس سے زائد رقم چھیننے کی وجہ سے ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا اسے مل جائے۔- امام مالک کا قول ہے کہ جب ایسا محارب پکڑا جائے جس نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہو تو امام کو اختیار ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جو سزائیں مقرر کی ہیں ان میں سے کوئی بھی سزا اسے دے دے خواہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زلی ہو اور خواہ اس نے کوئی مال چھینا ہو یا نہ چھینا ہو۔- امام المسلمین کو اس بارے میں اختیار ہوگا وہ اپنے صوابدید کے مطابق اگر چاہے گا تو اسے قتل کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دے گا اور اگر چاہے گا تو جلاوطنی کی سزا دے دے گا، جلاوطنی کی سزا اسے قید میں ڈالنے کی صورت میں۔۔۔۔۔۔۔۔ دی جائے گی۔ اسے قید میں رکھا جائے گا یہاں تک کہ توبہ کا اظہار کر دے۔- اگر محارب قابو میں نہ آئے اور خود تائب ہو کر چلا آئے تو اس سے محاربت کی سزائیں یعنی قتل سولی پر چڑھنا اور جلاوطنی تو معاف ہوجائیں گی لیکن لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں اس کی گرفت کی جائے گی۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ جو شخص کسی کی جان لیتا ہے اور مال بھی چھین لیتا ہے اسے سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور نیزوں کے زخم لگائے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ لیکن جو شخص صرف قتل کا ارتکاب کرے گا اسے تلوار سے قتل کردیا جائے گا۔- ابوالزناد کا قول ہے کہ محاربین کے بارے میں والی اور حاکم گردن اڑانے، سولی پر چڑھانے ہاتھ پائوں کاٹنے اور جلاوطن کرنے کی جو سزا بھی تجویز کرے گا وہ درست ہوگی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا حکم اسی ترتیب سے ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (لایحل دم امرئی مسلم الا باحدی ثلاث، کفر بعد ایمان وزنا بعد احصان وقتل نفس بغیر نفس۔ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں مگر صرف تین صورتوں میں سے ایک کے اندر، ایمان لانے کے بعد کافر ہوجانے کی صورت میں، صفت احصان حاصل کرنے کے بعد زنا کاری کی صورت میں اور ناحق کسی کو قتل کرنے کی صورت میں) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے قتل کی نفی فرما دی جو ان تینوں صورتوں سے خارج ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رہزنوں کی تخصیص نہیں کی اس لئے ایسے رہزنوں کے قتل کا انتفاء ہوگیا جنہوں نے کسی کی جان نہ لی ہو۔ جب ان کا قتل منتفی ہوگیا تو مال چھیننے کی صورت میں ان کے ہاتھ پائوں کاٹنا واجب ہوگیا۔ ان مسئلوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ابراہیم بن طہمان نے عبد العزیز بن رفیع سے روایت کی ہے، انہوں نے عبید بن عمیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (لا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث، زنا بعد احصان، ورجل قتل رجلا فقتل بہ ورجل خرج محاربا للہ و لرسولہ فیقتل ویصلب او ینفی من الارض۔ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں مگر تین صورتوں میں سے ایک صورت کے اندر۔ صفت احصان حاصل کرلینے کے بعد زنا کی صورت میں، کسی شخص کی ناحق جان لینے کی صورت میں اور اس صورت میں کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کا محارب بن کر خروج کرے، اسے یا تو قتل کردیا جائے گا یا سولی پر لٹکا دیا جائے گا یا اس سرزمین سے جلاوطن کردیا جائے گا)- اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کی روایت صحیح اسناد سے ہوئی ہے لیکن ان میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ اس حدیث کی حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے لیکن اس میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ دراصل صحیح روایت وہی ہے جس میں محارب کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے کہ مرتد لامحالہ قتل کا مستحق ہوتا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔- ان حضرات کی روایت کی رو سے مرتدان تینوں میں سے ایک ہے جن کا خون حلال کردیا گیا ہے اس لئے ان مذکورہ لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہیں۔ محارب نے اگر کسی کی جان نہ لی ہو تو وہ ان سے خارج ہوگا۔- ان محارب کا ان میں داخل ہونا درست ہوجائے تو اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا۔ محارب اگر کسی کی جان لے چکا ہو تو اسے مذکورہ سزائوں میں سے کوئی ایک سزا مل جائے گی۔ تاکہ اس مفہوم کی بنا پر یہ روایت دوسری روایتوں کے مطابق بن جائے اور پھر اس روایت کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسے شخص کو سولی پر لٹکانے کے ذریعے قتل کرنے کا جواز ہوجائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت میں جلاوطنی کا بھی ذکر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اس لفظ سے فقرے کی ابتدا ہوئی اور اس میں ” ان لم یقتل (اگر اس نے کسی کی جان نہ لی ہو) کے الفاظ پوشیدہ ہوں۔- اگر یہ کہا جائے کہ بعض دفعہ باغی کو قتل کردیا جاتا ہے اگرچہ اس نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو، حالانکہ وہ روایت میں مذکورہ تینوں قسم کے افراد سے خارج ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر روایت اس کے قتل کی نفی کرتا ہے۔ ہم ایسے شخص کے قتل کا حکم سب سے اتفاق کی دلالت کی بنا پر دیتے ہیں۔ اس کے بعد محارب کے قتل کی نفی کے سلسلے میں روایت کا حکم عموم کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے الایہ کہ محارب کسی کی جان بھی لے چکا ہو۔ اس صورت میں اسے قتل کردیا جائے گا۔- ایک اور پہلو سے دیکھا جائے یہ روایت ان لوگوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے جو اپنے سابقہ کسی فعل کی وجہ سے قتل کے مستحق ہوئے ہیں اور اس پر قتل کا حکم قرار پا چکا ہو۔- مثلاً صفت احسان حاصل کرنے والا زناکار، مرتد اور قاتل وغیرہ۔ لیکن باغی شخص اس بنا پر قتل کا مستحق قرار نہیں پاتا اسے تو صرف چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا جاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک باغی اپنے گھر بیٹھ رہے اور برسرپیکار نہ بنے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ بغاوت کرنے والوں جیسے خیالات اور عقائد کیوں نہ رکھتا ہو۔- ہمارے اس بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کا حکم اسی ترتیب سے ہے جو ہم نے بیان کی ہے، اس میں تبخیر نہیں ہے کہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر محاربین نے مال چھینا ہو لیکن کسی کی جان نہ لی ہو تو امام المسلمین کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ انہیں ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا نہ دے اور صرف جلاوطن کر دے۔- اسی طرح اگر انہوں نے مال بھی لوٹا ہو اور جانیں بھی لی ہوں تو اس صورت میں امام المسلمین کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ ان سے قتل یا سولی کی سزا معاف کر دے۔ اگر معاملہ اس طرح ہوتا جس طرح تخییہ کے قائلین کہتے ہیں تو یہ تخییہ اس صورت میں بھی ثابت ہوتی جس میں محاربین نے مال بھی چھینا ہو اور جان بھی لی ہو یا صرف مال چھینا ہو اور جان نہ لی ہو۔- لیکن جب ان صورتوں میں ہمارے بیان کردہ حکم پر سب کا اتفاق ہے تو سا سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں پوشیدہ الفاظ موجود ہیں جو یہ ہیں۔- ان یقتلوا ان قتلوا او یصلبو ان قتلوا واخذو المال، اوتقطع ایدیھم و ارجلھم من خلاف ان اخذوا المال ولم یقتلوا، وینفوا من الارض ان خرحوا ولم یفعلا شیئا من ذلک حتی ظفربھم۔- (انہیں قتلکر دیا جائے اگر انہوں نے قتل کیا ہو، یا انہیں سولی پر لٹکا دیا جائے اگر انہوں نے جان بھی لی ہو اور مال بھی چھینا ہو یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہو اور کسی کی جان نہ لی ہو، یا انہیں جلاوطن کردیا جائے اگر انہوں نے خروج تو کیا ہو لیکن ابھی قتل و غارت گری میں ملوث نہ ہوئے ہوں کہ حکومت کے ہتھے چڑھ گئے ہوں) ۔- تخییہ کے قائلین ظاہر آیت زیر بحث اور ظاہر قول باری (من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا) سے استدلال کرتے ہیں۔- یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ زمین میں فساد مچانا فسادی کے قتل کے وجوب کے لحاظ سے کسی شخص کی جان لینے کے برابر ہے۔ محارب لوگ اپنے خروج کی بنا پر نیز طاقت پکڑنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں خواہ انہوں نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو یا کسی کا مال نہ بھی چھینا ہو۔- لیکن ان حضرات کے اس استدلال میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تخییہ کی موجب بنتی ہو جبکہ یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ آیت میں پوشیدہ الفاظ موجود ہیں اور حکم کا تعلق ان پوشیدہ الفاظ کے ساتھ ہے۔ ظاہر آیت کے مقتضیٰ کے ساتھ نہیں ہے۔- جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اگر آیت تخییہ کی موجب ہوتی اور اس میں پوشیدہ الفاظ نہ ہوتے تو امام المسلمین کے لئے اس صورت میں بھی اختیار باقی رہتا جس میں محاربین جان لینے اور مال لوٹنے کے دونوں جرائم کے مرتکب پائے گئے ہوں۔- اس صورت میں امام کو اختیار ہوتا کہ انہیں قتل اور قطع کی سزا کی بجائے جلاوطنی کی سزا دے دیتا۔ - جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس صورت میں امام کے لئے قتل اور قطع کی سزا سے عدول کرنا جائز نہیں ہے تو پھر یہ کہنا درست ہے کہ آیت میں الفاظ پوشیدہ ہیں اور ترتیب کچھ اس طرح ہے :- ” انہیں قتل کردیا جائے اگر انہوں نے قتل کیا ہو یا انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے اگر انہوں نے مال لوٹا ہو اور قتل بھی کیا ہو یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں اگر انہوں نے صرف مال چھینا ہو “۔- اگر کوئی یہ کہے کہ محاربین کو قتل کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب اس نے کسی کو قتل کردیا ہو اسی طرح ہاتھ پائوں کاٹنے کا وجوب اس حالت میں ہوتا ہے جب اس نے مال چھینا ہو اور ان سزائوں کی بجائے جلاوطنی کی سزا جائز نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ناحق کسی کی جان لینا یہ خود ایسا جرم ہے جس کی سزا قتل ہے۔ خواہ قاتل محارب نہ بھی ہو۔- اسی طرح مال ہتھیانے کی سزا بھی قطع ید ہے اگر اس فعل کا مرتکب کوئی چور ہو۔ اس بنا پر اس صورت میں قتل اور قطع ید کی سزا سے عدول کر کے جلاوطنی کی سزا جائز نہیں ہوتی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں محارب کو قتل اور قطع کی جو سزا دی جاتی ہے وہ قصاص کے طور پر نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس صورت میں اگر مقتولین کے اولیا ان کے محاربین کو معاف بھی کردیں تو ان کی معافی جائز نہیں ہوتی۔- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مذکورہ بالا صورت میں یہ سزا حد کے طور پر دی گئی ہے اس لئے کہ اس نے محاربت کی بنا پر قتل کے اس فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ اسی طرح قطع کی سزا اس لئے واجب ہوئی کہ اس نے محاربت کی بنا پر مال چھینا تھا اگر وہ کسی کو قتل نہ کرتا اور مال نہ چھینتا تو اسے قتل کرنا نیز اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ اس کا قتل اگر حد کے طور پر واجب ہوتا تو اس سزا کو چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا ہرگز جائز نہ ہوتا۔- یہی کیفیت قطع کی بھی ہوتی۔ جس طرح اگر یہ محاربین جان بھی لیتے اور مال بھی لوٹتے تو اس صورت میں قتل اور قطع کی سزا کو چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا جائز نہ ہوتا اس لئے کہ اس کا وجوب حد کے طور پر ہوا تھا۔- اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ محارب صرف اسی صورت میں قتل کا مستحق ہوتا ہے جب اس نے کسی کی جان لی ہو اسی طرح اگر اس نے مال چھینا ہو تو وہ قطع کا مستحق ہوگا۔ اس بات میں اس مسئلے میں ایک نئی دلیل بننے کی صلاحیت موجود ہے اس لئے کہ جب قتل حد کے طور پر واجب ہوتا ہے تو اسے چھوڑ کر کسی اور سزا کو اختیار کرنا جائز نہیں رہتا۔- یہی بات قطع کی سزا کے اندر بھی ہے۔ جس طرح زانی اور چور کی سزائوں میں ہوتا ہے۔ جب امام المسلمین کے لئے اس صورت میں محارب کو قتل کرنے کی بجائے جلاوطنی کی سزا دینا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اس نے کسی کی جان نہ لی ہو تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ محارب نفس خروج کے ساتھ قتل کا مستحق نہیں ہوا تھا اسی طرح اگر وہ قتل کا ارتکاب کرلیتا تو قتل کی سزا سے اسے معافی نہ ملتی۔- اگر محارب نفس محاربت کی بنا پر قتل کا مستحق ہوجاتا تو اس سزا کو چھوڑ کر کسی اور سزا کو اختیار کرنا جائز نہ ہوتا۔ جس طرح جان لینے کی صورت میں قتل کی سزا کو چھوڑ کر اسے کوئی اور سزا دینا جائز نہیں ہوتا۔- قول باری ہے (من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض) اس آیت میں ناحق کسی کو قتل کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے کو یکساں درجہ دیا گیا ہے۔ اس فساد فی الارض سے وہ فساد اور گڑبڑ مراد ہے جس کے ساتھ جان لینا اور قتل کرنا بھی پایا جائے یا فساد کے اظہار کی حالت میں قتل کا وقوعہ پیش آگیا ہو۔- اس صورت میں فسادی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے قتل کردیتے ہیں حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی ہوتی۔ اب بحث صرف اس صورت کے اندر ہے کہ جب محارب توبہ کرنے سے پہلے امام المسلمین کے قابو میں آ جائے تو اگرچہ اس نے کسی کی جان نہ بھی لی ہو، اسے قتل کرنا جائز ہوگا۔- اگر چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر اسے قتل کردیا جائے تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہیالاعین ممکن ہے کہ قول باری (او فساد فی الارض) میں یہی صورت مراد ہو۔- اس لئے کہ فساد فی الارض کی بنا پر اگر قتل کا استحقاق ہوجاتا تو اسے چھوڑ کر جلاوطنی کی سزا دینا جائز نہ ہوتا۔ جب سب کے نزدیک جلاوطنی کی سزا درست ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ وہ قتل نہیں ہوا تھا۔- اس بیان کی رو سے ان لوگوں کا قول درست ہوگیا جو آیت میں بیان شدہ سزائوں کے اندر ترتیب کے ایجاب کے قائل ہیں جس طرح ہم پہلے پر روشنی ڈال آئے ہیں۔- ایک اور پہلو بھی ہے مال چھیننے یا مال چھیننے کا ارادہ کرلینے پر سزائے موت تک پہنچنے کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا جبکہ یہ بات واضح ہو کہ محاربین صرف مال لوٹنے کی غرض سے باہر آئے ہیں جب اصول کے اندر مال چھین لینے پر سزائے موت کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا تو مال لوٹنے کے ارادے کی صورت میں ایسے لوگوں کا بطور حد سزائے موت کا مستحق نہ ہونا اولیٰ ہوگا۔- البتہ اگر محاربین لوگوں کی جانیں لینے کے جرم کے مرتکب پائے جائیں گے تو انہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔ یہ سزا انہیں قتل کے ارتکاب کی وجہ سے حد کے طور پر دی جائے گی۔- ان کی یہ سزا قصاص کے طور پر نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اصول میں قتل کرنے کی وجہ سے قاتل سزائے موت کا مستحق ہوتا ہے تاہم محارب نے فساد فی الارض کے مقصد کے تحت اس قتل کا ارتکاب کیا تھا تو اس سزا کا حکم اس لحاظ سے اور موکد ہوگیا کہ اسے حد کے طور پر یہ سزا دے دی گئی۔- اور اس میں یہ لحاظ بھی رکھا گیا کہ حد کی صورت میں ہونے کی وجہ سے یہ سزا حق اللہ بن گئی اس لئے مقتول کے اولیاء کے معاف کردینے پر بھی یہ سزا معاف نہیں ہوگی۔ اگر ان محاربین نے صرف مال لوٹا ہو اور کسی کے خون سے اپنا ہاتھ نہ رنگا ہو تو اس صورت میں ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں گے اس لئے کہ آیت میں اس کا ذکر آیا ہے۔- اصول کے اندر مال چھیننے پر ہاتھ پائوں کاٹ دینے کی سزا کا استحقاق ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ چوری کرتا ہے تو اس کی ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے۔- البتہ مال چھیننے کا عمل جب فساد فی الارض کے مقصد کے تحت کیا جائے تو اسی سزا میں اور سختی کردی جاتی ہے اور فسادی یا محارب کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔- اگر ایک شخص قتل بھی کرتا ہے اور مال بھی لوٹ لیتا ہے تو اسے سزا دینے میں امام المسلمین کو اختیار ہوتا ہے۔- اس اختیار کے بارے میں ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف رائے کا ہم نے پہلے کردیا ہے جس کے مطابق امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے شخص کو یہ سزا دی جائے گی کہ اس کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹنے کے بعد سولی پر لٹکا کر اسے قتل کردیا جائے گا۔- اس طرح امام المسلمین کو اسے یہ تینوں سزائیں بیک وقت دینے کا اختیار ہوگا اور یہ ایک حد شمار ہوں گی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس صورت میں حد کے طور پر قتل کی سزا کا استحقاق ہوتا ہے۔ جس طرح قطع کی سزا حد کے طور پر واجب ہوتی ہے اس میں مقتول کے اولیاء کی طرف سے معاف کردینے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ دونوں سزائیں ایک ہی حد شمار ہوں گی۔ اس بنا پر امام المسلمین کو اختیار ہوگا کہ مجرموں پر ان دونوں سزائوں کا بیک وقت نفاذ کر دے یا یہ کہ انہیں قتل کر دے۔ قتل کردینے کی صورت میں ہاتھ پائوں کاٹنے کی سزا خود اس میں داخل ہوجائے گی۔ اس لئے کہ امام المسلمین اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان سزائوں میں سے فلاں سزا پہلے دی جائے اس لئے اسے اختیار ہے کہ قتل اور قطع میں سے جو سزا پہلے دینا چاہے دے سکتا ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ آپ اس طرح کیوں نہیں کرتے کہ ایسے مجرم کو ق تل کی سزا دے کر قطع کی سزا ساقط کردیتے جس طرح چور کی صورت میں آپ کرتے ہیں کہ اگر چور کے ہاتھوں کسی کا قتل بھی ہوگیا تو چور کو قتل کی سزا دے دی جائے گی اور اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قتل اور قطع کی دونوں سزائیں ایک ہی حد کی صورت میں ہوتی ہیں جس کا استحقاق ایک ہی سبب کی بنا پر ہوتا ہے وہ سبب یہ کہ محاربت کے مقصد کے تحت جان لی گئی اور مال لوٹا گیا۔- لیکن اعتراض کے اندر دی گئی مثال میں چوری اور قتل دوالگ الگ جرم تھے اس لئے دونوں کی سزائوں کا سبب ایک دوسرے سے مختلف تھا، دوسری طرف ہمیں حتی الامکان حد کو ٹالے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔- اسی بنا پر ہم نے قاتل چور پر پہلے قتل کی حد جاری کردی تاکہ دوسری حد یعنی حد سرقہ جاری کرنے کی نوبت نہ آئے لیکن زیر بحث مسئلے میں ایک حد کو ٹالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ یہ سزائیں ایک ہی حد کی صورت میں دی جا رہی ہیں اس لئے ہم پر یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے ایک حصے کو ساقط کردیں اور ایک حصے کا نفاذ کردیں۔- امام المسلمین کو یہ بھی اختیار ہے کہ ایسے مجرم کو سولی پر چڑھا کر قتل کر دے یا صرف قتل کردینے پر اکتفا کرلے اس لئے کہ قول باری ہے (ان یقتلوا اویصلبوا)- ابوجعفر طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ آیت میں مذکور سولی کا حکم امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق قتل کے بعد سولی دینے پر محمول ہے۔ ابو الحسن کرخی امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے تھے کہ اسے سولی پر چڑھا دیا جائے گا پھر اس کے پیٹ میں نیزہ وغیرہ مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔- ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ یہی طریقہ درست ہے ورنہ قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکانے کے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ سولی پر چڑھانا خود ایک سزا ہے اور یہ بات مردہ انسان کے حق میں محال ہوتی ہے۔- ان سے جب یہ سوال کیا گیا۔ قتل کرنے کے بعد دوسروں کی عبرت کے لئے لاش کو سولی پر لٹکانے میں کیا حرج ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ سولی پر لٹکانا تعذیب اور سزا کے لئے عمل میں آتا ہے۔ اس لئے اسے اسی طریقے پر عمل لانا جائز ہوسکتا ہے جو شریعت کے اندر مقرر کیا گیا ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قتل اور پھانسی کی سزا تخییہ کے طور پر مقرر فرما دیا ہے تو مجرم پر ان دونوں سزائوں کو یک جا کردینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب محارب کسی کی جان لے لے لیکن مال نہ لوٹے تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے قتل کی وہ سزا تجویز کی جو سولی کی شکل میں نہ ہو۔- لیکن اگر اس نے جان بھی لی ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے سولی کی شکل میں قتل کی سزا مقرر کی ہے اور اس طرح جان لینے اور مال لوٹنے کی صورت میں قتل کی سزا کے اندر شدت پیدا کردی گئی ہے۔- مغیرہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ محاربین کو پھانسی پر چڑھا کر ایک دن تک لٹکتا رہنے دیا جائے گا، جبکہ یحییٰ بن آدم کا قول ہے کہ تین دنوں تک لٹکتا رہے گا۔- جلاوطنی کی سزا کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ امام المسلمین جس جگہ مناسب سمجھے گا اسے قید میں ڈال دے گا۔ ابراہیم سے بھی اسی قسم کی روایت ہے، ابراہیم سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ جلاوطنی کی صورت یہ ہے کہ اس کا پیچھا کیا جائے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسے مجرم کو اس کے اپنے شہر سے جہاں اسے سزا ملی تھی دوسرے شہر میں جلاوطن کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا۔- مجاہد اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جلاوطنی کی صورت یہ ہوگی کہ امام المسلمین اس پر حد جاری کرنے کے درپے ہوجائے گا یہاں تک کہ وہ خود دارالاسلام سے نکل کر دوسرے ملک میں چلا جائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ اس کا پیچھا کر کے جس شہر میں بھی وہ جائے اسے وہاں سے نکال دیا جائے تو یہ درحقیقت اسے اس شہر سے نکالنے اور اس میں قیام سے روک دینے کے مترادف ہے جہاں وہ رہتا ہے۔- لیکن اس صورت میں اسے دوسرے شہر میں جا کر اپنی سرگرمیوں میں لگ جانے سے روکا نہیں گیا اس لئے یہ قول ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک بےمعنی بات ہے کہ اسے اس کے اپنے شہر سے لے جا کر کسی اور شہر میں قید کردیا جائے۔- اس لئے کہ حبس کے مفہوم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے حبس کی سزا اپنے شہر کے اندر قید کی صورت میں ملی ہے یا کسی اور شہر میں۔ اس لئے درست بات یہ ہے کہ اسے اپنے شہر کے اندر قید میں ڈال دیا جائے۔- نیز قول باری (او ینفوا من الارض) کا مفہوم یا تو یہ ہے کہ اسے پوری روئے زمین سے جلاوطن کردیا جائے، لیکن یہ صورت محال ہے اس لئے کہ پوری روئے زمین سے صرف اسے قتل کر کے ہی جلاوطن کیا جاسکتا ہے۔- جبکہ یہ واضح ہے کہ آیت میں جلاوطنی سے قتل مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جلاوطنی کے ساتھ قتل کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے اس سرزمین سے جلاوطن کردیا جائے جہاں سے اس نے محارب کی صورت میں خروج کیا تھا، اسے قید میں نہ ڈالا جائے صرف جلاوطن کردیا جائے۔- جبکہ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ آیت میں اس کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ اسے یہ سزا دے کر خوف و ہراس پھیلانے سے روک دیا جائے اور مسلمانوں کو اس کی اذیتوں سے بچا لیا جائے۔- لیکن اگر وہ اپنے شہر سے شہر بدر ہو کر دوسرے شہر میں آزادانہ نقل و حرکت کرے گا تو اس صورت میں مسلمانوں پر اس کی کج روی کا منحوس سایہ قائم رہے گا جب اس دوسرے شہر میں بھی اس کی سرگرمیاں حسب سابق جاری رہیں گی۔- یا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے دارالسلام سے جلاوطن کردیا جائے۔ لیکن یہ صورت بھی ممتنع ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو دارالحرب کی طرف جلاوطن کردینا جائز نہیں ہے، ایسا کر کے گویا اسے ارتداد کا موقعہ فراہم کردیا جائے گا اور انجامکار وہ حربی بن جائے گا۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جلاوطنی کے معنی یہ ہیں کہ اس جگہ کے سوا جہاں اسے قید کردیا جائے اور اس کے لئے وہاں فتنہ و فساد پھیلانا ناممکن بنادیا جائے پوری روئے زمین کو اس کے وجود سے پاک کردیا جائے۔- قول باری ہے (ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے) آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ محارب پر حد کا نفاذ اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ دنیا میں ان پر حد جاری ہونے کے بعد آخرت کی وعید باقی رہے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) بنی کنانہ کی قوم نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تھا تاکہ اسلام قبول کرلیں مگر ہلال بن عویمر کی قوم نے جو مشرک تھے ان کو قتل کرڈالا اور ان کا سازوسامان سب چھین لیا تو اب اللہ تعالیٰ ان کی سزا بیان فرماتے ہیں۔- کہ ان لوگوں کی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور زمین میں گناہ اور قتل اور لوٹ مار جیسے گھناونے جرائم کرتے ہیں یہ سزا ہے کہ جس حالت میں انہوں نے صرف قتل کیا ہو اور مال نہ لیا ہو تو ان کو قصاصا قتل کردیا جائے اور اگر مال بھی لیا ہو تو ان کو سولی پر چڑھا دیا جائے اور اگر صرف ظلما مال ہی لیا ہو اور کسی کو قتل نہ کیا ہو تو دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ دیا جائے، اور اگر راستہ میں صرف لوگوں کو ڈرایا ہو اور کسی کا مال نہ چھینا ہو اور نہ قتل کیا ہو اور پھر فورا ہی پکڑے گئے تو انکی سزا یہ ہے کہ ان کو جیل میں بند کردیا جائے یہاں تک کہ نیکی اور توبہ کے آثار کمال کے ساتھ ظاہر ہوجائیں اور جو شخص توبہ نہیں کرے گا اسے آخرت میں دنیا سے سخت عذاب دیا جائے گا، تاہم جو پکڑے جانے سے پہلے کفر وشرک سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف فرمانے والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” انما جزآء الذین یحاربون اللہ “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے یزید بن ابی حبیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عبدالملک بن مروان (رح) نے حضرت انس (رض) کے پاس اس آیت کریمہ (آیت) ” انما جزآء الذین یحاربون اللہ “۔ (الخ) کے بارے میں دریافت کرنے کے متعلق لکھا، انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ آیت اصحاب عرینہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ مرتد ہوگئے تھے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چرواہے کو قتل کردیا تھا اور آپ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے تھے پھر جریر سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور عبدالرزاق نے ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ ( اِنَّمَا جَََزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ) ‘ - یعنی اسلامی ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں۔ - (وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا) (اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا) - واضح رہے کہ یہاں فعل یُقْتَلُوْا استعمال نہیں ہوا بلکہ یُقَتَّلُوْاہے کہ ان کے ٹکڑے کیے ‘ جائیں۔ - (اَوْ یُصَلَّبُوْٓا ) (اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ ) - یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا ایک پاؤں کاٹا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :55 زمین سے مراد یہاں وہ ملک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو ۔ اور خدا و رسول سے لڑنے کا مطلب اس نظام صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے اور اسی کے لیے اس نے اپنا رسول بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظام قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اس چیز کو جو زمین پر ہے ، امن بخشے ، جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے ، جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں ۔ ایسا نظام جب کسی سر زمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا ، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کردینے کے لیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے” بادشاہ کے خلاف لڑائی“ ( ) کا مجرم قرار دیا گیا ، چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :56 یہ مختلف سزائیں بر سبیل اجمال بیان کر دی گئی ہیں تاکہ قاضی یا امام وقت اپنے اجتہاد سے ہر مجرم کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے ۔ اصل مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظام کو الٹنے کی کوشش کرنا بدترین جرم ہے اور اسے ان انتہائی سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جا سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: پیچھے جہاں اِنسانی جان کی حرمت کا ذکر تھا وہاں یہ اشارہ بھی دیا گیا تھا کہ جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں ان کی جان کو یہ حرمت حاصل نہیں ہے، اب ان کی مفصل سزا بیان کی جارہی ہے۔ مفسرین اور فقہا کا اس بات پر تقریبا اتفاق ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد وہ ڈاکو ہیں جو اسلحے کے زور پر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کالوگوں سے لڑنا گویا اللہ اور اس کے رسول سے لڑنا ہے۔ ان لوگوں کے لئے اس آیت میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ ان سزاوں کی تشریح امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ فرمائی ہے کہ اگر ان لوگوں نے کسی کو قتل کیا ہو، مگر مال لوٹنے کی نوبت نہ آئی ہو تو انہیں قتل کیا جائے گا، مگر یہ قتل کرنا حد شرعی کے طور پر ہوگا، قصاص کے طور پر نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر مقتول کے وارث معاف بھی کرنا چاہیں توان کی معافی نہیں ہوگی۔ اور اگر ڈاکووں نے کسی کو قتل بھی کیا ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو انہیں سولی پر لٹکا کر ہلاک کیا جائے گا، اور اگر مال لوٹا ہو اور کسی کو قتل نہ کیا ہو توان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاوں کاٹا جائے گا۔ اور اگر انہوں نے لوگوں کو صرف ڈرایا دھمکایا ہو، نہ مال لوٹنے کی نوبت آئی ہو، نہ کسی کو قتل کرنے کی، تو چوتھی سزا دی جائے گی، جس کی تشریح اگلے حاشیے میں آرہی ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن ِ کریم نے ان جرائم کی سزائیں اصولی طور پر بیان فرمائی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے احادیث میں تفصیل بیان فرمائی ہے کہ ان سخت سزاوں پر عمل درآمد کے لئے کیا شرائط ہیں۔ فقہ کی کتابوں میں یہ ساری تفصیل آئی ہے، یہ شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی مقدمے میں ان کا پورا ہونا آسان نہیں، کیونکہ مقصد ہی یہ ہے کہ یہ سزائیں کم سے کم جاری ہوں، مگر جب جاری ہوں تو دوسرے مجرموں کے لئے سامان عبرت بن جائیں۔ 27: یہ قرآنی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’زمین سے دور کرنے‘‘ کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا۔ یہ تشریح حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف بھی منسوب ہے۔ دوسرے فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔