تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد ، حضرت وائل ، حضرت حسن ، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے ۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ ۔ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:57 ) جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامتہ ) الخ ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ مسلم کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو ، وہی تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا ، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ مسند احمد میں ہے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لئے وسیلہ مانگو ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں ۔ طبرانی میں ہے تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لئے یہ دعا کرے گا ، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا ۔ اور حدیث میں ہے وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو ۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ کے ساتھ اور کون ہوں گے؟ تو آپ نے حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا ۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ حضرت علی نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد ، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالا خانے ہیں ، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کیلئے ہے ۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ اس کی راہ میں جہاد کرو ، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں ، انہیں قتل کرو ۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں ، جنت کے بلند بالا خانے اور اللہ کی بیشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے ۔ اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہک اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آ جائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کر دینے پر راضی ہے؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا ۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ( مسلم ) ایک مرتبہ حضرت جابر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی ۔ اس پر ان کے شاگرد حضرت یزید فقیر نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے؟ کہ آت ( يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:37 ) یعنی وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں تو آپ نے فرمایا اس سے پہلے کی آیت ( ان الذین کفروا ) الخ ، پڑھو جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے ( مسند وغیرہ ) دوسری روایت میں ہے کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لئے یہ سن کر انہوں نے حضرت جابر سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آ گیا تھا اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور سمجھے سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں ۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے؟ آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) 17 ۔ الاسراء:79 ) اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا ۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہو گیا ۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے سن کر فرمایا اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے ۔ حضرت جابر نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کر دیئے جائیں گے قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں ۔
35۔ 1 وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری)
[٦٨] وسیلہ کی تعریف اور اس کی تلاش :۔ جو بھی ذریعہ یا سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں اور وسیلہ کی دو ہی جائز صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی زندہ شخص کو اپنی دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ بنایا جائے اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔- سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر کے زمانہ میں جب قحط پڑتا تو سیدنا عباس کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : یا اللہ پہلے ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تو تو پانی برساتا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں، ہم پر بارش برسا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش ہوجاتی (بخاری کتاب الاستسقائ۔ باب سوال الناس الامام) - اور دوسری صورت اپنے ہی نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ہے۔ اور اس کی دلیل وہ طویل حدیث ہے جو بخاری میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کے تین شخص ایک دفعہ سفر میں جاتے ہوئے طوفان باد و باراں میں گھر گئے تو ایک غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے ایک بڑا پتھر پہاڑ کے اوپر سے لڑھکتا آیا جس نے غار کا منہ بند کردیا اور اب وہ تینوں اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت صرف اللہ سے دعا ہی کام آسکتی ہے لہذا ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے جو اس نے خالصتہ اللہ کی رضامندی کے لئے کیا ہو۔ چناچہ پہلے شخص نے اپنے عمل کا واسطہ دے کر دعا کی تو تیسرا حصہ پتھر غار کے منہ سے سرک گیا۔ پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر مزید تیسرا حصہ سرک گیا۔ پھر تیسرے نے اپنے عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو سارا پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔۔ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من اشتری شیا لغیرہ نیز کتاب الاجارات۔ باب من استاجرا جیرا۔ نیز کتاب ابو اب الحرث والمزارعۃ وما جاء فیہ باب اذا زرع بمال قوما بغیر اذنھم) مگر ہمارے ہاں وسیلہ پکڑنے کا بہت غلط مفہوم رائج ہوچکا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٧٠ اور سورة زمر کا حاشیہ نمبر ٩٤۔ )- نیز وسیلہ جنت میں عرش رحمان کے نزدیک ایک مقام کا نام بھی ہے۔ اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر مسلمان رسول اللہ کے لیے دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ آپ کو وسیلہ عطا فرما۔ نیز آپ نے فرمایا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالنداء )- [٦٩] اصل وسیلہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے :۔ یعنی اخروی کامیابی کے لیے بہترین وسیلہ تو جہاد ہے اور یہ بھی دوسری صورت ہی کی ایک قسم ہے جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم قتال فی سبیل اللہ ہے تاہم جہاد انسان کی ہر اس کوشش کو بھی کہہ سکتے ہیں جو اسلام کی اشاعت اور اسلامی نظام کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہو سکے یا اس راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے والی ہو خواہ یہ زبان سے ہو، تحریری ہو یا ہاتھ سے کی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- خ منکرات کے خلاف جہاد :۔ آپ نے فرمایا اللہ نے جس نبی کو بھی اس کی امت میں مبعوث فرمایا تو اس کے کچھ حواری اور اصحاب ہوتے جو اس کی سنت پر کاربند اور اس کے حکم پر چلتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آتے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اب جو کوئی ایسے لوگوں سے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو دل سے جہاد کرے (برا سمجھے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں۔ (مسلم کتاب الایمان)- جہاد کا ہدف سب سے پہلے اپنا نفس ہونا چاہیے پھر اقرباء پھر درجہ بدرجہ دوسرے لوگ۔ چناچہ آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برا کام ہوتے دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اس میں تبدیلی لائے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر زبان سے (تقریر سے یا تحریر سے) اس میں تبدیلی لائے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر کم از کم دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً )
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ۔۔ : یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے ( کیونکہ اللہ کے قرب کے حصول کے لیے اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے سوا کوئی وسیلہ نہیں) اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو ( وہ) قبول نہیں۔ (موضح) لفظ ” الوَسِیْلَۃٌ“ یہ ” تَوَسَّلْتُ إِلَیْہِ “ سے ” فَعِیْلَۃٌ“ کے وزن پر ہے۔ اس کی جمع ” وَسَاءِلُ “ آتی ہے، اس کا لفظی معنی قرب ہے، مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اس آیت میں اللہ کے تقوے کا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا حکم دینے کے بعد جہاد کا حکم دیا، معلوم ہوا کہ اللہ کا تقویٰ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اس کی راہ میں جہاد ( سرتوڑ کوشش خصوصاً قتال) ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی زندہ شخص سے دعا کروانا بھی جائز ہے، مگر کسی زندہ یا مردہ کا نام لے کر کہنا کہ یا اللہ فلاں کے وسیلے یا طفیل ہماری دعا قبول فرما، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے، ہاں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا واسطہ دے کر یا اپنا کوئی خالص عمل پیش کر کے دعا کرسکتا ہے، یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ وسیلہ ایک مقام کا نام بھی ہے، اس میں بھی قرب کا معنی ہی ملحوظ ہے۔ عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلے کی دعا کرو، وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی کو نصیب ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا، لہٰذا جس نے میرے لیے وسیلے کی دعا کی تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ “ [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن۔۔ : ٣٨٤ ] اللہ کا قرب (وسیلہ) اتنی بڑی نعمت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے اس سے مزید قرب کی دعا اور کوشش کرتا ہے۔ دیکھیے بنی اسرائیل (٥٧) ۔- لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ : یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور وہ اسی خوش فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو اللہ کا محبوب سمجھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں گزر چکا ہے۔ اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی بھی سب سے افضل ہے، مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو، یعنی یہود کی طرح بد عمل نہ بنو۔ (کبیر)
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو اللہ تعالیٰ (کے احکام کی مخالفت) سے ڈرو (یعنی معاصی چھوڑدو) اور (اطاعت کے ذریعہ) خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈو (یعنی اطاعات ضروریہ کے پابند رہو) اور تم (پورے) کامیاب ہوجاؤ گے (اور کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا حاصل ہونا اور دوزخ سے نجات ہے) یقینا جو لوگ کافر ہیں اگر (بالفرض) ان (میں سے ہر ایک) کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں (جس میں تمام دفائن و خزائن بھی آگئے) اور (انہی چیزوں پر کیا منحصر ہے بلکہ) ان چیزوں کے ساتھ اتنی ہی چیزیں اور بھی ہوں تاکہ وہ اس کو دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ جاویں تب بھی وہ چیزیں ہرگز ان سے قبول نہ کی جاویں گی (اور عذاب سے نہ بچیں گے بلکہ) ان کو دردناک عذاب ہوگا (پھر بعد عذاب میں داخل ہوجانے کے) اس بات کی خواہش (و تمنا) کریں گے کہ دوزخ سے (کسی طرح) نکل آویں اور (یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی اور) وہ اس سے کبھی نہ نکلیں گے اور ان کو عذاب دائمی ہوگا (یعنی کسی تدبیر سے نہ سزا ٹلے گی نہ دوام سزا ٹلے گا) ۔- اور جو مرد چوری کرے اور (اسی طرح) جو عورت چوری کرے سو (ان کا حکم یہ ہے کہ اے حکام) ان دونوں کے داہنے ہاتھ (گٹے پر) سے کاٹ ڈالو ان کے (اس) کردار کے عوض میں (اور یہ عوض) بطور سزا کے (ہے) اللہ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ بڑی قوت والے ہیں، (جو سزا چاہیں مقرر فرما دیں اور) بڑی حکمت والے ہیں (کہ مناسب ہی سزا مقرر فرماتے ہیں) پھر جو شخص (موافق قاعدہ شرعیہ کے) توبہ کرلے اپنی اس زیادتی (یعنی چوری) کرنے کے بعد اور (آئندہ کے لئے) اعمال کی درستگی رکھے (یعنی چوری وغیرہ نہ کرے، اپنی توبہ پر قائم رہے) تو بیشک اللہ تعالیٰ اس (کے حال) پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرماویں (کہ توبہ سے پچھلا گناہ معاف فرما دیں گے، اور استقامت علی التوبہ سے مزید عنایت فرمادیں گے) بیشک خدا تعالیٰ بڑی مغفرت والے ہیں (کہ اس کا گناہ معاف کردیا) بڑی رحمت والے ہیں (کہ آئندہ بھی مزید عنایت کی اے مخاطب) کیا تم نہیں جانتے (یعنی سب جانتے ہیں) کہ اللہ ہی کے لئے ثابت ہے حکومت سب آسمانوں کی اور زمین کی وہ جس کو چاہیں سزا دیں اور جس کو چاہیں معاف کردیں، اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے۔ - - معارف و مسائل - آیات متذکرہ سے پہلی آیات میں ڈاکو اور بغاوت کی شرعی سزا اور اس کے احکام کی تفصیل مذکور تھی، اور آگے تین آیتوں کے بعد چوری کی شرعی سزا کا بیان آنے والا ہے، اس کے درمیان تیں آیتوں میں تقویٰ ، اطاعت و عبادت، جہاد کی ترغیب اور کفر وعناد اور معصیت کی تباہ کاری کا بیان فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کے اس طرز خاص میں غور کرو تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کا عام اسلوب یہ ہے کہ وہ محض حاکمانہ طور پر تعزیر و سزا کا قانون بیان کرکے نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ مربّیانہ انداز میں ذہنوں کو جرائم سے باز رہنے کے لئے ہموار بھی کرتا ہے، خدا تعالیٰ اور آخرت کے خوف اور جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کو مستحضر کرکے ان کے قلوب کو جرم سے متنفر بناتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر قانون جرم و سزا کے پیچھے اتَّقُوا اللّٰهَ وغیرہ کا اعادہ کیا جاتا ہے، یہاں بھی پہلی آیت میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے : - اول اتَّقُوا اللّٰهَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ خوف خدا وہی چیز ہے جو انسان کو حقیقی طور پر خفیہ و اعلانیہ جرائم سے روک سکتی ہے۔- دوسرا ارشاد ہے وابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ یعنی اللہ کا قرب تلاش کرو، لفظ وسیلہ وسل مصدر سے مشتق ہے، جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں، یہ لفظ سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے، فرق اتنا ہے کہ وصل بالصاد مطلقاً ملنے اور جوڑنے کے معنی میں ہے اور وسل بالسین رغبت و محبت کے ساتھ ملنے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔- صحاح جوہری اور مفردات القرآن راغب اصفہانی میں اس کی تصریح ہے، اس لئے صاد کے ساتھ وصلہ اور وصیلہ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان میل اور جوڑ پیدا کردے۔ خواہ وہ میل اور جوڑ رغبت و محبت سے ہو یا کسی دوسری صورت سے، اور سین کے ساتھ لفظ وسیلہ کے معنی اس چیز کے ہیں جو کسی کو کسی دوسرے سے محبت ورغبت کے ساتھ ملا دے۔ (لسان العرب، مفردات، راغب)- اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہر وہ چیز ہے جو بندہ کو رغبت و محبت کے ساتھ اپنے معبود کے قریب کر دے، اس لئے سلف صالحین وتابعین نے اس آیت میں وسیلہ کی تفسیر اطاعت و قربت اور ایمان و عمل صالح سے کی ہے، بروایت حاکم حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ وسیلہ سے مراد قربت و اطاعت ہے اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے حضرت عطا رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ اور حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔- اور ابن جریر رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر یہ نقل کی ہے : تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرو، اس کی فرمانبرداری اور رضامندی کے کام کرکے، اس لئے آیت کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرو، بذریعہ ایمان اور عمل صالح کے۔- اور مسند احمد رحمة اللہ علیہ کی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وسیلہ ایک اعلیٰ درجہ ہے جنت کا جس کے اوپر کوئی درجہ نہیں ہے، تم اللہ تعالیٰ سے دعاء کرو کہ وہ درجہ مجھے عطا فرما دے۔- اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مؤ ذن اذان کہے تو تم بھی وہی کلمات کہتے رہو جو مؤ ذن کہتا ہے، اس کے بعد مجھ پر درود پڑھو اور میرے لئے وسیلہ کی دعا کرو۔ - ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وسیلہ ایک خاص درجہ ہے جنت کا، جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے، اور آیت مذکورہ میں ہر مومن کو وسیلہ طلب کرنے اور ڈھونڈنے کا حکم بظاہر اس خصوصیت کے منافی ہے، مگر جواب واضح ہے کہ جس طرح ہدایت کا اعلیٰ مقام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اس کے لئے دعا کیا کرتے تھے، مگر اس کے ابتدائی اور متوسط درجات تمام مؤمنین کے لئے عام ہیں، اسی طرح وسیلہ کا اعلیٰ درجہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے، اور اس کے نیچے کے درجات سب مؤمنین کے لئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے واسطہ اور ذریعہ سے عام ہیں۔ - حضرت مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات میں اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ لفظ وسیلہ میں محبت ورغبت کا مفہوم شامل ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ وسیلہ کے درجات میں ترقی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پر موقوف ہے، اور محبت پیدا ہوتی ہے اتباع سنت سے، کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) فاتبعونی یحببکم اللّٰہ، اس لئے جتنا کوئی اپنی عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا اتباع کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی محبت اس کو حاصل ہوگی، اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہوجائے گا، اور جتنی زیادہ محبت بڑھے گی اتنا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ - لفظ وسیلہ کی لغوی تشریح اور صحابہ وتابعین کی تفسیر سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا ذریعہ بنے وہ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب ہونے کا وسیلہ ہے، اس میں جس طرح ایمان اور عمل صالح داخل ہیں اسی طرح انبیاء و صالحین کی صحبت و محبت بھی داخل ہے کہ وہ بھی رضائے الہٰی کے اسباب میں سے ہے، اور اسی لئے ان کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا درست ہوا، جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے قحط کے زمانہ میں حضرت عباس (رض) کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔- اور ایک روایت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ایک نابینا صحابی کو اس طرح دعا مانگنے کی تلقین فرمائی اللہم انی اسئالک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة (منار) ۔- آیت مذکورہ میں اول تقویٰ کی ہدایت فرمائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ سے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کی، آخر میں ارشاد فرمایا : وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ ، یعنی جہاد کرو اللہ کی راہ میں، اگرچہ اعمال صالحہ میں جہاد بھی داخل تھا، لیکن اعمال صالحہ میں جہاد کا اعلیٰ مقام بتلانے کے لئے اس کو علیحدہ کرکے بیان فرما دیا گیا۔ جیسا کہ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : وذروة سنامہ الجھاد، یعنی اسلام کا اعلیٰ مقام جہاد ہے دوسرے اس جگہ جہاد کو اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے کی یہ حکمت بھی ہے کہ پچھلی آیتوں میں فساد فی الارض کا حرم و ناجائز ہونا اور اس کی دینوی اخروی سزاؤں کا بیان آیا تھا، جہاد بھی ظاہر کے اعتبار سے فساد فی الارض کی صورت معلوم ہوتی ہے، اس لئے ممکن تھا کہ کوئی ناواقف جہاد اور فساد میں فرق نہ سمجھے، اس لئے فساد فی الارض کی ممانعت کے بعد جہاد کا حکم اہمیت کے ساتھ ذکر کرکے دونوں کے فرق کی طرف لفظ فی سبیلہ سے اشارہ فرما دیا۔ کیونکہ ڈاکہ، بغاوت وغیرہ میں جو قتل قتال اور مال لوٹا جاتا ہے وہ محض اپنی ذاتی اغراض و خواہشات اور ذلیل مقاصد کے لئے ہوتا ہے، اور جہاد میں اگر اس کی نوبت آئے بھی تو محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور ظلم و جور کو مٹانے کے لئے ہے جن میں زمین آسمان کا فرق ہے، دوسری اور تیسری آیت میں کفر و شرک اور معصیت کا وبال عظیم ایسے انداز میں بتلایا گیا ہے کہ اس پر ذرا بھی غور کیا جائے تو وہ انسان کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر دے، اور کفر و شرک اور معصیت سب کو چھوڑنے پر مجبور کر دے۔ - وہ یہ ہے کہ عام طور پر انسان جن گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات ضروریات یا اہل و عیال کی خواہشات کے لئے ہوتا ہے، اور ان سب کا حصول مال و دولت جمع کرنے سے ہوتا ہے، اس لئے مال و دولت جمع کرنے میں حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر لگ جاتا ہے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے ان کی اس بدمستی کے علاج کے لئے فرمایا کہ آج چند روزہ زندگی اور اس کی راحت کے لئے جن چیزوں کو تم ہزاروں محنتوں کوششوں کے ذریعہ جمع کرتے ہو اور پھر بھی سب جمع نہیں ہوتیں، اس ناجائز ہوس کا انجام یہ ہے کہ قیامت کا عذاب جب سامنے آئے گا تو اس وقت اگر یہ لوگ چاہیں کہ دنیا میں حاصل کئے مال و دولت اور ساز و سامان سب کو فدیہ دے کر اپنے آپ کو عذاب سے بچالیں تو یہ ناممکن ہے۔ بلکہ فرض کرلو کہ ساری دنیا کا مال و دولت اور پورا سامان اسی ایک شخص کو مل جائے، اور پھر اسی پر بس نہیں، اتنا ہی اور بھی مل جائے اور یہ سب کو اپنے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ بنانا چاہیے تو کوئی چیز قبول نہ ہوگی۔ اور اس کو عذاب آخرت سے نجات نہ ہوگی۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْہِ الْوَسِيْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِيْ سَبِيْلِہٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ٣٥- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- وسل - الوَسِيلَةُ : التّوصّل إلى الشیء برغبة وهي أخصّ من الوصیلة، لتضمّنها لمعنی الرّغبة . قال تعالی: وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة 35] وحقیقةُ الوَسِيلَةِ إلى اللہ تعالی: مراعاة سبیله بالعلم والعبادة، وتحرّي مکارم الشّريعة، وهي کالقربة، والوَاسِلُ : الرّاغب إلى اللہ تعالی، ويقال إنّ التَّوَسُّلَ في غير هذا : السّرقة، يقال : أخذ فلان إبل فلان تَوَسُّلًا . أي : سرقة .- ( و س ل )- الوسیلۃ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں چناچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے یہ وصیلۃ سے اخص ہے ۔ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ [ المائدة 35] اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو ۔ در حقیقت توسل الی اللہ علم و عبادت اور مکارم شریعت کی بجا آوری سے طریق الہی ٰ کی محافظت کرنے کا نام ہے اور یہی منعی تقرب الی اللہ کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ اخذا فلان ابل فلان توسلا اس نے فلا کے اونٹ چوری - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
(٣٥) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو اوامر خداوندی میں اس سے ڈرو اور اعلی درجات کو طلب کرو یا یہ کہ اعمال صالحہ کے ذریعے قرب خداوندی طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے نجات حاصل پاؤ اور مطمئن ہو۔
آیت ٣٥ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ) - یہاں لفظ وسیلہ قابل غور ہے اور اس لفظ نے کافی لوگوں کو پریشان بھی کیا ہے۔ لفظ وسیلہ اردو میں تو ذریعہ کے معنی میں آتا ہے ‘ یعنی کسی تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بنا لینا ‘ سفارش کے لیے کسی کو وسیلہ بنا لینا۔ لیکن عربی زبان میں وسیلہ کے معنی ہیں قرب۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا عربی میں مفہوم کچھ اور ہے جبکہ اردو میں کچھ اور ہے۔ جیسے لفظ ذلیل ہے ‘ عربی میں اس کے معنی کمزور جبکہ اردو میں کمینے کے ہیں۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں : (وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج) (آل عمران : ١٢٣) یعنی اے مسلمانو یاد کرو اللہ نے تمہاری مدد کی تھی بدر میں جب کہ تم بہت کمزور تھے۔ اب اگر یہاں ذلیل کا ترجمہ اردو والا کردیا جائے تو ہمارے ایمان کے لالے پڑجائیں گے۔ اسی طرح عربی میں جہل کے معنی جذباتی ہونا ہے ‘ اَن پڑھ ہونا نہیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل یعنی جذباتی ‘ اکھڑ مزاج ہوسکتا ہے لیکن اردو میں جاہل عالم کا متضاد ہے ‘ یعنی جو اَن پڑھ ہو۔ اسی طرح کا معاملہ لفظ وسیلہ کا ہے۔ اس کا اصل مفہوم قرب ہے اور یہاں بھی یہی مراد لیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوا ہے :- اے ایمان والو ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (آگے بڑھ کر) اس کا قرب تلاش کرو - تقویٰ کے معنی ہیں اللہ کے غضب سے ‘ اللہ کی ناراضگی سے اور اللہ کے احکام توڑنے سے بچنا۔ یہ ایک منفی محرک ہے ‘ جبکہ قرب الٰہی کی طلب ایک مثبت محرک ہے کہ اللہ کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے قرب کا ذریعہ کیا ہوگا ؟- (وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ۔- اس سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ تقرّب الی اللہ کے لیے جہاد کرو۔ تقویٰ شرط لازم ہے۔ یعنی پہلے جو حرام چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ ‘ جن چیزوں سے روک دیا گیا ہے ان سے رک جاؤ اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ۔ اور پھر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں جدوجہد کرو۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :58 یعنی ہر اس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہوں جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کر سکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :59 اصل میں لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم محض ”جدوجہد“ سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا ۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں ، جو تم کو خدا کی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبور کرتی ہیں ، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدوجہد کرو ۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے ۔ اس طرح یہ آیت بندہ مومن کو ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے ۔ ایک طرف ابلیس لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے ۔ دوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں ۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے ۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگی حق کے بجائے بندگی باطل پر انسان کو مجبور کرتے ہیں ۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں ۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقرب خداوندی کے مقام تک اس کے عروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے ۔ لہٰذا اپنے مقصود تک اس کا پہنچنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو ، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے ۔
29: وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ 30: جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔