اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔۔ : یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے کہ چور کو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی۔ (موضح) اس آیت کا خطاب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد تمام لوگ ہیں، یا ہر شخص سے خطاب ہے۔ (فتح البیان) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کسی کو رعایت نہیں مل سکتی، جو بھی جرم کرے گا اسے سزا ملے گی، اس معاملے میں کسی بڑے مرتبے والے کو چھوٹے پر فوقیت نہیں، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس جرم پر جو سزا چاہے مقرر فرما دے، اسے مخلوق پر کل اختیار ہے۔ (قرطبی) ایک ملحد شاعر ابو العلاء معری نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر اعتراض کیا کہ دیکھیے ایک ہاتھ جس کی دیت پچاس اونٹ تھی، وہ چوتھائی دینار کی حقیر مالیت پر کاٹ دیا گیا، یہ عجیب تناقض ہے، پھر قرآن پر اعتراض کی وجہ سے گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگ گیا۔ چناچہ بہت سے علماء نے اس کا جواب لکھا، قاضی عبد الوہاب نے کہا : ” لَمَّا کَانَتْ اَمِیْنَۃً کَانَتْ ثَمِیْنَۃً فَلَمَّا خَانَتْ ھَانَتْ “ ” جب تک ہاتھ امین تھا قیمتی تھا جب خیانت کی تو بےقدر ہوگیا۔ “ (ابن کثیر) سزاؤں کا ایک مقصد گناہوں سے روکنا بھی ہے، ہاتھ کاٹنے سے روکنے کے لیے ہاتھ کی دیت زیادہ رکھنا ضروری تھا، تاکہ لوگ کسی کا ہاتھ کاٹنے سے بچیں اور چوری سے روکنے کے لیے ہاتھ کاٹنے کا نصاب کم مقرر کرنا ضروری تھا، تاکہ لوگ چوری سے بچیں۔
بعد کی آیت میں ارشاد فرمایا : اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ یعنی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت و حکومت صرف اللہ کی ہے، اور اس کی یہ شان ہے کہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے “۔- اس آیت کا ربط و مناسب پچھلی آیات سے یہ ہے کہ پچھلی آیات میں ڈاکہ اور چوری کی حدود شرعیہ جن میں ہاتھ پاؤں یا صرف ہاتھ کاٹ ڈالنے کے سخت احکام ہیں، ظاہر نظر میں یہ احکام شرافت انسانی اور اس کے اکرم المخلوقات ہونے کے منافی ہیں، اس شبہ کے ازالہ کے لئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے پہلے اپنا مالک حقیقی ہونا سارے جہان کے لئے بیان فرمایا، پھر اپنے قادر مطلق ہونے کا ذکر فرمایا، اور ان کے درمیان یہ ارشاد فرمایا کہ وہ صرف سزا یا عذاب ہی نہیں دیتے، بلکہ معاف بھی فرماتے ہیں، اور اس معافی اور سزا کا مدار ان کی حکمت پر ہے، کیونکہ وہ جس طرح مالک مطلق اور قادر مطلق ہیں اسی طرح حکیم مطلق بھی ہیں، جس طرح ان کی قدرت و سلطنت کا احاطہ کوئی انسانی طاقت نہیں کرسکتی، اسی طرح ان کی حکمتوں کا پورا احاطہ بھی انسانی عقل و دماغ نہیں کرسکتے، اور اصول کے ساتھ غور و فکر کرنے والوں کو بقدر کفایت کچھ علم ہو بھی جاتا ہے جس سے ان کے قلوب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ - اسلامی سزاؤں کے متعلق اہل یورپ اور ان کی تعلیم و تہذیب سے متاثر لوگوں کا یہ عام اعتراض ہے کہ یہ سزائیں سخت ہیں، اور بعض ناعاقیت اندیش لوگ تو یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہتے کہ یہ سزائیں وحشیانہ اور شرافت انسانی کے خلاف ہیں۔- اس کے متعلق پہلے تو یہ سامنے رکھئے جو اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے، کہ قرآن کریم نے صرف چار جرموں کی سزائیں خود مقرر اور معین کردی ہیں، جن کو شرعی اصطلاح میں حد کہا جاتا ہے، ڈاکہ کی سزا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر، چوری کی سزا داہنا ہاتھ پہنچنے پر سے کاٹنا، زنا کی سزا بعض صورتوں میں سو کوڑے لگانا اور بعض میں سنگسار کرکے قتل کردینا، زنا کی جھوٹی تہمت کسی پر لگانے کی سزا اسی (80) کوڑے پانچویں حد شرعی شراب پینے کی ہے، جو باجماع صحابہ اسی (80) کوڑے مقرر کئے گئے ہیں ان پانچ جرائم کے سوا تمام جرائم کی سزا حاکم وقت کی صواب دید پر ہے، کہ جرم اور مجرم اور اس کے ماحول پر نظر کرکے جتنی اور جیسی چاہے سزا دے اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سزاؤں کی تحدید و تعیین کا کوئی خاص نظام اہل علم و اہل رائے کے مشورہ سے مقرر کرکے قاضی یا جج کو ان کا پابند کردیا جائے، جیسا کہ آج کل عموماً اسمبلیوں کے ذریعہ تعزیری قوانین متعین کئے جاتے ہیں، اور قاضی یا جج مقررہ حدود کے اندر سزا جاری کرتے ہیں، البتہ ان پانچ جرائم میں جن کی سزائیں قرآن یا اجماع سے متعین کردی گئی ہیں، اور ان میں کسی فرد یا جماعت یا اسمبلی کو تغیر و تبدل کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ مگر ان میں بھی اگر جرم کا ثبوت شریعت کے مقرر کردہ ضابطہ شہادت سے نہ ہوسکے، یا جرم کا ثبوت تو ملے مگر اس جرم پر جن شرائط کے ساتھ یہ سزا جاری کی جاتی ہے وہ شرائط مکمل نہ ہوں۔ اور نفس جرم قاضی یا جج کے نزدیک ثابت ہو تو اس صورت میں بھی حد شرعی جاری نہ ہوگی بلکہ تعزیری سزا دی جائے گی، اسی کے ساتھ یہ شرعی ضابطہ بھی مقرر اور مسلم ہے کہ شبہ کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ ثبوت جرم یا جرم کی شرائط میں سے کسی چیز میں شبہ پڑجائے تو حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، مگر نفس جرم کا ثبوت ہوجائے تو تعزیری سزا دی جائے گی۔- اس سے معلوم ہوا کہ ان پانچ جرائم میں بہت سی صورتیں ایسی نکلیں گی کہ ان میں حدود شرعیہ کا نفاذ نہیں ہوگا، بلکہ تعزیری سزائیں صواب دید حاکم کے مطابق دی جائیں گی، تعزیری سزائیں چونکہ شریعت اسلام نے متعین نہیں کیں بلکہ ہر زمانہ اور ہر ماحول کے مطابق عام قوانین ممالک کی طرح ان میں تغیر و تبدل اور کمی بیشی کی جاسکتی ہے، اس لئے ان پر تو کسی کو کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ اب بحث صرف پانچ جرائم کی سزاؤں میں اور ان کی بھی مخصوص صورتوں میں رہ گئی، مثال کے طور پر چوری کو لے لیجئے اور دیکھئے کہ شریعت اسلام میں ہاتھ کاٹنے کی سزا مطلقاً ہر چوری پر عائد نہیں، کہ جس کو عرف عام میں چوری کہا جاتا ہے۔ بلکہ سرقہ جس پر سارق کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کی ایک مخصوص تعریف ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے کہ کسی کا مال محفوظ جگہ سے سامان حفاظت توڑ کر ناجائز طور پر خفیہ طریقہ سے نکال لیا جائے اس تعریف کی رو سے بہت سی صورتیں جن کو عرفاً چوری کہا جاتا ہے، حد سرقہ کی تعریف سے نکل جاتی ہیں، مثلاً محفوظ مکان کی شرط سے معلوم ہوا کہ عام پبلک مقامات مثلاً مسجد، عیدگاہ، پارک، کلب، اسٹیشن، ویٹنگ روم، ریل، جہاز وغیرہ میں عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال کی کوئی چوری کرے یا درختوں پر لگے ہوئے پھل چرالے، یا شہد کی چوری کرے تو اسی طرح وہ آدمی جس کو آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے خواہ وہ آپ کا نوکر ہو یا مزدور ہو یا معمار ہو، یا کوئی دوست عزیز ہو وہ اگر آپ کے مکان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اگرچہ عرفی چوری میں داخل اور تعزیری سزا کا مستحق ہے، مگر ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا اس پر جاری نہ ہوگی، کیونکہ وہ آپ کے گھر میں آپ کی اجازت سے داخل ہوا، اس کے حق میں حفاظت مکمل نہیں۔ - اسی طرح اگر کسی نے کسی کے ہاتھ میں سے زیور یا نقد چھین لیا، یا دھوکہ دے کر کچھ وصول کرلیا، یا امانت لے کر مکر گیا، یہ سب چیزیں حرام و ناجائز اور عرفی چوری میں ضرور داخل ہیں۔ مگر ان سب کی سزا تعزیری ہے، جو حاکم کی صواب دید پر موقوف ہے، شرعی سرقہ کی تعریف میں داخل نہیں۔ اس لئے اس پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔- اسی طرح کفن کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا، کیونکہ اول تو وہ محفوظ جگہ نہیں، دوسرے کفن میّت کی ملکیت نہیں، ہاں اس کا یہ فعل سخت حرام ہے، اس پر تعزیری سزا حسب صواب دید حاکم جاری کی جائے گی، اسی طرح اگر کسی نے ایک مشترک مال میں چوری کرلی جس میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے، خواہ میراث کا مشترک مال تھا یا شرکت تجارت کا مال تھا، تو اس صورت میں چونکہ لینے والے کی ملکیت کا بھی کچھ اس میں شامل ہے اس ملکیت کے شبہ کی وجہ سے حد شرعی ساقط ہوجائے گی تعزیری سزا دی جائے گی۔- یہ سب شرائط تو تکمیل جرم کے تحت میں ہیں، جن کا اجمالی خاکہ آپ نے دیکھا ہے اب دوسری چیز تکمیل ثبوت ہے۔ حدود کے نفاذ میں شریعت اسلام نے ضابطہ شہادت بھی عام معاملات سے ممتاز اور بہت محتاط بنایا ہے۔ زنا کی سزا میں تو دو گواہوں کے بجائے چار گواہوں کو شرط قرار دیدیا، اور وہ بھی جبکہ وہ ایسی عینی گواہی دیں جس میں کوئی لفظ مشتبہ نہ رہے۔ چوری وغیرہ کے معاملہ میں اگرچہ دو ہی گواہ کافی ہیں مگر ان دو کے لئے عام شرائط شہادت کے علاوہ کچھ مزید شرطیں عائد کی گئی ہیں، مثلاً دوسرے معاملات میں مواقع ضرورت میں قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کے بارے میں اگر قاضی کو یہ اطمینان ہوجائے کہ عملی فاسق ہونے کے باوجود یہ جھوٹ نہیں بولتا تو قاضی اس کی گواہی کو قبول کرسکتا ہے۔ لیکن حدود میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا اختیار نہیں۔ عام معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، مگر حدود میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔ عام معاملات میں شریعت اسلام نے تمادی کو (یعنی مدّت دراز گزر جانے کو) کوئی عذر نہیں قرار دیا۔ واقعہ کے کتنے ہی عرصہ کے بعد کوئی گواہی دے تو قبول کی جاسکتی ہے، لیکن حدود میں اگر فوری گواہی نہ دی بلکہ ایک مہینہ یا اس سے زائد دیر کرکے گواہی دی تو وہ قابل قبول نہیں۔ - حد سرقہ کے نفاذ کی شرائط کا اجمالی خاکہ جو اس وقت بیان کیا گیا ہے، یہ سب فقہ حنفی کی نہایت مستند کتاب بدائع الصنائع سے ماخوذ ہے۔- حاصل ان تمام شرائط کا یہ ہے کہ حد شرعی صرف اس صورت میں جاری ہوگی جبکہ شریعت مقدسہ کے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق جرم بھی مکمل ہو، اور اس کا ثبوت بھی مکمل، اور مکمل جرائم کی سزائیں بمقتضائے حکمت سخت مقرر کی ہیں۔ وہیں حدود شرعیہ کے نفاذ میں انتہائی احتیاط بھی ملحوظ رکھی ہے۔ حدود کا ضابطہ شہادت بھی عام معاملات کے ضابطہ شہادت سے مختلف اور انتہائی احتیاط پر مبنی ہے۔ اس میں ذرا سی کمی رہ جائے تو حد شرعی تعزیری سزا میں منتقل ہوجاتی ہے، اسی طرح تکمیل جرم کے سلسلہ میں کوئی کمی پائی جائے جب بھی حد شرعی ساقط ہو کر تعزیری سزا رہ جاتی ہے، جس کا عملی رخ یہ ہوتا ہے کہ حدود شرعیہ کے نفاذ کی نوبت شاذ و نادر کبھی پیش آتی ہے۔ عام حالات میں حدود والے جرائم میں بھی تعزیری سزائیں جاری کی جاتی ہیں۔ لیکن جب کہیں تکمیل جرم تکمیل ثبوت کے ساتھ جمع ہوجائے گو وہ ایک فیصد ہی ہو تو سزا نہایت سخت عبرتناک دی جاتی ہے۔ جس کی ہیبت لوگوں کے قلب و دماغ پر مسلط ہوجائے۔ اور اس جرم کے پاس جاتے ہوئے بھی بدن پر لرزہ پڑنے لگے جو ہمیشہ کے لئے انسداد جرائم اور امن عامہ کا ذریعہ بنتی ہے۔ بخلاف مروجہ تعزیری قوانین کے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کی نظر میں ایک کھیل ہیں جس کو وہ بڑی خوشی سے کھیلتے ہیں۔ جیل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی آئندہ اس جرم کو خوبصورتی سے کرنے کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ جن ممالک میں حدود شرعیہ نافذ کی جاتی ہیں ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی، کہ وہاں نہ آپ کو بہت سے لوگ ہاتھ کٹے ہوئے نظر آئیں گے، نہ سالہا سال میں آپ کو کوئی سنگساری کا واقعہ نظر پڑتا ہے۔ مگر ان شرعی سزاؤں کی دھاک قلوب پر ایسی ہے کہ وہاں چوری، ڈاکہ اور بےحیائی کا نام نظر نہیں آتا سعودی عربیہ کے حالات سے عام مسلمان براہ راست واقف ہیں۔ کیونکہ حج وعمرہ کے سلسلہ میں ہر طبقہ و ہر ملک کے لوگوں کی وہاں حاضری رہتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، لاکھوں کا سامان ان میں پڑا ہوا ہے، اور ان کا مالک بغیر دکان بند کئے ہوئے نماز کے وقت حرم شریف میں پہنچ جاتا ہے، اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد آتا ہے۔ اس کو کبھی یہ وسوسہ بھی پیش نہیں آتا کہ اس کی دکان سے کوئی چیز غائب ہوگئی ہوگی۔ پھر یہ ایک دن کی بات نہیں، عمر یوں ہی گزرتی ہے۔ دنیا کے کسی متمدن اور مہذب ملک میں ایسا کرکے دیکھئے تو ایک دن میں سینکڑوں چوریاں اور ڈاکے پڑجائیں گے۔ تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار عجیب ہیں، کہ جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پورے عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے، جن کی زندگی ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنا رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کرنے کا مرادف اور امن عامہ کو مختل کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جو نیکوں، بدوں، اتقیاء، اولیاء اور کفار و فجار سب کو رزق دیتا ہے۔ سانپوں، بچھوؤ ں، شیروں، بھیڑیوں کو رزق دیتا ہے اور جس کی رحمت سب پر وسیع ہے اس نے جب حدود شرعیہ کے احکام قرآن میں نازل فرمائے تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا : ولا تاخذکم بھما رافۃ فی دین اللّٰہ یعنی ” اللہ کی حدود جاری کرنے میں ان مجرموں پر ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے “۔ اور دوسری طرف قصاص کو عالم انسانی کی حیات قرار دیا، (آیت) ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حدود کے خلاف کرنے والے یہ چاہتے ہی نہیں کہ جرائم کا انسداد ہو، ورنہ جہاں تک رحمت و شفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلام سے زیادہ کون سکھا سکتا ہے۔ جس نے عین میدان جنگ میں اپنے قاتل دشمنوں کا حق پہچانا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ عورت سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، بچہ سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، بوڑھا سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو، مذہبی عالم جو تمہارے مقابلہ پر قتال میں شریک نہ ہو اپنے طرز کی عبادت میں مشغول ہو اس کو قتل نہ کرو۔ - اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ان اسلامی سزاؤں پر اعتراض کے لئے ان لوگوں کی زبانیں اٹھتی ہیں جن کے ہاتھ ابھی تک ہیروشیما کے لاکھوں بےگناہ، بےقصور انسانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ جن کے دل میں شاید کبھی مقاتلہ اور مقابلہ کا تصور بھی نہ آیا ہو۔ ان میں عورتیں بچے بوڑھے سب ہی داخل ہیں اور جن کی آتش غضب ہیروشیما کے حادثہ سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ روز کسی خطرناک سے خطرناک نئے بم کے بنانے اور تجربہ کرنے میں مشغول ہیں، ہم اس کے علاوہ کیا کہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں سے خود غرضی کے پردے ہٹا دے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے صحیح اسلامی طریقوں کی طرف ہدایت کرے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ۭ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ٠ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٤٠- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
(٤٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا قرآن کریم میں اس کا علم موجود نہیں کہ آسمان و زمین کے تمام خزانے اسی اللہ کی ملکیت ہیں۔ جو عذاب کا مستحق ہے، وہ اسے عذاب اور جو مغفرت کا اہل ہے، اس کی مغفرت فرماتے ہیں۔
آیت ٤٠ ( اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) (یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) (وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) - اب یہاں پھر ذکر آ رہا ہے ان لوگوں کا جو دوغلی پالیسی پر کاربند تھے ‘ لیکن سورة البقرۃ کی طرح یہاں بھی روئے سخن قطعیت کے ساتھ واضح نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اس کا انطباق منافقین پر بھی ہوگا اور اہل کتاب پر بھی۔ منافق اہل کتاب میں سے بھی تھے ‘ جن کا میلان اسلام کی طرف بھی تھا اور چاہتے بھی تھے کہ مسلمانوں میں شامل رہیں لیکن وہ اپنے ساتھیوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ تو یہ لوگ جو مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک کی مثال تھے ‘ یہ دونوں طرف کے لوگ تھے۔