Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قتل کے بدلے تقاضائے عدل ہے یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے ہیں اور سرکشی اور بےپرواہی سے اسے بھی چھوڑ رہے ہیں ۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے بدلے قتل کرتے ہیں لیکن قریظہ کے یہود کو بنو نضیر کے یہود کے عوض قتل نہیں کرتے بلکہ دیت لے کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے شادی شدہ زانی کی سنگساری کے حکم کو بدل دیا ہے اور صرف کالا منہ کر کے رسوا کر کے مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اسی لئے وہاں تو انہیں کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم کہا ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ( والعین ) پڑھنا بھی مروی ہے ( ابو داؤد وغیرہ ) علماء کرام کا قول ہے کہ اگلی شریعت چاہے ہمارے سامنے بطور تقرر بیان کی جائے اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہے ۔ جیسے یہ احکام سب کے سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں ۔ امام نووی فرماتے ہیں اس مسئلے میں تین مسلک ہیں ایک تو وہی جو بیان ہوا ، ایک اس کے بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے اور کوئی نہیں ۔ اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے بھی قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا اور حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ تو فرماتے ہیں کہ ذمی کافر کے قتل کے بدلے بھی مسلمان قتل کر دیا جائے گا اور غلام کے قتل کے بدلے آزاد بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا نہ کیا جائے گا اور سلف کے بہت سے آثار اس بارے میں موجود ہیں کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے نہیں لیتے تھے اور آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا ۔ حدیثیں بھی اس بارے میں مروی ہیں لیکن صحت کو نہیں پہنچیں ۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے خلاف اجماع ہے لیکن ان باتوں سے اس قول کا بطلان لازم نہیں آتا تاوقتیکہ آیت کے عموم کو خاص کرنے والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ربیع نے ایک لونڈی کے دانت توڑ دیئے ، اب لوگوں نے اس سے معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ آیا آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے دیا ، اس پر حضرت انس بن نضر نے فرمایا کیا اس عورت کے سامنے کے دانت توڑ دیئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اے انس اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس کے دانت ہرگز نہ توڑے جائیں گے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہو گئے اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا ۔ اس وقت آپ نے فرمایا بعض بندگان رب ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری ہی کر دے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ پہلے انہوں نے نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی ۔ نسائی وغیرہ میں ہے ، ایک غریب جماعت کے غلام نے کسی مالدار جماعت کے غلام کے کان کاٹ دیئے ، ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں ، مال ہمارے پاس نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے دیت اپنے پاس سے دے دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے سفارش کر کے معاف کرا لیا ہو ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جان جان کے بدلے ماری جائے گی ، آنکھ پھوڑ دینے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی ، ناک کاٹنے والے کا ناک کاٹ دیا جائے گا ، دانت توڑنے والے کا دانت توڑ دیا جائے گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے گا ۔ اس میں آزاد مسلمان سب کے سب برابر ہیں ۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے گئے ہوں ۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں ، ان کے مرد بھی اور عورتیں بھی ۔ قاعدہ اعضا کا کٹنا تو جوڑ سے ہوتا ہے اس میں تو قصاص واجب ہے ۔ جیسے ہاتھ ، پیر ، قدم ، ہتھیلی وغیرہ ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے ہوں ، ان کی بابت حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ ان میں بھی قصاص ہے مگر ران میں اور اس جیسے اعضاء میں اس لئے کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے ۔ ان کے برخلاف ابو حنیفہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے کہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں ، بجز دانت کے اور امام شافعی کے نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں ۔ یہی مروی ہے حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس سے بھی اور یہی کہتے ہیں عطاء ، شبعی ، حسن بصری ، زہری ، ابراہیم ، نخعی اور عمر بن عبد العزیز بھی اور اسی کی طرف گئے ہیں سفیان ثوری اور لیث بن سعد بھی ۔ امام احمد سے بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل وہی حضرت انس والی روایت ہے جس میں ربیع سے دانت کا قصاص دلوانے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے ۔ لیکن دراصل اس روایت سے یہ مذہب ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ اس کے سامنے کے دانت اس نے توڑ دیئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ بغیر ٹوٹنے کے جھڑ گئے ہوں ۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے واجب ہے ۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے جو ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کہنی سے نیچے نیچے ایک تلوار مار دی ، جس سے اس کی کلائی کٹ گئی ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا ، آپ نے حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے کہا میں قصاص چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا اسی کو لے لے اللہ تجھے اسی میں برکت دے گا اور آپ نے قصاص کو نہیں فرمایا ۔ لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے ، اس کے ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی ، دوسرے راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہو جانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا ۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں چوٹ مار دی ، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوایئے ، آپ نے دلوا دیا ، اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو لنگڑا ہو گیا ، آپ نے فرمایا میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا ، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا ۔ مسئلہ اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا ، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک ، شافعی ، احمد اور جمہوری صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے ۔ ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اس پر دیت واجب ہے ، اسی کے مال میں سے ۔ بعض اور بزرگ فرماتے ہیں اس کے ماں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے مال پر وہ دیت واجب ہے ۔ بعض اور حضرات کہتے ہیں بقدر اس کے بدلے کے تو ساقط ہے باقی اسی کے مال میں سے واجب ہے ۔ پھر فرماتا ہے جو شخص قصاص سے درگزر کرے اور بطور صدقے کے اپنے بدلے کو معاف کر دے تو زخمی کرنے والے کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے ، اسے ثواب ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے کہ اگر چوتھائی دیت کے برابر کی چیز ہے اور اس نے درگزر کر لیا تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ ثلث ہے تو تہائی گناہ ، آدھی ہے تو آدھے گناہ اور پوری ہے تو پورے گناہ ۔ ایک قریشی نے ایک انصاری کو زور سے دھکا دے دیا جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے ۔ حضرت معاویہ کے پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہو گیا تو آپ نے فرمایا ، اچھا جا تجھے اختیار ہے ۔ حضرت ابو درداء وہیں تھے فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور وہ صبر کر لے ، بدلہ نہ لے تو اللہ اس کے درجے بڑھاتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اس انصاری نے یہ سن کر کہا ، کیا سچ مچ آپ نے خود ہی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد کیا ہے ، اس نے کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے اپنے مجرم کو معاف کر دیا ۔ حضرت معاویہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام دیا ( ابن جریر ) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہے ۔ ابو سفر راوی کا ابو درداء سے سننا ثابت نہیں اور روایت میں ہے کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں ہوا تھا ، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص خون یا اس سے کم کو معاف کر دے ، وہ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا کفارہ ہے ۔ مسند میں ہے کہ جس کے جسم میں کوئی زخم لگے اور وہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے اتنے ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ مسند میں یہ بھی حدیث ہے اللہ کے حکم کے مطابق حکم نہ کرنے والے ظالم ہیں ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفر کفر سے کم ہے ، ظلم میں بھی تفاوت ہے اور فسق بھی درجے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنو نفیر) کا دوسرے قبیلے (بنو قرظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بنسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے ؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔ 45۔ 2 یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے میں مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الہی کو اپنائے اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الہی میں ظالم متصور ہوگا فاسق متصور ہوگا اور کافر متصور ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کر کے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٢] سابقہ شریعتوں کے احکام شریعت محمدی میں :۔ یہاں ایک بنیادی بات یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی حکم جو تورات میں یہود کو دیا گیا ہو اور قرآن اس کو یوں بیان کرے کہ اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کا ذکر نہ کرے اور نہ ہی آپ نے نکیر فرمائی ہو تو وہ حکم بعینہ ہو تو وہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی قابل عمل ہوگا اگرچہ قرآن اسے مسلمانوں کے لیے الگ سے بیان کرے یا نہ کرے اس کی ایک مثال تو یہی آیت ہے اور دوسری مثال رجم کا حکم ہے اور اس آیت میں قصاص کی جو صورت بیان ہوئی ہے احادیث اسی کی تائید و تشریح کرتی ہیں چناچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان لڑکی کا جو زیور پہنے ہوئے تھی۔ محض زیور حاصل کرنے کے لیے سر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے اس کا سر کچلا ؟ فلاں نے یا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ جب قاتل یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے بتایا ہاں وہ یہودی نبی اکرم کے پاس لایا گیا۔ اس نے جرم کا اقرار کرلیا تو آپ نے بھی دو پتھروں کے درمیان اس کا سر رکھ کر کچلوا دیا۔ (مسلم۔ کتاب القسامہ۔ باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر) (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب سوال القاتل حتی یقرو الاقرار فی الحد۔ باب اقاد بحجر)- ٢۔ سیدنا یعلی کہتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں گیا۔ وہاں ایک شخص نے دوسرے کو دانت سے کاٹا۔ اس نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا۔ پھر وہ قصاص کے لیے آپ کے پاس آیا۔ تو آپ نے اس کا قصاص باطل قرار دیا اور فرمایا کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا کہ تو اسے یوں چبا جائے جیسے اونٹ چبا ڈالتا ہے (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب اذا عض رجلا۔۔ )- ٣۔ احکام قصاص :۔ آپ نے فرمایا جان کی دیت سو اونٹ ہیں۔ (نسائی۔ کتاب القسامۃ والقود الدیۃ۔ باب ذکر حدیث عمر و بن حزم فی العقول)- ٤۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ ڈالا۔ لڑکی کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ کیا۔ آپ کے پاس مقدمہ آیا تو آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ انس بن نضر جو انس بن مالک (رض) کے چچا (اور ربیع کے بھائی) تھے کہنے لگے یا رسول اللہ اللہ کی قسم ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ربیع کا دانت توڑا جائے۔ آپ نے فرمایا انس (یہ کیا کہہ رہے ہو) قصاص تو اللہ کا حکم ہے پھر (اللہ کی قدرت کہ) لڑکی کے وارث قصاص کی معافی اور دیت لینے پر راضی ہوگئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ (اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے) قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم سچی کردیتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الدیات۔ باب السن بالسن۔ مسلم کتاب القسامۃ)- ٥۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص قتل ہوگیا تو آپ نے قاتل کو مقتول کے وارث کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا یا رسول اللہ اللہ کی قسم میرا قتل کا ارادہ نہ تھا۔ آپ نے مقتول کے وارث سے فرمایا اگر قاتل (اپنے بیان میں) سچا ہے اور تو نے اسے قتل کردیا تو تو دوزخ میں جائے گا۔ چناچہ وارث نے اسے چھوڑ دیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الدیات۔ باب ماجاء فی حکم ولی القتیل فی القصاص والعفو)- [٨٣] قصاص میں یہودی قبائل کی ایک دوسرے پر برتری کا تصور :۔ مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ ان میں سے بنو نضیر اور بنو قریظہ کی آپس میں چپقلش رہتی تھی۔ بنو نضیر طاقتور اور مالدار تھے اور بنو قریظہ ان کی نسبت کافی کمزور تھے اسی وجہ سے ان کے درمیان رسم یہ چل نکلی تھی کہ اگر بنو قریظہ کے ہاتھوں بنو نضیر کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو اس کے بدلے بنو نضیر بنو قریظہ سے دوگنا دیت وصول کرتے تھے جبکہ خود اس سے نصف دیتے تھے اس طرح وہ تورات کے دو حکموں کی خلاف ورزی کرتے ایک یہ کہ تورات میں قصاص کا قانون تو تھا لیکن دیت کا نہیں تھا۔ دوسرے بنو نضیر کے خون کی دیت بنو قریظہ کے خون کی دیت سے دوگنا تھی۔ ایک دفعہ بنو نضیر کا ایک آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو انہوں نے دوگنی دیت کا مطالبہ کردیا۔ بنو قریظہ نے جواب دیا کہ اب وہ وقت گئے جب تم ہم سے دگنی دیت وصول کیا کرتے تھے۔ اب ہم یہ مقدمہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں پیش کریں گے۔ کیونکہ یہود آپ کو جھوٹا نبی کہنے کے باوجود یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں گے چناچہ آپ نے حکم الہی کے مطابق برابر دیت کا فیصلہ دیا۔- [٨٤] قرآن کریم کے الفاظ (فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ 45؀) 5 ۔ المآئدہ :45) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر مجروح جارح کو معاف کر دے تو اس کا یہ معافی دینا اس کے اپنے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ اور دوسرا یہ کہ مجروح کا معافی دینا جارح کے جرم کا کفارہ بن جائے گا اور ان دونوں کو ملانے سے مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ مجروح کا معاف کردینا جارح کے جرم کا بھی کفارہ بن جاتا ہے اور مجروح کے اپنے گناہوں کا بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : اس آیت میں بھی یہود کو ڈانٹ ہے، یعنی انھوں نے جس طرح رجم (سنگ ساری) کے حکم کو تبدیل کردیا تھا اسی طرح ان پر نفوس ( جانوں) اور جروح ( زخموں) میں برابری رکھی گئی تھی، جو اب بھی تورات کی کتاب خروج، باب (٢١) فقرہ (٢٣۔ ٢٥) میں موجود ہے، مگر انھوں نے اس کو تبدیل کر کے معطل کر ڈالا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودی قبائل میں سے بنو نضیر طاقتور اور بنو قریظہ کمزور تھے، اس لیے یہودی بنو نضیر کا قصاص تو بنو قریظہ سے لے لیتے لیکن بنو قریظہ کا قصاص بنو نضیر سے نہیں لیتے تھے، بلکہ ان کے مقتول کی دیت ادا کردیتے۔ (ابن جریر) ” ھدایۃ المستنیر “ کے مصنف نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اس آیت میں مذکور مسائل کے حجت ہونے پر اجماع ہے، پس عورت کے بدلے قاتل مرد ہی قتل کیا جائے گا، خواہ چھوٹے قبیلے کا ہو یا بڑے کا، قصاص میں سب برابر ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَاؤُھُمْ )” مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب فی السریۃ ترد علی أھل العسکر : ٢٧٥١۔ أحمد : ١؍١٢٣۔ نسائی : ٢٧٥٠۔ ح : ٩٩٥ ابن ماجہ : ٢٦٨٣، وقال الألبانی حسن صحیح ] بعض لوگوں نے اس آیت ( جان کے بدلے جان) سے نکالا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جائے گا، مگر صحیح بخاری (٦٩١٥) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ صریح فرمان موجود ہے : ( وَاَنْ یُقْتَلَ مُسْلِمٌ ) ” کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافر مومن کا کفو (برابر) نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی (رض) نے ان بعض لوگوں کے خلاف امت کا اجماع نقل فرمایا ہے جو کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنے کے قائل ہیں۔ (ابن کثیر) - اس وقت مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے قرآن و سنت کے صریح خلاف ایسے احکام ایجاد کرلیے جن کی موجودگی میں قصاص تقریباً ناممکن ہے۔ انھوں نے یہ قاعدہ بنادیا کہ تیز دھار آلے کے ساتھ قتل کرے یا آگ سے جلائے تو قصاص ہے ورنہ نہیں۔ چناچہ خواہ جان بوجھ کر قتل کے ارادے سے بھاری سے بھاری پتھر مار مار کر قتل کر دے تو قصاص نہیں ہوگا بلکہ دیت ہوگی، حالانکہ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کا سر پتھروں سے اسی طرح کچلا تھا جس طرح اس نے ایک بچی کا سر کچلا تھا۔ [ بخاری، الدیات، باب سؤال القاتل حتی یقرّ ۔۔ : ٦٨٧٦ ] لہٰذا قرآن و حدیث کے مطابق قتل کے ارادے سے اگر جان بوجھ کر قتل کرنا ثابت ہوجائے تو پھر قصاص ہے، خواہ کسی طرح بھی قتل کرے۔ مگر ان بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی کو ڈبو کر مار دے، یا بھوکا رکھ کر مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر مار دے، غرض بہت سی صورتیں بیان کر کے کہتے ہیں کہ ان میں قصاص نہیں، کیونکہ آلہ تیز دھار نہیں۔ ظاہر ہے جن عدالتوں میں ان لوگوں کا حکم چلتا ہو، وہاں قصا ص کا نشانہ صرف وہی لوگ بنتے ہوں گے جو ان حیلوں کو نہیں جانتے ہوں گے، پھر جب قانون ہی میں انصاف نہ رہے تو کوئی قوم اللہ کی نصرت کے وعدے کی حق دار کیسے رہ سکتی ہے ؟- فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ: عبادتہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگایا جائے، پھر وہ اسے معاف کر دے تو جتنا اس نے معاف کیا اللہ تعالیٰ اتنا ہی اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣١٦، ح : ٢٢٧٦٧۔ السنن الکبریٰ للنسائی، التفسیر : ١١١٤٦ ]- وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی اگر قرآن و حدیث کا انکار تو نہیں کرتا مگر اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو یہ ظالم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد دوسری آیت میں احکام قصاص اس حوالہ سے بیان کئے گئے ہیں، کہ ہم نے یہ احکام تورات میں نازل کئے ہیں، ارشاد ہے : وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ، یعنی ہم نے یہود کے لئے توراة میں یہ حکم قصاص نازل کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلہ ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بدلہ ہے۔- بنو قریظہ، بنو نضیر کا جو مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوا تھا وہ بنو نضیر نے اپنی قوت و شوکت کے بل بوتہ پر بنو قریظہ کو اس پر مجبور کر رکھا تھا کہ بنو نضیر کے کسی آدمی کو ان کا آدمی قتل کر دے تو اس کا قصاص بھی جان کے بدلے جان سے لیا جائے اور اس کے علاوہ خون بہا یعنی دیت بھی لی جائے، اور اگر معاملہ برعکس ہو کہ بنو نضیر کا آدمی بنو قریضہ کے آدمی کو مار ڈالے تو کوئی قصاص نہیں، صرف دیت یعنی خون بہا دیا جائے وہ بھی بنو نضیر سے آدھا۔- اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس چوری کا پردہ چاک کردیا کہ خود توراة میں بھی قصاص اور دیت کی مساوات کے احکام موجود ہیں یہ لوگ جان بوجھ کر ان سے روگردانی کرتے ہیں، اور محض حیلہ جوئی کے لئے اپنا مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لاتے ہیں۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ، یعنی جو اللہ کے نازل کردہ احکام پر حکم نہ دیں وہ ظالم ہیں، کیونکہ احکام خداوندی کے منکر اور باغی ہیں، تیسری آیت میں اول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا ذکر ہے کہ وہ پچھلی کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے، پھر انجیل کا ذکر ہے کہ وہ بھی توریت کی طرح ہدایت اور نور ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَتَبْنَا عَلَيْہِمْ فِيْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۝ ٠ۙ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ۝ ٠ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ۝ ٠ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَكَفَّارَۃٌ لَّہٗ۝ ٠ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٤٥- كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] - نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- أنف - أصل الأنف : الجارحة، ثم يسمّى به طرف الشیء وأشرفه، فيقال : أنف الجبل وأنف اللحية ونسب الحمية والغضب والعزّة والذلة إلى الأنف حتی قال الشاعر :- إذا غضبت تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيدهاوقیل : شمخ فلان بأنفه : للمتکبر، وترب أنفه للذلیل، وأَنِفَ فلان من کذا بمعنی استنکف، وأَنَفْتُهُ : أصبت أنفه . وحتی قيل الأَنَفَة : الحمية، واستأنفت الشیء : أخذت أنفه، أي : مبدأه، ومنه قوله عزّ وجل : ماذا قال آنِفاً [ محمد 16] أي : مبتدأ .- ا ن ف) الانف اصل میں انف بمعنی ناک ہے ۔ مجازا کسی چیز کے سرے اور اس کے بلند ترحصہ کو بھی انف کہا جا تا ہے چناچہ پہاڑ کی چوٹی کو انف الجبل اور کنارہ ریش کو انف اللحیۃ کہدیتے ہیں ۔ اور حمیت وغضب اور عزت وذلت کو انف کی طرف منسوب کیا جاتا ہے شاعر نے کہا ہی ع (3) اذا عضبت تلک الانوف لم ارضھا ولم اطلب التعبی ولکن ازید ھا اور جب وہ ناراض ہوں گے تو میں انہیں راضی نہیں کروں گا ۔ بلکہ ان کی ناراضگی کو اور بڑھاؤں گا ۔ اور متکبر کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ شمخ فلان بانفہ فلاں نے ناک چڑھائی یعنی تکبر کیا ۔ ترب انفہ وہ ذلیل ہو ۔ انف فلان من کذا کسی بات کو باعث عار سمجھناانفتہ اس کی ناک پر مارا ۔ اور انفہ بمعنی حمیت بھی آتا ہے ۔ اسنتانفت الشئ کے معنی کسی شے کے سرے اور مبدء کو پکڑنے ( اور اس کا آغاز کرنے کے ہیں اور اسی ارشاد ہے ۔ مَاذَا قَالَ آنِفًا ( سورة محمد 16) انہوں نے ابھی ( شروع میں ) کہا تھا ؟- أذن (کان)- الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة 61] أي :- استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم .- ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔- سنن - السِّنُّ معروف، وجمعه أَسْنَانٌ. قال : وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ [ المائدة 45]- السن دانت اس کی جمع اسنان آتی ہے قرآن میں ہے : وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ [ المائدة 45] دانت کے بدلے دانت سان البعیر لفاتۃ نر اونٹ نے دانت سے کاٹ کر اونٹنی کو نیچے بٹھالیا ۔ السنون دانتوں کا منجن ) ایک دوا جس سے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔- جرح - الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] .- ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔- قِصاصٌ- والقِصاصُ : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور» «1» .- القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔- صَدَّقَ ( معاف کرنا)- ويقال لما تجافی عنه الإنسان من حقّه : تَصَدَّقَ به، نحو قوله : وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ [ المائدة 45] ، أي : من تجافی عنه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ، وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 280] ، فإنه أجری ما يسامح به المعسر مجری الصّدقة «3» . وعلی هذا ما ورد عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «ما تأكله العافية فهو صدقة» «1» ، وعلی هذا قوله تعالی: وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا - [ النساء 92] ، فسمّى إعفاء ه صَدَقَةً ،- اور تصدق بہ کے معنی اپنے حق سے دست بردار ہوجانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ [ المائدة 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کردے وہ اس کیلئے کفار ہ ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ، وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے ۔ میں معسر یعنی تنگ دست کو معاف کردینے کو صدقۃ کے قائم مقام قرار دیا ہے اور اسی معنی میں آنحضرت سے مروی ہے ( 2 ) ( ماتاکلہ العافیۃ فھوصدقۃ ) کہ جو کھیتی جانورکھاجائیں وہ بھی صدقہ ہے ۔ اسی بنا پر آیت کریمہ : ۔ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا[ النساء 92] اور دوسرے مقتول کے وارثوں کو خون بہادے ہاں اگر وہ معاف کردیں ۔ میں معاف کردینے کو صدقہ قرار دیا ہے ۔- كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین و الانف بالانف ، تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک تا آخر آیت ۔ یہاں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں یہودیوں پر جان اور آیت میں مذکورہ اعضا کا قصاص لکھ دیا تھا۔ امام ابو یوسف نے ظاہر آیت سے جان کے سلسلے میں عورت اور مرد کے درمیان قصاص کے ایجاب پر استدلا ل کیا ہے۔- اس لیے کہ ارشاد باری ہے الفنس بالنفس یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابو یوسف کا مسلک یہ تھا کہ ہم سے پہلے انبیا (علیہم السلام) کی شریعتوں کا حکم جاری اور نافذ رہے گا یہاں تک کہ اس کی تنسیخ کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک یا نص قرآنی کے ذریعے وارد ہوجائے۔ آیت کے تسلسل میں قول باری ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الظالمون اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت یہ حکم ثابت اور جاری تھا۔ اس پر دو وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے ایک تو یہ کہ اس حکم کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہوچکا ہے اور زمانے کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ نسخ وارد ہونے تک یہ ہر زمانے میں ثابت رہے گا ۔ دوسری وجہ یہ کہ آیت زیر بحث کے نزول کے وقت ان پر ظلم اور فسق کی علامت اس لیے چسپاں ہوگئی کہ یہ لوگ اس وقت اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اصول چھوڑ بیٹھے تھے وہ اس طرح کہ یہ یا تو ان کی طرف سے اس قانون کا سرے سے انکار ہوگیا تھا اور یا اللہ تعالیٰ نے اس قانون کے تحت ان پر جو طریق کار واجب کردیا تھا اس سے یہ ہٹ گئے تھے۔ یہ چیز تمام قسم کی جانوں کے قصاص کی مقتضی ہے جب تک اس کے نسخ یا تخصیص کی دلات قائم نہ ہوجائے۔ قول باری والعین بالعین کا مفہوم ہمارے اصحاب نے یہ لیا ہے کہ آنکھ میں اس طرح ضرب لگے کہ اس کی روشنی جاتی رہے یعنی مضروب بینائی سے محروم ہوجائے ۔ ان کے نزدیک آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ آنکھ نکال لی جائے۔- پھر ہمارے اصحاب کے نزدیک آنکھ نکال لینے کے جرم کا کوئی قصاص نہیں ہے اس لیے کہ اس جیسی صورت میں قصاص لینا متعذر ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ قصاص کے اندر آنکھ کس حد تک نکال لی جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کی ران یا بازو سے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر علیحدہ کر دے یا اس کی ران کا کوئی حصہ جدا کر دے تو اس صورت میں میں اس پر قصاص واجب نہیں ہوگا ۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک قصاص اس صورت میں لیا جائے گا جب آنکھ کی روشنی ضائع ہوچکی ہو اور آنکھ کی پتلی اپنی جگہ قائم ہو۔ قصاص کی صورت یہ ہوگی کہ ایک آنکھ میں پٹی باندھ دی جائے گی پھر آئینہ گرم کر کے اس آنکھ کے سامنے کردیا جائے گا جس میں قصاص واجب ہے ۔ گرم شیشہ اس آنکھ کو دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اس کی روشنی ختم ہوجائے ۔ قول باری والا نف بالانف کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ناک جڑ سے کاٹ دی گئی ہو تو اس میں قصاص نہیں ہے اس لیے کہ یہ ہڈی ہوتی ہے جس میں پوری طرح قصاص لینا ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح کوئی شخص کسی کا نصف بازو کاٹ دے یا جس طرح کوئی ٹانگ آدمی ران سے کاٹ دے تو ایسی صورتوں میں قصاص کے سقوط میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ ان صورتوں میں مثل متعذر ہوتا ہے اس لیے کہ قصاص اخذ المثل برابر کا بدلہ لینے کا نام ہے ۔ اگر قصاص میں اخذ المثل کا مفہوم نہیں پایا جائے گا تو وہ قصاص نہیں کہلائے گا ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ناک کے سلسلے میں قصاص صرف اسی وقت واجب ہوتا ہے ۔ جب مارن یعنی نازک کا نرم قطع ہوجائے اور ناک کے بانسے قصبۃ الانف سے اتر جائے۔ امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ اگر پوری ناک کاٹ دی گئی ہو تو اس میں قصاص ہوگا ۔ اسی طرح عضو تناسل اور زبان کا مسئلہ ہے۔ اما م محمد کا قول ہے کہ اگر ناک ، عضو تناسل یا زبان پوری کاٹ دی گئی ہو تو اس میں قصاص نہیں ہوگا ۔ قول باری ہے والا ذن بالاذن اور کان کے بدنے کان یہ قول باری قصاص کے وجوب کا مقتضی سے اگر کان پورا کاٹ دیا گیا ہو کیونکہ قصاص کے طور پر پورا کان کاٹ دینا ممکن ہے۔ اگر کان کا بعض حصہ کاٹ دیا گیا ہو تو ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس میں قصاص واجب ہوگا بشرطیکہ اس کی مقدار معلوم کر کے اتنا ہی حصہ کاٹا جاسکتا ہو ۔ قول باری والسن بالسن اور ذات کے بدلے دانت ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ دانت کے سوا کسی بڈی میں قصاص نہیں لیا جاتا ۔ اگر دانت اکھاڑ دیا گیا ہو یا اس کا ایک حصہ توڑ دیا گیا ہو تو اس میں قصاص ہوگا اس لیے کہ اس میں قصاص لینا ممکن ہوتا ہے ۔ اگر پورا دانت اکھاڑ دیا گیا ہو تو قصاص میں پورا دانت اکھاڑ دیا جائے گا ۔ جس طرح ہاتھ قصاص میں مفصل یعنی گٹے سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ اگر دانت کا ایک حصہ توڑ دیا گیا ہو تو قصاص میں ریتی سے اتنا حصہ رگڑ دیا جائے گا اور اس طرح پورا قصاص لینا ممکن ہوجائے گا باقی ماندہ تمام ہڈیوں میں پورا قصاص لینا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ اس صورت میں قصاص کی حد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ مذکورہ بالا اعضاء کے قصاص میں اللہ تعالیٰ نے نصا ً جو حکم بیان کیا ہے وہ اس کا مقتضی ہے کہ ان اعضاء میں سے قصا ص کے سلسلے میں بڑے چھوئے عضو میں کوئی فرق نہیں ہوگا یعنی مثلاً چھوٹے کان کے قصاص میں بڑا کان کاٹ دیا جائے گا اور بڑے کان کے قصاص میں چھوٹا کان کاٹ دیا جائے گا ۔ اسی طرح مذکورہ بالا دوسرے اعضاء کا بھی مسئلہ ہے بشرطیکہ جس عضو میں قصاص لیا جارہا ہے وہ اس عضو کے بالمقابل ہو جسے نقصان پہنچایا گیا ہے کوئی اور عضو نہ ہو۔- قول باری ہے والجروح قصاص اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ یعنی ان تمام زخموں میں قصاص کا ایجاب ہے جن میں برابر کا بدلہ ممکن ہو ۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جن زخموں میں برابر کا بدلہ لینا ممکن نہ ہو ان میں قصاص کی نفی ہے۔ اس لیے کہ قول باری والجروح قصاص برابر کا بدلہ لینے کا مقتضی ہے۔ اس لیے اگر برابر کا بدلہ نہیں ہوگا تو وہ قصاص نہیں ہوگا ۔ اس سلسلے میں بہت سی چیزوں کے قصاص کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے مثلاً جان لینے سے کم درجے کے جرم میں مردوں اور عورتوں کے درمیان قصاص ۔ اس پر ہم نے سورة بقرہ میں روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح آزاد اور غلاموں کے درمیان قصاص کا مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے۔- قصاص کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے کا ذکر - اما م ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، زفر ، امام اور امام شافعی کا قول ہے دائیں عضو کے بدلے میں بایاں عضو نہیں کاٹا جائے گا یعنی دائیں آنکھ اور دائیں آنکھ اور دائیں بازو کا قصاص بائیں آنکھ اور بائیں بازو سے نہیں لیا جائے گا ۔ اسی طرح دانت کا قصاص مجرم کے اسی جیسے دانت سے لیا جائے گا ۔ قاضی ابن شبرمہ کا قول ہے کہ بائیں آنکھ کے قصاص میں دائیں آنکھ اور دائیں آنکھ کے قصاص میں بائیں آنکھ پھوڑ دی جائے گی ۔ دو بازوئوں کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ داڑھ کے دانت کا قصاص سامنے کے اوپر نیچے کے دو دانتوں اور سامنے کے اوپر نیچے کے دانتوں کا قصاص داڑھ کے دانت سے لیا جائے گا ۔ حسن بن صالح کا قول ہے اگر کسی کے ہاتھ کی ایک انگلی کا ٹ دی گئی ہو اور مجرم کے اس ہاتھ میں اس جیسی انگلی نہ ہو تو قصاص میں اس کی ساتھ والی انگلی کاٹ دی جائے گی ۔ ایک کف دست کی انگلی کے قصاص میں دوسری ہتھیلی کی انگلی نہیں کاٹی جائے گی۔ اس طرح اگر مجرم کا اس جیسا دانت نہ ہو جسے اسی نے نقصان پہنچایا ہے تو اس کے ساتھ والے دانت سے قصاص لیا جائے گا خواہ وہ داڑھ کے دانت کیوں نہ ہوں ۔ اگر مجرم نے بائیں آنکھ کو نقصان پہنچایا ہو اور اس کی اپنی بائیں آنکھ موجود نہ ہو تو اس کی جگہ اس کی دائیں آنکھ سے قصاص لیا جائے گا لیکن دائیں بازو کے قصاص میں بایاں بازو اور بائیں بازو کے قصاص میں دایاں بازو قطع نہیں کیا جائے گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مجرم نے جس عضو کو نقصان پہنچایا ہے اگر اس کا اپنا وہ عضو موجود ہو تو اس صورت میں قصاص لینے والا اس عضو کے سوا مجرم کے کسی اور عضو سے قصاص نہیں لے سکتا اور نہ ہی اس عضو کو چھوڑ کر اس کے بالمقابل واقع کسی اور عضو کو قصاص کا نشانہ بنا سکتا ہے خواہ مجرم اور جرم کی زد میں آنے والا شخص مجنی علیہ اس امر پر رضا مند کیوں نہ ہوجائیں ۔ فقہاء کا یہ متفق علیہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری العین بالعین تا آخر آیت میں مجرم کے اس عضو سے قصاص لینا مراد ہے جو مجنی علیہ کے عضو کے بالمقابل ہو ۔ اگر بات اس طرح ہے تو پھر اس عضو کے سوا کسی اور عضو سے قصاص لینا جائز نہیں ہوگا خواہ یہ عضو موجود ہو یا معدوم ۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہاتھ کے قصاص کا حکم پیر تک پہنچا دینا اور ہاتھ کا قصاص پیر سے لینا جائز نہیں ہے تو اس عدم جو از کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مجرم کا ہاتھ موجود ہے یا موجود نہیں ۔ ہر صورت میں قصاص کے حکم کو پیر تک پہنچانا ممتنع ہوگا ۔ نیز قصاص برابر کا بدلہ لینے کا نام ہے اور یہ اعضاء یعنی ہاتھ اور پیر وغیرہ ایک دوسرے کے مماثل نہیں ہیں اس لیے قصاص میں ان کا احاطہ کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ فقہاء کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا البتہ تندرست ہاتھ کے قصاص میں مفلوج ہاتھ کاٹ دیا جائے گا وہ اس لیے کہ قول باری ہے والحجروج قصاص اس کے تحت اگر مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو قصاص کی مقدار بڑھ جائے گی لیکن اگر تندرست ہاتھ کے قصاص میں مفلوج ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو قصاص کی مقدار کم رہے گی اور یہ اس وجہ سے جائز ہوگا کہ قصاص لینے والا اپنے حق سے کم پر رضا مند ہوگیا ہے۔ ہڈی کے قصاص میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفرکا قول ہے کہ دانت کے سوا کسی ہڈی میں قصاص نہیں ہے۔ لیث بن سعد اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ ان دونوں حضرات نے اس حکم سے دانت کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ جسم کی تمام ہڈیوں میں قصاص کا حکم جاری ہوگا ۔- جن ہڈیوں کو قصاص میں نہیں توڑا جاسکتا - البتہ دو ہڈیاں اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گی جو مجوف یعنی اندر سے کھوکھلی ہوں گی مثلاً ران کی ہڈی اور اس جیسی اور ہڈیاں ، ان جیسی ہڈیوں میں قصاص کا حکم جاری نہیں ہوگا ۔ کھوپڑی کی ہڈی کے زخم میں قصاص نہیں لیا جائے گا اسی طرح اس ہڈی کا بھی قصاص نہیں لیا جائے گا جو زخم لگنے کی وجہ سے ٹوٹ کر اپنی جگہ چھوڑ جائے۔ دونوں بازوئوں ، دونوں پنڈلیوں ، دونوں قدم ، دونوں ٹخنوں اور انگلیوں کو توڑنے کی صورت میں ان کا قصاص لیا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ دماغ کی جھلی کے زخم میں قصاص نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب سر کی ہڈی میں قصاص کی نفی پر سب کا اتفاق ہے تو پھر تمام ہڈیوں کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے والجروح قصاص اور قصاص یعنی برابر کا بدلہ ہڈیوں میں ممکن نہیں ہے۔ حماد بن سلمہ نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے کہ ابن الزبیر (رض) نے دماغ کی جھلی کا زخم کا قصاص لیا تو ان کے فعل کو ناپسند کیا گیا اور اس کی تردید کی گئی یہ تو واضح ہے کہ تردید کرنے والے حضرات صحابہ کرام تھے۔ نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کسی کے کان میں اس طرح ضرب لگائی ہو کہ کان خشک ہوگیا ہو یعنی اس کی قوت سامعہ جاتی رہی ہو تو اس کے قصاص میں مجرم کے کان کو ضرب لگا کر بےکار نہیں کیا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے جرم میں جرم کی مقدار کا انداز نہیں لگایا جاسکتا ۔ جسم کی ہڈیوں کی بھی یہی کیفیت ہے ۔ دانت کے سلسلے میں قصاص کے وجوب پر ہم گزشتہ سطور میں وضاحت کر آئے ہیں ۔- قول باری ہے فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) ، حسن ، قتادہ ، ابراہیم نخعی ( ایک روایت کے مطابق اور شعبی ایک روایت کے مطابق کا قول ہے کہ مقتول کا ولی اور زخمی انسان جب اپنا قصاص معاف کردیں گے تو یہ ان کے لیے کفارہ بن جائے گا ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد ، ابراہیم نخعی ( ایک روایت کے مطابق) اور شعبی ایک روایت کے مطابق کا قول ہے کہ یہ مجرم کے لیے کفارہ بن جائے گا ۔ ان حضرات نے قصاص معاف کردینے کو بمنزلہ اس امر کے قرار دیا کہ گویا قصاص لینے والے نے اپنا حق وصول کرلیا اور مجرم نے گویا کوئی جرم نہیں کیا ۔ تا ہم یہ بات اس پر محمول ہوگی کہ مجرم نے اپنے جرم سے توبہ کرلی ہے اس لیے کہ مجرم کو اپنے جرم پر اصرار رہے گا تو اس بنا پر اللہ کے ہاں اس کی سزا بحالہ باقی رہے گی کہ اس نے ایک ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے جس کی اللہ کی طرف سے ممانعت تھی۔ پہلا قول درست ہے اس لیے کہ قول باری فھو کفارۃ لہ اس سے ما قبل کے قول فمن تصدق بہ کی طرف راجع ہے۔ اس لیے کفارہ اس کا ہوگا جس نے قصاص کا صدقہ کردیا ہے اور پھر مفہوم یہ ہوگا کہ قصاص کا صدقہ کردینا قصاص کے حق دار کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥) اور ہم نے توریت میں بنی اسرائیل پر یہ چیز فرض کی تھی، اگر کوئی شخص کسی کو دانستا ناحق قتل کردے یا دانستا ناحق آنکھ پھوڑ دے یا ناحق دانستا ناک کاٹ دے یا ناحق دانستا کان کاٹ دے یا ناحق دانستا دانت توڑدے تو سب کا قصاص ہوگا اسی طرح دوسرے زخموں میں حکومت عدل ہے۔- پھر جو شخص زخمی کرنے والے کو معاف کردے تو یہ زخم یا زخمی کرنے والے کا کفارہ ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ (اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِض) (وَالْعَیْنَ بالْعَیْنِ ) (وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ ) (وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ ) (وَالسِّنَّ بالسِّنِّلا) - (وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط) (فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط) - کسی نے ایک شخص کا کان کاٹ دیا ‘ اب وہ جواباً اس کا کان کاٹنے کا حق دار ہے ‘ لیکن اگر وہ قصاص نہیں لیتا اور معاف کردیتا ہے تو اسے اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ بنا لے گا۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرم کو جب معاف کردیا گیا تو اس کے ذمے سے وہ گناہ دھل گیا۔ّ - (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) - اور ظالم یہاں بمعنی مشرک ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے : (اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) (لقمان : ١٣) اب دیکھئے ‘ ایک قانون اللہ کا ہے اور ایک انسانوں کا۔ پھر انسانوں کے بھی مختلف قوانین ہیں ‘ ایک ہے ‘ ایک پاکستانی قانون ہے ‘ ایک رواج پر مبنی قانون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ فیصلہ کس قانون کے مطابق کر رہے ہیں ؟ اللہ کے قانون کے تحت یا کسی اور قانون کے مطابق ؟ اگر آپ نے اللہ کے قانون کے ساتھ ساتھ کسی اور قانون کو بھی مان لیا یا اللہ کے قانون کے مقابلے میں کسی اور قانون کو ترجیح دی تو یہ شرک ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :74 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو توراۃ کی کتاب خروج ، باب ۲۱- آیت ۲۳-۲۵ ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :75 یعنی جو شخص صدقہ کی نیت سے قصاص معاف کر دے اس کے حق میں یہ نیکی اس کے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا ۔ اسی معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ من جرح فی جسدہ جراحۃ فتصدق بھا کفر عنہ ذنوبہ بمثل ما تصدق بہ ۔ یعنی جس کے جسم میں کوئی زخم لگایا گیا اور اس نے معاف کر دیا تو جس درجہ کی یہ معافی ہوگی اسی کے بقدر اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: دوسرا واقعہ ان آیات کے پس منظر میں یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، ایک بنو قریظہ اور دوسرے بنو نضیر، بنو نضیرکے لوگ مال دار تھے، اور بنو قریظہ کے لوگ مالی اعتبار سے ان کے مقابلے میں کمزور تھے، اگرچہ دونوں یہودی تھے مگر بنو نضیر نے ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے یہ ظالمانہ اصول طے کرالیا تھا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کرے گا توقاتل سے جان کے بدلے جان کے اصول پر قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ خوں بہا کے طور پر ستر وسق کھجوریں دے گا (وسق ایک پیمانہ تھا جو تقریباً پانچ من سیر کا ہوتا تھا) اور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کرے گا تونہ صرف یہ کہ قاتل قصاص میں قتل کیا جائے گا بلکہ خوں بہا بھی لیا جائے گا اور وہ بھی دگنا، جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے توایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ قریظہ کے کسی شخص نے بنو نضیر کے ایک آدمی کو قتل کردیا، بنو نضیر نے جب اپنی سابق قرارداد کے مطابق قصاص اور خوں بہا دونوں کا مطالبہ کیا توقریظہ کے لوگوں نے اسے انصاف کے خلاف قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ فیصلہ آنحضرتﷺ سے کرایا جائے ؛ کیونکہ اتنا وہ بھی جانتے تھے کہ آپ کا دین انصاف کا دین ہے، جب قریظہ کے لوگوں نے زیادہ اصرار کیا توبنو نضیر نے کچھ منافقین کو مقرر کیا کہ وہ آنحضرتﷺ سے غیر رسمی طور پر آپ کا عندیہ معلوم کریں اور اگر آپ کا عندیہ بنو نضیر کے حق میں ہو تو فیصلہ ان سے کرائیں ورنہ ان سے فیصلہ نہ لیں، اس پس منظر میں یہ آیت بتارہی ہے کہ تورات نے تو واضح طور پر فیصلہ دیا ہوا ہے کہ جان کے بدلے جان لینی ہے اور اس لحاظ سے بنو نضیر کا مطالبہ سراسر ظالمانہ اور تورات کے خلاف ہے۔