Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن ایک مستقل شریعت ہے تورات و انجیل کی ثنا و صفت اور تعریف و مدحت کے بعد اب قرآن عظیم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ ہم نے اسے حق و صداقت کے ساتھ نازل فرمایا ہے یہ بالیقین اللہ واحد کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے ۔ یہ تمام پہلی الٰہی کتابوں کو سچا مانتا ہے اور ان کتابوں میں بھی اس کی صفت و ثنا موجود ہے اور یہ بھی بیان ان میں ہے کہ یہ پاک اور آخری کتاب آخری اور افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے گی ، پس ہر دانا شخص اس پر یقین رکھتا ہے اور اسے مانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ) 17 ۔ الاسراء:107 ) جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا تھا ، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے رب کا وعدہ سچا ہے اور وہ سچا ثابت ہو چکا ، اس نے اگلے رسولوں کی زبانی جو خبر دی تھی وہ پوری ہوئی اور آخری رسول رسولوں کے سرتاج رسول آ ہی گئے اور یہ کتاب ان پہلی کتابوں کی امین ہے ۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے ، وہی پہلی کتابوں میں بھی تھا ، اب اس کے خلاف کوئی کہے کہ فلاں پہلی کتاب میں یوں ہے تو یہ غلط ہے ۔ یہ ان کی سچی گواہ اور انہیں گھیر لینے والی اور سمیٹ لینے والی ہے ۔ جو جو اچھائیاں پہلے کی تمام کتابوں میں جمع تھیں ، وہ سب اس آخری کتاب میں یکجا موجود ہیں ، اسی لئے یہ سب پر حاکم اور سب پر مقدم ہے اور اس کی حفاظت کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ جیسے فرمایا ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15 ۔ الحجر:9 ) بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب پر امین ہیں ۔ واقع میں تو یہ قول بہت صحیح ہے لیکن اس آیت کی تفسیر یہ کرنی ٹھیک نہیں بلکہ عربی زبان کے اعتبار سے بھی یہ غور طلب امر ہے ۔ صحیح تفسیر پہلی ہی ہے ۔ امام ابن جریر نے بھی حضرت مجاہد سے اس قول کو نقل کر کے فرمایا ہے یہ بہت دور کی بات ہے بلکہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے مھیمن کا عطف مصدق پر ہے ، پس یہ بھی اسی چیز کی صفت ہے جس کی صفت مصدق کا لفظ تھا ۔ اگر حضرت مجاہد کے معنی صحیح مان لئے جائیں تو عبارت بغیر عطف کے ہونی چاہئے تھی خواہ عرب ہوں ، خواہ عجم ہوں ، خواہ لکھے پڑھے ہوں ، خواہ ان پڑھ ہوں ۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ سے مراد وحی اللہ ہے خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو ، خواہ جو پہلے احکام اللہ نے مقرر کر رکھے ہوں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے تو آپ کو آزادی دی گئی تھی ، اگر چاہیں ان میں فیصلے کریں چاہیں نہ کریں ، لیکن اس آیت نے حکم دیا کہ وحی الٰہی کے ساتھ ان میں فیصلے کرنے ضروری ہیں ، ان بدنصیب جاہلوں نے اپنی طرف سے جو احکام گھڑ لئے ہیں اور ان کی وجہ سے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ، خبردار اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی چاہتوں کے پیچھے لگ کر حق کو نہ چھوڑ بیٹھنا ۔ ان میں سے ہر ایک کیلئے ہم نے راستہ اور طریقہ بنا دیا ہے ۔ کسی چیز کی طرف ابتداء کرنے کو شرعۃ کہتے ہیں ، منہاج لغت میں کہتے ہیں واضح اور آسان راستے کو ۔ پس ان دونوں لفظوں کی یہی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔ پہلی تمام شریعتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں ، وہ سب توحید پر متفق تھیں ، البتہ چھوٹے موٹے احکام میں قدرے ہیر پھیر تھا ۔ جیسے حدیث شریف میں ہے ہم سب انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، ہر نبی توحید کے ساتھ بھیجا جاتا رہا اور ہر آسمانی کتاب میں توحید کا بیان اس کا ثبوت اور اسی کی طرف دعوت دی جاتی رہی ۔ جیسے قرآن فرماتا ہے کہ تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بھیجے ، ان سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیت میں ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل:36 ) ہم نے ہر امت کو بزبان رسول کہلوا دیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوال دوسروں کی عبادت سے بچو ۔ احکام کا اختلاف ضرور ، کوئی چیز کسی زمانے میں حرام تھی پھر حلال ہو گئی یا اس کے برعکس ۔ یا کسی حکم میں تخفیف تھی اب تاکید ہو گئی یا اس کے خلاف اور یہ بھی حکمت اور مصلحت اور حجت ربانی کے ساتھ مثلاً توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل ایک شریعت ہے ، قرآن ایک مستقل شریعت ہے تا کہ ہر زمانے کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا امتحان ہو جایا کرے ۔ البتہ توحید سب زمانوں میں یکساں رہی اور معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے ہر شخص کیلئے ہم نے اپنی اس کتاب قرآن کریم کو شریعت اور طریقہ بنایا ہے ، تم سب کو اس کی اقتدار اور تابعداری کرنی چاہئے ۔ اس صورت میں جعلنا کے بعد ضمیر ہ کی محذوف ماننی پڑے گی ۔ پس بہترین مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ اور طریقہ صرف قرآن کریم ہی ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد ہی فرمان ہوا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت کر دیتا ۔ پس معلوم ہوا کہ اگلا خطاب صرف اس امت سے ہی نہیں بلکہ سب امتوں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور کامل قدرت کا بیان ہے کہ اگر وہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی شریعت اور دین پر کر دیتا کوئی تبدیلی کسی وقت نہ ہوتی ۔ لیکن رب کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہوا کہ علیحدہ علیحدہ شریعتیں مقرر کرے ، ایک کے بعد دوسرا نبی بھیجے اور بعض احکام اگلے نبی کے پچھلے نبی سے بدلوا دے ، یہاں تک کہ اگلے دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منسوخ ہو گئے اور آپ تمام روئے زمین کی طرف بھیجے گئے اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجے گئے ۔ یہ مختلف شریعتیں صرف تمہاری آزمائش کیلئے ہوئیں تاکہ تابعداروں کو جزاء اور نافرمانوں کو سزا ملے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمہیں آزمائے ، اس چیز میں جو تمہیں اس نے دی ہے یعنی کتاب ۔ پس تمہیں خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت اور دوڑ کرنی چاہئے ۔ اللہ کی اطاعت ، اس کی شریعت کی فرمانبرداری کی طرف آگے بڑھنا چاہئے اور اس آخری شریعت ، آخری کتاب اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ دل و جاں فرماں برداری کرنی چاہئے ۔ لوگو تم سب کا مرجع و ماویٰ اور لوٹنا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے ، وہاں وہ تمہیں تمہارے اختلاف کی اصلیت بتا دے گا ۔ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا پھل دے گا اور بروں کو ان کی کج بحثی ، سرکشی اور خواہش نفس کی پیروی کی سزا دے گا ۔ جو حق کو ماننا تو ایک طرف بلکہ حق سے چڑتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں ۔ ضحاک کہتے ہیں مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، مگر اول ہی اولیٰ ہے ۔ پھر پہلی بات کی اور تاکید ہو رہی ہے اور اس کے خلاف سے روکا جاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ دیکھو کہیں اس خائن ، مکار ، کذاب ، کفار یہود کی باتوں میں آکر اللہ کے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ ہو جانا ۔ اگر وہ تیرے احکام سے رو گردانی کریں اور شریعت کے خلاف کریں تو تو سمجھ لے کہ ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے اللہ کا کوئی عذاب ان پر آنے والا ہے ۔ اسی لئے توفیق خیر ان سے چھین لی گئی ہے ۔ اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اطاعت حق سے خارج ۔ اللہ کے دین کے مخالف ، ہدایت سے دور ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:103 ) یعنی گو تو حرص کر کے چاہے لیکن اکثر لوگ مومن نہیں ہیں ۔ اور فرمایا آیت ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) 6 ۔ الانعام:116 ) اگر تو زمین والوں کی اکثریت کی مانے گا تو وہ تجھے بھی راہ حق سے بہکا دیں گے ۔ یہودیوں کے چند بڑے بڑے رئیسوں اور عالموں نے آپس میں ایک میٹنگ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں اگر ہم آپ کو مان لیں تو تمام یہود آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور ہم آپ کو ماننے کیلئے تیار ہیں ، آپ صرف اتنا کیجئے کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے ، اس کا فیصلہ ہمارے مطابق کر دیجئے ، آپ نے انکار کر دیا اور اسی پر یہ آیتیں اتریں ۔ اس کے بعد جناب باری تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو اللہ کے حکم سے ہٹ جائیں ، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں دور ہیں ۔ ایسے پاک حکم سے ہٹ کر رائے قیاس کی طرف ، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے جو لوگوں نے از خود اپنی طرف سے بغیر دلیل شرعی کے گھڑ لئے ہیں جیسے کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے اور اپنی مرضی کے مطابق حکم احکام جاری کر لیا کرتے تھے اور جیسے کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے احکام کی پیروی کرتے تھے جو الیاسق نے گھڑ دیئے تھے ۔ وہ بہت سے احکام کے مجموعے اور دفاتر تھے جو مختلف شریعتوں اور مذہبوں سے چھانٹے گئے تھے ۔ یہودیت ، نصرانیت ، اسلامیت وغیرہ سب کے احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے احکام وہ بھی تھے ، جو صرف اپنی عقلی اور مصلحت وقت کے پیش نظر ایجاد کئے گئے تھے ، جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی ۔ پس وہی مجموعے ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہر گئے اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دے لی ۔ درحقیقت ایسا کرنے والے کافر ہیں اور ان سے جہاد واجب ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف آ جائیں اور کسی چھوٹے یا بڑے اہم یا غیر اہم معاملہ میں سوائے کتاب و سنت کے کوئی حکم کسی کا نہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جاہلیت کے احکام کا ارادہ کرتے ہیں اور حکم رب سے سرک رہے ہیں؟ یقین والوں کیلئے اللہ سے بہتر حکمران اور کار فرما کون ہوگا ؟ اللہ سے زیادہ عدل و انصاف والے احکام کس کے ہوں گے؟ ایماندار اور یقین کامل والے بخوبی جانتے اور مانتے ہیں کہ اس احکم الحاکمین اور الرحم الراحمین سے زیادہ اچھے ، صاف ، سہل اور عمدہ احکام و قواعد مسائل و ضوابط کسی کے بھی نہیں ہو سکتے ۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، وہ پورے اور پختہ علم والا کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کے فیصلے کے بغیر جو فتویٰ دے اس کا فتویٰ جاہلیت کا حکم ہے ۔ ایک شخص نے حضرت طاؤس سے پوچھا کیا میں اپنی اولاد میں سے ایک کو زیادہ اور ایک کو کم دے سکتا ہوں؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے بڑا اللہ کا دشمن وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اور حیلہ تلاش کرے اور بےوجہ کسی کی گردن مارنے کے درپے ہو جائے ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی قدرے الفاظ کی زیادتی کے ساتھ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 ہر آسمانی کتاب اپنے سے ما قبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِنْ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف اور تغیر (یعنی کاٹ چھانٹ اور تبدیلی) بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔ 48۔ 2 اس سے پہلے آیت نمبر 42 میں نبی کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے، کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ 48۔ 3 یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کی خود ساختہ مزعومات و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ 48۔ 4 اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی اور دوسرے میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لئے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے " نحن معاشر الانبیاء اخوۃ لعلات، دیننا واحد " ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے " علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ 48۔ 5 یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے۔ لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] قرآن سابقہ کتب پر مہیمن کیسے ؟ مھیمن کے معنی ہیں محافظ اور نگران۔ حفاظت اور نگرانی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مھیمن سے مراد ایسی حفاظت اور نگرانی ہے جیسے ایک مرغی اپنے سب بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیتی ہے تاکہ کوئی پرندہ جیسے چیل وغیرہ ان پر حملہ آور نہ ہو سکے یا وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچا سکے۔ یہاں قرآن کو باقی سب کتب سماوی پر مھیمن کہنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں پہلے کی تمام کتب سماویہ کے مضامین آگئے ہیں۔ نیز قرآن ان سب کتابوں کے لیے ایک کسوٹی کے معیار کا کام دیتا ہے وہ اس طرح کہ :- ١۔ انجیل و تورات میں جو مضمون قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا اللہ ہی کا کلام ہوگا۔- ٢۔ اور جو مضمون قرآن کے خلاف ہوگا وہ ہرگز اللہ کا کلام نہیں ہوسکتا۔ وہ یقینا لوگوں کا کلام ہے۔ جو کتاب اللہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جیسے موجودہ اناجیل میں عقیدہ تثلیث اور الوہیت مسیح اور کفارہ مسیح کے عقائد پائے جاتے ہیں اور بائیبل میں انبیاء کی توہین کے علاوہ کئی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہوسکتے۔- ٣۔ اور جو مضمون قرآن کے نہ مطابق ہو نہ مخالف اس کے متعلق مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ اس کی تصدیق کریں اور نہ تکذیب۔ - [٨٨] شریعتوں کا فرق :۔ یعنی سب انبیاء اور ان کی امتوں کا دین تو ایک تھا لیکن شریعتیں الگ الگ تھیں۔ دین سے مراد بنیادی عقائد و نظریات ہیں مثلاً صرف اللہ کو ہی خالق ومالک اور رازق سمجھنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا اور صرف اسی اکیلے کی عبادت کرنا۔ اللہ اور اس کے رسولوں کی پوری طرح اطاعت کرنا اور آخرت کے دن پر اور اپنے کیے کی جزا و سزا بھگتنے پر ایمان لانا وغیرہ اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اس دور کے تقاضوں کے مطابق دیئے جاتے رہے۔ مثلاً تمام امتوں کو نماز، زکوٰۃ اور روزہ کا حکم تھا۔ مگر نمازوں کی تعداد اور ترکیب نماز میں فرق تھا اسی طرح نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ میں بھی فرق تھا اور روزوں کی تعداد میں بھی۔ یا مثلاً آدم کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا اور یہ ایک اضطراری امر تھا۔ بعد میں حرام ہوگیا جب اس کی ضرورت نہ رہی۔ امت مسلمہ سے پہلے بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی جیسا کہ سیدنا سلیمان کی سو بیویاں تھیں وغیرہ وغیرہ اور ایسے مسائل بیشمار ہیں اور زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتے ہیں۔- [٨٩] عقل صحیح کا تقاضا اور دنیا میں امتحان :۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے قوت تمیز، قوت ارادہ اور قوت اختیار دی ہی اس لیے ہے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انسانوں میں سے کون اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے اور کون اس سے انحراف کرتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو جاندار ہونے کے باوجود ان قوتوں سے نہ نوازتا تو انسان بھی اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت پر اسی طرح مجبور و پابند ہوتا جس طرح کائنات کی دوسری اشیاء احکام الٰہی کے سامنے مجبور اور اس کی پابند ہیں۔ اس طرح کسی امت میں کبھی بھی کوئی اختلاف واقع نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح تخلیق انسان، اسے دنیا میں بھیجنے اور دنیا کو دارالعمل اور دار الابتلاء بنانے کا مقصد پورا نہ ہوسکتا تھا لہذا اب انسان کا اصل کام یہ نہیں کہ ان قوتوں کا غلط استعمال کر کے اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر احکام الٰہی سے انحراف کرے اور کتاب اللہ کی آیات کے مفہوم و معانی میں تاویل کر کے امت میں اختلاف کی راہ کھول دے اور اپنی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے فرقہ بندیوں کی بنیاد رکھ دے بلکہ اس کا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ اس آزادی رائے، ارادہ اور اختیار کو احکام الٰہی کے تابع رکھتے ہوئے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔- [٩٠] یعنی فرقہ پرستوں کے اختلافات ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور باہمی ضد کی وجہ سے اس دنیا میں ختم نہیں ہوسکتے۔ ان کا آخری فیصلہ نہ مجالس مناظرہ میں ہوسکتا ہے اور نہ میدان جنگ میں۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن کر دے گا اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں انہوں نے اپنی عمریں ضائع کردی تھیں ان میں حق کا پہلو کتنا تھا اور باطل کا کتنا ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ ۔۔ : اوپر کی آیات میں تورات اور انجیل کے اوصاف بیان کیے اور اہل کتاب کو ان پر عامل نہ ہونے کی وجہ سے کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا۔ اب اس آیت میں قرآن کی توصیف بیان کی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ قرآن کے مطابق فیصلے کرو۔” مُهَيْمِنًا “ کے معنی محافظ، نگہبان اور شاہد کے آتے ہیں۔ قرآن پاک سابقہ کتابوں کا محافظ ہے، یعنی ہدایت کے جو علوم، معانی اور مضامین پہلی کتابوں میں تھے وہ سب کمال امانت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور یہود کی تحریفات اور غلط تاویلات کو بیان کرتا ہے۔ یہ معنی بھی ہیں کہ تورات اور انجیل کے ہر حکم کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا، صحیح اترنے کی صورت میں قبول کرلیا جائے گا ورنہ رد کردیا جائے گا۔ - وَمُهَيْمِنًا۔۔ : اس سے پہلے آیت (٤٢) میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں آپ کی مرضی ہے، لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ - لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭ: اس کے مخاطب یہود و نصاریٰ اور مسلمان ہیں، یعنی گو تمام انبیاء کا دین ایک ہے مگر اپنے اپنے وقت میں ہر امت کی شریعت (احکام فرعیہ) اور طریقے مختلف رہے ہیں، ہر بعد میں آنے والے نبی کی شریعت میں پہلی شریعت سے مختلف احکام پائے جاتے ہیں، اب نبی آخر الزماں کی شریعت ہر لحاظ سے مکمل اور قیامت تک کے لیے ہے۔ ایک حدیث میں ہے : ” انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ : ( واذکر فی الکتاب مریم۔۔ ) : ٣٤٤٣ ] یعنی سب کا دین اور اصول تو ایک ہیں، اختلاف جو کچھ بھی ہے وہ صرف فروعی احکام کی حد تک ہے۔ اب آخری نبی کے بعد نہ کسی پہلے نبی کے احکام و مسائل پر عمل ہوگا اور نہ اس امت کے کسی امام و مجتہد کے قول، رائے اور فتویٰ پر۔ - وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ : یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو جبراً ایک ہی امت بنا دیتا مگر یہ اختلاف اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے کہ تم اس عقل اور ان اختیارات کو کیسے استعمال کرتے ہو جو اس نے تمہیں دیے ہیں، تاکہ اس پر جزا و سزا ہو سکے۔ - فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ: یعنی خواہ مخواہ کی کج بحثیوں کو چھوڑ کر ان نیکیوں کو اختیار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھو جن کا اب تمہیں آخری شریعت میں حکم دیا جا رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قرآن تورات و انجیل کا بھی محافظ ہے - پانچویں اور چھٹی آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں تورات و انجیل کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اور ان کا محافظ بھی ہے، کیونکہ جب اہل تورات نے تورات میں اور اہل انجیل نے انجیل میں تحریف اور تغیر و تبدل کیا تو قرآن ہی وہ محافظ و نگران ثابت ہوا جس نے ان کی تحریفات کا پردہ چاک کرکے حق اور حقیقت کو روشن کردیا اور تورات و انجیل کی اصلی تعلیمات آج بھی قرآن ہی کے ذریعہ دنیا میں باقی ہیں جبکہ ان کتابوں کے وارثوں اور ان کی پیروی کے مدعیوں نے ان کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا ہے، کہ حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہوگیا جو اہل تورات اور اہل انجیل کو دیا گیا تھا کہ آپ کے احکام اور فیصلے سب اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اور یہ لوگ جو آپ سے اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہیں، ان کے مکر سے باخبر رہیں۔ اس ارشاد کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ یہود کے چند علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم یہود کے علماء اور پیشوا ہیں، اگر ہم مسلمان ہوگئے تو وہ بھی سب مسلمان ہوجائیں گے۔ حق تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے کے پیش نظر عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف فیصلہ ہرگز نہ دیں۔ اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ یہ مسلمان ہوں گے یا نہیں۔- شرائع انبیاء میں جزوی اختلاف اور اس کی حکمت - اس آیت میں دوسری ہدایت کے ساتھ ایک اہم اصولی سوال کا جواب بھی بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اور ان پر نازل ہونے والی کتابیں اور صحیفے اور ان کی شریعتیں سب اللہ جل شانہ کی ہی طرف سے ہیں، تو پھر ان کی کتابوں اور شریعتوں میں اختلاف کیوں ہے ؟ اور آنے والی شریعت و کتاب پچھلی شریعت و کتاب کو منسوخ کیوں کرتی ہے، اس کا جواب مع حکمت خدا وندی کے اس آیت میں بیان کیا گیا : لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ، یعنی ہم نے تم میں سے ہر طبقہ کے لئے ایک خاص شریعت اور خاص طریق عمل بنایا ہے، جس میں اصول مشترک اور متفق علیہ ہونے کے باوجود فروعی احکام میں کچھ اختلافات بمصلحت ہوتے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ تم سب کو ایک ہی امت ایک ہی ملت بنا دیتا، سب کی ایک ہی کتاب ایک ہی شریعت ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اس لئے پسند نہیں کیا کہ لوگوں کی آزمائش مقصود تھی کہ کون لوگ ہیں جو عبادت کی حقیقت سے واقف ہو کر ہر وقت گوش برآواز رہتے ہیں کہ جو حکم ملے اس کی تعمیل کریں، جو نئی کتاب یا شریعت آئے اس کا اتباع کریں، اور پہلی شریعت و کتاب ان کو کتنی محبوب ہو، اور آبائی مذہب ہوجانے کے سبب اس کا ترک کرنا ان پر کتنا ہی شاق ہو، مگر وہ ہر وقت گوش برآواز اطاعت کے لئے تیار رہتے ہیں، اور کون ہیں جو اس حقیقت سے غافل ہو کر کسی خاص شریعت یا کتاب کو مقصد بنا بیٹھے اور اس کو ایک آبائی مذہب کی حیثیت سے لئے ہوئے ہیں اس کے خلاف کسی حکم خداوندی پر کان نہیں دھرتے۔- اختلاف شرائع میں یہ ایک بڑی حکمت ہے جس کے ذریعہ ہر زمانے ہر طبقہ کے لوگوں کو صحیح عبادت و عبودیت کی حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ درحقیقت عبادت نام ہے بندگی اور اطاعت و پیروی کا جو نماز، روزہ، حج، زکوٰة یا ذکر و تلاوت میں منحصر نہیں اور نہ یہ چیزیں اپنی ذات میں مقاصد ہیں، بلکہ ان سب کا مقصد صرف ایک حکم الٓہی کی اطاعت ہے، یہی وجہ ہے کہ جن اوقات میں نماز کی ممانعت فرمائی گئی ہے، ان میں نماز کوئی کار ثواب نہیں بلکہ الٹا گناہ کا موجب ہے۔ ایام عیدین وغیرہ جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے تو اس وقت روزہ رکھنا گناہ ہے۔ نویں ذی الحجہ کے علاوہ کسی دن کسی مہینہ میں میدان عرفات میں جمع ہو کر دعا و عبادت کرنا کار ثواب نہیں جبکہ نویں ذی الحجہ میں سب سے بڑی عبادت یہی ہے اسی طرح تمام دوسری عبادات کا حال ہے۔ جب تک ان کے کرنے کا حکم ہے تو وہ عبادات ہیں اور جب اور جس حد پر ان کو روک دیا جائے تو وہ بھی حرام و ناجائز ہوجاتی ہیں۔ جاہل عوام اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، جو عبادات ان کی عادات بن جاتی ہیں بلکہ جن قومی رسوم کو وہ عبادات سمجھ کر اختیار کرلیتے ہیں، صریح احکام خدا اور رسول کو بھی ان کے پیچھے نظر انداز کردیتے ہیں یہیں سے بدعات و محدثات دین کا جزو بن جاتی ہیں، جو پچھلی شریعتوں اور کتابوں کی تحریف کا سبب ہوئی ہیں، اللہ جل شانہ نے مختلف پیغمبروں پر مختلف کتابیں اور شریعتیں نازل فرما کر انسانوں کو یہی سکھایا ہے کہ کسی ایک عمل یا ایک قسم عبادت کو مقصود نہ بنالیں۔ بلکہ صحیح معنی میں اللہ کے فرمانبردار بندے بنیں، اور جس وقت پچھلے عمل کو چھوڑ دینے کا حکم ہو فوراً چھوڑ دیں، اور جن عمل کے کرنے کا ارشاد ہو فوراً اس پر عمل پیرا ہوں۔- اس کے علاوہ اختلاف شرائع کی ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر دور اور ہر طبقہ کے انسانوں کے مزاج و طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ زمانہ کا اختلاف طبیعت انسانی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، اگر سب کے لئے فروعی احکام ایک ہی کردیئے جائیں تو انسان بڑی مشکل میں مبتلا ہوجائے، اس لئے حکمت الہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ ہر زمانہ اور ہر مزاج کے جذبات کی رعایت رکھ کر فروعی احکام میں مناسب تبدیلی کی جائے۔ یہاں ناسخ و منسوخ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حکم دینے والے کو پہلے حالات معلوم نہ تھے تو ایک حکم دیدیا۔ پھر نئے حالات سامنے آئے تو اس کو منسوخ کردیا، یا پہلے غفلت و غلطی سے کوئی حکم صادر کردیا تھا، پھر متنبہ ہوا تو بدل دیا، بلکہ شرائع میں ناسخ و منسوخ کی مثال بالکل ایک حکیم یا ڈاکٹر کے نسخہ کی مثال ہے کہ جس میں دوائیں تدریجاً بدل جاتی ہیں کہ حکیم ڈاکٹر کو پہلے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تین روز اس دوا کا استعمال کرنے کے بعد مریض پر یہ کیفیات طاری ہوجائیں گی اس وقت فلاں دوا دی جائے گی، جب وہ پچھلا نسخہ منسوخ کرکے دوسرا دیتا ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہوتا کہ پچھلا نسخہ غلط تھا اس لئے منسوخ کیا گیا، بلکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے ایام میں وہی نسخہ صحیح اور ضروری تھا، اور بعد کے حالات میں یہی دوسرا نسخہ صحیح اور ضروری ہے۔- آیات مذکورہ میں آئے ہوئے صریح اور ضمنی احکام کا خلاصہ - اول ابتدائی آیات سے معلوم ہوا کہ یہود کا مقدمہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ فرمایا تو یہ فیصلہ شریعت تورات کے مطابق تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پچھلی شریعتوں میں جو احکام الہیہ نافذ تھے جب تک قرآن یا وحی الٓہی نے ان کو منسوخ نہ کیا ہو، وہ بدستور باقی رہتے ہیں، جیسا کہ یہود کے مقدمات میں قصاص کی مساوات اور سزائے زنا میں سنگساری کا حکم تورات میں بھی تھا، پھر قرآن نے بھی اس کو بعینہ باقی رکھا۔- اسی طرح دوسری آیت میں زخموں کے قصاص کا حکم جو بحوالہ تورات بیان کیا گیا ہے اسلام میں بھی یہی حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاری فرمایا۔ اسی بنا پر جمہور علماء اسلام کے نزدیک ضابطہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتوں کے وہ احکام جن کو قرآن نے منسوخ نہ کیا ہو وہ ہماری شریعت میں بھی نافذ اور واجب الاتباع ہیں، یہی وجہ ہے کہ آیات مذکورہ میں اہل تورات کو تورات کے مطابق اور اہل انجیل کو انجیل کے مطابق حکم دینے اور عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں کتابیں اور ان کی شریعتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تورات و انجیل کے جو احکام قرآن نے منسوخ نہیں کئے وہ آج بھی واجب الاتباع ہیں۔- تیسرا حکم ان آیات میں یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے خلاف حکم دینا بعض صورتوں میں کفر ہے جبکہ اعتقاد میں بھی اس کو حق نہ جانتا ہو، اور بعض صورتوں میں ظلم و فسق ہے، جبکہ عقیدہ کی رو سے تو ان احکام کو حق مانتا ہے، مگر عملاً اس کے خلاف کرتا ہے۔- چوتھا حکم ان آیات میں یہ آیا ہے کہ رشوت لینا مطلقاً حرام ہے۔ اور خصوصاً عدالتی فیصلہ پر رشوت لینا اور بھی زیادہ اشد ہے۔- پانچواں حکم ان آیات سے یہ واضح ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی شریعتیں اصول میں تو بالکل متفق اور متحد ہیں، مگر جزوی اور فروعی احکام ان میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُہَيْمِنًا عَلَيْہِ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۝ ٠ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۝ ٠ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝ ٠ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝ ٤٨ۙ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ( مهيمن)- ، اسم فاعل من (هيمن) الرباعيّ ، وزنه مفعلل بضمّ المیم وکسر اللام الأولی، وقال أبو البقاء العکبريّ. «وأصل مهيمن مؤيمن لأنه مشتقّ من الأمانة، لأن المهيمن الشاهد ولیس في الکلام همن حتّى تکون الهاء أصلا .- مھیمنا۔ مھیمنا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب۔ بمعنی نگران۔ مشاہد ھیمنۃ مصدر۔ نگرانی کرنا۔ حفاظت کرنا۔ ھمن۔ مادہ۔ المہیمن۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔ نگران۔ حفاظت کرنے والا۔ مخلوق کے اعمال و ارزاق و آجال کا کفیل و ذمہ دار۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- شرع - الشَّرْعُ : نهج الطّريق الواضح . يقال : شَرَعْتُ له طریقا، والشَّرْعُ : مصدر، ثم جعل اسما للطریق النّهج فقیل له : شِرْعٌ ، وشَرْعٌ ، وشَرِيعَةٌ ، واستعیر ذلک للطریقة الإلهيّة . قال تعالی:- لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ، - فذلک إشارة إلى أمرین :- أحدهما : ما سخّر اللہ تعالیٰ عليه كلّ إنسان من طریق يتحرّاه ممّا يعود إلى مصالح العباد وعمارة البلاد، وذلک المشار إليه بقوله : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] .- الثاني : ما قيّض له من الدّين وأمره به ليتحرّاه اختیارا ممّا تختلف فيه الشّرائع، ويعترضه النّسخ، ودلّ عليه قوله : ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] . قال ابن عباس : الشِّرْعَةُ : ما ورد به القرآن، والمنهاج ما ورد به السّنّة وقوله تعالی: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] ، فإشارة إلى الأصول التي تتساوی فيها الملل، فلا يصحّ عليها النّسخ کمعرفة اللہ تعالی: ونحو ذلک من نحو ما دلّ عليه قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] . قال بعضهم : سمّيت الشَّرِيعَةُ شَرِيعَةً تشبيها بشریعة الماء من حيث إنّ من شرع فيها علی الحقیقة المصدوقة روي وتطهّر، قال : وأعني بالرّيّ ما قال بعض الحکماء : كنت أشرب فلا أروی، فلمّا عرفت اللہ تعالیٰ رویت بلا شرب .- وبالتّطهّر ما قال تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، وقوله تعالی: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً- [ الأعراف 163] ، جمع شارع . وشَارِعَةُ الطّريق جمعها : شَوَارِعُ ، وأَشْرَعْتُ الرّمح قبله، وقیل : شَرَعْتُهُ فهو مَشْرُوعٌ ، وشَرَعْتُ السّفينة : جعلت لها شراعا ينقذها، وهم في هذا الأمر شَرْعٌ ، أي : سواء .- أي : يَشْرَعُونَ فيه شروعا واحدا . و ( شرعک) من رجل زيد، کقولک : حسبک . أي : هو الذي تشرع في أمره، أو تشرع به في أمرك، والشِّرْعُ خصّ بما يشرع من الأوتار علی العود .- ( ش ر ع ) الشرع سیدھا راستہ جو واضح ہو یہ اصل میں شرعت لہ طریقا ( واضح راستہ مقرر کرنا ) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے ۔ پھر استعارہ کے طور پر طریق الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چناچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے ۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر قائم ) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباس (علیہ السلام) کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھا وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الہی اور وہ امور جن کا بیان آیت . وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے ۔ میں پایا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ شریعۃ الماء سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی کے گھاٹ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے سیرابی اور طہارت حاصل ہوجاتی ہے ۔ سیرابی سے مراد معرفت الہی کا حصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیرنہ ہوا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت ؛ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اے پیغمبر کے اہل خانہ خدا چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے ۔ اور شارعۃ الطریق کی جمع شوارع آتی ہے جس کے معنی کھلی سڑک کے ہیں ۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں ۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں ۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرویا اسکے ساتھ مک کر اپنا کام شروع کرو ۔ الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے - نهج - النَّهْجُ : الطریقُ الوَاضِحُ ، ونَهَجَ الأمْرُ وأَنْهَجَ : وَضَحَ ، ومَنْهَجُ الطَّرِيقِ ومِنْهَاجُهُ. قال تعالی:- لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ومنه قولهم : نَهَجَ الثَّوْبُ وأَنْهَجَ : بَانَ فِيهِ أَثَرُ البِلَى، وقد أَنْهَجَهُ البِلَى. ( ن ھ ج ) النھج کے معنی کھلے راستہ کے ہیں ۔ اور نھج الامر وانھج کے معنی ہیں کسی امر کا واضح ہونا ۔ المنھج والمنھاج کشادہ راہ ۔ قرآن پاک میں ہے : لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ہم نے تم میں سے ہر ایک فرقے کے لئے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔ اور اسی سے نھج الثوب انھج ۔ ہے جس کے معنی کپڑے میں بوسیدگی کے آثار ظاہر ہونے کے ہیں ۔ انھجہ البلی ٰ ۔ کپڑے کو بوسیدگی نے جھرجھرا کردیا ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الویب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا ً نما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا ً علیہ پھر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ نگہبان ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ مہیمن کے معنی امین کے ہیں ۔ ایک قول ہے کہ یہ گواہ کے معنی میں ہے۔ ایک اور قول کے مطابق محافظ اور نگہبان کے معنوں میں ہے ، نیز یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی موتمن کے ہیں یعنی جس پر بھروسہ کیا جائے۔ اس کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ یہ کتاب سابقہ کتب آسمانی کی باتیں ہم تک نقل کرنے میں پوری طرح امین ہیں ۔ یعنی ان کتابوں میں اللہ نے جو کچھ نازل کیا تھا یہ کتاب بلا کم و کاست اور بلا کسی تحریف و تبدیل نیز بلا کسی حد و اضافہ کے وہ باتیں ہم تک نقل کرتی ہے ۔ اس لیے کہ جو کسی چیز کا امین ہوتا ہے اس کے متعلق اس کا قول کی تصدیق کی جاتی ہے۔ شاہد یعنی گواہ کا بھی یہی مفہوم ہے۔ اس میں اس امر کی دلیل موجود ہے کہ جس شخص کو کسی چیز کا امین بنایا گیا ہو مثلاً اس کے پاس کوئی چیز ودیعت رکھی گئی ہو یا اسے رعایت کے طور پر دی گئی ہو یا مضاربت وغیرہ کی کوئی صورت ہو تو اس کے بارے میں اس کا قول قابل قبول نہ ہوگا ۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق کے وجوب کی خبر دی جو قرآن نے کتب سابقہ سے نقل کی ہیں تو اس بنا پر قرآن کو ان کتابوں کے امین کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جس شخص کو کسی چیز کا امین بنایا گیا ہو اس کے بارے میں اس کا قول قابل قبول ہوگا ، چناچہ ارشاد باری ہے فان امن بعضکم بعضا ً فلیود الذی ائتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہے کہ امانت ادا کر دے اور اللہ اپنے رب سے ڈرے۔ نیز فرمایا ولا یبخس منہ شیئا ً اور اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ اسے امین قرار دیا تو اس کمی بیشی نہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ لفظ مہبمین کے مدلول کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ اس طرح آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کتب سابقہ کا مہیمن یعنی محافظ و نگہبان اور ان کے منزل من اللہ ہونے پر گواہ ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے۔ قول باری ہے فاحکم بینھم بما انزل اللہ ۔ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطا بق فیصلہ کرو یہ آیت تخییر کے نسخ پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔- قول باری ہے ولا تتبع اھواء ھم اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۔ یہ آیت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر اہل کتاب سے حلف اٹھوانے کی ضرورت پیش آئے تو اس مقصد کے لیے انہیں ان کی عبادت گاہوں یعنی گرجوں وغیرہ میں لے جا کر یہ کام کیا جائے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح اس غلط جگہ کا تعظیم کا پہلو پیدا ہوگا جو ان کی خواہشات کے عین مطابق ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہشات کی پیروی سے روک دیا ہے۔ اس طرح آیت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے دین کی طرف لوٹا دیا جائے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ان کی خواہشات کی پیروی کا پہلو پیدا ہوگا نیز ان کے من گھڑت احکام کو ایک گونہ حیثیت مل جائے گی ۔ ایک اور دوجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ان کے اہل دین کی طرف لوٹا دیا جائے گا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ ان کے متعلق اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو صریحا ً اللہ کے انکار پر مبنی ہے اس لیے کہ جس شرعی قانون کے مطابق وہ فیصلہ کریں گے وہ اگرچہ تورات اور انجیل کے مطابق کیوں نہ ہو، پھر بھی اس سے اللہ کا انکار لازم آئے گا اس لیے کہ یہ لوگ اس قانون کو ترک کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے اتباع کے من جانب اللہ پابند ہیں۔ قول باری ہے لکل جعلنا منکم شرعۃ ً ومنھا جا تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور راہ عمل مقرر کی شرعہ اور شریعت دونوں ہم معنی الفاظ ہیں جن کے معنی اور گھاٹ کی طرف جانے والے راستے کے ہیں جس پر زندگی کا انحصا رہے۔ اسی مناسبت سے ان امور کو شرعہ اور شریعت کا نام دیا گیا جن کے ذریعے سمعی جہت سے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ یہ امور اپنے طاعلین کو ابدی نعمتوں والی حیات سر مدی تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ قول باری منھاجا ً کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد ، قتادہ اور ضحا کا قول ہے کہ اس سے مراد سنت اور راستہ ہے ۔ اگر راستہ واضح ہو تو کہا جاتا ہے طریق نھج ۔ مجاہد کا قول ہے کہ قول باری شرعۃ سے قرآن مراد ہے اس لیے کہ یہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت ہے۔ قتادہ اور دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد تورات اور انجیل کی شریعتیں ہیں نیز شریعت سے قرآن بھی مراد ہے۔ اس سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو ہم پر ما قبل کی شریعتوں کے لزوم کی نفی کرتے ہیں خواہ ان کا نسخ ثابت نہ بھی ہوا ہو ۔ اس لیے کہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کے ساتھ ایک شریعت اور منہاج بھیجا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں ان لوگوں کے قول پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جو شریعت تھی وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک منسوخ نہیں ہوئی تو اس کے بعد اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت بن گئی جبکہ آپ کی بعث سے پہلے یہ کسی اور نبی یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت تھی ۔ اس لیے شریعتوں کے احکام کے اختلاف پر اس آیت میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ نیز کوئی شخص اس بات کے جواز میں اختلاف نہیں کرے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اس طریقے اور شریعت کے تحت پیروی کی جائے جس میں گزشتہ انبیاء کی شریعتوں کے ساتھ مطابقت پائی جاتی ہو اس لیے قول جاری لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا ً اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کی بہت سے امور میں انبیائے سابقین کی لائی ہوئی شریعتوں کے ساتھ مطابقت پیدا ہوجائے۔ جب اس بات اس طرح ہے تو زیر بحث قول باری ہے وہ امور مراد ہوں گے جو انبیائے سابقین کی لائی ہوئی شریعتوں کے جز تھے لیکن ا ب منسوخ ہوچکے ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان امور میں ان شریعتوں کے پیروکار نہیں رہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ تم میں سے ہر امت کے لیے ایک شریعت ہے جو دوسری امت کی شریعت سے مختلف ہے۔- قول باری ہے ولو شاء اللہ بجعلکم امۃ واحدۃ ً اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا حسن کا قتال ہے تم سب کو حق پر قائم کردیتا یعنی تمام لوگوں کو حق بات کہنے پر مجبور کردینا مشیت ایزدی کے عین مطابق تھا لیکن اگر ایسا ہوجاتا تو پھر لوگ ثواب کے مستحق نہ ہوتے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے ولو شئنا لاتینا کل نفس ھداھا اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت عطا کردیتے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ابنیاء کی دعوت کے ذریعے ایک ہی شریعت پر اکٹھا کردیتا ۔ قول باری فاستبقوا الخیرات پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کی بندگی کے طور پر ہمارے لیے مقرر کی گئی ہیں تا کہ موت کی وجہ سے یہ نیکیاں ہم سے رہ نہ جائیں ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ واجبات یعنی فرائض کی تقدیم انہیں موخر کرنے سے افضل ہے مثلاً رمضان کے روزوں کی ادائیگی ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور اسی طرح دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی اس لیے کہ ان تمام امور کا شمار خیرات یعنی نیکیوں میں ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ نماز کی اول وقت میں ادائیگی اسے تاخیر کر کے ادا کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ یہ اول وقت میں ادا کی جانے والی نیکیوں میں شامل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نماز اول وقت میں ادا کی جانے والی نیکیوں میں شامل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نماز اول وقت میں ادا کی جانے والی نیکیوں میں سے نہیں ہیے آیت وجوب کی مقتضی ہے اس لیے اس کا اطلاق ان صورتوں پر ہوگا جو واجب اور لازم ہوچکی ہوں ۔ اس میں یہ دلیل بھی موجود کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے ا س لیے کہ روزہ رکھنا خیرات یعنی نیکیوں میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨) اب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن حکیم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا جو حق اور باطل کو بیان کرنے والا اور سابقہ کتب میں جو توحید اور دیگر مضامین ہیں ان کی تصدیق کرنے والا اور تمام کتابوں کی یا آیت رجم کی گواہی دینے والا یا تمام سابقہ کتب کا محافظ ہے۔- لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے، اس کے مطابق بنی قریضہ اور بنی نضیر اور خیبر والوں کے درمیان فیصلہ فرمائیے اور اس حکم کے بعد کوڑے لگانے اور سنگسار نہ کر نہ کرنے میں ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجیے، ہم نے ہر ایک نبی کے لیے خاص شریعت اور خاص فرائض وسنن تجویز کیے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کے لیے ایک ہی شریعت مقرر کردیتا، مگر حکمت کے سبب اس نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ تمہیں جو کتاب طریقت اور فرائض دیے ہیں، اس میں تمہاری آزمایش کریں اور اللہ تعالیٰ ہی نے تم پر یہ تمام چیزیں فرض کی ہیں، لہٰذا تمہارے دلوں میں کسی قسم کا کوئی شک نہ ہونا چاہیے تو اے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرائض وسنن اور تمام نیکیوں کی بجا آوری میں تم اور امتوں سے سبقت لے جاؤ۔- یا یہ کہ نیکیوں کی طرف دوڑو، تمام امتوں کو اس کے دربار میں پیش ہونا ہے، دین اور شریعتوں میں جو تم اختلاف کرتے تھے وہ سب تمہیں وہاں بتلا دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ ) (مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہ) - یہ کتاب تورات اور انجیل کی مصداق بھی ہے اور مصدق بھیّ ۔ اور اس کی حیثیت کسوٹی کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہوگئی تھیں اب ان کی تصحیح اس کے ذریعے سے ہوگی۔ ِ - (فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَل اللّٰہُ ) (وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط) ( لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ط) - جہاں تک شریعت کا تعلق ہے سب کو معلوم ہے کہ شریعت موسوی ( علیہ السلام) شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف تھی۔ مزید برآں رسولوں کے منہاج (طریق کار) میں بھی فرق تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے منہاج میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) ایک مسلمان امت (بنی اسرائیل) کے لیے بھیجے گئے تھے۔ وہ امت جو کہ دبی ہوئی تھی ‘ پسی ہوئی تھی ‘ غلام تھی۔ اس میں اخلاقی خرابیاں بھی تھیں ‘ دینی اعتبار سے ضعف بھی تھا ‘ وہ آل فرعون کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنی ہوئی تھی۔ چناچہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مقصد بعثت میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک بگڑی ہوئی مسلمان امت کو کافروں کے تسلط اور غلبے سے نجات دلائیں۔ اس کا ایک خاص طریقہ کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بتایا گیا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی ایک مسلمان امت کے لیے مبعوث کیے گئے ‘ یعنی یہودیوں ہی کی طرف۔ اس قوم میں نظریاتی فتور آچکا تھا ‘ ان کے معاشرے میں اخلاقی و روحانی گراوٹ انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ان کے علماء کی توجہ بھی دین کے صرف ظاہری احکام اور قانونی پہلوؤں پر رہ گئی تھی اور وہ اصل مقاصد دین کو بھول چکے تھے۔ دین کی اصل روح نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ اس سارے بگاڑ کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص منہج ‘ ایک خاص طریقہ کار عطا فرمایا۔ محمد رٌسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں میں مبعوث کیا گیا جو مشرک تھے ‘ اَن پڑھ تھے ‘ کسی نبی کے نام سے ناواقف تھے سوائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے۔ ان کا احترام بھی وہ اپنے جد امجدّ کے طور پر کرتے تھے ‘ ایک نبی کے طور پر نہیں۔ کوئی شریعت ان میں موجود نہیں تھی ‘ کوئی کتاب ان کے پاس نہیں تھی۔ گویا ضَلَّ ضَلَالاً بَعِیْدًاکی مجسّم تصویر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعے ان میں سے صحابہ کرام (رض) کی ایک عظیم جماعت پیدا کی ‘ انہیں حزب اللہ بنایا ‘ اور پھر اس جماعت کو ساتھ لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفر ‘ شرک اور ائمہ کفر کے خلاف جہاد و قتال کیا ‘ اور بالآخر اللہ کے دین کو اس معاشرے میں قائم کردیا۔ یہ منہاج ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ تو یہ مفہوم ہے اس آیت کا (لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ط) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج (طریقہ کار ‘ منہج عمل) مقرر کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت بہت اہم ہے۔- (وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ) (وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰٹکُمْ ) - یعنی اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوئی کہ جس کو جو جو کچھ دیا گیا ہے اس کے حوالے سے اس کو آزمائے۔ چناچہ اب ہمارے لیے اصل اسوہ نہ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور نہ ہی حضرت ‘ عیسیٰ ( علیہ السلام) ‘ بلکہ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (الاحزاب : ٢١) کے مصداق ہمارے لیے اسوہ ہے تو صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اگر شادی نہیں کی تو یہ ہمارے لیے اسوہ نہیں ہے۔ ہمیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو پیش نظر رکھنا ہے ‘ جنہوں نے فرمایا : (اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی ) (١) اور پھر فرمایا : (فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی ) (٢) ۔ تو واقعہ یہ ہے کہ تمام انبیاء اللہ ہی کی طرف سے مبعوث تھے ‘ اور ہر ایک کے لیے جو بھی طریقہ اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھاوہ ان کو عطا کیا ‘ البتہ ہمارے لیے قابل تقلید منہاج نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ اب ہم پر فرض ہے کہ اس منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گہرا شعور حاصل کریں ‘ پھر اس راستے پر اسی طرح چلیں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کو قائم کیا ‘ غالب کیا ‘ ایک نظام برپا کیا ‘ پھر اس نظام کے تحت اللہ کا قانون نافذ کیا ‘ اسی طرح ہم بھی اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :78 یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے ، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا ۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں ، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں ۔ ایک ہی ان کا مصنف ہے ، ایک ہی ان کا مدعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا ۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں ۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں ، مؤ ید ہیں ، تردید کرنے والی نہیں ، تصدیق کرنے والی ہیں ۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے ۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت ، نگرانی ، شہادت ، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں ۔ ھیمن الرجل الشئ ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی ۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ ، یعنی پرندے نے اپنے چوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو ۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اردو میں ہمیانی کہتے ہیں ، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے ۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں ، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے ۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا ۔ وہ ان کا مؤید ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے ، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :80 یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اوپر کے سلسلہ تقریر کو سنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں الجھن پیدا کر سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صورتوں میں ، حرام و حلال کی قیود میں اور قوانین تمدن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کتب آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے؟ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :81 یہ مذکورہ بالا سوال کا پورا جواب ہے ۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: ( ۱ ) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے ۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے ۔ ( ۲ ) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک امت بنا دیا جاتا ۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اس کے اندر دوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی روح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں ، اور دین میں ان ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں ، اور کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کرلیں گے ۔ ان کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہو گا ۔ بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں ، اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیے چڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیار کر لیا ہے وہ ہر اس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرائع میں اختلاف رکھا ۔ ( ۳ ) تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے ۔ لہٰذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہو ۔ ( ٤ ) جو اختلافات انسانوں نے اپنے جمود ، تعصب ، ہٹ دھرمی اور ذہن کی اپج سے خود پیدا کر لیے ہیں ان کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں ۔ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں ان کی تہ میں ” حق “ کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کی قدر ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :82 یہاں سے پھر وہی سلسلہ تقریر چل پڑتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: یہودی اور عیسائی آنحضرتﷺ کی دعوت کو قبول کرنے سے جو انکار کرتے تھے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عبادت کے طریقے اور بعض دوسرے احکام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی شریعت سے مختلف تھے، اور ان لوگوں کو ان نئے احکام پر عمل کرنا بھاری معلوم ہوتا تھا، اس آیت نے واضح فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت مختلف پیغمبروں کو الگ الگ شریعتیں عطا فرمائی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تو ہے ہی کہ ہر زمانے کے تقاضے الگ ہوتے ہیں، لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عبادت کا کوئی ایک طریقہ یا کوئی ایک قانون اپنی ذات میں کوئی تقدس نہیں رکھتا، اس میں جو کچھ تقدس پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا جس زمانے میں اﷲ تعالیٰ جو حکم دے دیں وہی اس زمانے میں تقدس کا حامل ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ ایک طریقے کے عادی ہوجاتے ہیں، وہ اسی کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ بیٹھتے ہیں، اور جب کوئی نیا پیغمبر نئی شریعت لے کر آتا ہے تو ان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پرانے طریقے کو ذاتی طو رپر مقدس سمجھ کر نئے طریقے کا انکار کر بیٹھتے ہیں یا اللہ کے حکم کو اصل تقدس کا حامل سمجھ کر نئے حکم کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں۔ آگے جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’لیکن (تمہیں الگ شریعتیں اس لئے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے‘‘ اس کا یہی مطلب ہے۔