Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

باطل کے غلام لوگ انبیاء بنی اسرائیل کے پیچھے ہم عیسیٰ نبی کو لائے جو توراۃ پر ایمان رکھتے تھے ، اس کے احکام کے مطابق لوگوں میں فیصلے کرتے تھے ، ہم نے انہیں بھی اپنی کتاب انجیل دی ، جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی ، ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے تھے ، ان کے صاف فیصلے اس میں موجود تھے ۔ جیسے قرآن میں اور جگہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ، میں تمہارے لئے بعض وہ چیزیں حلال کروں گا جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔ اسی لئے علماء کا مشہور مقولہ ہے کہ انجیل نے تورات کے بعض احکام منسوخ کر دیئے ہیں ۔ انجیل سے پارسا لوگوں کی رہنمائی اور وعظ وپند ہوتی تھی کہ وہ نیکی کی طرف رغبت کریں اور برائی سے بچیں ۔ اھل الانجیل بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں ( والیحکم ) میں لام کے معنی میں ہو گا ۔ مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو انجیل اس لئے دی تھی کہ وہ اپنے زمانے کے اپنے ماننے والوں کو اسی کے مطابق چلائیں اور اس لام کو امر کا لام سمجھا جائے اور مشہور قراۃ ( ولیحکم ) پڑھی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ انہیں چاہئے کہ انجیل کے کل احکام پر ایمان لائیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 5 ۔ المائدہ:68 ) یعنی اے اہل کتاب جب تک تم تورات و انجیل پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے اترا ہے ، اگر اس پر قائم ہو تو تم کسی چیز پر نہیں ہوا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) 7 ۔ الاعراف:157 ) جو لوگ اس رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرتے ہیں ، جس کی صفت اپنے ہاں توراۃ میں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ لوگ جو کتاب اللہ اور اپنے نبی کے فرمان کے مطابق حکم نہ کریں وہ اللہ کی اطاعت سے خارج ، حق کے تارک اور باطل کے عامل ہیں ، یہ آیت نصرانیوں کے حق میں ہے ۔ روش آیت سے بھی یہ ظاہر ہے اور پہلے بیان بھی گزر چکا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، نہ کہ اس کو جھٹلانے والے تھے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب (جھٹلایا) کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی (کفر کا فتویٰ دے کر رسوا کیا) 46۔ 2 یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر کتب آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا، یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح اور کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا سرخرو رہے گا جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ " وحدت ادیان " کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی۔ اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی۔ انجیل پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت 26 کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] نئی الہامی کتاب کی ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟ یعنی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کوئی نیا دین لانے والے نبی نہ تھے۔ وہ خود زبانی بھی پہلی نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے اور انجیل میں بھی یہ بات مذکور تھی۔ واضح رہے کہ بعد میں آنے والے نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلی امت نے کتاب اللہ کی تفاسیر و شروح لکھ کر اس کے مفہوم و معانی میں جو تاویلیں کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہے یا عقائد و عمل میں راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، یا کتاب اللہ میں کچھ تحریف یا اضافے کرلیے ہیں۔ تو لوگوں کو ان تمام باتوں پر مطلع کر کے انہیں راہ حق پر لانے کی کوشش کرے اور اس کام کے لیے کسی بنیاد کا ہونا ضروری ہے اور وہ بنیاد منزل من اللہ کتاب ہی ہوتی ہے لہذا اس کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھنا ہر نبی اور اس کے متبعین کے لیے ضروری ہے چناچہ سیدنا عیسیٰ اور ان سے پہلے کے نبیوں اور امتوں نے تورات کی تصدیق کی اور مسلمان سیدنا عیسیٰ سمیت تمام سابقہ انبیاء کی اور تورات اور انجیل بلکہ سب آسمانی صحیفوں کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ عیسیٰ کے بعد نبی آخر الزماں تک کوئی نبی نہیں آیا اور نہ ہی انجیل کے بعد اور قرآن سے پہلے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- خ انبیاء علاتی بھائی ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں سب لوگوں سے زیادہ عیسیٰ بن مریم سے (دنیا اور آخرت میں) تعلق رکھتا ہوں۔ انبیاء سب علاتی (ماں جائے) بھائی ہیں۔ جن کا باپ ایک (یعنی عقائد) اور مائیں (فروعی مسائل) جدا جدا ہیں۔ میرے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ ( وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ 16 ۝ ۙ ) 19 ۔ مریم :16)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۔۔ : عیسیٰ (علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ وہ خود بھی اسی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ انجیل میں ہے : ” یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں، کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ “ (انجیل متی : ٥: ١٧، ٨١ ) تورات، انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ” هُدًى وَّنُوْرٌ ۙ“ کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان نازل شدہ کتابوں کا ہدایت ہونا تو اس اعتبار سے ہے کہ یہ دنیا اور آخرت کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نور (روشنی) اس لحاظ سے کہ انسان کے لیے عملی زندگی میں رہنمائی کا کام دیتی ہیں۔ (کبیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ۝ ٠۠ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۝ ٠ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ٤٦ۭ- قفا - القَفَا معروف، يقال : قَفَوْتُهُ : أصبت قَفَاهُ ، وقَفَوْتُ أثره، واقْتَفَيْتُهُ : تبعت قَفَاهُ ، والِاقْتِفَاءُ : اتّباع القفا، كما أنّ الارتداف اتّباع الرّدف، ويكنّى بذلک عن الاغتیاب وتتبّع المعایب، وقوله تعالی: وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] أي : لا تحکم بالقِيَافَةِ والظنّ ، والقِيَافَةُ مقلوبة عن الاقتفاء فيما قيل، نحو : جذب وجبذ وهي صناعة وقَفَّيْتُهُ : جعلته خلفه . قال : وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] . والقَافِيَةُ : اسم للجزء الأخير من البیت الذي حقّه أن يراعی لفظه فيكرّر في كلّ بيت، والقَفَاوَةُ : الطّعام الذي يتفقّد به من يعنی به فيتّبع .- ( ق ف و ) القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفرتہ کے معنی کسی کی گدی پر مارنا اور کسی کے پیچھے پیچھے چلنا یہ دونوں محاورہ ہے استعمال ہوتی ہے قفوت الژرہ واقتفیتہ کے معنی کیس کے پیچھے چلنے کے ہیں دوسرے کا مصدر اقتفاء ہے ۔ جس کے اصل معنی کسی کی قفا کا اتباع کرنے کے ہیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر کیس کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء 36] اور ( اے بندے ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ یعنی محض قیافہ اور ظن سے کام نہ لو بعض کے نزدیک قیافہ کا لفظ بھی اقتفاء سے مقلوب ہے ۔ جیسے جذب وحیذا ور یہ ( قیافہ ) ایک فن ہے ۔ اور قفیتہ کے معنی کیس کو دوسرے کے پیچھے لگانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة 87] اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے ، القافیۃ مصر عہ کے جز وا خیر کو کہا جاتا ہے جس کے حرف روی کی ہر شعر میں رعایت رکھی جاتی ہے ۔ القفاوۃ وہ کھانا جس سے مہمان کی آؤ بھگت کی جائے ۔- أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] - بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ - توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٦۔ ٤٧) جو شخص ان کو نہ بیان کرے اور ان پر عمل نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو سزا کے مستحق ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچانے والے ہیں اور ہم نے ان کے بعد توریت کے احکام کی ترویج اور توحید کی موافقت اور تصدیق کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل دی جو توحید اور رجم کے بیان میں توریت کے موافق تھی، اور کفر وشرک اور دیگر فواحش سے روکنے والی تھی اور اس لیے کہ انجیل میں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں بیان کی ہیں، جیسا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصیت اور رجم کا حکم تو انجیل والے ان چیزوں کو بیان کردیں اور جن امور کو اللہ تعالیٰ نے انجیل میں بیان کیا ہے جو لوگ ان کو نہیں بیان کرتے وہی گنہگار اور کافر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :76 یعنی مسیح علیہ السلام کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہی ایک دین ، جو تمام پچھلے انبیاء کا دین تھا ، مسیح کا دین بھی تھا اور اسی کی طرف وہ دعوت دیتے تھے ۔ توراۃ کی اصل تعلیمات میں سے جو کچھ ان کے زمانہ میں محفوظ تھا اس کو مسیح خود بھی مانتے تھے اور انجیل بھی اس کی تصدیق کرتی تھی ( ملاحظہ ہو متی باب ۵ – آیت ۱۷- ۱۸ ) ۔ قرآن اس حقیقت کا بار بار اعادہ کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے انبیاء دنیا کے کسی گوشے میں آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی پچھلے انبیاء کی تردید کے لیے اور ان کے کام کو ہٹا کر اپنا نیا مذہب چلانے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ ہر نبی اپنے پیشرو انبیاء کی تصدیق کرتا تھا اور اسی کام کر فروغ دینے کے لیے آتا تھا جسے اگلوں نے ایک پاک ورثہ کی حیثیت سے چھوڑا تھا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی کتاب اپنی ہی پچھلی کتابوں کی تردید کرنے کے لیے کبھی نہیں بھیجی بلکہ اس کی ہر کتاب پہلے آئی ہوئی کتابوں کی مؤید اور مصدق تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani