[٧٩] یعنی ایک طرف تو آپ کو جھوٹا نبی سمجھتے ہیں اور پھر فیصلہ بھی آپ کے پاس لاتے ہیں۔ اور دوسری طرف تورات ہے جسے اللہ کی سچی کتاب سمجھتے تو ہیں لیکن حکم اس کا بھی نہیں مانتے اس سے بڑھ کر ان کے بےایمان ہونے کی کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟
وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ : یہاں ان کی جہالت و عناد کا بیان ہے، یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو مقدمہ وہ آپ کے پاس لا رہے ہیں، اس کا فیصلہ تورات میں موجود ہے، تاہم آپ کے پاس اس لیے مقدمہ لاتے ہیں کہ شاید آپ کا فیصلہ تورات کی بہ نسبت کچھ ہلکا ہو، لیکن جب آپ کا فیصلہ بھی وہی ہوتا ہے جو تورات کا ہوتا ہے تو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آپ پر۔ اصل میں یہ اپنی اغراض کے بندے ہیں اور ان کا مقصد حیات ہی دنیوی مصالح کا حاصل کرنا ہے۔ (کبیر) - وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّہ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تورات میں موجود رجم کے فیصلے کو اللہ کا فیصلہ قرار دیا ہے، جو لوگ رجم کے منکر ہیں اگرچہ بہت سی صحیح احادیث بھی ان کا رد کرتی ہیں، مگر یہ آیت پختہ ترین مضبوط دلیل ہے کہ قرآن نے تورات میں موجود رجم کے حکم کو اللہ کا حکم قرار دیا ہے، پھر نہ اس کی تردید کی ہے نہ منسوخ کہا ہے، بلکہ اللہ کے اس حکم کو یہود اور مسلمان دونوں پر نافذ فرمایا۔ معلوم ہوا قرآن میں بھی رجم کا ذکر موجود ہے۔
وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰىۃُ فِيْہَا حُكْمُ اللہِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ٠ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ ٤٣ۧ- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- حَكَمُ- : المتخصص بذلک، فهو أبلغ . قال اللہ تعالی: أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114] ، وقال عزّ وجلّ : فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] ، وإنما قال : حَكَماً ولم يقل : حاکما، تنبيها أنّ من شرط الحکمين أن يتولیا الحکم عليهم ولهم حسب ما يستصوبانه من غير مراجعة إليهم في تفصیل ذلك، ويقال الحکم للواحد والجمع، وتحاکمنا إلى الحاکم . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، وحَكَّمْتُ فلان - اور حکم ( منصف ) ماہر حاکم کو کہاجاتا ہے اس لئے اس میں لفظ حاکم سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَماً [ الأنعام 114]( کبو ) کیا میں خدا کے سوا اور منعف تلاش کردں ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِها [ النساء 35] تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کردو ۔ میں حاکما کی بجائے حکما کہنے سے اس امر پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ دو منصف مقرر کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں تفصیلات کی طرف مراجعت کئے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں خواہ وہ فیصلہ فریقین کی مرضی کے موافق یا ہو مخالف اور حنم کا لفظ واحد جمع دونوں پر بولاجاتا ہے ۔ ہم حاکم کے پاس فیصلہ لے گئے قرآن میں ہے ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ کے پاس لے جاکر فیصلہ کر آئیں ۔ حکمت فلان ۔ کسی کو منصف ان لینا ۔ قرآن میں سے : حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنایئں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے حکم بالباطل تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے باطل کو بطور حکم کے جاری کیا - توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔
(٤٣) اور حیرت ہے کہ یہ آپ سے کیوں فیصلہ کراتے ہیں، جب کہ توریت میں رجم کا حکم موجود ہے، اور پھر توریت اور قرآن کریم کے حکم سے پھرجاتے ہیں۔
آیت ٤٣ (وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ ) (وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰٹۃُ ) (فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ ) - یہاں اللہ تعالیٰ نے یہود کی بدنیتی کو بالکل بےنقاب کردیا ہے کہ اگر ان کی نیت درست ہو تو تورات سے راہنمائی حاصل کرلیں۔- (ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط) (وَمَآ اُولٰٓءِکَ بالْمُؤْمِنِیْنَ )- اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان سے تہی دست ہیں ‘ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں۔ یہ ہے ان کا اصل ‘ روگ۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :71 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بددیانتی کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے ۔ یہ”مذہبی لوگ“ جنہوں نے تمام عرب پر اپنی دینداری اور اپنے علم کتاب کا سکہ جما رکھا تھا ، ان کی حالت یہ تھی کہ جس کتاب کو خود کتاب اللہ مانتے تھے اور جس پر ایمان رکھنے کے مدعی تھے اس کے حکم کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لائے تھے جن کے پیغمبر ہونے سے ان کو بشدت انکار تھا ۔ اس سے یہ راز بالکل فاش ہوگیا کہ یہ کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے ، دراصل ان کا ایمان اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر ہے ، جسے کتاب اللہ مانتے ہیں اس سے صرف اس لیے منہ موڑتے ہیں کہ اس کا حکم ان کے نفس کو ناگوار ہے ، اور جسے معاذاللہ جھوٹا مدعی نبوت کہتے ہیں اس کے پاس صرف اس امید پر جاتے ہیں کہ شاید وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ حاصل ہو جائے جو ان کے منشاء کے مطابق ہو ۔
38: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تورات کے احکام سے منہ موڑلیتے ہیں، اور یہ بھی کہ حضور اقدسﷺ سے فیصلے کی درخواست کرنے کے باجود جب آپ فیصلہ سناتے ہیں تو اس سے منہ موڑلیتے ہیں۔