Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 سَمَّاعُوْن کے معنی ہیں بہت سننے والا اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لئے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لئے سننا، بعض مفسرینن نے پہلے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے دوسرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٧] ان لوگوں کے خبث باطن کی دیگر وجوہات کے علاوہ دو وجوہ یہ بھی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کی اور آپ کی مجالس میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ یہاں سے جو کچھ سنیں اسے اپنے لفظوں میں ڈھال کر اور توڑ موڑ کر اس طرح پیش کریں جس سے انہیں مسلمانوں کو اور پیغمبر اسلام کو بدنام اور رسوا کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اور دوسری وجہ یہ کہ وہ حرام خور ہیں اور حرام خوری کے اثرات جو نفس انسانی پر مترتب ہوتے ہیں وہ اس قدر قبیح اور گندے ہوتے ہیں کہ ایسے شخص کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ دعا۔- [٧٨] گویا آپ کو یہ اختیار تو دے دیا گیا کہ چاہے تو یہودیوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کریں اور چاہے تو نہ کریں۔ لیکن اگر کرنا چاہو تو پھر انصاف کے ساتھ ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ خود ہی آپ کے سامنے لائے تھے۔ کچھ لوگ تو مقدمہ لانے والے تھے اور کچھ پیچھے بیٹھے ہدایات دینے والے تھے کہ اگر فیصلہ ایسے ہوا تو مان لینا ورنہ نہ ماننا۔ تاہم مسلم کی درج ذیل روایت میں اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کے پاس یہ مقدمہ کی صورت میں آیا تھا۔- خ زانی یہودی اور یہودن کا مقدمہ :۔ براء ص بن عازب کہتے ہیں کہ نبی اکرم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اکرم نے یہود کو بلایا اور ان سے پوچھا کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اسے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل کی تھی، بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتلاتا (بات یہ ہے کہ) ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے۔ پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ایسی سزا پر متفق ہوجائیں جسے شریف اور رذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کردیا۔ آپ نے فرمایا اے اللہ سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اس کو مردہ کردیا تھا۔ پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا اور وہ رجم کیا گیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ 41؀) 5 ۔ المآئدہ :41) یہودی کہا کرتے، محمد کے پاس چلو۔ اگر وہ تمہیں منہ کالا کر کے کوڑے مارنے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو بچو۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀) 5 ۔ المآئدہ :44) ۔۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنی )- اس حدیث میں یہود کے جس عالم کا ذکر ہے۔ بعض دوسری روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابن صوریا تھا۔ فدک کا رہنے والا تھا۔ اور اسے تورات کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اور تمام یہودیوں کے ہاں وہ قابل اعتبار و قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا جس نے صحیح صورت حال کو کھول کر بیان کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لیے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لیے سننا۔ یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں، جیسا کہ آیت (٤١) کے حاشیہ (٢) میں دونوں قسم کے گروہوں کا بیان ہوا ہے۔ - لِلسُّحْتِ ۭ: اس کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں، گویا حرام مال وہ چیز ہے جو انسان کی نیکیوں کو اکارت کردیتا ہے اور ہر اس خسیس مال پر ” سُحْتٌ“ کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں عار ہو اور خفیہ طور پر لیا جائے، اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت، کتے، شراب اور مردار کی قیمت کو ” سُحْتٌ“ کہا گیا ہے۔ سود، چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہوا مال بھی ” سُحْتٌ“ میں داخل ہے۔ (کبیر، قرطبی)- 3 جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی حیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی جس کے ساتھ صلح سے رہنے کا معاہدہ تھا اور وہ ذمی، یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے، اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیر مسلم معاہد قوم کے افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کا ہے۔ رہے ذمی لوگ سو اگر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدالت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگا۔ (المنار) یہی تفصیل امام شافعی (رض) سے منقول ہے، پس اس اختیار کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علماء کا خیال ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے، اب اگر وہ فیصلہ لائیں تو فیصلہ کرنا ہوگا۔ ان علماء میں عمر بن عبد العزیز اور امام نخعی ; شامل ہیں۔ نحاس نے بھی ناسخ و منسوخ میں یہی لکھا ہے کہ آیت : ( فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ) [ المائدۃ : ٤٨ ] سے یہ آیت منسوخ ہے، جس کے معنی ہیں کہ آپ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ امام شافعی (رض) کا زیادہ صحیح قول بھی یہی ہے۔ امام زہری (رض) فرماتے ہیں : ” شروع سے یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ باہمی حقوق اور وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کے خواہش مند ہوں تو پھر اسی کے مطابق کردیا جائے۔ “ اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم ان کی اکثریت نسخ ہی کی قائل ہے۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یہود کی ایک بری خصلت - پہلی خصلت یہ بتائی سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ للسُّحْتِ ۔ یعنی یہ لوگ جھوٹی اور غلط باتیں سننے کے عادی ہیں۔ اپنے کو عالم کہلانے والے غدار یہودیوں کے ایسے اندھے متبع ہیں کہ احکام تو ارت کی کھلی خلاف ورزی دیکھنے کے باوجود ان کی پیروی کرتے رہتے ہیں اور ان کی غلط سلط بیان کی ہوئی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔- عوام کے لئے علماء کے اتباع کا ضابطہ - اس میں جس طرح تحریف کرنے والوں اور احکام خدا و رسول میں غلط چیزیں شامل کرنے والوں کے لئے وعیدیں ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی سخت مجرم قرار دیا ہے جو ایسے لوگوں کو امام بنا کر موضوع اور غلط روایات سننے کے عادی ہوگئے ہیں اس میں مسلمانوں کے لئے ایک اہم اصولی ہدایت یہ ہے کہ اگرچہ جاہل عوام کے لئے دین پر عمل کرنے کا راستہ صرف یہی ہے کہ علماء کے فتوے اور تعلیم پر عمل کریں لیکن اس ذمہ داری سے عوام بھی بری نہیں کہ فتویٰ لینے اور عمل کرنے سے پہلے اپنے مقتداؤں کے متعلق اتنی تحقیق تو کرلیں جتنی کوئی بیمار کسی ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کرنے سے پہلے کیا کرتا ہے۔ کہ جاننے والوں سے تحقیق کرتا ہے کہ اس مرض کے لئے کونسا ڈاکٹر ماہر ہے، کون سا حکیم اچھا ہے۔ اس کی ڈگریاں کیا کیا ہیں۔ اس کے مطب میں جانے والے زیر علاج لوگوں پر کیا گزرتی ہے۔ اپنی امکانی تحقیق کے بعد بھی اگر وہ کسی غلط ڈاکٹر یا حکیم کے جال میں پھنس گیا یا اس نے کوئی غلطی کردی تو عقلاء کے نزدیک وہ قابل ملامت نہیں ہوتا۔ لیکن جو شخص بلا تحقیق کسی عطائی کے جال میں جا پھنسا اور پھر کسی مصیبت میں گرفتار ہوا تو وہ عقلاء کے نزدیک خود اپنی خودکشی کا ذمہ دار ہے۔- یہی حال عوام کے لئے دینی امور کے بارے میں ہے کہ اگر انہوں نے اپنی بستی کے اہل علم و فن اور تجربہ کار لوگوں سے تحقیق حال کرنے کے بعد کسی عالم کو اپنا مقتدیٰ بنایا اور اس کے فتوے پر عمل کیا تو وہ عند الناس بھی معزور سمجھا جائے گا۔ اور عند اللہ بھی، ایسے ہی معاملہ کے متعلق حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : فان اثمہ علی من افتی۔ یعنی ایسی صورت میں اگر عالم اور مفتی نے غلطی کرلی اور کسی مسلمان نے ان کے غلط فتوے پر عمل کرلیا تو اس کا گناہ اس پر نہیں بلکہ اس عالم و مفتی پر ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جبکہ اس عالم نے جان بوجھ کر ایسی غلطی کی ہو یا امکانی خور و خوض میں کمی کی ہو یا یہ کہ وہ عالم ہی نہ تھا اور لوگوں کو فریب دے کر اس منصب پر مسلط ہوگیا۔- لیکن اگر کوئی شخص بلا تحقیق محض اپنے خیال سے کسی کو عالم و مقتدیٰ قرار دے کر اس کے قول پر عمل کرے۔ اور وہ فی الواقع اس کا اہل نہیں تو اس کا وبال تنہا اس مفتی اور عالم پر نہیں ہے بلکہ یہ شخص بھی برابر کا مجرم ہے، جس نے تحقیق کئے بغیر اپنے ایمان کی باگ ڈور کسی ایسے شخص کے حوالہ کردی، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ ارشاد قرآنی آیا ہے سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ ، یعنی یہ لوگ جھوٹی باتیں سننے کے عادی ہیں، اپنے مقتداؤں کے علم و عمل اور امانت و دیانت کی تحقیق کئے بغیر ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اور ان سے موضوع اور غلط روایات سننے اور ماننے کے عادی ہوگئے ہیں۔- قرآن کریم نے یہ حال یہودیوں کا بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو سنایا ہے کہ وہ اس سے محفوظ رہیں۔ لیکن آج کی دنیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی بربادی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کے معاملات میں تو بڑے ہوشیار، چُست و چالاک ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو بہتر سے بہتر ڈاکٹر حکیم کو تلاش کرتے ہیں، کوئی مقدمہ پیش آتا ہے تو اچھے سے اچھا وکیل بیرسٹر ڈھونڈھ لاتے ہیں، کوئی مکان بنانا ہے تو اعلیٰ سے اعلیٰ آرکٹیکٹ اور انجنیئر کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ لیکن دین کے معاملہ میں ایسے سخی ہیں کہ جس کی داڑھی اور کرتہ دیکھا اور کچھ الفاظ بولتے ہوئے سن لیا، اس کو مقتداء، عالم، مفتی، رہبر بنا لیا، بغیر اس تحقیق کے کہ اس نے باقاعدہ کسی مدرسہ میں بھی تعلیم پائی ہے یا نہیں ؟ علماء ماہرین کی خدمت میں رہ کر علم دین کا کچھ ذوق پیدا کیا ہے یا نہیں، کچھ علمی خدمات کی ہیں یا نہیں، سچے بزرگوں اور اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر کچھ تقویٰ و طہارت پیدا کی ہے یا نہیں ؟- اس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ دین کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں ان کا بہت بڑا حصہ جاہل واعظوں اور دکاندار پیروں کے جال میں پھنس کر دین کے صحیح راستہ سے دور جا پڑتا ہے، ان کا علم دین صرف وہ کہانیاں رہ جاتی ہیں جن میں نفس کی خواہشات پر زد نہ پڑے، وہ خوش ہیں کہ ہم دین پر چل رہے ہیں۔ اور بڑی عبادت کر رہے ہیں، مگر حقیقت وہ ہوتی ہے جس کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : (آیت) الذین ضل سعیہم فی الحیوة۔ یعنی وہ لوگ ہیں جن کی سعی و عمل دنیا ہی میں برباد ہوچکی ہے اور وہ اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے بڑا اچھا عمل کیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے ان منافق یہودیوں کا حال سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ کے لفظوں میں بیان کرکے ایک اہم اور بڑا اصول بتلادیا کہ جاہل عوام کو علماء کی پیروی تو ناگزیر ہے مگر ان پر لازم ہے کہ بلاتحقیق کسی کو عالم و مقتداء نہ بنالیں اور ناواقف لوگوں سے غلط سلط باتیں سننے کے عادی نہ ہوجائیں۔- پارٹ 2- یہود کی ایک دوسری بری خصلت - ان منافقین کی دوسری بری خصلت یہ بتلائی کہ اَكّٰلُوْنَ للسُّحْتِ ۔ یعنی یہ لوگ بظاہر تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دینی معاملہ کا حکم پوچھنے آئے ہیں لیکن در حقیقت ان کا مقصد نہ دین ہے نہ دینی معاملہ کا حکم معلوم کرنا ہے، بلکہ یہ ایک ایسی یہودی قوم کے جاسوس ہیں جو اپنے تکبر کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک خود نہیں آئے، ان کی خواہش کے مطابق صرف یہ چاہتے ہیں کہ سزائے زنا کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نظریہ معلوم کرکے ان کو بتلا دیں، پھر ماننے نہ ماننے کا فیصلہ خود کریں گے اس میں مسلمانوں کو اس پر تنبیہ ہے کہ کسی عالم دین سے فتویٰ دریافت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دریافت کرنے والے کی نیت حکم خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم کرکے اس کا اتباع کرنا ہو محض مفتیوں کی رائے معلوم کرکے اپنی خواہش کے موافق حکم تلاش کرنا کھلا ہوا اتباع نفس و شیطان ہے اس سے بچنا چاہیے۔- تیسری بری خصلت کتاب اللہ کی تحریف - تیسری بری خصلت ان لوگوں کی یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ اللہ کے کلام کو اس کے موقع سے ہٹا کر غلط معنی پہناتے اور احکام خدا تعالیٰ کی تحریف کرتے ہیں، اس میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ تو ارت کے الفاظ میں کچھ رد و بدل کردیں، اور یہ بھی کہ الفاظ تو وہی رہیں ان کے معنی میں لغو قسم کی تاویل و تحریف کریں یہودی ان دونوں قسموں کی تحریف کے عادی ہیں۔- مسلمانوں کے لئے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے، اس میں لفظی تحریف کی تو کوئی جرأت نہیں کرسکتا، کہ لکھے ہوئے صحیفوں کے علاوہ لاکھوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ کلام میں ایک زیر و زبر کی غلطی کوئی کرتا ہے تو فوراً پکڑا جاتا ہے، معنوی تحریف بظاہر کی جاسکتی ہے اور کرنے والوں نے کی بھی ہے، مگر اس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرما دیا ہے کہ اس امت میں قیامت تک ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو قرآن و سنت کے صحیح مفہوم کی حامل ہوگی، اور تحریف کرنے والوں کی قلعی کھول دے گی۔- چوتھی بری خصلت رشوت خوری - دوسری آیت میں ان کی ایک اور بری خصلت یہ بیان فرمائی ہے : یہ لوگ سخت کھانے کے عادی ہیں، سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں، اسی معنی میں قرآن کریم نے فرمایا ہے (آیت) فیسحتکم بعذاب، یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ بنیاد ختم کردی جائے گی، قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سحت سے مراد رشوت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، مجاہد رحمة اللہ علیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس کی تفسیر رشوت سے کی ہے۔- رشوت کو سحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے بلکہ پورے ملک و ملت کی جڑ بنیاد اور امن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے، جس ملک یا جس محکمہ میں رشوت چل جائے وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانون ملک ہی وہ چیز ہے جس سے ملک و ملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہوگیا تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے نہ آبرو نہ مال، اس لئے شریعت اسلام میں اس کو سحت فرما کر اشد حرام قرار دیا ہے، اور اس کے دروازہ کو بند کرنے کے لئے امراء و حکام کو جو ہدیے اور تحفے پیش کئے جاتے ہیں ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کردیا گیا ہے (جصاص) ۔- رشوت کی تعریف شرعی یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو اس کا معاوضہ لیا جائے، مثلاً جو کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہے اور اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم ہو اس پر کسی فریق سے معاوضہ لینا جیسے حکومت کے افسر اور کلرک سرکاری ملازمت کی رو سے اپنے فرائض ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ صاحب معاملہ سے کچھ لیں تو یہ رشوت ہے یا لڑکی کے ماں باپ اس کی شادی کرنے کے ذمہ دار ہیں کسی سے اس کا معاوضہ نہیں لے سکتے، وہ جس کو رشتہ دیں اس سے کچھ معاوضہ لیں تو وہ رشوت ہے، یا صوم و صلوٰة اور حج اور تلاوت قرآن عبادات ہیں جو مسلمان کے ذمہ ہیں، ان پر کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے تو وہ رشوت ہے۔ تعلیم قرآن اور امامت اس سے مستثنیٰ ہیں (علیٰ فتوی المتاخرین) ۔- پھر جو شخص رشوت لے کر کسی کا کام حق کے مطابق کرتا ہے وہ رشوت لینے کا گناہگار ہے اور یہ مال اس کے لئے سُحت اور حرام ہے، اور اگر رشوت کی وجہ سے حق کے خلاف کام کیا تو یہ دوسرا شدید جرم، حق تلفی اور حکم خداوندی کو بدل دینے کا اس کے علاوہ ہوگیا، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے بچائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ۝ ٠ۭ فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ۝ ٠ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا۝ ٠ۭ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝ ٤٢- (أكّالون)- ، جمع أكّال مبالغة اسم الفاعل من أكل يأكل باب نصر وزنه فعّال بفتح الفاء وتشدید العین .- سحت - السُّحْتُ : القشر الذي يستأصل، قال تعالی: فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ. [ طه 61] ، وقرئ :- فَيَسْحِتَكُمْ يقال : سَحَتَهُ وأَسْحَتَهُ ، ومنه : السَّحْتُ والسُّحْتُ للمحظور الذي يلزم صاحبه العار، كأنه يسحت دينه ومروء ته، قال تعالی: أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] ، أي : لما يسحت دينهم . وقال عليه السلام : «كلّ لحم نبت من سحت فالنّار أولی به» وسمّي الرّشوة سحتا لذلک، وروي «كسب الحجّام سحت» فهذا لکونه سَاحِتاً للمروءة لا للدّين، ألا تری أنه أذن عليه السلام في إعلافه الناضح وإطعامه المماليك - ( س ح ت ) السحت - ۔ اصل میں اس چھلکے کو کہتے ہیں جو پوری طرح اتار لیا جائے ( اور اس سے ہلاک کردینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ) چناچہ قرآن میں ہے :َفَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ «1» . [ طه 61] اور نہ وہ تم ( پر کوئی ) عذاب ( نازل کر کے اس ) سے تم کو ملیامیٹ کر دے گا ۔ اس میں ایک قرات ( فتح یاء کے ساتھ ) بھی ہے اور سحتہ ( ض ) و اسحتہ ( افعال کے ایک ہی معنی آتے ہیں یعنی بیخ کنی اور استیصال کرنا ۔ پھر اسی سے سحت کا لفظ ہر اس ممنوع چیز پر بولا جانے لگا ہے جو باعث عار ہو کیونکہ وہ انسان کے دین اور مروت کی جڑ کاٹ دیتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] اور مال حرام کو کھاتے چلے جاتے ہیں ۔ یعنی وہ چیز جو ان کے دین کا ناس کرنے والی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (171) کل لحم نبت من سحت فالنار اولی بہ ۔۔۔۔ جو گوشت مال حرام کے کھانے سے پیدا ہو وہ آگ کے لائق ہے اور اسی سے رشوت کو سحت کہا گیا ہے (172) ایک روایت میں ہے (173) کہ حجام ( پچھنا لگانے والے ) کی کمائی " سحت " ہے ۔ تو یہاں سحت بمعنی حرام نہیں ہے جو دین کو برباد کرنے والا ہو بلکہ سحت بمعنی مکروہ ہے یعنی ایسی کمائی مروت کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت نے ایسی کمائی سے اونٹنی کو چارہ ڈالنے اور غلاموں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا ہے ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

رشوت کا حکم - قول باری ہے سمعون للکذب اکالون للسحت جھوٹ پر بہت کان دھرنے والے اور بڑے حرام خور ہیں ۔ ایک قول ہے کہ سحت کے اصل معنی جڑ سے اکھاڑنے کے ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی کا استیصال کر کے اسے مٹا دے تو ایسے موقعہ پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ اسمتہ اسحاتا ً اس نے اس کا استیصال کردیا ہے۔ قول باری ہے افیسحتکم بعذاب پھر اللہ تعالیٰ عذاب کے ذریعے تمہارا استیصال کر دے گا یعنی تمہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے گا ۔ اگر کوئی شخص اپنا مال تباہ کردے اور اسے للے تللے میں اڑا دے تو اس موقع پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ اسحت مالہ حرام کو سخت کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں مال والے کے لیے کوئی برکت نہیں ہوتی اور یہ اس کی ہلاکت کا ذریعہ بن جاتا ہے جس طرح جڑ سے اکھاڑنے کی صورت میں کسی کی ہلاکت اور تباہی ہوتی ہے۔ ابن عینیہ نے عمار الدہنی سے روایت کی ہے انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے ، انہوں نے مسروق سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے صحت کے متعلق دریافت کیا کہ آیا یہ رشوت لے کر فیصلے کرنے کا نام ہے ؟ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس کے جواب میں یہ آیت پڑھی ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے تو یہی کافر ہوں گے۔- یعنی آپ نے مسروق کے قول کی تردید کی اور مزید فرمایا : سحت یہ ہے کہ کوئی شخص تمہیں سفارشی بنا کر امام یعنی حاکم کے پاس لے جائے تم اس کے پاس لے جا کر اس شخص کے متعلق گفتگو کرو پھر یہ شخص تمہیں تحفے کے طور پر کوئی چیز بھیج دے اور تم اسے قبول کرلو ۔ شعبہ نے منصور سے روایت کی ہے، انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے ، انہوں نے مسروق سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے فیصلوں میں ظلم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کفر ہے۔ پھر میں نے سخت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ سخت رشوت کو کہتے ہیں۔- رشوت کے بارے میں حضرت عمر (رض) کی رائے - عبد الاعلیٰ بن حماد نے روایت کی ہے، انہوں نے ان کے والد نے ابان سے ، انہوں نے ابن ابی عیاش سے ، انہوں نے مسلم سے کہ مسروق نے کہا : میں نے امیر المومنین حضرت عمر (رض) سے دریافت کیا کہ آیا آپ رشوت لے کر فیصلے کرنے کو سخت میں داخل سمجھتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : نہیں رشوت لے کر فیصلے کرنا کفر ہے ، سخت یہ ہے کہ کوئی شخص سلطان یا حاکم وقت کی نظروں میں قدر و منزلت رکھتا ہو، کسی اور شخص کو اس حاکم سے کوئی کام آپڑا ہو ، اب پہلا شخص حاکم سے اس دوسرے کا اس وقت تک نام نہ کر ا دے جب تک اسے کوئی ہدیہ یاتحفہ نہ دیا جائے ۔- سحت حضرت علی (رض) کی نظر میں - حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ سحت کی صورتیں یہ ہیں ۔ رشوت لے کر فیصلے کرنا ، بدکاری کی اجرت ، انڈ کی جفتی سے حاصل ہونے والی اجرت ، پچھنے لگانے والے کی کمائی ، شراب اور مردار کی اجرت ، کاہن کی بت اور مقدمے میں اجرت طلب کرنا ، گویا آپ نے سخت کو ایسے معاوضوں کے لیے اسم قرار دیا جن لینا درست نہیں ہوتا ۔ ابراہیم ، حسن ، مجاہد ، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ سخت رشوت کا نام ہے۔ منصورنے حکم روایت کی ہے ، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے مسروق سے کہ قاضی اگر ہدیہ قبول کرتا ہے یا وہ سخت کھاتا ہے ، اور جب رشوت کھاتا ہے تو یہ رشوت اسے کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ - اعمش نے خبثیمہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت عمر (رض) سے ، آپ نے فرمایا : سحت کے دو دروازے دو طریقے ہیں جن کے ذریعے لوگ سحت کھاتے ہیں ایک رشوت اور دوسرا بدکار عورت کی اجرت ۔- حکمرانوں کو تحفے دینا رشوت کے زمرے میں آتے ہیں - اسماعیل بن زکریا نے اسماعیل بن مسلم سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت جابر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ھدایا الامراء من الحسب حکام کو تحفے دینا سحت میں داخل ہے۔- حضور ؐ نے رشوت کے منعلقین پر لعنت فرمائی - ابو ادریس خولانی نے حضرت ثوبان (رض) سے روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت دینے والے ، رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ ابو عوانہ نے عمر بن ابی سلمہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لعن اللہ الاشی والمرتشی فی الحکم فیصلوں کے سلسلوں میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔- رشوت قبول کرنا حرام ہے - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت زیر بحث کی تفسیر کرنے والے تمام حضرات اس پر متفق ہیں کہ رشوت قبول کرنا حرام ہے۔ وہ اس پر بھی متفق الرائے ہیں کہ رشوت سخت میں داخل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ۔ رشوت کی کئی صورتیں ہیں رشوت لے کر فیصلے کرنا ، رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر یہ حرام ہے۔- رشوت دلال بھی لعنتی ہے - یہی وہ رشوت ہے جس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لعن اللہ الراشی والموتشی رائش وہ شخص ہے جو ان دونوں کے درمیان واسطے کا کام دیتا ہے ۔ اس رشوت کا مقصد یا تو یہ ہوتا ہے کہ حاکم اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اپنے فیصلے کے ذریعے اسے ایسی چیز دلا دے جس پر اس کا حق نہ ہو ۔ اگر رشوت دے کر وہ اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتا ہے تو حاکم یہ رشوت لے کر فسق کا مرتکب ہوتا ہے اس لیے کہ حاکم ایسے کام کی رشوت لیتا ہے جسے کرنا اس کا فرض منصبی ہوتا ہے اور رشوت دینے والا رشوت دے کر اس بنا پر مذمت کا سزا وار ہوتا ہے کہ اس نے اپنا فیصلہ ایسے شخص سے کرایا ہے جو فیصلے کرنے کا اہل نہیں رہا اور جس کا فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ رشوت لے کر اہلیت کھو بیٹھا ہے اور اس منصب سے معزول ہوگیا ہے۔ جس طرح کوئی شخص کسی فرض مثلاً نماز ، روزہ یا زکوٰۃ کی ادائیگی پر اجرت لیتا ہے۔ فیصلوں کے اندر رشوت لینے کی تحریم میں کوئی اختلاف نہیں ہے نیز یہ کہ اس قسم کی رشوت سحت میں داخل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عظیم میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے اندر اس بات پر دلیل موجود ہے کہ ہر ایسا کام جو ایک فریضے یا تقرب الٰہی کے طور پر سر انجام دیا جائے مثلاً حج کی ادائیگی ، قرآن اور اسلام کی تعلیم وغیرہ اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ اگر ان امور پر بطور بدل اجرت لینا جائز ہوتا تو فیصلے صادر کرنے میں بھی رشوت ستانی جائز ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلوں کے سلسلے میں رشوت ستانی حرام قرار دی اور امت بھی اس پر متفق الرائے ہوگئی تو اس سے ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت حاصل ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ فرائض اور قرب یعنی امورخیہ کی ادائیگی میں بدل کے طور پر معاوضہ اور اجرت جائز ہے۔- رشوت لے کر فیصلہ کرنے والا حاکم دہرا مجرم ہے - اگر رشوت اس مقصد کے لیے دی گئی ہو کہ حاکم غلط فیصلہ کرے تو ایسی رشوت قبول کر کے حاحکم دو وجوہ سے فسق کا مرتکب ہوگا ۔ ایک تو رشوت لینے کی بنا پر اور دوسری ناحق فیصلہ کرنے کی بنا پر اسی طرح رشوت دینے والا بھی فسق کا مرتکب ہوگا۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور مسروق نے سحت کی تفسیر یہ کی ہے کہ سلطان یا حاکم کے پاس جا کر کسی کی سفارش کرنے پر ملنے والا تحفہ سحت ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا ہے کہ فیصلوں کے سلسلے میں یہ رشوت لینا کفر ہے ۔ حضرت علی (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) اور دوسرے حضرات جن کے اقوال ہم نے پہلے نقل کئے ہیں سب کے نزدیک رشوت سحت میں داخل ہے۔ - فیصلوں کے سلسلے میں رشوت دینے اور لینے کے علاوہ رشوت کی ایک صورت وہ ہے جس کا ذکر حضرت ابن مسعود اور مسروق نے اس تحفے کے سلسلے میں کیا ہے جو کسی ایسے شخص کو پیش کیا جائے جو حاکم کے پاس جا کر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے تحفہ دینے والے کی مدد کرے۔ اس کی بھی ممانعت ہے اس لیے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے اس انسان پر اس شخص سے ظلم و ستم کو دور کرنا فرض ہے۔ ارشاد باری ہے وتعاونوا علی البروالتقوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لا یزال اللہ فی عون المرء مادا امر المرء فی عون اخیہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔- جانی مظلوم کے لیے نرمی کا پہلو - رشوت کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم کو رشوت دے کر اس کے ظلم و ستم سے اپنے آپ کو چھٹکارا دلا دے ۔ اس قسم کی رشوت تو لینے والے پر حرام ہوتی ہے لیکن دینے والے کے لیے ممنوع نہیں ہوتی ۔ جابر بن زید اور شبعی سے مروی ہے کہ جب انسان کو اپنی جان و مال پر ظلم کا خطرہ در پیش ہو تو ایسی صورت میں رشوت دے کر اپنی جان اور اپنے مال کا بچائو کرلینے میں کوئی خرچ نہیں ہے۔ عطاء اور ابراہیم نخعی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ہشام نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دو ونں پر لعنت کی ہے۔ حسن بصری نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس رشوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حق کو باطل قرار دے یا باطل کو حق ثابت کرے ، لیکن اگر ایک شخص اپنے مال کے دفاع کی خاطر ایسا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مال میں سے کچھ دے دلا کر اپنی عزت و آبرو کو محفوظ کرلے تو اس میں اس میں کوئی حرج نہیں نہیں ہے۔ عثمان بن الاسود نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : اپنے مال کو اپنے دین کو ڈھال بنا لو اور اپنے دین کو اپنے مال کی ڈھال نہ بنائو۔- سفیان نے عمرو سے روایت کی ہے اور انہوں نے ابو الشعشاء سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے زیاد کی گورنری کے زمانے میں رشوت سے بڑھ کر کسی چیز کو زیادہ سود مند نہیں پایا ۔ رشوت کی اس قسم کی سلف نے اجازت دی ہے۔ یہ رشوت اپنی جان و مال سے ظلم کو دور رکھنے کی خاطر ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو رشوت دینے والے پر ظلم کرنا یا ایسے بےآبرو کرنا چاہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خیبر کے غنائم کی تقسیم کی اور لوگوں کو ان میں سے بڑے بڑے حصے دیے تو آپ نے عباس بن مرد اس سلمی کو کچھ کو حصہ دیا جس سے اس نے ناراض ہو کر اس کے متعلق شعر بھی کہے، آپ نے لوگوں سے فرمایا اقطعوا عنالسانہ ہماری طرف سے اس کی زبان بند کر دو چناچہ ان کے حصے میں اضافہ کر کے انہیں رضا مند کرلیا گیا ۔ حاکموں اور قاضیوں کو تحفے تحائف بھیجنے کو امام محمد نے مکروہ سمجھا ہے خواہ تحفہ بھیجنے والا کسی مقدمے میں فریق نہ بھی ہو یا حاکم سے اسے کوئی فیصلہ نہ بھی لیناہو ۔ امام محمد نے یہ مسلک ابو حمید الساعدی کی حدیث کی بنا پر اختیار کیا ہے جس میں ان اللتبیہ کا واقعہ مذکور ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن اللتبیہ کو صدقات کو وصولی پر روانہ کیا تھا ۔ جب وہ صدقات لے کر واپس آئے تو کہنے لگے :” یہ حصہ تم لوگوں کا ہے اور یہ حصہ میرا ہے جو تحفے کے طور پر مجھے ملا ہے “ ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔- ان لوگوں کو کیا ہوگیا جنہیں ان کاموں کے لیے مقرر کرتے ہیں جن پر اللہ نے ہمیں مقرر کیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ حصہ تمہارا ہے اور یہ میرا جو مجھے تحفے کے طور پر ملا ہے۔ یہ شخص اپنے باپ کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھ رہا اور پھر دیکھتا کہ اسے تحفے آتے ہیں یا نہیں ۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مرو ہے ھدایا الامراء غلو ل حاکموں کو تحفے تحائف دینا غلول یعنی خیانت ہے ، نیز آپ نے فرمایا ھدایا المراء سحت حکام کے تحفے تحائف سحت میں داخل ہیں ۔ - حضرت عمر بن عبد العزیز کا رشوت سے پرہیز - حضرت عمر بن عبد العزیز نے ہدیہ قبول کرنے کو ناپسند کیا تھا ان سے کہا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایا قبول کرتے تھے اور اس کے جواب میں اپنے پاس سے کچھ نہ کچھ عنایت بھی کرتے تھے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ یہ اس زمانے میں تحفے اور ہدایا ہوتے تھے لیکن آج کل تو یہ سحت ہیں۔ امام محمد نے قاضی کے لیے ہدیہ قبول کرنا مکروہ نہیں سمجھا ہے بشرطیکہ ہدیہ دینے والا ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ قضا کے عہدے پر متمکن ہونے سے قبل قاضی تحفوں کا تبادلہ کرتا تھا۔ گویا امام محمد نے قاضی کو دیے جانے والے اس تحفے کو مکروہ سمجھا ہے جو اسے قاضی ہونے کی نسبت سے دیا جائے اور اگر وہ قاضی نہ ہوتا تو اسے یہ تحفہ نہ ملتا ۔ اس مفہوم پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے۔ ھلا جس فی بیت ابیہ وامہ فنظر ا یھدی لہ املا وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا اور پھر دیکھتا کہ اسے تحفے آتے ہیں یا نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ اسے تحفہ اسے دیا گیا تھا کہ وہ عامل اور حاکم تھا اور اگر وہ اس عہدے پر نہ ہوتا تو اسے تحفے نہ ملتے نیز ایسا تحفہ اس کے لیے حلال نہیں۔ قضا کے عہدے پر مامور ہونے سے قبل قاضی جن لوگوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتا تھا اگر ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی تحفہ بھیجا جائے تو اسے حسب سابق قبول کرلینا جائز ہوگا بشرطیکہ اسے اس کا علم بھی ہو کہ یہ تحفہ قاضی ہونے کی نسبت سے نہیں بھیجا گیا ۔ یہ بھی مروی ہے شاہ روم کی بیٹی نے حضرت علی (رض) کی بیٹی اور حضرت عمر (رض) کی زوجہ ام کلثوم کے لیے تحفہ بھیجا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ تحفہ واپس کردیا اور انہیں اسے قبول کرنے سے روک دیا۔- اہل کتاب کے درمیان فیصلے کرنا - قول باری ہے فان جائو ک فاحکم بینھما او اعرض عنھم اگر تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں ت تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو تو ان کا فیصلہ کر دو ورنہ انکار کر دو ظاہر آیت دو معنوں کا مقتضی ہے ایک تو یہ کہ انہیں ان کے احکا م کے مطابق چھوڑ دیا جائے اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ دوسرے یہ کہ اگر لوگ اپنے مقدمات فیصلے کے لیے ہمارے پاس لے کر آئیں تو ہمیں اختیار ہے کہ چاہیں تو فیصلہ کردیں اور چاہیں تو انکار کردیں ۔ اس حکم کے باقی رہنے کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اگر یہ اپنے مقدمات ہمارے پاس لے کر آئیں تو حاکم کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو فیصلہ کر دے اور چاہے تو انکار کردے اور انہیں ان کے دین کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہے۔ دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ تخییر کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اس لیے جب ان کے مقدمات پیش ہوں تو ان کا فیصلہ کردیا جائے۔ جو حضرات تخییر کے قائل ہیں ان میں حسن ، شبعی اور ابراہیم نخعی ایک روایت کے مطابق شامل ہیں ۔ حسن سے مروی ہے ، اہل کتاب کو ان کے حاکم پر چھوڑ دو اور تم لوگ ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو ۔ البتہ اگر یہ اپنے مقدمات تمہارے پاس لے کر آئیں تو تم اپنی کتاب کے مطابق ان پر فیصلے نافذ کرو ۔ سفیان بن حسین نے حکم سے روایت کی ہے ، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ سورة مائدہ کی دو آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں ۔ ایک تو آیت قلائد ہے اور دوسری آیت فاحکم بیٹھم او اعرض عنھم۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہیں تو ان کا فیصلہ کردیں اور چاہیں تو انکار کر کے انہیں ان کے احکام کی طرف لوٹا دیں یہاں تک کہ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوا ھم اور یہ کہ تم ان کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلے کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ ان کے درمیان ان احکامات کی روشنی میں فیصلے صادر کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں ۔ عثمان بن عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جائو ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سعید بن جبیر نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جاء ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سعید بن جبیر نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جائو ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سفیان نے سدی سے اور انہوں نے عکرمہ سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ اس تحییر کا ناسخ ہے جو اس قول باری فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم میں مذکور ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ نسخ کا یہ قول اپنی رائے کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ آیات کے نزول کی تاریخوں کا علم رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اس کا تو ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے توقیف یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے اس کی اطلاع تخییہ کے اثبات کرنے والوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ تخییر کی آیت اس قول باری وان احکم بینم بما انزل اللہ کے بعد نازل ہوئی اور تحییر کی آیت نے اسے منسوخ کردیا ہے۔- ان حضرات سے تو تخییر کے متعلق ان کے اقوال نقل ہوئے میں نسخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے تخییر کا نسخ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ سے ثابت ہوا جس طرح تخییر کے نسخ کے متعلق ان لوگوں کی روایت ہے جنہوں نے اس تخییر کا ذکر کیا ہے۔ تخییر کے نسخ پر قول باری ومن لم یخکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون اور جو لوگ اس قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے جو اللہ نے نازل کیا ہے وہی کافر ہیں نیز فرمایا فاولئک ھم الظالمون وہی ظالم ہیں پھر فرمایا فاولئک ھم الفاسقون وہی فاسق ہیں ۔ یعنی ان اہل کتاب میں سے وہ لوگ جنہوں نے روگردانی کی تھی اور اس جھگڑے کے اندر اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تھا جس میں یہ لوگ ملوث ہو کر آپس میں الجھ پڑے تھے ۔ ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق علم نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ آیات ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون فاولئک ھم الظالمون اور فاولئک ھم الفاسقون میں کوئی آیت منسوخ ہوگئی ہے۔ البتہ منصور نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے ان آیات کو ما قبل کی آیت فاحکم بینھما او اعراض عنھم نے منسوخ کردیا ہے جبکہ سفیان بن حسین نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعراض عنھم اس قول باری وان احکم بینھم سے منسوخ ہوچکا ہے۔ - یہاں یہ احتمال ہے کہ قول باری فان جاء وک فاحکم بینھم او ا عرض عنھم اہل کتاب کے ساتھ عقد ذمہ کرنے اور جزیہ کی ادائیگی کے ذریعے احکام اسلام کے تحت ان کے آنے سے قبل کے زمانہ کا ہو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان سے جزیہ لینے کا حکم صادر فرما دیا اور ان پر احکام اسلام کا نفاذہو گیا تو پھر ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ۔ اس صورت میں دونوں آیتوں کا حکم ثابت رہے گا ۔ نسخ کی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ یعنی ان اہل کتاب کے متعلق تخییر کا حکم جاری رہے گا جن کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہے لیکن ان کے ساتھ نہ عقد ذمہ ہے اور نہ ہی ان پر احکام اسلام کا اجرا ہے ان کا معاملہ اہل حرب کی طرح ہوگا جن کے ساتھ ہماری صلح ہوگئی ہو ۔ دوسری طرف جن اہل کتاب کے ساتھ عقد ذمہ ہوچکا ہو اور ان پر احکام اسلام کا اجرا بھی ہوگیا ہو ان کے متعلق اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم جاری رہے گا ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے جو روایت ہے وہ اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔ محمد بن اسحاق نے دائود بن الحصین سے ، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورة مائدہ کی آیت فاحکم بینھم او اعرض عنھم بنو قریظ اور بنو نضیر کے درمیان دیت کے تنازعہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی ۔ بنو نضیر کو شرف حاصل تھا جس کی بنا پر وہ پوری دیت دیتے اور بنو قریضہ نصف دیت ادا کرتے ، پھر اس معاملے میں دونوں قبیلوں کے درمیان تنازعہ اٹھ کھڑا ہو اور یہ لوگ اپنا مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فیصلے کے لیے لے کر آئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بارے میں انہیں حق کی راہ پر لگا دیا اور دیت کے معاملے میں انہیں یکساں کردیا ۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے ساتھ کوئی عقد ذمہ نہیں تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلاوطن کردیا تھا اور بنو قریظہ کو قتل کی سزا دی تھی ۔ اگر ان کے ساتھ عقد ذمہ ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ انہیں کبھی جلا وطن کرتے اور نہ ہی قتل کا حکم دیتے ، ان کے ساتھ صرف معاہدہ اور جنگ نہ کرنے کی صلح تھی جسے انہوں نے جنگ خندق کے موقعہ پر خود ہی توڑ دیا تھا ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ تحییر کی آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ اب یہ ممکن ہے کہ تخییر کا یہ حکم ان اہل حرب کے حق میں باقی ہو جن کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوچکا ہو اور دوسری آیت کا حکم یعنی اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرنا ذمیوں کے متعلق ثابت ہو ۔ اس طرح دونوں آیتیں اپنی اپنی جگہ باقی رہ جائیں اور نسخ کی کوئی بات پیدا نہ ہو۔ اگر سلف سے دوسری آیت کے ذریعے تخییر کے نسخ کی روایت نہ ہوتی تو دو آیتوں کی یہ بڑی عمدہ توجیہ و تفسیر ہوتی ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت بھی ہے ، نیز زہری ، مجاہد اور حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول رجم کے بارے میں ہوا تھا۔ جب یہ لوگ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فیصلہ کرانے آئے تھے ۔ یہ لوگ بھی اہل ذمہ نہیں تھے یہ تو صرف اس لیے فیصلہ کرانے آئے تھے کہ ان کے خیال میں شاید رجم کے حکم ٹل جائے گا اور سزا میں کچھ نرمی ہوجائے گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود چل کر ان کی دینی درس گاہ تک گئے اور انہیں خود ان کی کتاب میں رجم کی آیت سے آگاہ کیا پھر انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ جھوٹے ہیں اور اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نے یہودی مرد اور یہودی عورت کو سنگسار کردیا اور زبان مبارک سے یہ فرمایا اے اللہ میں پہلا انسان ہوں جس نے اس سنت کو زندہ کردیا جسے انہوں نے مٹا دیا تھا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اہل ذمہ کو خرید و فروخت ، میراث اور دوسرے تمام عقود اور لین دین میں احکام اسلام پرچلایاجائے گا جس طرح مسلمانوں کو چلایا جاتا ہے۔ صرف خمرو خنزیر کی خرید و فروخت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔- اس کی خرید و فروحت ان کے درمیان آپس میں جائز رہے گی ۔ اس لیے کہ انہیں اس پر برقرار رکھا گیا ہے کہ خمرو خنزیر ان کے لیے مال میں شمار کئے جائیں ۔ اگر ان کی خرید و فروخت اور ان پر ان کا تصر ف اور ان سے انتقاع درست نہ سمجھا جائے تو پھر یہ چیزیں مالیت کی فہرست سے خارج ہوجائیں گی اور ان چیزوں کو ضائع کرنے والے پر ان کا تاوان واجب نہیں ہوگا ۔ ہمیں فقہاء کے درمیان ا س مسئلے میں کوئی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے کسی ذمی کی شراب ضائع ک دی تو اسے اس کی قیمت تاوان کے طور پر ادا کرنی ہوگی ۔ ایک روایت ہے کہ مسلمان عشر کے اندر ان ذمیوں سے شراب لیا کرتے تھے ۔ حضرت عمر (رض) نے اس علاقے کے لوگوں کو تحریری طور پر حکم بھیجا کہ عشر میں حاصل شدہ شراب کی فروخت خود ان ذمیوں کے ذمے لگائو اور حاصل شدہ قیمت سے عشر وصول کرو۔ اس لیے کہ خمرو خنزیر ان لوگوں کے لیے مال میں داخل ہیں اور ان چیزوں میں ان کا تصرف یعنی خرید و فروخت وغیرہ جائز ہے، ان کے سوا باقی معاملات میں انہیں ہمارے احکام یعنی احکام اسلام پر چلنا ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وان احکم بینم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوا ھم۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو یہود کی طرح سود خودی سے منع کردیا - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے عیسائیوں کو لکھا کہ یا تو تم لوگ سود خوری سے باز آ جائو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلا ن جنگ قبول کرو۔ اس حکم نامے کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کی ممانعت میں ان لوگوں کو مسلمانوں کی برابر قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واخذھم الرئوا وقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل ان کی سود خوری کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے روک دیا گیا تھا، اور لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ان لوگوں کو سود خوری اور ناجائز طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے سے روکا گیا تھا۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے یا یھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ ً عن تراض منکم اے ایمان لانے والو آپس میں ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائو الا یہ کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں تجارت کی صورت میں لین دین ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سود کی ممانعت اور فاسد اور ممنوع عقود کی تحریم میں انہیں اور مسلمانوں کو یکساں قرار دیا ، نیز ارشاد ہوا سمعون للکذب اکالون للسحت ہم نے اوپر جن امور کا تذکرہ کیا ہے وہ ہمارے اصحاب کا مسلک ہے ۔ یعنی لین دین اور تجارت کے عقو د نیز حدود کے اندر ذمی اور مسلمان سب ایک جیسے ہیں البتہ انہیں رجم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ ان میں اسلام نہ ہونے کی وجہ سے احصان کی صفت نہیں پائی جاتی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب یہ لوگ اپنے مقدمات مسلمانوں کی عدالت میں لے کر آئیں تو حاکم اور قاضی کو اختیار ہوگا کہ ان کا فیصلہ اسلامی احکام کے مطابق کر دے یا انہیں انکار کردے ۔ عقود اور میراث کے اندر بھی امام مالک کا یہی قول ہے۔- اہل کتاب کے اصول نکاح کو نہ چھیڑا جائے - ان لوگوں کی آپس کی شادی بیاہ کے متعلق ہمارے اصحاب کے درمیان اختلااف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ انہیں ان کے احکام پر برقرار رکھا گیا ہے اس لیے اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی البتہ اگر وہ ہمارے احکام پر چلنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہوگی ۔ اگر میاں بیوی دونوں ہمارے احکام کے مطابق نکاح کرنے پر رضا مند ہوجائیں تو ان کا یہ نکاح ہمارے احکام کے مطابق ہوگا ۔ اگر ایک بھی رضا مند نہ ہو تو ان پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا ۔- اگر دونوں رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام کے مطابق چلا یا جائے گا البتہ گواہوں کے بغیر نکاح اوعدت کے اندر نکاح کے مسئلے اس سے خارج ہوں گے۔ اگر اس قسم کا کوئی نکاح منعقد ہوچکا ہو تو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں کرائی جائے گی ۔ اگر دونوں مسلمان ہوجائیں تو پھر بھی علیحدگی نہیں کی جائیگی۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر میاں بیوی میں ایک بھی رضا مند ہوگیا تو پھر دونوں کو احکام اسلام پر چلایا جائے گا خواہ دوسرا انکار ہی کیوں نہ کرتا رہے۔ البتہ بغیر گواہوں کے نکاح کا مسئلہ اس سے خارج ہوگا ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ ان لوگوں کو احکام اسلام پر چلایا جائے گا خواہ یہ چلنے سے انکار کیوں نہ کرتے رہیں ۔ صرف گواہوں کے بغیر نکاح کا مسئلہ اس سے خارج رہے گا اگر وہ اس قسم کے نکاح پر رضا مند ہوجائیں تو ہم بھی اسے جائز قرار دیں گے۔ امام ابوحنیفہ انہیں ان کی آپس کی مناکحت پر برقرار رکھنے کے سلسلے میں اس روایت کی طرف گئے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ آپ نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ قبول کرلیا تھا جبکہ آپ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ محرم عورتوں سے نکاح جائز سمجھتے ہیں اس علم کے باوجود آپ نے ایسے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا حکم صادر نہیں فرمایاے اسی طرح یہود و نصاریٰ کے اندر بھی بہت سے نکاح محرم عورتوں کے ساتھ ہوتے تھے لیکن آپ نے جب ان سے عقد ذمہ کیا تو ایسے جوڑوں کے درمیان علیحدگی کا حکم نہیں دیا ۔ ان میں اہل نجران اور وادی القریٰ کے اہل کتاب اور تمام دوسرے یہود و نصاریٰ تھے جو اس عقد ذمہ میں شامل تھے اور جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے تھے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ انہیں ان کے باہمی مناکحات پر اسی طرح برقرار رکھا گیا تھا جس طرح انہیں ان کے فاسد مذاہب اور باطل نیز گمراہ کن عقائد پر رہنے دیا گیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چلا کہ نجران کے اہل کتاب سودی لین دین کو حلال سمجھتے ہیں تو آپ نے فوراً انہیں تحریری حکم نامہ بھیجا اور ان سے کہہ دیاتو یہ لین دین بند کردیں یا پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قبول کریں۔- اس طرح جب آپ کو ان کے سودی لین دین کا علم ہوا تو آپ نے انہیں اس پر برقرار رہنے نہیں دیا نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب عمر (رض) نے عراق کے دیہی علاقے فتح کیے تو وہاں بسنے والے لوگوں کو جو مجوس تھے ، ان کے دین اور شادی بیاہ کے طریقوں پر برقرار رکھا ۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ آپ نے ان نکاحوں میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا حکم دیا تھا جو محرم عورتوں سے کیے گئے تھے جبکہ حضرت عمر (رض) کو اس بات کا علم تھا کہ مجوسی اس قسم کی شادیاں درست سمجھتے ہیں۔ آپ کے بعد پوری امت کا یہی طریق کار رہا کہ اس معاملہ میں انہیں چھیڑا نہ جائے اور نہ ہی ان پر انگشت نمانی کی جائے ۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی صحت پر درج بالا صورت حال کے اندر دلیل موجود ہے۔- اگر یہ کہا جائے حضرت عمر (رض) نے حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کو بھی لکھا تھا کہ ان میں سے جن لوگوں نے اپنی محرم عورتوں سے نکاح کر رکھا ہے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے اور انہیں آئندہ اس قسم کی شادیاں کرنے سے روک دیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ثابت ہوتی تو یہ تواتر کے ساتھ نقل ہوتی جس طرح جزیہ لینے ، خراج مقرر کرنے اور ان کے ساتھ دوسرے تمام امور میں حضرت عمر (رض) کا طریق کار تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ اس لیے جب یہ بات تواتر کے ساتھ نقل نہیں ہوتئی تو ہمیں اس سے یہ علم ہوگیا کہ اس کا ثبوت ہی نہیں ہے۔ حضرت سعد (رض) کی طرف حضرت عمر (رض) کے مراسلے میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں ہو جو ہمارے احکام پر چلنے پر رضا مند ہوگئے ۔ اگر اہل کتاب ہمارے احکام پر عمل کرنے پر رضا مند ہوجائیں تو ایسے لوگوں کے متعلق ہمارا قول بھی یہی ہے۔- نیز ہم نے واضح کردیا ہے کہ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ اس تخییر کے لیے ناسخ ہے جس کا ذکر قول باری فان جاء وک فاحکم بینھم او اعرض عنھم میں ہوا ہے ۔ اس سے صرف تخییر کا نسخ ثابت ہوا ہے لیکن ہمارے پاس ان کے آنے کی شرط تو اس کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ۔ اس لیے شرط کے حکم کو باقی رہنا چاہیے اور تحییر کے حکم کو منسوخ ہونا چاہیے۔ اس بنا پر دوسری آیت کے ساتھ اس عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی ۔ فان جاء و ک فاحکم بینھم بما انزل اللہ اگر یہ لوگ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کر دو ۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول کہ اگر یہ لوگ رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام پر چلایا جائے گا ۔ مگر گواہوں کے بغیر نکاح اوعدت میں نکاح کا مسئلہ اس سے خارج رہے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے احکام پر چلنے کی رضا مندی کے اظہار سے پہلے ہمیں ان کے احکام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔- جب یہ لوگ اس بات پر رضا مند ہوجائیں اور پھر ان کا کوئی جھگڑا ہماری عدالتوں میں پیش ہو تو اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ ہم انہیں آئندہ کے لیے احکام اسلام پر چلنے کا پابند بنائیں گے ، اور یہ بات تو واضح ہے کہ عدت مستقبل میں نکاح کے بقاء کے لیے مانع نہیں ہوتی صرف ابتدائے نکاح کے لیے مانع ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ کوئی عورت جو کسی مرد کی بیوی ہو اگر شبہ کی بنا پر اس کے ساتھ ہم بستری کرلی جائے اور اس کی وجہ سے اس عدت گزارنی پڑجائے تو یہ واجب ہونے والی عدت حکم نکاح کے بقا کے لیے مانع نہیں ہوگی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدت صرف عقد کی ابتدا کو مانع ہوتی ہے عقد کے بقا کو مانع نہیں ہوتی ۔ اسی بنا پر مذکورہ بالا اہل ذمہ میاں بیوی کے درمیان تفریق نہیں کی جائے گی ۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عدت اللہ کا حق ہے اور اہل ذمہ احکام شریعت میں حقوق اللہ کے سلسلے میں جوابدہ نہیں ہوتے۔ جب ان کے ہاں کوئی عدت واجب ہی نہیں ہوتی تو پھر کسی ذمی عورت پر عدت ہی نہیں ہوگی اس لیے اس کا دوسرا نکاح درست ہوگا ۔ یہی صورت محرم عورتوں سے نکاح کی ہے اس لیے کہ اس نکاح کے بطلان کے سلسلے میں ابتدائے نکاح اور بقائے نکاح کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ گواہوں کے بغیر نکاح کا جہاں تک تعلق ہے تو نکاح کی صحت کے لیے جس چیز کی شرط ہے وہ یہ کہ عقد کے وقت گواہ موجود ہوں ۔ اس میں عقد کی بقا کے لیے گواہوں کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ عقد نکاح کے بعد اگر گواہ مرتد ہوجائیں یا مرجائیں تو عقد نکاح پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ جب گواہوں کی ضروت صرف ابتدائے نکاح کے لیے ہوتی ہے ، بقائے نکاح کے لیے نہیں ہوتی تو پھر مستقبل میں بقائے نکاح کے لیے گواہوں کی عدم موجودگی کا مانع بن جانا درست نہیں ہوگا ۔ ایک اور جہت سے دیکھے ، گواہوں کے بغیر نکاح کی صحت فقہاء کے درمیان ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ کچھ فقہاء ایسے نکاح کے جواز کے قائل ہیں اس کے جواز کے بارے میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔ اگر مسلمانوں میں ایسا عقد نکاح ہوجائے تو جب تک تنازعہ اٹھ کھڑا نہ ہو اس وقت تک اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس لیے جب حالت کفر میں ایسا کفر کرلیا گیا ہو تو اسے فسخ کردینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ایسا نکاح وقوع پذیر ہونے کے وقت درست اور جائز تھا۔ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے نکاح کو حاکم نافذکر دے تو وہ جائز ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اسے فسخ کر ناجائز نہیں ہوتا ۔- امام ابوحنیفہ نے اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ہمارے احکام کی پابندی پر رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام پر چلایا جائے گا اس کی وجہ سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان جاء و ک فاحکم بینھم اللہ تعالیٰ نے ان کے آنے کی شرط لگائی ہے اس لیے میاں بیوی میں سے ایک کے آنے پر دوسرے پر حکم لگانا جائز نہیں ہوگا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب ان میں سے ایک ہمارے احکام کو قبول کرنے پر رضا مند ہوجائے تو اس پر احکام اسلام کا لزوم ہوجائے گا اس صورت میں اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے اسلام قبول کرلیا اس لیے اس کے ساتھ دوسرے کو بھی احکام اسلام پر چلایا جائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ ہمارے احکام پر ایک کی رضا مندی سے اس پر یہ احکام بطور ایجاب لازم نہیں ہوتے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اس پر حکم اسلام چلانے سے پہلے یہ اپنی رضا سے رجوع کرے تو اس پر حکم اسلام لازم نہیں ہوگا اور اسلام لانے کے بعد ہی ہمارے احکام پر اس کی رضا مندی کا امکان پیدا ہوگا ۔ نیز جب ان پر اعتراض صرف اسی صور ت میں جائز ہوتا ہے جب و ہمارے احکام پر چلنے کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیں ۔ اب ان میں سے جو شخص ہمارے احکام پر چلنے کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کرے گا اسے اپنے احکام پر باقی رہنے دیا جائے گا اور کسی اور کی رضا مندی کی بنا پر اس کی ذات پر احکام اسلام لازم کردینا جائز نہیں ہوگا ۔ اس مسئلے میں امام محمد نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ میاں بیوی میں سے ایک کی رضا مندی سے دوسرے پر احکام اسلام کا لزوم ہوجائے گا جس طرح اگر ایک مسلمان ہوجائے تو دوسرے پر اسلام لانا لازم ہوجاتا ہے ۔ امام ابو یوسف نے اس مسئلے میں ظاہر قول باری اوان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ھم سے استدلال کر کے اپنا مسلک اختیار کیا ہے۔ قول باری ہے وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ فیھا حکم اللہ اور یہ تمہیں کیسے حکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے ۔ یعنی ۔۔۔۔ اللہ اعلم ۔۔۔۔ ان امور میں جن کے فیصلے کے لیے یہ تمہیں حکم بناتے ہیں ۔ ایک قول ہے کہ انہوں نے زنا کاری میں ملوث ہونے والے مرد اور عورت کے متعلق فیصلے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنایا تھا ایک قول ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریضہ کے مابین دیت کے جھگڑے میں انہوں نے آپ کو فیصل بنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ انہوں نے آپ کو اس بنا پر فیصل نہیں بنایا تھا کہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے تھے بلکہ ان کے عیش نظر سزا میں نرمی کا حصول تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما اولئک بالمومنین اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ یعنی یہ لوگ آپ کے فیصلے کے بارے میں ایمان ہی نہیں رکھتے کہ یہ فیصلہ اللہ کی طرف سے ہے۔ جبکہ انہیں آپ کی نبوت کا بھی انکار ہے اور تورات میں موجود حکم الٰہی کے اعتقاد سے بھی یہ روگرداں ہیں ۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر کسی اور فیصلے کی تلاش کی اور اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے تو درحقیقت انہوں نے اس بنا پر ایسا کیا کہ یہ کافر ہیں ، ایمان والے نہیں ہیں ۔ - قول باری وعند ھم التوراۃ فیھا حکم اللہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس معاملے میں ان کا آپس میں تنازعہ ہوا تھا اس کے متعلق تورات کا حکم منسوخ نہیں ہوا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ حکم ہمارے لیے شریعت کے درجے میں ہوگیا اور منسوخ نہیں ہوا، اس لیے کہ اگر یہ منسوخ ہوچکا ہوتا تو نسخ کے بعد اس پر حکم اللہ کا اطلاق نہ ہوتا جس طرح یہ اطلاق نہیں ہوسکتا کہ شراب کی حلت یا ہفتے کے دن کی تحریم اللہ کا حکم ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی لائی ہوئی شریعتیں ہمارے لیے بھی لازم ہیں جب تک ان کا نسخ نہ ہوجائے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد بھی ان پر حکم اللہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ قول باری فیھا حکم اللہ کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد رجم کے متعلق اللہ کا حکم ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حدذ زنا کے متعلق اپنا جھگڑا طے کرانے آئے تھے۔ قتادہ کا قول ہے اس میں قصاص کا حکم ہے اس لیے کہ قصاص کے متعلق ان کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ رجم اور قصاص دونوں کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنا جھگڑا طے کرانے آئے تھے تو بھی درست ہوگا ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) احکام خداوندی میں تبدیلی کرکے یہ لوگ رشوت اور حرام کھانے والے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس بنوقریظہ، اور نضیر یا خیبر والے آئیں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں تو ان کے درمیان سنگسار کرنے کا فیصلہ فرما دیجیے یا اعراض کیجیے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ فرمائیں تو رجم کا فیصلہ فرمائیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں اور کتاب اللہ (تورات) کے حکم رجم پر عمل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ ) (اَکّٰلُوْنَ للسُّحْتِ ط) (فَاِنْ جَآءُ وْکَ ) (فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ ج) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ آپ چاہیں تو ان کا مقدمہ سنیں اور فیصلہ کردیں اور چاہیں تو مقدمہ لینے ہی سے انکار کردیں ‘ کیونکہ ان کی نیت درست نہیں ہوتی اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا فیصلہ لینے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ پراپیگنڈا کریں گے کہ دیکھو جی ہم تو گئے تھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لے کر ‘ یہ کیسے نبی ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ کرنے کو ہی تیار نہیں اس ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی پرواہ نہ کریں۔- (وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْءًا ط) ۔- یعنی ان کے مخالفانہ پراپیگنڈے سے قطعاً فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :69 یہاں خاص طور پر ان کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جھوٹی شہادتیں لے کر اور جھوٹی رودادیں سن کر ان لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :70 یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکوت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے ۔ ان معاہدات کی رو سے یہودیوں کو اپنے اندرونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق ان کے اپنے جج کرتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ ازروئے قانون مجبور نہ تھے ۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے ان کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس امید پر آجاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں ۔ یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا ۔ توراۃ کی رو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲٤ ) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پنچ بنایا جائے ۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے ۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا ۔ آپ نے رجم کا حکم دیا ۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا ۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا ۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر ان سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا ۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا ، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توارۃ کا سب سے بڑا عالم تھا ، خاموش رہا ۔ آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طور پر تمہیں شریعت عطا کی ، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حکام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا ۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جائیں اور انہیں منہ کالا کر کے گدھے پر الٹے منہ سوار کیا جائے ۔ “ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: یہاں حرام سے مراد وہ رشوت ہے جس کی خاطر یہودی پیشوا تورات کے احکام میں تبدیلیاں کردیتے تھے۔ 37: جو یہودی فیصلہ کرانے آئے تھے ان سے جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا مگر وہ باقاعدہ اسلامی حکومت کے شہری نہیں تھے، اس لئے آپ کو یہ اختیار دیا گیا کہ چاہیں توان کا فیصلہ کردیں اور چاہیں توانکار فرمادیں، ورنہ جو غیر مسلم اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں ملک کے عام قوانین میں ان کا فیصلہ بھی اسلامی شریعت کے مطابق ہی کرنا ضرری ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے البتہ ان کے خاص مذہبی قوانین جو نکاح طلاق اور وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں ان میں انہی کے مذہب کے مطابق فیصلہ انہی کے ججوں کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔