Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تھا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدیہ پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی پیروی کرے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] اللہ کے حکم کے مطابق نہ فیصلے کرنے والے کون ؟ اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے آیت نمبر ٤٤ کی رو سے کافر ہیں آیت نمبر ٤٥ کی رو سے ظالم اور آیت نمبر ٤٧ کی رو سے فاسق قرار دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان آیات کے مخاطب یہود و نصاریٰ ہیں تاہم یہ حکم عام ہے اور مسلمانوں کو بھی شامل ہے اور ان تینوں آیات میں جو مختلف درجات بیان کیے گئے ہیں ان کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ احکام الٰہی کے خلاف فیصلہ کرنے والا فاسق بھی ہوتا ہے، ظالم بھی اور کافر بھی۔ کیونکہ یہ سب حق سے انحراف کے ہی درجات ہیں۔ یعنی ابتداء میں فاسق ہوتا ہے جب اس گناہ سے آگے بڑھ جائے تو ظالم اور جب اسے معمول بنا لے تو کافر ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب جرم کی شدت کی نوعیت کے اعتبار سے ہے جیسے یہود نے رجم کے حکم پر عمل نہ کیا پھر اسے چھپایا تو یہ کفر ہوا اور بنو نضیر نے بنو قریظہ سے دوگنی دیت لی تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے پس یہ ظلم ہوا۔ اور اگر اس سے بھی کم تر درجہ کا گناہ ہوگا تو وہ فسق ہوگا اور کبھی جرم کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ مجرم ان تمام صفات کا حامل قرار پاتا ہے جیسے بنی اسرائیل کے بعدئی بادشاہ بت پرست تھے اور رعایا کو بھی اللہ کے بجائے اپنا حکم تسلیم کرواتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِيْهِ ۭ۔۔ : اہل انجیل کا اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے، فیصلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر لازم ہے کہ انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو پیش گوئیاں اور دلائل اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں وہ ان کو چھپانے یا ان کی غلط تاویلیں کرنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ انجیل کے حکم کے مطابق مسلمان ہوجائیں اور قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کریں اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہ نافرمان ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب میں اترا ہوا اللہ کا حکم نہیں مانا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اہل انجیل کو چاہیے کہ جو قانون اللہ تعالیٰ نے انجیل میں نازل فرمایا ہے اس کے مطابق احکام نافذ کریں۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف حکم جاری کریں وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٤٧- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے ان پر نازل کیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری میں یہ دلالت موجود ہے کہ انبیاء سابقین کی شریعتوں میں سے جو باتیں منسوخ نہیں ہوئیں وہ بایں معنی ثابت ہیں کہ اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا حصہ بن گئی ہیں ۔ اس لیے قول باری ہے ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ اور یہ بات واضح ہے کہ اہل انجیل کو انجیل میں نازل کردہ احکام کی پیروی کے حکم سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کریں اس لیے کہ انجیل میں نازل کردہ احکام اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا جز بن چکے ہیں ۔ اس لیے کہ اگر یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہوئے اور آپ کی اتباع کیے بغیر انجیل پر عمل پیرا ہو بھی جاتے تو بھی کافر قراردیے جاتے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہیں اس شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا بایں معنی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ شریعت اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کی جز بن چکی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَلْیَحْکُمْ اَہْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط) (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) - وہی تو سرکش ہیں ‘ وہی تو نافرمان ہیں ‘ وہی تو ناہنجار ہیں۔ غور کیجیے ایک رکوع میں تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے گئے ہیں :- (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ )- (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ )- (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ )- ان آیات قرآنیہ کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلمان ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :77 ”یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں ، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے ۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے ، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا ۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے ۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں ۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں ۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے ۔ جو شخص حکم الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو اعتقاداً حکم الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر ، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے ۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الہٰی سے انحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر ، ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے ۔ بعض اہل تفسیر نے ان آیات کے اہل کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ مگر کلام الہٰی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیا ہے ۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں ۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر ، وہی ظالم اور وہی فاسق ہے ۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نعم الاخرۃ لکم بنو اسرائیل اَن کانت لھم کل مُرّ ۃ ولکم کل حلوۃ کلّا واللہ لتسلکن طریقھم قدر الشراک ۔ ” کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمہارے لیے ہرگز نہیں ، خدا کی قسم تم انہی کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani