Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جھوٹ سننے اور کہنے کے عادی لوگ ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، جو رائے ، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے ہیں ۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکل کر کفر کی طرف دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں ۔ گویہ لوگ زبانی ایمان کے دعوے کریں لیکن ان کا دل ایمان سے خالی ہے ۔ منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان کے کھرے ، دل کے کھوٹے اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے جو اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ۔ یہ جھوٹ کو مزے مزے سے سنتے ہیں اور دل کھول کر قبول کرتے ہیں ۔ لیکن سچ سے بھاگتے ہیں ، بلکہ نفرت کرتے ہیں اور جو لوگ آپ کی مجلس میں نہیں آتے یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے ہیں ۔ ان کی طرف سے جاسوسی کرنے کو آتے ہیں ۔ پھر نالائقی یہ کرتے ہیں کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے ہیں مطلب کچھ ہو ، لے کر کچھ اڑتے ہیں ، ارادے یہی ہیں کہ اگر تمہاری خواہش کے مطابق کہے تو مان لو ، طبیعت کے خلاف ہو تو دور رہو ۔ کہا کیا گیا ہے کہ یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے نے قتل کر دیا تھا ، اب کہنے لگے چلو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اگر آپ دیت جرمانے کا حکم دیں تو منظور کرلیں گے اور اگر قصاص بدلے کو فرمائیں تو نہیں مانیں گے ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ایک زنا کار کو لے کر آئے تھے ۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن انہوں نے اسے بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے مار کر ، منہ کالا کر کے ، الٹا گدھا سوار کر کے رسوائی کر کے چھوڑ دیتے تھے ۔ جب ہجرت کے بعد ان میں سے کوئی زنا کاری کے جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے لگے آؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کریں ، اگر آپ بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے ہیں تو اسے قبول کریں گے اور اللہ کے ہاں بھی یہ ہماری سند ہو جائے گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے تو نہیں مانیں گے ۔ چنانچہ یہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ ہمارے ایک مرد عورت نے بدکاری کی ہے ، ان کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہارے ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا ہم تو اسے رسوا کرتے ہیں اور کوڑے مار کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا ، جھوٹ کہتے ہیں ، تورات میں سنگسار کا حکم ہے ۔ لاؤ تورات پیش کرو ، انہوں نے تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی سب عبارت پڑھ سنائی ۔ حضرت عبداللہ سمجھ گئے اور آپ نے فرمایا اپنے ہاتھ کو تو ہٹا ، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے کی آیت موجود تھی ، اب تو انہیں بھی اقرار کرنا پڑا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے بچانے کیلئے اس کے آڑے آ جاتا تھا ( بخاری مسلم ) اور سند سے مروی ہے کہ یہودیوں نے کہا ہم تو اسے کالا منہ کر کے کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور آیت کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے کہا ، ہے تو یہی حکم لیکن ہم نے تو اسے چھپایا تھا ، جو پڑھ رہا تھا اسی نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا ، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑ گئی ۔ ان دونوں کے رجم کرنے والوں میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی موجود تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا تھا ، اپنے مدرسے میں گدی پر آپ کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ کے سامنے پڑھ رہا تھا ، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے قسم دے کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے ہو؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا ، خاموش ہی کھڑا رہا ، آپ نے اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا ، اس نے کہا جب آپ ایسی قسمیں دے رہے ہیں تو میں جھوٹ نہ بولوں گا ، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے پہل اس رجم کو تم نے کیوں اور کس پر سے اڑایا ؟ اس نے کہا حضرت ہمارے کسی بادشاہ کے رشتے دار ، بڑے آدمی نے زنا کاری کی ۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے مارے اسے رجم کرو ورنہ اسے بھی چھوڑو ۔ آخر ہم نے مل ملا کر یہ طے کیا کہ بجائے رجم کے اس قسم کی کوئی سزا مقرر کر دی جائے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے حکم کو جاری کیا اور اسی بارے میں آیت ( انا انزلنا ) الخ ، اتری ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام کے جاری کرنے والوں میں سے ہیں ( احمد ابو داؤد ) مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے لے جا رہے تھے اور اسے کوڑے بھی مار رکھے تھے ، تو آپ نے بلا کر ان سے ماجرا پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا زانی کی یہی سزا تمہارے ہاں ہے؟ کہا ہاں ۔ آپ نے ان کے ایک عالم کو بلا کر اسے سخت قسم دے کر پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر آپ ایسی قسم نہ دیتے تو میں ہرگز نہ بتاتا ، بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دراصل زنا کاری کی سزا سنگساری ہے لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں اس قسم کی سزا دینی ہم نے مناسب نہ جانی ، اس لئے انہیں تو چھوڑ دیتے تھے اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے اس لئے غریب غرباء ، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے تھے پھر ہم نے رائے زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف ، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے چنانچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے کر دیں اور کوڑے لگائیں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا اور آپ نے فرمایا اے اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے ایک مردہ حکم کو زندہ کیا ۔ اس پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ ) 5 ۔ المائدہ:41 ) سے ( ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:44 ) تک نازل ہوئی ۔ انہی یہودیوں کے بارے میں ۔ اور آیت میں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں اور آیت میں ہے ( فاسق ہیں ( مسلم وغیرہ اور روایت میں ہے واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے یہودیوں نے مدینے شریف کے یہودیوں کو لکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا ، یہ آنکھ کا بھینگا تھا ، اور اس کے ساتھ دوسرا عالم بھی تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں قسم دی تو دونوں نے قول دیا تھا ، آپ نے انہیں کہا تھا ، تمہیں اس اللہ کی قسم جس نے بنو اسرائیل کیلئے پانی میں راہ کر دی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے بچا لیا تھا اور من و سلویٰ اتارا تھا ۔ اس قسم سے وہ چونک گئے اور آپس میں کہنے لگے بڑی زبردست قسم ہے ، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں تو کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تورات میں یہ ہے کہ بری نظر سے دیکھنا بھی مثل زنا کے ہے اور گلے لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی ، پھر اگر چار گواہ اس بات کے ہوں کہ انہوں نے دخول خروج دیکھا ہے جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے تو رجم واجب ہو جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا یہی مسئلہ ہے پھر حکم دیا اور انہیں رجم کرا دیا گیا ۔ اس پر آیت ( فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا ۭوَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۭاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:42 ) ، اتری ( ابو داؤد وغیرہ ) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے لائے گئے تھے ، یہ دونوں صوریا کے لڑکے تھے ۔ ترک حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے یہ بیان ہوا ہے کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے اپنے آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ نے گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے بیان دیا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں اس برائی میں دیکھا ہے ، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے ۔ دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے عالموں کو بلوانا ، یہ سب انہیں الزام دینے کیلئے نہ تھا ، نہ اس لئے تھا کہ وہ اسی کے ماننے کے مکلف ہیں ، نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان واجب العمل ہے ، اس سے مقصد ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے آپ نے یہ معلوم کر لیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے اور یہی نکلا ، دوسرے ان کی رسوائی کہ انہیں پہلے کے انکار کے بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے والے اور اپنی رائے قیاس پر عمل کرنے والے ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ لوگ سچے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے نہیں آئے تھے کہ آپ کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لئے آئے تھے کہ اگر آپ کو بھی اپنے اجماع کے موافق پائیں گے تو اتحاد کرلیں گے ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے ، اسی لئے فرمان ہے کہ جنہیں اللہ گمراہ کر دے تو ان کو کسی قسم سے راہ راست آنے کا اختیار نہیں ہے ان کے گندے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ کا ارادہ نہیں ، یہ دنیا میں ذلیل و خواہ ہوں گے اور آخرت میں داخل نار ہوں گے ۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے لے کر سننے والے ہیں اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے کھانے والے ہیں ، بھلا ان کے نجس دل کیسے پاک ہوں گے؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے سنے گا ؟ اگر یہ تیرے پاس آئیں تو تجھے اختیار ہے کہ ان کے فیصلے کر یا نہ کر اگر تو ان سے منہ پھیر لے جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اس آیت سے ( وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) 5 ۔ المائدہ:49 ) پھر فرمایا اگر تو ان میں فیصلے کرے تو عدل و انصاف کے ساتھ کر ، گویہ خود ظالم ہیں اور عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔ پھر انی کی خباثت بدباطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے ، جس کی تابعداری اور حقانیت کے خود قائل ہیں ، دوسری طرف اس جانب جھک رہے ہیں ، جسے نہیں مانتے اور جسے جھوٹ مشہور کر رکھا ہے ، پھر اس میں بھی نیت بد ہے کہ اگر وہاں سے ہماری خواہش ہے مطابق حکم ملے گا تو لے لیں گے ، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے ۔ یہ فرمایا کہ یہ کیسے تیری فرماں برداری کریں گے؟ انہوں نے تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے ، جس میں اللہ کے احکامات ہونے کا اقرار نہیں بھی ہے لیکن پھر بھی بے ایمانی کر کے اس سے پھر جاتے ہیں ۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے اپنے برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ بن عمران پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی ۔ انبیاء جو اللہ کے زیر فرمان تھے ، اسی پر فیصلے کرتے رہے ، یہودیوں میں اسی کے احکام جاری کرتے رہے ، تبدیلی اور تحریف سے بچے رہے ، ربانی یعنی عابد ، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے ۔ کیونکہ انہیں یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے اظہار کا اور اس پر عمل کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے ۔ اب تمہیں چاہئے کہ بجز اللہ کے کسی اور سے نہ ڈرو ۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول فروخت نہ کیا کرو ۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے وہ کافر ہے ۔ اس میں دو قول ہیں جو ابھی بیان ہوں گے انشاء اللہ ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق ۔ بات یہ ہے کہ یہودیوں کے دو گروہ تھے ، ایک غالب تھا ، دوسرا مغلوب ۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب ، ذی عزت فرقے کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے کے کسی شخص کو قتل کر ڈالے تو پچاس وسق دیت دے اور ذلیل لوگوں میں سے کوئی عزیز کو قتل کر دے تو ایک سو وسق دیت دے ۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے ، اس کے بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے والے یہودیوں میں سے کسی نے کسی اونچے یہودی کو مار ڈالا ۔ یہاں سے آدمی گیا کہ لاؤ سو وسق دلاؤ دلواؤ ، وہاں سے جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے کے ، ایک ہی دین کے ، ایک ہی نسب کے ، ایک ہی شہر کے پھر ہماری دیت کم اور تمہارا زیادہ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے دبے ہوئے تھے ، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے لیکن اب جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عادل بادشاہ یہاں آ گئے ہیں ہم تمہیں اتنی ہی دیت دیں گے جتنی تم ہمیں دو ۔ اس بات پر ادھر ادھر سے آستینیں چڑھ گئیں ، پھر آپس میں یہ بات طے ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے کا فیصلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے ۔ لیکن اونچی قوم کے لوگوں نے آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے سمجھداروں نے کہا دیکھو اس سے ہاتھ دھو رکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں ۔ یہ تو صریح زیادتی ہے کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے دب کر اسے منظور کیا تھا جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے تو یقینا تمہارا یہ حق مارا جائے گا کسی نے رائے دی کہ اچھا یوں کرو ، کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چپکے سے بھیج دو ، وہ معلوم کر آئے کہ آپ فیصلہ کیا کریں گے؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے ہیں ۔ چنانچہ مدینہ کے چند منافقوں کو انہوں نے جاسوس بنا کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتار کر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں فرقوں کے بد ارادوں سے مطلوع فرما دیا ( ابو داؤد ) ایک روایت میں ہے کہ یہ دونوں قبیلے بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے ۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی دیت یکساں دینے کا فیصلہ صادر فرمایا ۔ ایک روایت ہے کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے تو اس سے قصاص لیتے تھے لیکن اس کے خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں سو وسق دیت تھی ۔ یہ بہت ممکن ہے کہ ادھر یہ واقعہ ہوا ، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا ، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں واللہ اعلم ۔ ہاں ایک بات اور ہے جس سے اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس کے بعد ہی فرمایا ہے آیت ( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:45 ) یعنی ہم نے یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کر دیا تھا کہ جان کے عوض جان ، آنکھ کے عوض آنکھ ۔ واللہ اعلم ۔ پھر انہیں کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے بقول مفسرین اہل کتاب کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے ہر شخص کو شامل ہے ۔ بنو اسرائیل کے بارے میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رشوت حرام ہے اور رشوت ستانی کے بعد کسی شرعی مسئلہ کے خلاف فتویٰ دینا کفر ہے ۔ سدی فرماتے ہیں جس نے وحی الٰہی کے خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے کے باوجود اس کے خلاف کیا وہ کافر ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس نے اللہ کے فرمان سے انکار کیا ، اس کا یہ حکم ہے اور جس نے انکار تو نہ کیا لیکن اس کے مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے ۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور شعبی فرماتے ہیں مسلمانوں میں جس نے کتاب کے خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس کا کفر اس آیت کے ساتھ ہے ۔ طاؤس فرماتے ہیں اس کا کفر اس کے کفر جیسا نہیں جو سرے سے اللہ کے رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو ۔ عطا فرماتے ہیں کتم ( چھپانا ) کفر سے کم ہے اسی طرح ظلم و فسق کے بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے ہیں ۔ اس کفر سے وہ ملت اسلام سے پھر جانے والا جاتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد وہ کفر نہیں جس کی طرف تم جا رہے ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 نبی کریم کو اہل کفر و شرک کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کا راستہ نہ اپنانے پر جو قلق اور افسوس ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو زیادہ غم نہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں تاکہ اس اعتبار سے آپ کو تسلی رہے کہ ایسے لوگوں کی بابت عند اللہ مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی۔ 41۔ 2 آیت نمر 41 تا 44 کی شان نزول میں دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک تو دو شادی شدہ یہودی زانیوں (مرد عورت) کا۔ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تو رد وبدل کر ڈالا تھا، علاوہ ازیں اس کی کئی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک حکم رجم بھی تھا جو ان کی کتاب میں شادی شدہ زانیوں کے لئے تھا اور اب بھی وہ موجود ہے لیکن وہ چونکہ اس سزا سے بچنا چاہتے تھے اس لئے آپس میں فیصلہ کیا کہ محمد کے پاس چلتے ہیں اگر انہوں نے ہمارے ایجاد کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کا کہا تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دیا تو نہیں مانیں گے۔ چناچہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کی بابت کیا ہے ؟ انہوں نے تورات میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے عبد اللہ بن سلام (رض) نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، جاؤ تورات لاؤ تورات لا کر وہ پڑھنے لگے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنے لگ گئے حضرت عبد اللہ بن السلام نے کہا یہاں سے ہاتھ ہٹاؤ تو وہ آیت وہاں موجود تھی۔ بالاخر انہیں اعتراف کرنا پڑا۔ چناچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کردیا (ابن کثیر) ۔ ایک دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ یہود کا ایک قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے یہودی قبیلے سے زیادہ معزز اور محترم سمجھتا تھا اور اسی کے مطابق اپنے مقتول کی دیت سو وسق اور دوسرے قبیلے کے مقتول کی پچاس وسق مقرر کر رکھی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہود کے دوسرے قبیلے کو کچھ حوصلہ ہوا جس کے مقتول کی دیت نصف تھی اور اس نے دیت سو وسق دینے سے انکار کردیا۔ قریب تھا کہ ان کے درمیان اس مسئلے پر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن ان کے سمجھدار لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرانے پر رضامند ہوگئے اس موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے ہوں اور ان سب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا ہو۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] کفار اور منافقوں کی معاندانہ سرگرمیوں سے آپ کی دل گرفتگی :۔ مکہ میں مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو دکھ پہنچانے والے اور پریشانی میں مبتلا رکھنے والے صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ آ کر آپ کو چار قسم کے لوگوں سے دکھ پہنچ رہا تھا۔ ایک منافقین دوسرے یہود، تیسرے مشرک قبائل عرب اور چوتھے مشرکین مکہ جنہوں نے فتح مکہ تک اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی تاہم اس آیت میں صرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے ایک منافقین دوسرے یہود۔ اور ان کی معاندانہ سرگرمیاں بھی طرح طرح کی تھیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کرنا، مسلمانوں میں ہی فتنہ کی آگ بھڑکانا، لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا، مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنا اور گالی دینا اور جنگ کے وقت مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا اور جنگ کے دوران کافروں کا ساتھ دینا۔ ایک تو آپ اس بات پر بھی بہت دل گرفتہ رہتے تھے کہ لوگ کیوں اسلام قبول نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد یہ معاندانہ سرگرمیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ تو آپ سخت پریشان اور دل گرفتہ ہوجاتے تھے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ آپ کی اسی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ آپ کو ان حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب لوگ اللہ کے علم میں ہیں اور یہ اپنے انجام کو پہنچ کے رہیں گے۔ آپ کو صرف اللہ پر ہر وقت نظر رکھنا چاہیے۔- [٧٥] زانی جوڑے کی سزا :۔ اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ہوا یہ تھا کہ خیبر کے ایک امیر گھرانے کے ایک شادی شدہ یہودی اور یہودن نے زنا کیا تھا اور وہ چاہتے یہ تھے کہ رجم کی سزا سے بچ جائیں کیونکہ تورات میں ان کی سزا رجم مقرر تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخر الزماں کی شریعت میں ایسے زنا کی سزا کوڑے ہے رجم نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے اس یہودی اور یہودن کا مقدمہ آپ کی عدالت میں پیش کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کا یہود مدینہ سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے یہودی اس بات میں آزاد تھے کہ اپنے مقدمات اور تنازعات خود ہی تورات کے مطابق فیصلہ کرلیا کریں اور اگر چاہیں تو وہ اپنے مقدمات نبی آخر الزماں کی عدالت میں لے جائیں اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ہی ان پر لاگو ہوگا۔ اور یہود یہ مقدمہ اس غرض سے آپ کے پاس لائے تھے کہ یہ امیر زانی جوڑا رجم کی سزا سے بچ جائے اور آپس میں طے یہ کیا کہ اگر یہ نبی کوڑوں کی سزا کا فیصلہ دے تو اس کا فیصلہ تسلیم کرلینا اور اگر رجم کا فیصلہ سنائے تو تسلیم نہ کرنا۔- مسلم کی روایت جو براء بن عازب سے مروی ہے اور آگے آرہی ہے یوں ہے کہ یہود نے اس امیر زانی یہودی کو کوڑوں کی سزا دی تھی اور اس کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے گشت کروا رہے تھے تو آپ نے خود ان کو اپنے پاس بلایا۔ اس طرح یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں آگیا۔- [٧٦] یہودی نہ تورات کے متبع تھے نہ نبی کے :۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں وہ نہ تو رات کی اتباع کرنے پر تیار تھے اور نہ نبی کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کو تیار تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کر رہے تھے۔ کتاب اللہ یعنی تورات کے منکر اس لیے کہ تورات میں رجم کا حکم موجود تھا اور یہ بات وہ خوب جانتے تھے اور نبی کے منکر اس لیے کہ وہ فیصلہ کو مشروط طور پر ماننا چاہتے تھے یعنی اگر وہ ان کی خواہش کے مطابق (یعنی کوڑوں کی سزا) ہوا تو مان لیں گے اور اگر خواہش کے مخالف (یعنی رجم کی سزا) ہوا تو نہ مانیں گے لہذا یہ اتباع نہ تورات کی ہوئی اور نہ نبی کی بلکہ ان کی اپنی خواہش کی اتباع ہوئی اور جو شخص خود ہی فتنہ میں پڑا رہنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فتنہ کی راہ ہی کھول دیتا ہے اور اللہ کے حکم سے بغاوت کی بنا پر ان کے دلوں کو ایسے خبیث امراض سے پاک نہیں کرتا۔ وہ صرف اس کا دل پاک کرتا ہے جو خود بھی اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو صرف مشرکین سے واسطہ تھا، مدینہ میں آئے تو منافقین اور یہود کی سازشیں بھی ساتھ مل گئیں، اس پر تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کی وجہ سے غمگین نہ ہوں جو کفر میں دوڑ کر جاتے ہیں، یعنی جب بھی انھیں کوئی موقع ہاتھ آتا ہے فوراً کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں، کافروں سے مل جاتے ہیں۔ اس کا تعلق منافقین سے ہے۔ (رازی)- وَمِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ۔۔ : یعنی کفر میں دوڑ کر جانے والے یہودی بھی آپ کو غمگین نہ کریں۔ ” سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ “ جو جھوٹی باتیں بہت سنتے ہیں۔ یعنی جو کچھ ان کو ان کے مذہبی پیشوا تورات میں تحریف کر کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر طعن کے طور پر کہتے ہیں اسے خوب سنتے اور قبول کرتے ہیں، ” سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ۙ“ یعنی پھر یہ ان لوگوں کے جاسوس بن کر مسلمانوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس میں جا کر خوب سنتے ہیں، جو تکبر کی وجہ سے ان مجلسوں میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے۔ (کبیر) - يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ۚ : کتب تفاسیر و احادیث میں لکھا ہے کہ یہود میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کیا، ان کے علماء نے باہم مشورہ کر کے طے کیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کروا لیتے ہیں، کیونکہ وہ نرم شریعت لے کر آئے ہیں، اگر انھوں نے کوڑے مارنے کا حکم دیا تو ہماری مراد بر آئے گی اور اگر انھوں نے سنگ سار کرنے کا حکم دیا تو ہم ان کا فیصلہ ٹھکرا دیں گے۔ چناچہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [ مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ فی الزنٰی : ١٦٩٩ ] مفصل واقعہ کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (١٥) کا حاشیہ (١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات - سورة مائدہ کے تیسرے رکوع میں اہل کتاب کا ذکر چلا آرہا تھا، درمیان میں قدر قلیل اور بعض مضامین خاص خاص مناسبات سے آگئے تھے۔ اب آگے پھر اہل کتاب ہی کا ذکر دور تک چلا گیا ہے۔ اہل کتاب میں یہود و نصاریٰ کے دو فرقے تو تھے ہی، ایک تیسرا فرقہ اور شامل ہوگیا تھا، جو حقیقت میں یہودی تھے، مگر منافقانہ طور پر مسلمان ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کے سامنے اپنا اسلام ظاہر کرتے تھے اور اپنے ہم مذہب یہودیوں میں بیٹھتے تو اسلام اور مسلمانوں کا استہزاء کرتے تھے، مذکورہ تین آیتیں انہی تینوں فرقوں کے ایسے اعمال سے اور حالات سے متعلق ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایات کے مقابلہ میں اپنی خواہشات اور رائیوں کو مقدم رکھتے ہیں اور احکام و ہدایات کے مقابلہ میں اپنی خواہشات اور رائیوں کو مقدم رکھتے ہیں اور احکام و ہدایات میں تاویلیں کرکے اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں ایسے لوگوں کی دنیا و آخرت میں رسوائی اور انجام بد کا بیان ہے۔ اس کے ضمن میں مسلمانوں کے لئے چند اصول ہدایات اور احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ - شان نزول - آیات مذکورہ کے نزول کا سبب دو واقعات ہیں جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودی قبائل میں پیش آئے۔ ایک واقعہ قتل و قصاص کا اور دوسرا واقعہ زنا اور اس کی سزا کا ہے۔ - یہ بات تو کسی تاریخ عالم کے جاننے والے پر مخفی نہیں کہ اسلام سے پہلے ہر جگہ، ہر خطہ اور ہر طبقہ میں ظلم و جور کی حکومت تھی، قوی ضعیف کو، عزت والا بےعزت کو غلام بنائے رکھتا تھا۔ قوی اور عزت والے کے لئے قانون اور تھا اور کمزور و بےعزت کے لئے قانون دوسرا تھا۔ جیسے آج بھی اپنے آپ کو مہذب اور متمدّن کہنے والے بہت سے ممالک میں کالے اور گورے کا قانون الگ الگ ہے۔ محسن انسانیت رسول عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی آکر ان امتیازات کو مٹایا۔ اولاد آدم کے حقوق کی مساوات کا اعلان کیا اور انسان کو انسانیت اور آدمیت کا سبق دیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے پہلے حوالی مدینہ میں یہود کے دو قبیلے بنو قریظہ اور بنو نضیر آباد تھے۔ ان میں سے بنو نضیر قوت و شوکت اور دولت و عزت میں بنو قریظہ سے زیادہ تھے۔ یہ لوگ آئے دن بنو قریظہ پر ظلم کرتے رہتے تھے اور وہ چار ونا چار اس کو سہتے تھے۔ یہاں تک کہ بنو نضیر نے بنو قریظہ کو اس ذلت آمیز معاہدہ پر مجبور کیا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کا قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا ان کو حق نہ ہوگا۔ بلکہ صرف ستر وسق کھجوریں اس کے خون بہا کے طور پر ادا کی جائیں گی۔ (وسق عربی اوزان کا ایک پیمانہ ہے جو ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً پانچ من دس سیر کا ہوتا ہے) اور اگر معاملہ برعکس ہو کہ بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دے تو قانون یہ ہوگا کہ اس کے قاتل کو قتل بھی کیا جائے گا اور ان سے خون بہا بھی لیا جائے گا۔ اور وہ بھی بنو نضیر کے خون بہا سے دوگنا یعنی ایک سو چالیس وسق کھجوریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ ان کا مقتول اگر عورت ہوگی تو اس کے بدلہ میں بنو قریظہ کے ایک مرد کو قتل کیا جائے گا۔ اور اگر مقتول مرد ہے تو اس کے معاوضہ میں بنو قریظہ کے آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ اور اگر بنو نضیر کے آدمی کا کسی نے ایک ہاتھ کاٹا ہے تو بنو قریظہ کے آدمی کے دو ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ ایک کان کاٹا ہے تو ان کے دو کان کاٹے جائیں گے۔ یہ قانون تھا جو اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کے درمیان رائج تھا اور بنو قریظہ اپنی کمزوری کی بناء پر اس کے ماننے پر مجبور تھے۔ - جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور مدینہ ایک دار السلام بن گیا یہ دونوں قبائل ہنوز نہ اسلام میں داخل ہوئے تھے نہ کسی معاہدہ کی رو سے اسلامی احکام کے پابند تھے، مگر اسلامی قانون کی عدل گستری اور عام سہولتوں کو دور سے دیکھ رہے تھے، اس عرصہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنو قریظہ کے ایک آدمی نے بنو نضیر کے کسی آدمی کو مارڈالا، تو بنو نضیر نے معاہدہ مذکور کے مطابق بنو قریظہ سے دوگنی دیت یعنی خون بہا کا مطالبہ کیا۔ بنو قریضہ اگرچہ نہ اسلام میں داخل تھے، نہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت ان کا کوئی معاہدہ تھا۔ لیکن یہ لوگ یہودی تھے۔ ان میں بہت سے لکھے پڑھے لوگ بھی تھے جو تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق جانتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نبی آخر الزماں ہیں۔ جن کے آنے کی خوشخبری توریت نے دی ہے۔ مگر تعصب مذہبی یا دنیوی لالچ کی وجہ سے ایمان نہ لائے تھے۔ اور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذہب مساوات انسانی اور عدل و انصاف کا علمبردار ہے۔ اس لئے بنو نضیر کے ظلم سے بچنے کے لیے ان کو ایک سہار ملا اور انہوں نے دوگنی دیت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم تم ایک ہی خاندان سے ہیں۔ ایک ہی وطن کے باشندے ہیں اور ہم دونوں کا مذہب بھی ایک یعنی یہودیت ہے۔ یہ غیر منصفانہ معاملہ جو آج تک تمہاری زبردستی اور ہماری کمزوری کے سبب ہوتا رہا اب ہم اس کو گوارا نہ کریں گے۔- اس جواب پر بنو نضیر میں اشتعال پیدا ہوا اور قریب تھا کہ جنگ چھڑ جائے، مگر پھر کچھ بڑے بوڑھوں کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس معاملہ کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرایا جائے، بنو قریظہ کی تو یہ عین مراد تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کے ظلم کو برقرار نہ رکھیں گے۔ بنو نضیر بھی باہمی گفت و شنید اور صلح کی بناء پر اس کے لئے مجبور تو ہوگئے مگر اس میں یہ سازش کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ کے جانے سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کو آگے بھیجا جو اصل میں تو انہی کے ہم مذہب یہودی تھے، مگر منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے جاتے تھے۔ اور مطلب ان کا یہ تھا کہ یہ لوگ کسی طرح مقدمہ اور اس کے فیصلہ سے پہلے اس معاملہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عندیہ اور نظریہ معلوم کرلیں اور یہی تاکید ان لوگوں کو کردی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے مطالبہ کے موافق فیصلہ فرما دیا تو اس کو قبول کرلینا اور اس کے خلاف کوئی حکم آیا تو ماننے کا وعدہ نہ کرنا۔ - سبب نزول کا یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بغوی نے نقل کیا ہے اور مسند احمد و ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس کا خلاصہ منقول ہے (مظہری) ۔- اسی طرح ایک دوسرا واقعہ زنا کا ہے جس کی تفصیل بغوی رحمة اللہ علیہ نے اس طرح نقل کی ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں یہ واقعہ پیش آیا اور تورات کی مقرر کردہ سزا کے موافق ان دونوں کو سنگسار کرنا لازم تھا۔ مگر یہ دونوں کسی بڑے خاندان کے آدمی تھے۔ یہودیوں نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ چاہا کہ ان کے لئے سزا میں نرمی کی جائے۔ اور ان کو یہ معلوم تھا کہ مذہب اسلام میں بڑی سہولتیں دی گئی ہیں۔ اس بناء پر اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ اسلام میں اس سزا میں بھی تخفیف ہوگی، خیبر کے لوگوں نے اپنی برادری بنی قریظہ کے لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اس معاملہ کا فیصلہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرا دیں اور دونوں مجرموں کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ منشاء ان کا بھی یہ تھا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی ہلکی سزا جاری کردیں تو مان لیا جائے ورنہ انکار کردیا جائے۔ بنو قریظہ کو پہلے تو تردّد ہوا کہ معلوم نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسا فیصلہ کریں اور وہاں جانے کے بعد ہمیں ماننا پڑے، مگر کچھ دیر گفتگو کے بعد یہی فیصلہ رہا کہ ان کے چند سردار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان مجرموں کو لے جائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے اس کا فیصلہ کرائیں۔ - چناچہ کعب ابن اشرف وغیرہ کا ایک وفد ان کو ساتھ لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت اگر بدکاری میں مبتلا ہوں تو ان کی کیا سزا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم میرا فیصلہ مانو گے ؟ انہوں نے اقرار کیا، اس وقت جبریل امین اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا سنگسار کرکے قتل کردینا ہے۔ ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلا گئے اور ماننے سے انکار کردیا۔- جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ دیا کہ آپ ان لوگوں سے یہ کہیں کہ میرے اس فیصلہ کو ماننے یا نہ ماننے کے لئے ابن صوریا کو حَکَم بنادو۔ اور ابن صوریا کے حالات وصفات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دئیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنے والے وفد سے کہا کہ کیا تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو جو سفید رنگ مگر ایک آنکھ سے معذور ہے۔ فدک میں رہتا ہے جس کو ابن صوریا کہا جاتا ہے۔ سب نے اقرار کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ آپ لوگ اس کو کیسا سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ علماء یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا کوئی عالم نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس کو بلاؤ۔- چناچہ وہ آگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قسم دے کر پوچھا کہ اس صورت میں تورات کا حکم کیا ہے ؟ یہ بولا، کہ قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو دی ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم نہ دیتے اور مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ غلط بات کہنے کی صورت میں تورات مجھے جلا ڈالے گی تو میں یہ حقیقت ظاہر نہ کرتا، حقیقت یہ ہے کہ حکم اسلام کی طرح تورات میں بھی یہ ہی حکم ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کرکے قتل کرایا جائے۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تم پر کیا آفت آئی کہ تم تورات کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو، ابن صوریا نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ زنا کی سزا، شرعی تو ہمارے مذہب میں یہ ہی ہے، مگر ہمارا ایک شہزادہ اس جرم میں مبتلا ہوگیا۔ ہم نے اس کی رعایت کرکے چھوڑ دیا، سنگسار نہیں کیا۔ پھر یہی جرم ایک معمولی آدمی سے سرزد ہوا، اور ذمہ داروں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا تو مجرم کے جتھہ کے لوگوں نے احتجاج کیا کہ اگر شرعی سزا اس کو دینی ہے تو اس سے پہلے شہزادے کو دو ، ورنہ ہم اس پر یہ سزا جاری نہ ہونے دیں گے۔ یہ بات بڑھی تو سب نے مل کر صلح کرلی کہ سب کے لئے ایک ہی ہلکی سزا تجویز کردی جائے اور تورات کا حکم چھوڑ دیا جائے۔ چناچہ ہم نے کچھ مار پیٹ اور منہ کالا کر کے جلوس نکالنے کی سزا تجویز کردی اور اب یہی سب میں رواج ہوگیا۔ - خلاصہ تفسیر - اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ کفر (کی باتوں) میں دوڑ دوڑ گرتے ہیں (یعنی بےتکلف رغبت سے ان باتوں کو کرتے ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ مغموم نہ کریں (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے کفریات سے مغموم و متاسف نہ ہوں) خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے منہ سے تو (جھوٹ موٹ) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کے دل یقین (یعنی ایمان) لائے نہیں (مراد منافقین ہیں جو کہ ایک واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے) اور خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو کہ یہودی ہیں (جیسا دوسرے واقعہ میں یہ لوگ حاضر ہوئے تھے) یہ (دونوں قسم کے) لوگ (پہلے سے دین کے باب میں اپنے علمائے محرفین سے) غلط باتیں سننے کی خاطر سے کان دھر دھر سنتے ہیں، جس قوم کے یہ حالات ہیں کہ (ایک تو) وہ آپ کے پاس (فرط تکبر و عداوت سے خود) نہیں آئے (بلکہ دوسروں کو بھیجا، اور دوسروں کو بھیجا بھی تو طلب حق کے لئے نہیں بلکہ شاید اپنے احکام محرفہ کے موافق کوئی بات مل جائے، کیوں کہ پہلے سے) کلام (الہٰی) بعد اس کے کہ وہ (کلام) اپنے (صحیح) مواقع پر (قائم) ہوتا ہے (لفظاً یا معنیً یا دونوں طرح) بدلتے رہتے ہیں (چنانچہ اسی عادت کے موافق خون بہا اور رجم کے حکم کو بھی اپنے رسم مخترع سے بدل دیا، پھر اس احتمال سے کہ شاید شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس رسم کو سہارا لگ جائے یہاں اپنے جاسوسوں کو بھیجا۔ تیسرے صرف یہی نہیں کہ اپنی رسم محرّف کے موافق بات کی تلاشی ہی تک رہتے بلکہ مزید یہ ہے کہ جانے والوں سے) کہتے ہیں کہ اگر تم کو (وہاں جاکر) یہ حکم (محرف) ملے تب تو اس کو قبول کرلینا (یعنی اس کے موافق عملدرامد کرنے کا اقرار کرلینا) اور اگر تم کو یہ حکم (محرف) نہ ملے تو (اس کے قبول کرنے سے) احتیاط رکھنا (پس اس بھیجنے والی قوم میں جن کی جاسوسی کرنے یہ لوگ آئے ہیں چند خرابیاں ہوئیں۔ اول تکبر و عداوت جو سبب ہے خود حاضر نہ ہونے کا۔ دوسرے طلب حق نہ ہونا بلکہ حق کو محرف کرکے اس کی تائید کی فکر ہونا۔ تیسرے اوروں کو بھی قبول حق سے روکنا۔ یہاں تک آنے والوں اور بھیجنے والوں کی الگ الگ مذمت تھی۔ آگے ان سب کی مذمت ہے) اور (اصل یہ ہے کہ) جس کا خراب (اور گمراہ) ہونا خدا ہی کو منظور ہو (گو یہ تخلیقی منظوری اس گمراہ کے عزم گمراہی کے بعد ہوتی ہے) تو اس کے لئے اللہ سے (اے عام مخاطب) تیرا کچھ زور نہیں چل سکتا (کہ اس گمراہی کو نہ پیدا ہونے دے، یہ تو ایک عام قاعدہ ہوا اب یہ سمجھو کہ) یہ لوگ ایسے (ہی) ہیں خدا تعالیٰ کو ان کے دلوں کا (کفریات سے) پاک کرنا منظور نہیں ہوا (کیونکہ یہ عزم ہی نہیں کرتے، اس لئے اللہ تعالیٰ تطہیر تخلیقی نہیں فرماتے بلکہ ان کے عزم گمراہی کی وجہ سے تخلیقاً ان کا خراب ہی ہونا منظور ہے۔ پس قاعدہ مذکور کے موافق کوئی شخص ان کو ہدایت نہیں کرسکتا، مطلب یہ ہے کہ جب یہ خود خراب رہنے کا عزم رکھتے ہیں اور عزم کے بعد اس فعل کی تخلیق عادت الہیہ ہے، اور تخلیق الہٰی کو کوئی روک نہیں سکتا، پھر ان کے اوپر آنے کی توقع کیا کی جائے۔ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ تسلی ہو سکتی ہے، جس سے کلام شروع بھی ہوا تھا۔ پس آغاز و انجام کلام کا مضمون تسلی سے ہوا۔ آگے ان اعمال کا ثمرہ فرماتے ہیں کہ) ان (سب) لوگوں کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان (سب) کے لئے سزائے عظیم ہے (یعنی دوزخ، چناچہ منافقین کی یہ رسوائی ہوئی کہ مسلمانوں کو ان کا نفاق معلوم ہوگیا۔ اور سب ذلت سے دیکھتے تھے اور یہود کے قتل و قید و جلاوطنی کا ذکر روایات میں مشہور ہے، اور عذاب ظاہر ہی ہے) یہ لوگ (دین کے باب میں) غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں (جیسا پہلے آچکا) بڑے حرام (مال) کے کھانے والے ہیں (اسی حرص نے ان کو احکام میں غلط بیانی کا جس کے عوض کچھ نذرانہ وغیرہ ملتا ہے خوگر کردیا۔ جب ان لوگوں کی یہ حالت ہے) تو اگر یہ لوگ (اپنا کوئی مقدمہ لے کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (فیصلہ کرانے) آویں تو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختار ہیں) خواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان (کے معاملہ) میں فیصلہ کر دیجئے یا ان کو ٹال دیجئے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی یہی رائے قرار پائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ٹال ہی دیں تو (یہ اندیشہ نہ کیجئے کہ شاید ناخوش ہو کر عداوت نکالیں کیونکہ) ان کی مجال نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذرا بھی ضرر پہنچا سکیں (کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نگہبان ہیں) اور اگر (فیصلہ کرنے پر رائے قرار پائے اور) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ کریں تو ان میں عدل (یعنی قانون اسلام) کے موافق فیصلہ کیجئے، بیشک حق تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں (اور اب وہ عدل منحصر ہوگیا ہے قانون اسلام میں۔ پس وہی لوگ محبوب ہوں گے جو اس قانون کے موافق فیصلہ کریں) اور (تعجب کی بات ہے کہ) وہ (دین کے معاملہ میں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیسے فیصلہ کراتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (لکھا) ہے (جس کے ماننے کا ان کو دعویٰ ہے۔ اول تو یہی بات بعید ہے) پھر (یہ تعجب اس سے اور پختہ ہوگیا کہ) اس (فیصلہ لانے) کے بعد (جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ سنتے ہیں تو اس فیصلہ سے بھی) ہٹ جاتے ہیں (یعنی اول تو اس حالت میں فیصلہ لانے ہی سے تعجب ہوتا تھا۔ لیکن اس احتمال سے رفع ہوسکتا تھا کہ شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق پر ہونا ان پر واضح ہوگیا ہو اس لئے آگئے ہوں۔ لیکن جب اس فیصلہ کو نہ مانا تو وہ تعجب پھر تازہ ہوگیا کہ اب تو وہ احتمال بھی نہ رہا۔ پھر کیا بات ہوگی جس کے واسطے یہ فیصلہ لائے ہیں) اور (اسی سے ہر عاقل کو اندازہ ہوگیا کہ) یہ لوگ ہرگز اعتقاد والے نہیں (یہاں اعتقاد سے نہیں آئے اپنے مطلب کے واسطے آئے تھے اور جب نہ ماننا عدم اعتقاد کی دلیل ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کو اعتقاد نہیں اسی طرح اپنی کتاب کے ساتھ بھی پورا اعتقاد نہیں ورنہ اس کو چھوڑ کر کیوں آتے۔ غرض دونوں طرف سے گئے کہ جس سے انکار ہے اس سے بھی اعتقاد نہیں اور جس سے دعویٰ اعتقاد ہے اس سے بھی نہیں۔ - معارف و مسائل - یہ تین آیتیں اور ان کے بعد کی آیات جن اسباب و واقعات کے ماتحت نازل ہوئی ہیں ان کا تفصیلی بیان پہلے آچکا ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کی یہ پرانی خصلت تھی کہ کبھی اقرباء پروری کے تحت، کبھی جاہ و مال کے لالچ میں لوگوں کی خواہش کے مطابق فتوی بنادیا کرتے تھے۔ خصوصاً سزاؤں کے معاملہ میں یہ عام رواج ہوگیا تھا کہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم سرزد ہوتا تو تورات کی سخت سزا کو معمولی سزا میں تبدیل کردیتے تھے۔ ان کے اسی حال کو آیت مذکورہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے : ی ۭيُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ۔- جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور شریعت اسلام کا عجیب و غریب نظام ان کے سامنے آیا جس میں سہولت و آسانی کی بڑی رعایتیں بھی تھیں اور جرائم کے انسداد کے لئے سزاؤں کا ایک معقول انتظام بھی، اس وقت ان لوگوں کو جو تورات کی سخت سزاؤں کو بدل کر آسان کرلیا کرتے تھے یہ موقعہ بھی ہاتھ آیا کہ ایسے معاملات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حَکَم بنادیں، تاکہ آپ کی شریعت کے آسان اور نرم احکام سے فائدہ بھی اٹھالیں۔ اور تحریف تورات کے مجرم بھی نہ بنیں، مگر اس میں بھی یہ شرارت رہتی تھی کہ باقاعدہ حکم بنانے سے پہلے کسی ذریعہ سے اپنے معاملے کا حکم بطور فتویٰ کے معلوم کرلیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم اگر اپنی خواہشات کے موافق ہو تو حکم بنا کر فیصلہ کرا لیں ورنہ چھوڑ دیں۔ اس سلسلہ کے جو واقعات ذکر کئے گئے ہیں ان میں چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچی تھی اس لئے شروع آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اس پر آپ مغموم نہ ہوں یہ انجام کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خیر ہے۔- پھر یہ اطلاع دی کہ یہ لوگ مخلصانہ طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حَکَم نہیں بنا رہے، بلکہ ان کی نیتوں میں فساد ہے، پھر بعد کی آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں ان کے معاملہ کا فیصلہ فرمادیں یا ٹال دیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار ہے۔ اور یہ بھی اطلاع دے دی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹالنا چاہیں تو یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے،۔- (آیت) فاحکم بینھم اواعرض عنھم الآیة کا یہی مضمون ہے۔ اور اس کے بعد کی آیت میں ارشاد ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ دینا ہی پسند کریں تو اس میں آپ کو یہ ہدایت دی گئی کہ فیصلہ عدل و انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔ کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد تمام پہلی شریعتیں اور ان کے قوانین منسوخ ہوچکی ہیں۔ بجُز ان کے جن کو قرآن کریم اور شریعت مصطفوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں باقی رکھا گیا ہے۔ اسی لئے بعد کی آیات میں قانون الہٰی کے خلاف کسی دوسرے قانون یا رسم و رواج پر فیصلہ صادر کرنے کو ظلم اور فسق و کفر قرار دیا گیا ہے۔- اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے مقدمات کا ضابطہ - یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہودی جنہوں نے اپنے مقدمات کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں بھیجا نہ ان کا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی شریعت پر ایمان تھا۔ نہ یہ کہ مسلمانوں کے زیر حکم ذمی تھے۔ البتہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا معاہدہ ترک جنگ کا ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں ٹال دیں اور چاہیں فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔ کیونکہ ان لوگوں کی کوئی ذمہ داری اسلامی حکومت پر نہیں ہے اور اگر یہ ذمی ہوتے اور اسلامی حکومت کی طرف رجوع کرتے تو حاکم مسلم پر فیصلہ کرنا فرض ہوتا، ٹال دینا جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ ان کے حقوق کی نگرانی اور ان سے ظلم کا رفع کرنا حکومت اسلامیہ کا فرض ہے۔ اسی لئے آئندہ آنے والی ایک آیت میں یہ بھی ارشاد ہے : (آیت) وان احکم بینھم۔ یعنی اگر یہ لوگ اپنا معاملہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔- اور دوسری آیت ان غیر مسلموں کے متعلق ہے جو مسلمانوں کے ذمی اسلامی ملک کے شہری اور زیر حکومت رہتے ہیں۔- اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پہلی آیت اختیار اور دوسری آیت دونوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت یہ ہے کہ جب ان غیر مسلموں کے معاملہ میں فیصلہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم یعنی اپنی شریعت کے مطابق کریں۔ ان غیر مسلموں کی خواہشات یا ان کے مذہب کے مطابق فیصلہ نہ دیں۔- اس کی توضیح یہ ہے کہ یہ حکم ان معاملات کے متعلق ہے جن کا ذکر ان آیات کے شان نزول میں آپ سن چکے ہیں کہ ایک معاملہ سزائے قتل اور خوں بہا کا تھا، دوسرا زنا اور اس کی سزا کا۔ ان جیسے معاملات یعنی جرائم کی سزاؤں میں ساری دنیا کا یہی دستور ہے کہ پورے ملک کا ایک ہی قانون ہوتا ہے۔ جس کو جنرل قانون کہتے ہیں، اس جنرل قانون میں طبقات یا مذاہب کی وجہ سے کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ مثلاً چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو یہ صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ ہر باشندہ ملک کے لئے یہی سزا ہوگی۔ اسی طرح قتل و زنا کی سزائیں بھی سب کے لئے عام ہوں گی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ غیر مسلموں کے شخصی اور خالص مذہبی معاملات کا فیصلہ بھی شریعت اسلام کے مطابق کرنا ضروری ہو۔ - خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب اور خنزیر کو مسلمانوں کے لئے تو حرام قرار دیا اور اس پر سزا مقرر فرمائی، مگر غیر مسلموں کو اس میں آزاد رکھا۔ غیر مسلموں کے نکاح، شادی وغیرہ شخصی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں فرمائی۔ ان کے مذہب کے مطابق جو نکاح صحیح ہیں ان کو قائم رکھا۔- مقام ہجر کے مجوسی اور نجران اور وادی قرای کے یہودی و نصاریٰ اسلامی حکومت کے ذمی بنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم تھا کہ مجوسیوں کے نزدیک اپنی ماں بہن سے بھی نکاح حلال ہے، اسی طرح یہود و نصاریٰ میں بغیر عدت گزراے یا بغیر گواہوں کے نکاح معتبر ہے۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے شخصی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں فرمائی اور ان کے نکاحوں کو برقرار تسلیم کیا۔ - خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلم جو اسلامی حکومت کے باشندے ہیں ان کے شخصی اور ذاتی اور مذہبی معاملات کا فیصلہ انہی کے مذہب و خیال پر چھوڑا جائے گا اور اگر فصل مقدمات کی ضرورت پیش آئے گی تو انہی کے مذہب کا حاکم مقرر کرکے فیصلہ کرایا جائے گا۔- البتہ اگر یہ حاکم مسلم کے پاس رجوع ہوں اور اس کے فیصلہ پر فریقین رضامند ہوں تو پھر مسلم حاکم فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق ہی کرے گا، کیونکہ اب وہ فریقین کی طرف سے بنائے ہوئے ثالث کا حکم رکھتا ہے۔ آیت کریمہ (آیت) وان احکم بینھم بما انزل اللّٰہ۔ جو آگے آنے والی ہے، اس میں شریعت اسلام کے مطابق فیصلہ دینے کا حکم جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے تو اس بناء پر کہ معاملہ قانون عام یعنی جنرل قانون کا ہے جس میں کسی فرقہ کو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یا اس بناء پر کہ یہ لوگ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حَکَم تسلیم کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے فیصلہ کرنے کے لئے آئے تو ظاہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ نہ ہی ہونا چاہیے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایمان ہے اور آپ کی شریعت کا حکم ہے۔ - بہرحال آیات مذکور میں سے پہلی آیت میں اول آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں کی سازش سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کیا گیا : يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ سے آخر تک۔ اسی کا بیان ہے جس سے یہ انکشاف کرایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آنے والا وفد منافقین کا ہے۔ جن کا خفیہ گٹھ جوڑ یہودیوں کے ساتھ ہے اور انہی کا بھیجا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے بعد آنے والے وفد کی چند بری خصلتوں کا بیان فرما کر مسلمانوں کو اس کی برائی پر متنبہ فرمایا اور ضمنی طور پر یہ ہدایت فرما دی کہ یہ خصلتیں کافرانہ ہیں۔ ان سے بچنے اور دور رہنے کا اہتمام کیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ۝ ٠ۚۛ وَمِنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا۝ ٠ۚۛ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ۝ ٠ۙ لَمْ يَاْتُوْكَ۝ ٠ۭ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ۝ ٠ۚ يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝ ٠ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللہُ اَنْ يُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ۝ ٠ۭ لَہُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ۝ ٠ۚۖ وَّلَہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ٤١- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- ( سمّاعون)- جمع سمّاع وهذه صيغة مبالغة اسم الفاعل من سمع الثلاثيّ ، وزنه فعّال بفتح الفاء - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- تحریف الکلام :- أن تجعله علی حرف من الاحتمال يمكن حمله علی الوجهين، قال عزّ وجلّ : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] ، ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة 41] ، وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ- مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة 75] ، والحِرْف : ما فيه حرارة ولذع، كأنّه محرّف عن الحلاوة والحرارة، وطعام حِرِّيف، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «نزل القرآن علی سبعة أحرف» «1» وذلک مذکور علی التحقیق في «الرّسالة المنبّهة علی فوائد القرآن» «2» .- التحریف - الشئ ) کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا ۔ جیسے تحریف القم قلم کو ٹیڑھا لگانا ۔ اور تحریف الکلام کے معنی ہیں کلام کو اس کے موقع و محل سے پھیر دینا کہ اس میں دو احتمال پیدا ہوجائیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة 41] ہے یعنی ان کے محل اور صحیح مقام پر ہونے کے بعد ۔ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة 75]( حالانکہ ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خد ( یعنی تو رات ) کو سنتے پھر اس کے کچھ لینے کے بعد اس کو ( جان بوجھ کر ) بدل دیتے رہے ہیں ۔ الحرف ۔ وہ چیز جس میں تلخی اور حرارت ہوگو یا وہ حلاوت اور حرارت سے پھیر دی گئی ہے ۔ طعام حزیف چر چراہٹ ( الاکھانا ) ایک روایت میں ہے ۔ (76) کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس کی تحقیق ہمارے رسالہ المنبھۃ علی فوائد القرآن میں ملے گی ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ کفار کے ساتھ دنیوی اور اخروی معاملات میں دوستی کے لیے پہل کرتے ہیں، آپ ان کی وجہ سے دکھی مت ہوں وہ صرف اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم نے دل سے تصدیق کی مگر ان منافق یعنی عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے دلوں نے تصدیق نہیں کی اور خواہ وہ بنو قریظہ کے یہودی کعب اور اس کے ساتھی ہوں وہ سب اہل خیبر کی وجہ سے یہ باتیں سنتے ہیں اور اہل خیبر سے جن باتوں کا ظہور ہوا بنوقریظہ نے ان کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا۔- انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت اور رجم کے حکم میں باوجود اس کے کہ توریت میں اس کا ذکر ہے، تبدیلی کی ہے اور ان کے سردار کمزوروں سے یا یہ کہ عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھی دوسروں سے کہتے ہیں اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں زانی کو کوڑے لگانے کا حکم دیں تو اسے قبول کرلو اور اس پر عمل کرو اور اگر سنگسار کرنے کا حکم دیں یعنی اگر تمہاری خواہشات کے مطابق حکم نہ ہو تو اس سے احتراز کرو اور اسے قبول مت کرو اور جس کا کفر وشرک اور ذلت ورسوائی خدا ہی کو منظور ہو تو اسے عذاب الہی سے کون نجات دے سکتا ہے۔- یہ یہود اور منافقین ایسے ہیں کہ مکرو خیانت اور کفر پر اصرار کی وجہ سے اللہ کو ان کی پاکیزگی ہی منظور نہیں، ان کو قتل اور جلاوطن کرنے کا عذاب دیا جائے گا اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی عذاب کی نسبت بہت سخت ہوگا۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الرسول لا یحزنک الذین “۔ (الخ)- امام احمد (رح) اور ابوداؤد (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی دو جماعتوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے جن میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زمانہ جاہلیت میں غالب آگئی تھی یہاں تک کہ دونوں کا میل جول ہوگیا پھر دونوں نے مل کر یہ طے کرلیا کہ جس مغلوب آدمی کو کوئی معزز یعنی غالب آدمی قتل کردے تو اس کی دیت پچاس وسق ہے۔- اور جس معزز آدمی کو کوئی مغلوب مار ڈالے تو اس کی دیت سو وسق ہے تو یہ لوگ اسی چیز پر قائم رہے یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے تو ایک مغلوب نے ایک معزز کو مار ڈالا، اس معزز کے خاندان والوں نے قاصد بھیجا کہ سو وسق دیت کے دو تو مغلوب نے کہا کہ یہ چیز دو قبیلوں میں کیسے ہوسکتی ہے، جب کہ دونوں کا دین ایک، دونوں کی نسبت ایک اور دونوں کا شہر ایک اور پھر بعض دیت آدھی، ہم تم لوگوں سے ڈر کر خوف کی وجہ سے پوری دیت دے دیا کرتے تھے، اب جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے تو اب ہم تمہیں اس طرح سابقہ طریقہ سے دیت نہیں دیں گے، امکان تھا کہ ان دو قبیلوں میں جنگ ہوجاتی مگر یہ دونوں قبیلے اس بات پر رضا مند ہوگئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے درمیان منصف بنالیں، چناچہ منافقین میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس پہنچے تاکہ آپ کی رائے معلوم کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ کفر میں دوڑ دوڑ کر گرتے ہیں الخ۔- اور امام احمد و امام مسلم نے براء عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے کچھ یہودی گزرے، جن کی صورتیں سیاہ اور ان کے کوڑے لگے ہوئے تھے، آپ نے پوچھا کہ کیا تمہاری کتاب میں زانی کی یہی سزا ہے بولے ہاں۔- آپ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا اور فرمایا کہ میں تجھے اس ذات کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے توریت حضرت موسیٰ پر نازل فرمائی، کیا تمہاری کتاب میں زانی کی یہی سزا ہے، وہ بولا نہیں اور اگر آپ اس طریقہ سے مجھے قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا ہماری کتاب میں زانی کی سزا سنگسار کردینا ہے، مگر ہمارے معزز لوگوں میں یہ بکثرت ہوگیا ہے، لہذا ہم میں سے جب کوئی معزز زنا کرتا ہے تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اور جس وقت کوئی کمزور زنا کرتا ہے تو اس پر حد نافذ کرتے ہیں۔- اس کے بعد ہم یہودیوں نے آپس میں کہا کہ آؤ کوئی ایسی سزا مقرر کرلیں، جو معزز اور کمزور دونوں پر نافذ کردیا کریں ،- تو منہ کالا کرنے اور کوڑے لگادینے پر ہمارا اتفاق ہوگیا، تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الہ العالمین میں وہ پہلا شخص ہوں کہ جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ لوگ اس کو ختم کرچکے تھے۔- چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زانی کے بارے میں تورات کے مطابق حکم دیا، اسے سنگسار کیا گیا، تب اللہ تعالیٰ نے فخذوہ تک یہ آیت نازل فرمائی۔- یہودی کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو حکم مان لو اگر سنگسار کرنے کا حکم دیں تو اس سے بچو، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔- یہودی کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو حکم مان لو اگر سنگسار کرنے حکم دیں تو اس سے بچو، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے موافق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ بالکل ستم ڈھا رہے ہیں۔- اور حمیدی نے اپنی سند میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ فدک والوں میں سے ایک شخص نے زنا کیا تو فدک والوں نے مدینہ منورہ کے کچھ یہودیوں کے پاس لکھا کہ اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرو، اگر آپ کوڑے لگانے کا حکم دیں تو یہ آپ سے لے لو اور اگر سنگسار کرنے کے باے میں فرمائیں تو اس سے بچو، چناچہ یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس پر آیت کا یہ حصہ نازل ہوا، (آیت) ” فان جاؤک فاحکم (الخ) اور بیہقی نے دلائل میں بوہریرہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ ( یٰٓاَ یُّہَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ ) (مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ج) ۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی سرگرمیوں اور بھاگ دوڑ سے غمگین اور رنجیدۂ خاطر نہ ہوں۔- (وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا ج) (سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ ) (سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ یَاْتُوْکَ ط) - یعنی ایک تو یہ لوگ اپنے شیاطین کی جھوٹی باتیں بڑی توجہ سے سنتے ہیں ‘ جیسے سورة البقرۃ (آیت ١٤) میں فرمایا : (وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ لا قالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ ) پھر یہ لوگ ان کی طرف سے جاسوس بن کر مسلمانوں کے ہاں آتے ہیں کہ یہاں سے سن کر ان کو رپورٹ دے سکیں کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہا ‘ آج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں فلاں معاملہ ہوا۔ (سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ) کا ترجمہ دونوں طرح سے ہوسکتا ہے : دوسری قوم کے لوگوں کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں یا سنتے ہیں دوسری قوم کے لوگوں کے لیے یعنی انہیں رپورٹ کرنے کے لیے ان کے جاسوس کی حیثیت سے۔ ان کے جو لیڈر اور شیاطین ہیں ‘ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خود نہیں آتے اور یہ جو بین بین کے لوگ ہیں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں اور ان کے ذریعے سے جاسوسی کا یہ سارا معاملہ چل رہا ہے۔- (یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج) (یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ ) (وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا ط) - اہل کتاب کے سرداروں کو اگر کسی مقدمے کا فیصلہ مطلوب ہوتا تو اپنے لوگوں کو رسول ‘ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجتے اور پہلے سے انہیں بتا دیتے کہ اگر فیصلہ اس طرح ہو تو تم قبول کرلینا ‘ ورنہ رد کردینا۔ واضح رہے کہ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اور پورے طور پر ایک ہمہ گیر اسلامی حکومت دراصل فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی اور یہ صورت حال اس سے پہلے کی تھی۔ ورنہ کسی ریاست میں دوہرا عدالتی نظام نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ لوگ جب چاہتے اپنے فیصلوں کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آجاتے اور جب چاہتے کسی اور کے پاس چلے جاتے تھے۔ گویا بیک وقت دو متوازی نظام چل رہے تھے۔ اسی لیے تو وہ لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے تھے کہ یہ فیصلہ ہوا تو قبول کرلینا ‘ ورنہ نہیں۔- (وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط) اور جس کو اللہ ہی نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو تو تم اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :62 یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آرہی ہے وہی برقرار رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ۔ یہ لوگ تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے ۔ جان بوجھ کر حق نگل رہے تھے ۔ نہایت بے باکی و جسارت کے ساتھ جھوٹ ، فریب ، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اس پاک انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کام بے غرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود ان کی فلاح و بہبود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا ۔ ان کی ان حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کڑھتا تھا ، اور یہ کڑھنا بالکل فطری امر تھا ۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر اس کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرۃً اس کا دل دکھتا ہی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ ان حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے ۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں ، ہمت نہ ہاریں ، صبر کے ساتھ بندگان خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں ۔ رہے یہ لوگ ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں ان کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے ، کوئی چیز ان کی اس روش میں خلاف توقع نہیں ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :63 اس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے بن گئے ہیں اس لیےسچائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ جھوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اسی کو یہ جی لگا کر سنتے ہیں ، کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اسی سے بجھتی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھوٹ کی غرض سے آکر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سنیں ان کو الٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں پھیلائیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :64 اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لیے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دشمنوں تک پہنچائیں ۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے اور افترا پردازیاں کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ ان لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے براہ راست تعلقات پیدا کرنے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :65 یعنی توراۃ کے جو احکام ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں ۔ ان کے اندر جان بوجھ کر رد و بدل کرتے ہیں اور الفاظ کے معنی بدل کر من مانے احکام ان سے نکالتے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :66 یعنی جاہل عوام سے کہتے ہیں کہ جو حکم ہم بتا رہے ہیں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تو اسے قبول کرنا ورنہ رد کر دینا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :67 “اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے برے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے ۔ اگر وہ شخص ابھی برائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ ابھر آتی ہیں ۔ لیکن اگر وہ برائی کی طرف پوری طرح جھک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا ۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :68 اس لیے کہ انہوں نے خود پاک ہونا نہ چاہا ۔ جو خود پاکیزگی کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اسے پاکیزگی سے محروم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے ۔ اللہ پاک کرنا اسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: یہاں سے آیت نمبر : ۵۰ تک کی آیتیں کچھ خاص واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جن میں کچھ یہودیوں نے اپنے کچھ جھگڑے اس امید پر آنحضرتﷺ کے پاس لانے کا ارادہ کیا تھا کہ آپ ان کا فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق کریں گے۔ ان میں سے ایک واقعہ تو یہ تھا کہ خیبر کے دو شادی شدہ یہودی مرد و عورت نے زنا کرلیا تھا جس کی سزا خود تورات میں یہ مقرر تھی کہ ایسے مرد و عورت کو سنگسار کرکے ہلاک کیا جائے، یہ سزا موجودہ تورات میں بھی موجود ہے (دیکھئے استثنا : ۲۲، ۳۲، ۴۲) لیکن یہودیوں نے اس کو چھوڑکر کوڑوں اور منہ کالا کرنے کی سزا مقرر کر رکھی تھی۔ شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ اس سزا میں بھی کمی ہوجائے اس لئے انہوں نے یہ سوچا کہ آنحضرتﷺ کی شریعت میں بہت سے احکام تورات کے احکام کے مقابلے میں نرم ہیں، اس لئے اگر آپ سے فیصلہ کرایاجائے توشاید آپ کوئی نرم فیصلہ کریں، اس غرض کے لئے خیبر کے یہودیوں نے مدینہ منوَّرہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو جن میں سے کچھ منافق بھی تھے، ان مجرموں کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، مگر ساتھ ہی انہیں یہ تاکید کی کہ اگر آپ سنگساری کے سوا کوئی اور فیصلہ کریں تو اسے قبول کرلینا، اور اگر سنگساری کا فیصلہ کریں تو قبول مت کرنا۔ چنانچہ یہ لوگ آپ کے پاس آئے۔ آپ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا تھا کہ اس کی سزا سنگساری ہے، جسے سن کر وہ بوکھلاگئے۔ آپ نے انہی سے پوچھا کہ تورات میں اس کی سزا کیا ہے؟ شروع میں انہوں نے چھپانے کی کوشش کی، مگر آخر میں جب آپ نے ان کے ایک بڑے عالم ابن صوریا کو قسم دی اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اﷲ عنہ جو پہلے خود یہودی عالم تھے، ان کا پول کھول دیا تو وہ مجبور ہوگیا اور اس نے تورات کی وہ آیت پڑھ دی جس میں زنا کی سزا سنگساری بیان کی گئی تھی۔ اور یہ بھی بتایا کہ تورات کا حکم تو یہی تھا، مگر ہم میں سے غریب لوگ یہ جرم کرتے تو یہ سزا ان پر جاری کی جاتی تھی، اور کوئی مال دار یا باعزت گھرانے کا آدمی یہ جرم کرتا تو اسے کوڑوں وغیرہ کی سزا دے دیا کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ سبھی کے لئے سنگساری کی سزا کو چھوڑدیا گیا۔ اسی قسم کا ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی تفصیل نیچے آیت نمبر ۴۵ کے حاشئے میں آرہی ہے۔ 33: یعنی یہودیوں کے پیشوا جو جھوٹی بات تورات کی طرف منسوب کر کے بیان کردیتے ہیں، اور وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہوتی ہے تو یہ اسے بڑے شوق سے سنتے اور اس پر یقین کرلیتے ہیں، چاہے وہ تورات کے صاف اور صریح احکام کے خلاف ہو اور یہ لوگ جانتے ہوں کہ ان کے پیشواؤں نے رشوت لے کر یہ بات بیان کی ہے۔ 34: اس سے ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو خود تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس نہیں آئے، لیکن ان یہودیوں اور منافقوں کو آپ کے پاس بھیج دیا۔ جو لوگ آئے تھے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات اس لئے سننے آئے تھے کہ آپ کا موقف سننے کے بعد ان لوگوں کو مطلع کریں جنہوں نے ان کو بھیجا تھا۔ 35: چونکہ یہ دُنیا آزمائش ہی کے لئے بنائی گئی ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو زبردستی راہِ راست پر لاکر اس کے دل کو پاک نہیں کرتا جو ضد پر اڑ ہوا ہو، یہ پاکیزگی انہی کو عطا ہوتی ہے جو حق کی طلب رکھتے ہوں اور خلوص کے ساتھ اسے قبول کریں۔