34۔ 1 یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کردیں تو پھر انہیں معاف کردیا جائے، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہے کہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ انہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا ابرو ریزی کر کے بندوں پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ (امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رجحان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کردیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔
[٦٧] اسلام اور توبہ سے سابقہ گناہوں کی معافی :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کوئی شخص حالت کفر میں فساد فی الارض کرتا رہا پھر مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آگیا اور اپنی سب سابقہ عادات ترک کردیں تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ اسلام لانا ہی ایسا عمل ہے جو اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام لا کر بھی فساد کا مجرم رہا لیکن بعد میں اس نے توبہ کرلی اور امن پسند اور مطیع قانون بن کر زندگی گزارنے لگا۔ تو اب اس کے سابقہ گناہوں کا سراغ لگا کر اسے سزا نہیں دی جائے گی اس سے سرکاری جرائم تو معاف ہوجائیں گے لیکن بندوں کے جو حقوق اس نے غصب کیے ہیں ان کی تلافی بہرحال اس کے ذمہ رہے گی۔ خواہ ان کی ادائیگی کرے یا معاف کروا لے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا۔۔ : یعنی ایسے لوگوں کا قصور معاف کردیا جائے گا اور انھیں مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی، کیونکہ ان کا گرفتار ہونے سے پہلے از خود اپنے آپ کو حوالے کردینا یہ معنی رکھتا ہے کہ انھوں نے اپنے جرائم سے توبہ کرلی ہے، لیکن پھر اس بات میں اختلاف ہے کہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ انھوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا آبروریزی کر کے بندوں پر جو دست درازی کی ہے یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا ؟ بعض علماء کے نزدیک یہ معاف نہیں ہوں گے، ان کا قصاص لیا جائے گا۔ ابن کثیر اور شوکانی کا رجحان اس طرف ہے کہ مطلقاً انھیں معاف کردیا جائے گا، انھوں نے آیت کے ظاہر الفاظ کا تقاضا یہی بتایا ہے، البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے، وہ مستحق سزا ہوں گے۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
دوسری آیت اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ میں ایک استثناء ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ڈاکو اور باغی اگر حکومت کے گھیرے میں آنے اور ان پر قابو پانے سے پہلے پہلے جب کہ ان کی قوت و طاقت بحال ہے، اس حالت میں اگر توبہ کرکے رہزنی سے خود ہی باز آجائیں تو ڈاکہ کی یہ حد شرعی ان سے ساقط ہوجائے گی، یہ استثناء عام قانون حدود سے مختلف ہے، کیونکہ دوسرے جرائم چوری زنا وغیرہ میں جرم کرنے اور قاضی کی عدالت میں جرم ثابت ہوجانے کے بعد اگر مجرم سچے دل سے توبہ بھی کرے تو گو اس توبہ سے آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی، مگر دنیا میں حد شرعی معاف نہ ہوگی، جیسا کہ چند آیتوں کے بعد چوری کی سزا کے تحت میں اس کا تفصیلی بیان آئے گا۔- حکمت اس استثناء کی یہ ہے کہ ایک طرف ڈاکوؤں کی سزا میں یہ شدت اختیار کی گئی ہے کہ پوری جماعت میں کسی ایک سے بھی جرم کا صدور ہو تو سزا پوری جماعت کو دی جاتی ہے، اس لئے دوسری طرف سے استثناء کے ذریعہ معاملہ کو ہلکا کردیا گیا، کہ توبہ کرلیں تو سزائے دنیا بھی معاف ہوجائے، اس کے علاوہ اس میں ایک سیاسی مصلحت بھی ہے کہ ایک طاقتور جماعت پر ہر وقت قابو پانا آسان نہیں ہوتا، اس لئے ان کے واسطے ترغیب کا دروازہ کھلا رکھا گیا، کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہوجائیں۔ - نیز اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ قتل نفس ایک انتہائی سزا ہے، اس میں قانون اسلام کا رخ یہ ہے کہ اس کا وقوع کم سے کم ہو اور ڈاکہ کی صورت میں ایک جماعت کا قتل لازم آتا ہے اس لئے ترغیبی پہلو سے ان کو اصلاح کی دعوت بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی گئی، اسی کا یہ اثر تھا کہ علی اسدی جو مدینہ طیبہ کے قرب میں ایک جتھہ جمع کر کے آنے جانے والوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا، ایک روز قافلہ میں کسی قاری کی زبان سے یہ آیت اس کے کان میں پڑگئی، (آیت) یعبادی الذین اسرفوا۔ قاری کے پاس پہنچے، اور دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی دوسری مرتبہ آیت سنتے ہی اپنی تلوار میان میں داخل کی، اور رہزنی سے توبہ کرکے مدینہ طیبہ پہنچے، اس وقت مدینہ پر مروان بن حکم حاکم تھے، حضرت ابوہریرہ (رض) ان کا ہاتھ پکڑ کر امیر مدینہ کے پاس لے گئے، اور قرآن کی آیت مذکورہ پڑھ کر فرمایا کہ آپ اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتے۔ - حکومت بھی ان کے فساد و رہزنی سے عاجز ہو رہی تھی سب کو خوشی ہوئی۔- اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں حارثہ بن بدر بغاوت کرکے نکل گیا، اور قتل و غارت گری کو پیشہ بنالیا، مگر پھر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور توبہ کرکے واپس آیا، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پر حد شرعی جاری نہیں فرمائی۔ - یہاں یہ بات قابل یادداشت ہے کہ حد شرعی کے معاف ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حقوق العباد جن کو اس نے ضائع کیا ہے وہ بھی معاف ہوجائیں، بلکہ اگر کسی کا مال لیا ہے اور وہ موجود ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے، اور کسی کو قتل کیا ہے یا زخمی کیا ہے تو اس کا قصاص اس پر لازم ہے، البتہ چونکہ قصاص حق العبد ہے تو اولیاء مقتول یا صاحب حق کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا، اور جو کوئی مالی نقصان کسی کو پہنچایا ہے اس کا ضمان ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا لازم ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے، اور اگر غور کیا جائے تو یہ بات یوں بھی ظاہر ہے کہ حقوق العباد سے خلاصی حاصل کرنا خود توبہ کا ایک جز ہے، بدون اس کے توبہ ہی مکمل نہیں ہوتی، اس لئے کسی ڈاکو کو تائب اسی وقت مانا جائے گا جب وہ حقوق العباد کو ادا یا معاف کرالے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ ٠ۚ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٣٤ۧ- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
قول باری ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پائو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے) ۔- آیت کا یہ حصہ ان لوگوں کے لئے استثناء ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں اس جملے کے ذریعے انہیں ان لوگوں سے نکال دیا گیا ہے جن پر اللہ نے حد واجب کردی اس لئے کہ استثناء میں بعض افراد کو اس مجموعے سے خارج کردیا جاتا ہے جس میں یہ افراد شامل ہوتے ہیں۔- مثلاً یہ قول باری ہے (الا آل لوط انا لمنجوھم اجمعین الا امراتہ آل لوط کے سوا، ہم ان سب کو بچا لینے والے ہیں مگر اس کی بیوی) اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھرانے کو ہلاک کئے جانے والوں کے مجموعے سے خارج کردیا اور پھر استثناء کے ذریعے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو بچا لئے جانے والوں کے مجموعے سے خارج کردیا۔- یا جس طرح یہ قول باری ہے (فسجد الملائکۃ کلھم اجمعون الا ابلیس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا) اس آیت میں ابلیس کو سجدہ کرنے والوں کے مجموعے سے خارج قرار دیا گیا۔- اسی طرح آیت زیر بحث میں جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جنہوں نے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی ہو ان افراد کے مجموعے سے مستثنیٰ کردیا جن پر اس نے حد واجب کردی تھی تو گویا اس نے ان پر حد کے ایجاب کی نفی کردی۔- اس بات کو اپنے قول (فاعلموا ان اللہ غفور رحیم) کے ذریعہ اور زیادہ موکد بنادیا جس طرح یہ قول باری ہے (قل للذین کفروا ان ینتھو یغفر لھم ما قد سلف۔ آپ کافروں سے کہہ دیں کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان سے دنیا و آخرت دونوں کی سزائیں ساقط ہوجائیں گی۔- اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ چوری کے سلسلے میں ارشاد باری ہے (فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح فان اللہ غفور رحیم۔ جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے) لیکن اس کے باوجود چور کی توبہ حد کی سزا کو اس سے ساقط نہیں کرتی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے چور کو اس مجموعے سے خارج نہیں کیا ہے جس پر اس نے حد کی سزا واجب کردی تھی۔ بلکہ آیت کے ذریعے صرف یہ بتایا ہے کہ ان میں سے جو شخص توبہ کرلے گا تو اللہ اس کے لئے بڑا غفور و رحیم ہے۔- اس کے برعکس محاربین کی آیت میں استثناء کا ذکر ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلینے والوں کو ان محاربین کے مجموعے سے نکالنے کا موجب ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے حد کی سزا واجب کردی ہے۔- نیز قول باری (فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح) کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ یہاں سے ایک نئے کلام کا آغاز ہوا ہے جو اپنے طور پر کسی اور فقرے کی تضمین سے مستغنی ہے۔ ہر ایسا کلام جو اپنے طور پر خود مکتفی ہو ہم دلالت کے بغیر کسی اور فقرے کے ساتھ اس کی تضمین نہیں کرسکتے۔- جبکہ قول باری (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم) اپنے مفہوم کو بیان کرنے کے لئے ماقبل کے جملے کا محتاج ہے اسی بنا پر ماقبل کے جملے کے ساتھ اس کی تضمین کردی گئی جب آیت میں مذکورہ حد ساقط ہوگئی تو آدمیوں کے حقوق یعنی قتل، جسموں پر لگنے والے زخم اور اموال کے تاوان وغیرہ کا وجوب ثابت ہوگیا۔ - جب حد کا وجوب ہوجاتا ہے تو آدمیوں کے حقوق کا مال، جان اور زخموں کے سلسلے میں تاوان ساقط ہوجاتا ہے وہ اس لئے کہ جرم کی بنا پر واجب ہونے والی حد آدمیوں کے ان تمام حقوق کو ساقط کردیتی ہے جو اس جرم سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً چور جبچوری کرتا ہے اور سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے تو وہ چرائے ہوئے مال کا تاوان نہیں بھرتا۔- اسی طرح زانی پر جب حد زنا جاری کردی جاتی ہے تو اس پر مہر کی رقم لازم نہیں آتی۔ نیز قاتل پر جب قصاص واجب ہوجاتا ہے تو اس پر مال کا تاوان لازم نہیں آتا۔ یہی صورت محاربین کی ہے۔ جب ان پر حد جاری کردی جاتی ہے تو آدمیوں کے حقوق ساقط ہوجاتے ہیں۔- اس لئے محارب سے جب حد ساقط ہوجاتی ہے تو اس پر اس مال یا جان کا تاوان لازم ہوجاتا ہے جسے اس کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہو۔ جس طرح چور سے اگر حد ساقط کردی گئی ہو تو اس پر مال کا تاوان لازم ہوجاتا ہے یا زانی سے اگر حد کا سقوط ہوگیا ہو تو اس پر مہر کی رقم لازم ہوجاتی ہے۔- رہزنی اور قتل و غارتگری کی سزا - کس مقام پر رہزنی اور قتل و غارتگری کرنے کی صورت میں ایک شخص محارب قرار پاتا ہے اس بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جو شخص شہر کے اندر دن یا رات کے وقت ڈاکہ ڈالے یا رہزنی کرے یا مثلاً حیرہ سے لے کر کوفہ کے درمیان دن یا رات کے وقت وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو ایسی صورت میں وہ رہزن نہیں قرار پائے گا۔- ایک شخص اس وقت رہزن قرار پائے گا جب وہ صحرائی علاقوں میں یعنی شہری حدود سے باہر رہزنی کی وارداتوں میں ملوث پایا جائے۔ امام ابو یوسف سے املا کی صورت میں مسائل لکھنے والوں نے نقل کیا ہے کہ اس مسئلے میں شہری اور غیر شہری علاقے سب یکاسں ہیں، اور ان مقامات پر رہزنی اور قتل و غارت کے مرتکب افراد محارب قرار دیئے جائیں گے جس کے نتیجے میں ان پر حد قائم کی جائے گی۔- امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ ایسے چور جو شہری حدود میں واقع لوگوں کے گھروں پر رات کے وقت اچانک حملے کرتے ہیں انہیں رہزن قرار دیا جائے گا اور ان پر رہزنوں کے احکام جاری کئے جائیں گے۔- امام مالک سے منقول ہے کہ ایک شخص اس وقت محارب قرار دیا جائے گا جب وہ گائوں سے کم از کم تین میل کے فاصلے پر رہزنی کرے گا۔ امام مالک سے یہ بھی منقول ہے کہ محاربت کے معنی یہ ہیں کہ کسی جذبۂ انتقام کے بغیر صرف مال کی طلب میں قتال کیا جائے۔ اس قول میں امام مالک نے شہری حدود اور غیر شہری میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ رہزن اور ڈاکو وہ لوگ ہیں جو ہتھیار لے کر لوگوں کی ناکہ بندی کریں اور پھر ان سے ان کا مال چھین لیں۔ اس میں شہر اور صحرا کا حکم یکساں ہے۔- ثوری کا قول ہے کہ کوفہ شہر میں ڈاکہ ڈالنے والا شخص محارب نہیں کہلائے گا جب تک وہ اس شہر کے حدود سے باہر اس فعل کا ارتکاب نہ کرلے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لاقطع علی خائن ولامختلس، خیانت کرنے والے نیز اچکے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اچکے کے ہاتھ کاٹنے کی نفی کردی۔ مختلس وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کی کوئی چیز اچک لیتا ہے۔ اس میں قوت پکڑنے کی بات نہیں ہوتی۔ اس بنا پر محاربین کے اندر قوت پکڑنے کی بات کا اعتبار واجب ہوگیا۔- نیز یہ کہ جب وہ ایسے مقام پر ہوں جہاں ان کے لئے زور پکڑنا ممکن نہ ہو اور جن لوگوں کے خلاف یہ کارروائی کرنے کا ارادہ کریں مسلمانوں کی طرف سے انہیں مدد بھی پہنچ سکتی ہو تو ایسی صورت میں وہ محارب نہیں کہلا سکتے۔ ان کی حیثیت اچکے اورل لٹیرے جیسی ہوگی۔ مگر ایک تنہا شخص اگر شہر کے اندر یہ حرکت کرے تو وہ اچکا اور غاصب قرار پائے گا اس پر رہزنوں کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔- لیکن اگر کوئی گروہ صحرائی علاقے میں یعنی شہری حدود سے باہر زور پکڑ لے تو اس کے لئے گزرنے والے قافلوں وغیرہ کے اموال چھین لینا ممکن ہوتا ہے۔ جبکہ ان قافلے والوں کو بروقت مدد بھی نہیں پہنچائی جاسکتی۔ اس لئے ان کی حیثیت اچکے سے مختلف ہوگئی۔ نیز ان لوگوں سے بھی مختلف ہوگئی جن کے اندر زور پکڑنے کی بات نہیں پائی جاتی۔- اگر شہر اور غیر شہر کا حکم یکساں ہوتا تو پھر ایک تنہا شخص اور ایک پورے گروہ کے حکم کا یکساں ہونا بھی واجب ہوتا۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ شہری حدود کے اندر ایک تنہا شخص محارب نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کے اندر زور پکڑنے کی بات موجود نہیں ہوتی۔- اسی طرح شہری حدود کے اندر ایک پورے گروہ کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے اس لئے کہ ان کے اندر بھی شہریوں کے خلاف زور پکڑ جانے کی بات موجود نہیں ہوتی۔ لیکن اگر یہی گروہ صحرائی علاقے میں ہو تو اس کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس پر صرف اسی صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ اس کا پیچھا کر کے اس کے خلاف جنگی کارروائی کی جائے اس لئے ان کے حکم اور شہری حدود میں اس قسم کی کارروائی کرنے والوں کے حکم میں فرق پڑگیا۔- اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ کے ذکر کردہ سبب کا اعتبار ضروری ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ دس چوروں کا ایک گروہ اگر ہزار آدمیوں کا کوئی قافلہ روک لے تو یہ گروہ محارب نہ قرار پائے اس لئے کہ قافلے والے اس سے اپنا بچائو کرسکتے ہیں۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چوروں کا یہ گروہ قوت پکڑنے اور باہر آ جانے کی بنا پر محارب بن گیا خواہ وہ قافلہ لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اس کے بعد ان سے یہ حکم اس بنا پر ٹل نہیں سکتا کہ قافلے والے ان سے اپنا بچائو کرسکتے تھے۔ جس طرح شہر والوں کا ان سے اپنا بچائو کرلینا اس حکم کے ٹلنے کا سبب نہیں بن سکتا۔- امام ابو یوسف نے شہری حدود میں چوریاں کرنے والوں پر محاربین کا حکم جاری کیا ہے اس لئے کہ شہری چور طاقت ور ہوتے ہیں، نیز شہریوں کے خلاف ان کی کارروائیاں محاربت کی بنا پر ہوتی ہیں اور مقصد مال چھیننا ہوتا ہے۔- اس لئے شہری حدود کے اندر اور شہر سے باہر کارروائیاں کرنے کی بنا پر ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا جس طرح زنا، سرقہ، تہمت اور قتل کی حدود کو واجب کرنے پر اسباب کا حکم ہے کہ خواہ یہ شہر کے اندر پائے جائیں یا باہر ہر صورت میں ان کے مرتکبین پر حد جاری ہوجاتی ہے۔- فصل - محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کے لئے مقدار مال کیا ہو ؟- محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کے سلسلے میں ہمارے اصحاب نے چھینے ہوئے مال کی یہ مقدار بیان کی ہے کہ ان محاربین میں سے ہر ایک کے حصے میں کم از کم دس درہم آتے ہوں۔- امام شافعی نے حد سرقہ کی طرح یہاں بھی فی کس چوتھائی دینار کا اعتبار کیا ہے۔ جبکہ امام مالک نے کسی مقدار کا اعتبار نہیں کیا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک صرف خروج کی بنا پر مال لوٹنے سے پہلے ہی ایسے لوگ اس سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔- فصل - ااجتماعی جملے میں بعض نے قتل اور بعض نے لوٹ مار کی ہو تو کیا حکم ہوگا ؟- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر محاربین کے گروہ میں سے بعض افراد نے لوٹ مار اور قتل وغیرہ کا ارتکاب کیا ہو تو پورے ٹولے پر محاربین کا حکم جاری ہوگا اس لئے کہ محاربت اور طاقت و قوت حاصل کرنے کی کیفیت اس پورے ٹولے کی جتھا بندی کی بنا پر پیدا ہوئی تھی۔- جب وہ سبب یعنی طاقت و قوت پکڑ لینا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ محاربت کا حکم متعلق ہوگیا وہ ان کی جتھا بندی کی بنا پر پیدا ہوا تھا تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ اس پورے ٹولے پر لگائے جانے والے حکم میں کوئی فرق نہ پڑے خواہ ان میں سے بعض نے لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا ارتکاب کیا ہو اور باقی ماندہ افراد نے ان کا ساتھ دے کر ان کی پشت پناہی کی ہو۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی لشکر جب اہل حرب کافروں کا مال بطور غنیمت حاصل کرتا ہے تو اس لشکر میں شامل افراد کے درمیان اس کی تقسیم کے حکم میں اس لحاظ سے فرق نہیں پڑتا کہ ان میں سے کس نے قتال میں باقاعدہ حصہ لیا ہے اور کس نے لڑنے والے افراد کی معاونت اور پشت پناہی کی ہے۔- اسی لئے ان میں سے اگر کسی نے مدمقابل کافر کو لاٹھی مار کر یا تلوار کی ضرب لگا کر قتل کردیا ہو تو اس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ جو شخص سرے سے نبرد آزما ہی نہ ہوا ہوگا اس پر بھی قتال میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کا حکم جاری ہوگا۔
آیت ٣٤ ( اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ ج) - یعنی پکڑے جانے سے پہلے ایسے لوگ اگر توبہ کرلیں تو ان کے لیے رعایت کی گنجائش ہے ‘ لیکن جب پکڑ لیے گئے تو توبہ کا دروازہ بند ہوگیا۔ - (فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) - حضرت علی (رض) نے خوراج کے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا کہ اگر تم اپنے غلط عقیدے کو اپنے تک رکھو تو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ‘ لیکن اگر تم خونریزی کرو گے ‘ قتل و غارت کرو گے تو پھر تمہارے ساتھ رعایت نہیں کی ‘ جاسکتی۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :57 یعنی اگر وہ سعی فساد سے باز آگئے ہوں اور صالح نظام کو درہم برہم کرنے یا الٹنے کی کوشش چھوڑ چکے ہوں اور ان کا بعد کا طرز عمل ثابت کر رہا ہو کہ وہ امن پسند مطیع قانون اور نیک چلن انسان بن چکے ہیں اور اس کے بعد ان کے سابق جرائم کا پتہ چلے تو ان سزاؤں میں سے کوئی سزا ان کو نہ دی جائے گی جو اوپر بیان ہوئی ہیں البتہ دو آدمیوں کے حقوق پر اگر کوئی دست درازی انہوں نے کی تھی تو اس کی ذمہ داری ان پر سے ساقط نہ ہوگی مثلا اگر کسی انسان کو انہوں نے قتل کیا تھا یا کسی کا مال لیا تھا یا کوئی اور جرم انسانی جان ومال کے خلاف کیا تھا تو اسی جرم کے بارے میں فوجداری مقدمہ ان پر قائم کیا جائے گا ۔ لیکن بغاوت اور غداری اور خدا و رسول کے خلاف محاربہ کا کوئی مقدمہ نہ چلایا جائے گا ۔
28: مطلب یہ ہے کہ اگر وہ گرفتار ہونے سے پہلے ہی توبہ کرلیں اور اپنے آپ کو حکام کے حوالے کردیں توان کی مذکورہ سزائیں معاف ہوجائیں گی، البتہ چونکہ بندوں کے حقوق صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے اس لئے اگر انہوں نے مال لوٹا ہے تو وہ مالک کو لوٹانا ہوگا، اور اگر کسی کو قتل کیا ہے تو اس کے وارثوں کو حق ملے گا کہ وہ ان کو قصاص کے طور پر قتل کرنے کا مطالبہ کریں، ہاں اگر وہ بھی معاف کردیں یا قصاص کے بدلے خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں توان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔