Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 (لِلَّذیْنَ ھَادوْ ا) اس کا تعلق یَحُکْمُ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ 44۔ 2 اَ سْلَمُوْا یہ نبِیِّنّّ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 021:025 ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو "۔ اسی کو قرآن میں الدین بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورة شوریٰ کی آیت (شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا) 042:013 میں کہا گیا ہے جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیا کے لیے کیا تھا۔ 44۔ 3 چناچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔ 44۔ 4 کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ 44۔ 5 یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد وبدل کرو۔ 44۔ 6 پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] یہودی مذہب الہامی نہیں :۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہودی مذہب کوئی الہامی مذہب نہیں۔ نہ ہی کتاب اللہ میں انہیں یہودی بننے کو کہا گیا تھا بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عقائد و اعمال میں بہت کچھ شامل کرلیا تھا اور اپنے آپ کو یہودی کہلانے لگے تھے اور اللہ نے جو کتاب تورات نازل کی تھی وہ ایک ایسا دستور العمل تھا جس کے مطابق تمام مسلمان (فرمانبردار) انبیاء خود بھی عمل پیرا تھے اور ان یہودیوں کے تنازعات کے فیصلے بھی اسی کتاب اللہ کے مطابق کیا کرتے تھے اور ان کے متقی علماء و مشائخ کا بھی یہی حال تھا کہ وہ اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی حفاظت کا کام انہیں لوگوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ یہ حفاظت دونوں صورتوں میں تھی ایک علمی دوسرے عملی۔ علمی حفاظت یہ تھی کہ نہ تو تورات کے الفاظ میں رد و بدل یا ترمیم و تنسیخ کی جائے اور نہ ہی ان آیات کو غلط مفہوم پہنایا جائے۔ اور عملی یہ تھی کہ اس پر ٹھیک طرح سے عمل کیا جائے اور فیصلے اسی کے مطابق کیے جائیں مگر بعد میں جب ناخلف علماء و مشائخ پیدا ہوئے تو انہوں نے تحریف معنوی بھی کی اور لفظی بھی۔ بعض آیات کو چھپایا اور بعض اضافے کتاب اللہ میں شامل کردیئے اور اس طرح کتاب اللہ کو بیچ کر کھانے لگے۔ یعنی عملی لحاظ سے بھی کتاب اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔- [٨١] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ میں خطاب یہود کو ہے لیکن نفس مضمون کے لحاظ سے اس کا خطاب عام ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ مسلمان بھی شامل ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کافروں کا کام ہوتا ہے مسلمانوں کا نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ ۔۔ : اس میں یہود کو تنبیہ ہے جو حد رجم (سنگ ساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اپنے اسلاف، انبیاء، احبار اور علمائے ربانیین کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے اور ان کے درمیان اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ خود عیسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی، بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ ” الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا “ یہ صفت مدح ہے اور ان انبیاء کے فرماں بردار ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے، یا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے۔ (قرطبی، کبیر) - بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ : ” بِمَا “ کی باء کا تعلق ” وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ “ سے ہے، مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا تو یہ درویش اور تعلیم یافتہ لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، کیونکہ انبیاء نے انھی کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ مقرر کیا تھا اور ” شھداء “ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تورات کے اللہ کی طرف سے ہونے پر گواہ تھے۔ بعض علماء نے ” بِمَا اسْتُحْفِظُوْا “ کی ” باء “ کا تعلق ” یحکم “ سے بیان کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ (قرطبی، کبیر) - 3 ۔ تورات کی حفاظت کے ذمے دار اور اس کے محافظ تو علماء اور رب والے لوگ بنائے گئے تھے مگر قرآن مجید اور شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا، فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ اگرچہ قرآن کی حفاظت کا کام بھی اللہ تعالیٰ نے علماء اور ربانیین ہی سے لیا مگر اس کا ذمہ خود اٹھانے کی وجہ سے تورات اور قرآن کے محفوظ رہنے میں جو فرق ہے وہ سب کے سامنے ہے۔- فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ : یعنی تم بھی اپنے انبیاء اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلو اور تورات میں کوئی تحریف نہ کرو، نہ اسے چھپا کر نہ غلط مسئلہ بتا کر دنیا کا فائدہ اٹھاؤ، کیونکہ دنیا جتنی بھی ہو قلیل ہے اور حق بات کہنے میں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کی پروا مت کرو، نہ ان سے ڈرو، بلکہ صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو۔ حسن بصری (رض) فرماتے ہیں : ” حکام پر اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں : 1 خواہش کی پیروی نہ کریں : (وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) [ صٓ : ٢٦ ] اور فرمایا : ( يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا) [ المائدۃ : ٤٤ ] 2 صحیح فیصلہ کرنے میں لوگوں سے نہ ڈریں : ( فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) [ المائدۃ : ٤٤ ] اور رشوت لے کر غلط فیصلہ نہ کریں : ( وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ) [ المائدۃ : ٤٤ ] (بخاری، الأحکام، باب متی یستوجب الرجل القضاء، قبل ح : ٧١٦٣ ] یہ تینوں باتیں اس آیت میں مذکور ہیں۔ - وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : یہ خطاب یہود سے ہے، یعنی جب وہ جان بوجھ کر تورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعویٰ کرنے کے یہ کافر ہیں۔ مسلم حاکم پر کفر کا فتویٰ اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کر کے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے، ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط : یہ سورة مائدہ کا ساتواں رکوع ہے اس میں حق تعالیٰ نے یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کو یکجائی طور پر ایک اہم اور خاص حکم شرع پر متنبہ فرمایا ہے، جس کا ذکر سورة مائدہ میں متفرق طور پر اوپر سے چلا آیا ہے، اور وہ معاملہ ہے اللہ جل شانہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کا اور اس کے بھیجے ہوئے احکام میں تغیر وتبدل اور تحریف و تاویل کا جو یہود و نصاریٰ کی دائمہ خصلت و عادت بن گیا تھا۔- اس رکوع میں حق تعالیٰ نے اول اہل تورات یہود کو مخاطب فرما کر ان کو اس کج روی اور اس کے انجام بد پر ابتدائی دو آیتوں میں متنبہ فرمایا، اور اس کے ضمن میں قصاص کے متعلق بعض احکام بھی اس مناسبت سے ذکر فرما دیئے کہ پچھلی آیتوں میں جو واقعہ یہود کی سازش کا ذکر کیا گیا ہے وہ قصاص کے متعلق تھا کہ بنو نضیر دیت اور قصاص میں مساوات کے قائل نہ تھے بلکہ بنو قریظہ کو اپنے سے کم دیت لینے پر مجبور کر رکھا تھا، ان دونوں آیتوں میں یہود کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف اپنا قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی اور ایسا کرنے والوں کو کافر اور ظالم قرار دیا۔- اس کے بعد تیسری آیت میں اہل انجیل نصاریٰ کو اسی مضمون کا خطاب فرما کر اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے خلاف کوئی قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی، اور ایسا کرنے والوں کو سرکش و نافرمان قرار دیا۔ - اس کے بعد چوتھی، پانچویں اور چھٹی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنا کر مسلمانوں کو اسی مضمون کے متعلق ہدایات دیں گئیں کہ وہ اہل کتاب کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں، کہ جاہ و مال کے لالچ میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بدلنے لگیں، یا اس کے قانون کے خلاف کوئی قانون اپنی طرف سے جاری کرنے لگیں۔- اس کے ضمن میں ایک اور اہم اصولی مسئلہ یہ بھی بیان فرما دیا کہ اگرچہ اصول عقائد اور اطاعت حق جل شانہ، کے معاملہ میں تمام انبیاء (علیہم السلام) ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی طریقہ کے پابند ہیں، لیکن بہ تقاضائے حکمت ہر پیغمبر کو اس کے زمانہ کی مناسب شریعت دی گئی ہے جس میں بہت سے فروعی اور جزوی احکام مختلف ہیں، اور یہ بتلایا کہ ہر پیغمبر کو جو شریعت دی گئی، اس کے زمانہ میں وہی مقتضائے حکمت اور واجب الاتباع تھی، اور جب اس کو منسوخ کرکے دوسری شریعت لائی گئی تو اس وقت وہی عین حکمت و مصلحت اور واجب الاتباع ہوگئی، اس میں شریعتوں کے مختلف ہوتے رہنے اور بدلتے رہنے کی ایک خاص حکمت کی طرف بھی اشارہ فرما دیا۔ - ہم نے (موسیٰ علیہ الالسلام پر) توریت نازل فرمائی تھی جس میں (عقائد صحیحہ کی بھی) ہدایت تھی اور (احکام عملیہ کا بھی) وضوح تھا، انبیاء (بنی اسرائیل) جو کہ (باوجود لاکھوں آدمیوں کے مقتداء ومطاع ہونے کے) اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے اس (توراة) کے موافق یہود کو حکم دیا کرتے تھے اور (اسی طرح ان میں کے) اہل اللہ اور علماء بھی (اسی کے موافق کہ وہی اس وقت کی شریعت تھی حکم دیتے تھے) بوجہ اس کے کہ ان (اہل اللہ و علماء) کو اس کتاب اللہ (پر عمل کرنے اور کرانے) کی نگہداشت کا حکم (حضرت انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ سے) دیا گیا تھا اور وہ اس کے (یعنی اس پر عمل کرنے کرانے کے) اقراری ہوگئے تھے (یعنی چونکہ ان کو اس کا حکم ہوا تھا اور انہوں نے اس حکم کو قبول کرلیا تھا، اس لئے ہمیشہ اس کے پابند رہے) سو (اے اس زمانہ کے رؤ سا و علماء یہود جب ہمیشہ سے تمہارے سب مقتداء توریت کو ماننے آئے ہیں تو) تم بھی ( تصدیق رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باب میں جس کو حکم توریت میں ہے) لوگوں سے (یہ) اندیشہ مت کرو (کہ ہم تصدیق کرلیں گے تو عام لوگوں کی نظر میں ہماری جاہ میں فرق آئے گا) اور (صرف) مجھ سے ڈرو (کہ تصدیق نہ کرنے پر سزا دوں گا) اور میرے احکام کے بدلہ میں (دنیا کی) متاع قلیل (جو کہ تم کو اپنے عوام سے وصول ہوتی ہے) مت لو (کہ یہی حُبِّ جاہ و حبِّ مال تم کو باعث ہوتی ہیں تصدیق نہ کرنے پر) اور (یاد رکھو کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (بلکہ غیر حکم شرعی کو قصداً حکم شرعی بتلا کر اس کے موافق حکم کرے) سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں (جیسا اے یہود تم کر رہے ہو کہ عقائد میں بھی مثل عقیدہ رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اعمال میں بھی جیسے حکم رجم وغیرہ اپنے مخترعات کو حکم الٓہی بتلا کر ضلال واضلال میں مبتلا ہو رہے ہو) اور ہم نے ان (یہود) پر اس (توراة) میں یہ بات فرض کی تھی کہ (اگر کوئی کسی کو ناحق عمداً قتل یا زخمی کرے اور صاحب حق دعویٰ کرے تو) جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور (اسی طرح دوسرے) خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص (اس قصاص یعنی بدلہ لینے کا مستحق ہو کر بھی) اس (قصاص) کو معاف کر دے وہ (معاف کرنا) اس (معاف کرنے والے) کے لئے (اس کے گناہوں کا) کفارہ (یعنی گناہوں کے دور ہونے کا سبب) ہوجائے گا (یعنی معاف کرنا موجب ثواب ہے) اور (چونکہ یہود نے ان احکام کو چھوڑ رکھا تھا اس لئے مکرر وعید سناتے ہیں کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (جس کے معنی اوپر گزرے) سو ایسے لوگ بالکل ستم ڈھا رہے ہیں (یعنی بہت برا کام کر رہے ہیں) اور ہم نے ان (نبیوں) کے پیچھے (جن کا ذکر (آیت) یحکم بھا النبیون میں آیا ہے) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو اس حالت میں (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق فرماتے تھے (جو کہ لوازم رسالت سے ہے کہ تمام کتب الٓہیہ کی تصدیق کرے) اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں (توریت ہی کی طرح عقائد صحیحہ کی بھی) ہدایت تھی اور (احکام عملیہ کا بھی) وضوح تھا اور وہ (انجیل) اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق (بھی) کرتی تھی (کہ یہ بھی لوازم کتاب الٓہی سے ہے) اور وہ سراسر ہدایت اور نصیحت تھی خدا سے ڈرنے والوں کے لئے اور (ہم نے انجیل دے کر حکم کیا تھا کہ) انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم کیا کریں اور (اے اس زمانہ کے نصاریٰ سن رکھو کہ) جو شخص خدا تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے (اور اس کے معنی اوپر گزر چکے ہیں) تو ایسے لوگ بالکل بےحکمی کرنے والے ہیں (اور انجیل رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر دے رہی ہے، تو تم اس کے خلاف کیوں چل رہے ہو) اور (توراة و انجیل کے بعد) ہم نے یہ کتاب (مسمیٰ بقرآن) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجی ہے جو خود بھی صدق (و راستی) کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو (آسمانی) کتابیں (آچکی) ہیں (جیسے توراة و انجیل و زبور) ان کی بھی تصدیق کرتی ہے، (کہ وہ نازل من اللہ ہیں) اور (چونکہ وہ کتاب مسمی بقرآن قیامت تک محفوظ و معمول بہ ہے، اور اس میں ان کتب سماویہ کی تصدیق موجود ہے اس لئے وہ کتاب) ان کتابوں (کے صادق ہونے کے مضمون) کی (ہمیشہ کے لئے) محافظ ہے (کیونکہ قرآن میں ہمیشہ یہ محفوظ رہے گا کہ وہ کتب نازل من اللہ ہیں جب قرآن ایسی کتاب ہے) تو ان (اہل کتاب) کے باہمی معاملات میں (جب کہ آپ کے اجلاس میں پیش ہوں) اسی بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور یہ جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے اس سے دور ہو کر ان کی (خلاف شرع) خواہشوں (اور فرمائشوں) پر (آئندہ بھی) عملدرآمد نہ کیجئے (جیسا اب تک باوجود ان کی درخواست والتماس کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف انکار فرمایا، یعنی یہ آپ کی رائے نہایت ہی درست ہے، اسی پر ہمیشہ قائم رہئے، اور اے اہل کتاب تم کو اس قرآن کے حق جاننے سے اور اس کے فیصلہ کو ماننے سے کیوں انکار ہے ؟ کیا دین جدید کا آنا کچھ تعجب کی بات ہے ؟ آخر) تم میں سے ہر ایک (امت) کے لئے (اس کے قبل) ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی (مثلاً یہود کی شریعت و طریقت توراة تھی، اور نصاریٰ کی شریعت اور طریقت انجیل تھی، پھر اگر امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے شریعت و طریقت قرآن مقرر کیا گیا، جس کا حق ہونا بھی دلائل سے ثابت ہے تو وجہ انکار کیا) اور اگر اللہ تعالیٰ کو (سب کا ایک ہی طریقہ رکھنا) منظور ہوتا تو (وہ اس پر بھی قدرت رکھتے تھے کہ) تم سب (یہود و نصاریٰ و اہل اسلام) کو (ایک ہی شریعت دے کر) ایک ہی امت میں کردیتے (اور شرع جدید نہ آتی جس سے تم کو توحّش ہوتا ہے) لیکن (اپنی حکمت سے) ایسا، نہیں کیا (بلکہ ہر امت کو جدا جدا طریقہ دیا) تاکہ جو دین تم کو (ہر زمانہ میں نیا نیا) دیا ہے اس میں تم سب کا (تمہارے اظہار اطاعت کے لئے) امتحان فرما دیں (کیونکہ اکثر طبعی امر ہے کہ نئے طریقہ سے وحشت اور مخالفت کی طرف حرکت ہوتی ہے، لیکن جو شخص عقل صحیح و انصاف سے کام لیتا ہے، وہ اس ظہور حقیقت کے بعد اپنی طبیعت کو موافقت پر مجبور کردیتا ہے، اور یہ ایک امتحان عظیم ہے۔ پس اگر سب کی ایک ہی شریعت ہوتی تو اس شریعت کی ابتداء کے وقت جو لوگ ہوتے ان کا امتحان تو ہوجاتا، لیکن دوسرے جو ان کے مقلّد اور اس طریق سے مالوف ہوتے ان کا امتحان نہ ہوتا، اور اب ہر امت کا امتحان ہوگیا، اور امتحان کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو جس چیز سے روکا جائے خواہ معمول ہو یا متروک اس پر حرص ہوتی ہے، اور یہ امتحان شرائع کے تعدّد میں اقویٰ ہے، کہ منسوخ سے روکا جاتا ہے، اور شریعت کے اتحاد میں گو معاصی سے روکتے، لیکن ان میں حقیقت کا تو شبہ نہیں ہوتا، اس لئے امتحان اس درجہ کا نہیں، ان دونوں امتحانوں کو مجموعہ ہر امت کے سلف اور خلف سب کو عام ہوگیا، جیسا کہ صورت اوّل کو صرف سلف سے خصوصیت ہے، پس جب شرع جدید میں یہ حکمت ہے) ، تو (تعصب کو چھوڑ کر) مفید باتوں کی طرف (یعنی ان عقائد و اعمال و احکام کی طرف جن پر قرآن مشتمل ہے) دوڑو (یعنی قرآن پر ایمان لاکر اس پر چلو ایک روز) تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے پھر وہ تم سب کو جتلا دے گا جس میں تم (باوجود وضوح حق کے دنیا میں خواہ مخواہ) اختلاف کیا کرتے تھے (اس لئے اس اختلاف بےجا کو چھوڑ کر حق کو جو کہ اب منحصر ہے قرآن میں قبول کرلو) اور (چونکہ ان اہل کتاب نے ایسی بلند پروازی کی کہ آپ سے درخواست اپنے موافق مقدمہ طے کردینے کی کرتے ہیں، جہاں کہ اس کا احتمال ہی نہیں، اس لئے ان کے حوصلے پست کرنے کو اور اس کو سنا کر ہمیشہ ہمیشہ ان کے ناامید کردینے کو) ہم (مکرر) حکم دیتے ہیں کہ آپ ان (اہل کتاب) کے باہمی معاملات میں (جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجلاس میں پیش ہوں) اس بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور ان کی (خلاف شرع) خواہشوں (اور فرمائشوں) پر (آئندہ بھی) عملدرآمد نہ کیجئے (جیسا اب تک بھی نہیں کیا) اور ان سے یعنی ان کی اس بات سے (آئندہ بھی مثل سابق) احتیاط رکھئے کہ وہ آپ کو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی حکم سے بھی بچلاویں (یعنی گو اس کا احتمال نہیں لیکن اس کا قصد بھی رہے تو موجب ثواب بھی ہے) پھر (باوجود وضوح قرآن اور اس کے فیصلہ کے حق ہونے کے بھی) اگر یہ لوگ (قرآن سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے جو موافق قرآن کے ہوگا) اعراض کریں تو یہ یقین کرلیجئے کہ بس خدا ہی کو منظور ہے کہ ان کے بعض جرموں پر (دنیا ہی میں) ان کو سزا دیدیں (اور وہ بعض جرم فیصلہ نہ ماننا ہے اور حقانیت قرآن کے نہ ماننے کی سزا پوری آخرت میں ملے گی، کیونکہ پہلا جرم ذمّی ہونے کے خلاف ہے، اور دوسرا جرم ایمان کے خلاف حربیت کی سزا دنیا میں ہوتی ہے اور کفر کی سزا آخرت میں، چناچہ یہود کی سرکشی اور عہد شکنی جب حد سے تجاوز ہوئی تو ان کو سزا قتل اور قید اور اخراج وطن کی دی گئی) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے یہ حالات سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ضرور ہوگا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ غم نہ کیجئے، کیونکہ) زیادہ آدمی تو (دنیا میں ہمیشہ سے) بےحکم ہی ہوتے (آئے) ہیں یہ لوگ (فیصلہ قرآنی سے جو کہ عین عدل ہے اعراض کرکے) پھر کیا زمانہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں (جس کو انہوں نے برخلاف شرائع سماویہ کے خود مخترع کرلیا تھا، جس کا ذکر دو واقعوں کے ضمن میں اس رکوع سے پہلے رکوع (آیت) یا ایھا الرسول کی تمہید میں گزر چکا ہے، حالانکہ وہ سراسر عدل اور دلیل کے خلاف ہے، یعنی اہل علم ہو کر علم اعراض کرنا اور جہل کا طالب ہونا عجب در عجب ہے) اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے کون اچھا (فیصلہ کرنے والا) ہوگا (بلکہ کوئی مساوی بھی نہیں، پس خدائی فیصلہ کو چھوڑ کر دوسرے کے فیصلہ کا طالب ہونا عین جہل نہیں تو کیا ہے، لیکن یہ بات بھی) یقین (و ایمان) رکھنے والوں (ہی) کے نزدیک (کیونکہ اس کا سمجھنا موقوف ہے قوت عقلیہ کی صحت پر اور وہ کفار اس سے بےنصیب ہیں) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا :- اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ،” یعنی ہم نے اپنی کتاب تورات بھیجی جس میں حق کی طرف رہنمائی اور ایک خاص نور تھا “۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ آج جو شریعت توراة کو منسوخ کیا جا رہا ہے تو اس میں تورات کی کوئی تنقیص نہیں، بلکہ تغیر زمانہ کے سبب سے تغیر احکام کی ضرورت کے ماتحت ایسا کیا گیا، ورنہ تورات بھی ہماری نازل کردہ کتاب ہے، اس میں بنی اسرائیل کے لئے اصول ہدایت بھی مذکور ہیں، اور ایک خاص نور بھی ہے، جو روحانی طور پر ان کے قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا : يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ” یعنی تورات کو ہم نے اس لئے نازل کیا تھا کہ جب تک اس کی شریعت کو منسوخ نہ کیا جائے اس وقت تک آنے والے انبیاء اور ان کے نائب اللہ والے اور علماء سب اسی تورات کے مطابق فیصلے کیا کریں، اسی قانون کو دنیا میں چلایا کریں، اس میں انبیاء (علیہم السلام) کے نائبین کو دو قسموں میں ذکر فرمایا ہے، پہلے ربانیون دوسرے احبار، لفظ ربانی رب کی طرف منسوب ہے، جس کے معنی ہیں اللہ والا، اور احبار، حبر کی جمع ہے، یہود کے محاورہ میں عالم کو حبر کہا جاتا تھا، اگرچہ یہ بات بظاہر ہے کہ جو اللہ والا ہوگا ضروری ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام کا علم بھی ہو، ورنہ بغیر علم کے عمل نہیں ہوسکتا، اور بغیر احکام الہیہ کی اطاعت و عمل کے کوئی شخص اللہ والا نہیں ہو سکتا، اسی طرح اللہ کے نزدیک عالم اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہو، ورنہ وہ عالم جو احکام الٓہیہ سے واقف ہونے کے باوجود ضروری فرائض و واجبات پر بھی عمل نہیں کرتا نہ اس کی طرف کوئی دھیان دیتا ہے وہ اللہ و رسول کے نزدیک جاہل سے بدتر ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر اللہ والا عالم ہوتا ہے، اور ہر عالم اللہ والا ہوتا ہے۔ مگر اس جگہ ان دونوں کو الگ الگ بیان فرما کر اس بات پر متنبہ فرما دیا کہ اگرچہ اللہ والے کے لئے علم ضروری اور عالم کے لئے عمل ضروری ہے، لیکن جس پر جس رنگ کا غلبہ ہو اس کے اعتبار سے اس کا نام رکھا جاتا ہے، جس شخص کی توجہ زیادہ تر عبادات و عمل اور ذکر اللہ میں مصروف ہے اور علم دین صرف بقدر ضرورت حاصل کرلیتا ہے وہ زبانی یعنی اللہ والا کہلاتا ہے، جس کو آج کل کی اصطلاح میں شیخ، مرشد، پیر وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں، اور جو شخص عملی مہارت پیدا کرکے لوگوں کو احکام شرعیہ بتلانے سکھلانے کی خدمت میں زیادہ مشغول ہے اور فرائض و واجبات اور سنن مؤ کدہ کے علاوہ دوسری نفلی عبادات میں زیادہ وقت نہیں لگا سکتا، اس کو حبر یا عالم کہا جاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس میں شریعت و طریقت اور علماء و مشائخ کی اصلی وحدت کو بھی بتلا دیا، اور طریقہ کار اور غالب مشغلہ کے اعتبار سے ان میں فرق کو بھی واضح کردیا جس سے معلوم ہوگیا کہ علماء اور صوفیاء کوئی دو فرقے یا دو گروہ نہیں، بلکہ دونوں کا مقصد زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، البتہ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے طریق کار صورةً متغائر نظر آتے ہیں۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا : بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ، یعنی یہ انبیاء اور ان کے دونوں قسم کے نائبین علماء و مشائخ تورات کے احکام جاری کرنے کے پابند اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے توراة کی حفاظت ان کے ذمہ لگا دی تھی اور انہوں نے اس کی حفاظت کا عہدوپیمان کرلیا تھا۔- یہاں تک تورات کے کتاب الہی ہونے اور ہدایت و نور ہونے کا اور اس کا ذکر تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے سچے نائبین مشائخ اور علماء نے اس کی حفاظت فرمائی، اس کے بعد موجودہ زمانہ کے یہودیوں کو ان کی کجروی پر اور اس کجروی کے اصلی سبب پر متنبہ فرمایا گیا کہ تم نے بجائے اس کے کہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر تورات کی حفاظت اور تفصیل کے ساتھ نبی آخر الزمان محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کی خبر اور یہود کو ان پر ایمان لانے کی ہدایت مذکور تھی، ان لوگوں نے اس کی خلاف ورزی کی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت شروع کردی اور ساتھ ہی ان کی اس مہلک غلطی کا سبب بھی بیان فرما دیا، کہ وہ تمہاری حب جاہ اور حب مال ہے، تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول برحق جاننے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع سے اس لئے گھبراتے ہو کہ اب تو تم اپنی قوم کے مقتدا مانے جاتے ہو، یہودی عوام تمہارے پیچھے چلتے ہیں، اگر تم نے اسلام قبول کرلیا تو تم ایک فرد مسلم کی حیثیت میں آجاؤ گے یہ چودھراہٹ ختم ہوجائے گی، دوسرے ان لوگوں نے یہ پیشہ بنا لیا تھا کہ بڑے لوگوں سے رشوت لے کر ان کے لئے احکام تورات میں تحریف کرکے آسانیاں پیدا کردی تھیں۔ اس پر متنبہ فرمانے کے لئے موجود زمانہ کے یہود کو فرمایا کہ :- فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا، یعنی تم لوگوں سے نہ ڈرو کہ وہ تمہارا اتباع چھوڑ دیں گے یا مخالف ہوجائیں گے، اور تم دنیا کی متاع قلیل لے کر ان کے لئے احکام الٓہی میں گڑبڑ نہ کرو کہ یہ تمہارے لئے دین و دنیا کی بربادی ہے، کیونکہ ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ، یعنی جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کو واجب نہیں سمجھتے اور ان پر فیصلہ نہیں دیتے، بلکہ ان کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں، وہ کافر و منکر ہیں، جن کی سزا دائمی عذاب جہنم ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىۃَ فِيْہَا ہُدًى وَّنُوْرٌ۝ ٠ۚ يَحْكُمُ بِہَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللہِ وَكَانُوْا عَلَيْہِ شُہَدَاۗءَ۝ ٠ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰـتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝ ٤٤- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حبر - الحِبْرُ : الأثر المستحسن، ومنه ما روي :«يخرج من النّار رجل قد ذهب حبره وسبره» أي : جماله وبهاؤه، ومنه سمّي الحبر، وشاعر مُحَبِّر، وشعر مُحَبَّر، وثوب حَبِير : محسّن، ومنه : أرض مِحْبَار والحبیر من السحاب، وحَبِرَ فلان : بقي بجلده أثر من قرح،- والحَبْر :- العالم وجمعه : أَحْبَار، لما يبقی من أثر علومهم في قلوب الناس، ومن آثار أفعالهم الحسنة المقتدی بها، قال تعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] ، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله :( العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة) وقوله عزّ وجلّ : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] ، أي : يفرحون حتی يظهر عليهم حبار نعیمهم .- ( ح ب ر ) الحبر ۔ وہ نشان جو عمدہ اور خوبصورت معلوم ہو حدیث میں ہے کہ آگ سے ایک آدمی نکلے گا جس کا حسن و جمال اور چہرے کی رونق ختم ہوچکی ہوگی اسی سے روشنائی کو حبرۃ کہا جاتا ہے ۔ شاعر محتبر عمدہ گو شاعر شعر محبر عمدہ شعر ۔ ثوب حبیر ملائم اور نیا کپڑا ۔ ارض محبار جلد سر سبز ہونے والی زمین ( الجمع محابیر ) الحبیر ( من اسحاب ) خوبصورت بادل ۔ حبر فلان اس کے جسم پر زخم کا نشان باقی ہے ۔ - الحبر - عالم کو کہتے ہیں اسلئے کہ لوگوں کے حلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے ۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیٰ نے فرمایا کہ علماء تاقیامت باقی رہیں گے اگرچہ ا ن کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا آثار لوگوں دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع اجار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے ۔ اور آیت کریمہ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی ترو تازگی کا اثر ان کے چہروں پر ہویدا ہوگا - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نوریحکم بھا النبیون الذین اسلم اللذین ھادوا ۔ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ۔ سارے نبی جو مسلم تھے اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ حسن ، قتادہ اور عکرمہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس لیے درست ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں بدکاری کے مرتکب ایک جوڑے پر رجم کا حکم نافذ کردیا تو آپ نے اس موقعہ پر یہ کلمات ادا فرمائے۔- اے میرے اللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اس سنت کو زندہ کیا جسے انہوں نے مٹا دیا تھا۔ یہ بات تورات کے احکام میں شامل تھی ، اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیتوں کو یکسانیت کا فیصلہ صادر فرمایا اور یہ بات بھی تورات کے احکام میں داخل تھی ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر تورات کا فیصلہ نافذ کیا تھا۔ نئی شریعت لانے والے کسی نبی کا فیصلہ نافذ نہیں کیا تھا۔ قول باری ہے وکانوا علیہ شھدا اور وہ اس پر گواہ تھے ۔ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر گواہ تھے کہ یہ فیصلہ توراۃ کے اندر موجود ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے علاوہ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ وہ لوگ اس فیصلے پر گواہ تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔- قول باری ہے فلا تخشو ا الناس واخشون پس اے گروہ یہود تم لوگوں سے نہ ڈروبل کہ مجھ سے ڈرو سدی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے جو کچھ میں نے نازل کیا ہے لوگوں سے ڈرکر تم اسے چھپانے کا اقدام نہ کرو ۔ ایک قول ہے جو کچھ میں نے نازل کیا ہے لوگوں سے ڈر کر تم اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کرو ۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حارث بن ابی اسامہ نے ، انہوں نے ابو عبید قاسم بن سلام نے ، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن سلمہ سے ، انہوں نے حمید سے ، انہوں نے حسن سے کہ اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا عہد لیا ہے ، جو یہ ہیں ۔ وہ اپنے خواہشات کی پیروی نہ کریں ، اللہ سے ڈریں لوگوں سے نہ ڈریں اور اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر بیچ نہ ڈالیں۔ پھر یہ آیت پڑھی یادا ود انا جعلنا ک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھدی اے دائود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ نائب بنایا ہے۔ اس لیے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو تا آخر آیت ۔ پھر یہ آیت انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا اللذین ھادوا تا قول باری فلا تخشوا الناس واخشون ولا تشروا بایاتی ثمنا قلیلا ً ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون تلاوت کی ۔- آیت زیر بحث کئی معانی کو متضمن ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود پر تورات کے حکم کے مطابق فیصلہ جاری کیا تھا ، نیز تورات کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی باقی تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس کے نسخ کے موجب نہیں بنی تھی ۔ اس پر بھی دلالت ہوتی ہے کہ یہ حکم نافذ العمل تھا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی بنا پر منسوخ نہیں ہوا تھا۔ آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے ۔ لوگوں سے ڈر کر اس سے روگردانی نہ کی جائے اور نہ ہی پہلو بچایا جائے ، نیز یہ کہ فیصلوں کے سلسلے میں رشوت ستانی حرام ہے۔ یہ بات اس قول باری ولا تشتروا بایاتی تمثنا قلیلا ً سے معلوم ہوتی ہے۔ قول باری ہے ومن لم یحکم بما انزل اللہ اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ایسا شخص وہ ہے جو اللہ کے فیصلے اور حکم کا انکار کرتا ہے۔ ایک قول ہے کہ یہ آیت صرف یہود کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، حسن اور ابراہیم کا قول ہے کہ یہ آیت سب کے لیے عام ہے یعنی ان لوگوں کے متعلق ہے جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں لیکن کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے ، جو شخص ایسا کرتا ہے وہ کافر ہے جن حضرات نے آیت کو یہود کے ساتھ خاص کردیا ہے انہوں نے لفظ من کو شرط کے معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ الذی کے معنوں میں لیا ہے یعنی الذی لم یحکم بما انزل اللہ اور اس سے مراد متعین لوگ اور گروہ تھے۔ حضرت براء بن عازب (رض) نے یہود کے ایک جوڑے کے رجم کیے جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں یا یھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر اے رسول وہ لوگ جو کفر میں بہت تیزی دکھاتے ہیں تمہیں غمگین نہ کریں ۔ تا قول باری ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون حضر تبراء نے فرمایا کہ یہود کے ساتھ خاص ہیں ۔ اور قول باری فاولیک ھم الظالمون نیز فاولیک ھم الفاسقون تمام کافروں کے بارے میں ہے۔ حسن کا قول ہے کہ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون کا نزول یہود کے بارے میں ہوا ہے لیکن اس کا حکم ہم پر بھی واجب ہے۔- ابو مجلز نے کہا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ابو جعفر کا قول ہے کہ آیت کا نزول یہودیوں کے بارے میں ہوا پھر ہمارے لیے بھی اس کا حکم جاری ہوگیا ۔ سفیان نے حبیب بن ابی ثابت سے اور انہوں نے ابو النجتری سے روایت کی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھا گیا کہ اس آیت کا نزول بنی اسرائیل کے بارے میں ہوا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور فرمایا بنی اسرائیل تمہارے بھائی ہیں بشرطیکہ میٹھا میٹھا تمہارے لیے ہوجائے اور کڑوا کڑوا ان کے لیے ۔ سنو تم بھی ان کے راستے پر قدم بقدم چلو گے اور ان کے ساتھ تمہاری اس طرح یکسانیت ہوگی جس طرح جوتے کے تسمے یکساں انداز میں کٹے ہوتے ہیں۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اللہ نے اسے تمہارے لیے بھی پسند کرلیا ہے۔- پہلی آیت کفر والی مسلمانوں کے لیے ہے جو احکام الٰہی کے مطابق فیصلے نہیں کرتے - سفیان ثوری نے زکریا سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے پہلی آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکفرون مسلمانوں کے لیے ہے ۔ دوسری آیت فاولیک ھم الظالمون یہود کے لیے اور تیسری آیت فاولیک ھم الفاسقون نصاریٰ کے لیے ہے۔ طائوس کا قول ہے کہ آیت میں مذکور کفر ایسا کفر نہیں ہے جو ملت سے خارج کردینے والا ہے۔ طائوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، قول باری ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون سے لوگ جو کفر مراد لے رہے ہیں وہ اصل کفر نہیں ہے۔ ابن جریج نے عطاء سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ۔ ان آیات میں جس کفر ، ظلم اور فسق کا ذکر ہوا ہے وہ اصل کفر ، اصل ظلم اور اصل فسق سے کم تر ہے ۔ علی بن حسین کا قول ہے ۔ یہ شرک والا کفر نہیں ہے، نہ ہی شرک والا ظلم اور نہ ہی شرک والا فسق ۔- یہ کفر و شرک جحو والا ہے - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون میں مراد یا تو شرک وحجود والا کفر ہے یا کفران نعمت مراد ہے جس کے ساتھ حجو د یعنی انکارنہ پایا جائے ۔ اگر اللہ کے فیصلے اور حکم کا انکارمراد ہے یا اللہ کے فیصلے سے نبٹ کر فیصلہ کرنا اور ساتھ یہ کہنا مراد ہے کہ یہ اللہ کی طر ف سے ہے تو یہ ایسا کفر ہے جو ملت خارج کردیتا ہے اور اس حرکت کا مرتکب اگر پہلے مسلمان ہوگا تو مرتد ہوجائے گا۔ ان حضرات کے نزدیک آیت کے معنی یہی ہیں جو یہ کہتے ہیں یہ بنی اسرائیل کے لیے نازل ہوئی تھی پھر ہمارے اوپر بھی اس کا نفاذ ہوگیا ، وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص اللہ کے فیصلے کا انکار کرے یا اللہ کے فیصلے سے ہٹ کر فیصلہ کرے اور ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے وہ اسی طرح کافر ہوجائیگا جس طرح بنی اسرائیل اس قسم کی حرکت کا ارتکاب کر کے کافر ہوگئے تھے اگر اس سے کفران نعمت مراد ہے تو یہ کبھی نعمت پر شکر نہ کرنے کی بنا پر ہوتا ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ انکار نہ پایا جائے ، کفران نعمت کا مرتکب ملت سے خارج نہیں ہوتا ۔ پہلے معنی زیادہ واضح ہیں اس لیے کہ آیت میں کفر کے اسم کا ان لوگوں پر اطلاق ہوا ہے جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فصلہ نہیں کرتے۔ خوارج نے اس آیت سے ان لوگوں کی تکفیر کا مفہوم اخذ کیا ہے جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اگرچہ انہیں اس کا انکار نہ بھی ہو ۔ خوارج نے اس آیت کی بنا پر ہر اس شخص پر کفر کا فتویٰ لگایا جس نے گناہ کبیرہ یا صغیرہ کا ارتکاب کر کے خدا کی نافرمانی کی ہو ۔ یہ لوگ انبیاء کرام کی چھوٹی موٹی لغزشوں پر ان کی تکفیر سے بھی باز نہ رہے جس کے نتیجے میں یہ خود کفر اور گمراہی کے گڑھے میں جا گرے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٤) ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت نازل کی تھی، جس میں رجم کا بیان تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار انبیاء کرام اسی کے مطابق حکم دیا کرتے تھے۔- اور وہ تقریبا ایک ہزار نبی آئے ہیں، اسی طرح اہل اللہ بھی اور علماء بھی توریت کے مطابق حکم دیا کرتے تھے اور وہ پارسا بھی جو گرجاؤں میں رہتے تھے، کیونکہ اس کتاب اللہ پر عمل کرنے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لہذا آیت رجم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت چھپانے میں مجھ سے ڈریں، اور آپ کی نعت وصفت اور آیت رجم کو چھپا کر کھانے کی معمولی چیز مت لو اور توریت میں حضور کی نعت وصفت اور آیت رجم کرو جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اسے جو بیان نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورة المائدۃ کا یہ ساتواں رکوع حسن اتفاق سے سات ہی آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سخت تہدید ‘ تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ قرآن حکیم کی طویل سورتوں میں کہیں کہیں تین تین آیتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات ١٠٢ ‘ ١٠٣ اور ١٠٤ ہیں۔ ابھی سورة المائدۃ میں بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔ اسی طرح کہیں کہیں سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع کی سات آیات (٤٠ تا ٤٦) بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں نہایت جامع ہیں۔ یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں اور دعوت کے باب میں بمنزلہ فاتحہ ہیں۔ اسی طرح قانون شریعت کی تنفیذ ‘ اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ‘ بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروۂ سنام ( ) ہے۔- آیت ٤٤ (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ ) (فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ج) (یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ ) (الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا) - ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام (علیہ السلام) خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔- (لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا) - یعنی انبیا کرام (علیہ السلام) یہودیوں کے تمام فیصلے تورات ( شریعت موسوی) کے مطابق کرتے تھے ‘ جیسا کہ حدیث میں ہے (کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ ) (١) یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات ‘ انتظام و انصرام ‘ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔- (وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ) - ان کے ہاں اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔- (بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ) ُ - انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔- (وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ ج) (فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ) (وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط) - یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے ‘ اس کے مطابق فیصلے کرو۔ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ‘ اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اب آرہی ہے وہ کانٹے والی بات :- (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ) ۔ - بقول علامہ اقبالؔ ؂ ُ - بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے ناامیدی - مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :72 یہاں ضمناً اس حقیقت پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ انبیاء سب کے سب ”مسلم“ تھے ، بخلاف اس کے یہ یہودی ”اسلام “ سے ہٹ کر اور فرقہ بندی میں مبتلا ہو کر صرف”یہودی“ بن کر رہ گئے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :73 ربانی علماء – احبار فقہاء

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani