Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوت اسلام اور مرتدین اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا ، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وان تتلوا ) اور آیت میں ہے ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ) 4 ۔ النسآء:133 ) اور جگہ فرمایا ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 35 ۔ فاطر:16 ) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا ۔ ارتداد کہتے ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے ۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے ۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں ۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے ۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے ، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے ، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) 48 ۔ الفتح:29 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو ، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ہے ۔ مسکینوں سے محبت رکھنے ، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے رہنے ، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا ، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے ۔ ( مسند احمد ) ایک روایت میں ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا ۔ مجھے بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا ۔ میں نے کہا بہت اچھا ، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو ۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کر لے لینا ( مسند احمد ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا ، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے ۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند ۔ فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر ، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر ، خاموش نہ ہو جانا ۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی ، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا ۔ ( مسند احمد ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا ( ابن ماجہ ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا ، یہ کس طرح؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے ۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں ، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے کہ یہ ( یؤتون الزکوۃ ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی ، ( والذین امنوا ) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں ۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ) 58 ۔ المجادلہ:21 ) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، رب ان سے راضی ہے ، یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے ۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے ۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ 54۔ 2 مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا 2۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ 54۔ 3 یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٦] مرتدین کے متعلق پیشین گوئی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ جب رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو اکثر قبائل عرب نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کا باعث صرف رسول اللہ کی ذات تھی جن پر وحی کے ذریعہ ہر وقت مسلمانوں کے لیے حالات کے مطابق ہدایات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اب چونکہ آپ انتقال کرچکے ہیں۔ لہذا اب پھر کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس خیال سے عرب کے بہت سے قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور بعض کہنے لگے کہ اب زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اسلام کی دوسری پابندیاں سہنے کا کیا فائدہ ؟ آپ کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کو انتہائی نازک اور ہنگامی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ایک تو مسلمانوں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ تھا دوسرے اسی حالت میں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے جن سے جہاد لازمی تھا۔ تیسرے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے سرے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس وقت جہاد کے لیے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت تھی۔ پھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے آپ اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے۔ شامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس لشکر کی روانگی بھی ضروری تھی گویا مسلمان اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے خطرات سے دوچار تھے اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ فنڈز بھی موجود نہ تھے ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے لہذا اس کا ذکر ہم ذرا تفصیل سے کریں گے۔- رسول اللہ کی زندگی میں چند جاہ طلب مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جن میں سرفہرست مسیلمہ ہے جو یمنی قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ کا ایک وفد ٩ ھ کو مدینہ آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ سمیت سترہ آدمی تھے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ مگر مسیلمہ جو اس وفد کا سردار تھا، اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے کچھ دور دور ہی رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد مجھے نبوت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ثابت بن قیس خطیب انصار کو ساتھ لے کر مسیلمہ کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔ مسیلمہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاتے ہیں کہ ہم حکومت کے معاملہ میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں تو اپنے بعد اسے آپ ہمارے لیے طے فرما دیجئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اگر تم مجھ سے اس معاملہ میں یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دینے کا اور یاد رکھو تم اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے اور تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تعالیٰ تمہیں توڑ کے رکھ دے گا۔ اور اللہ کی قسم میں تو تجھے وہی آدمی سمجھتا ہوں جو مجھے خواب میں دکھلیا گیا ہے۔ پھر آپ سمجھانے کا معاملہ قیس بن ثابت کے سپرد کر کے خود واپس چلے آئے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال - خ سب سے پہلے مرتدین مسیلمہ کذاب اور اس کی امت :۔ واپس جا کر مسیلمہ اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھے کاروبار نبوت میں رسول اللہ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اس نے اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب کو حلال کردیا تاہم آپ کی رسالت کی شہادت بھی دیتا رہا یعنی اس نے بھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان مراعات سے قوم میں اس کی خوب قدر و منزلت ہوئی اور اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ پھر رسول اللہ کو ایک خط لکھا کہ مجھے آپ کے ساتھ اس کام میں شریک کردیا گیا ہے آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ آپ نے اسے جواب لکھا کہ زمین اللہ کے لیے ہے جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔ پھر مسیلمہ نے آپ کی طرف دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال بھی بھیجے تھے۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا تھا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ وہ کہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپ نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر قاصد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا۔ (مسند احمد۔ بحوالہ مشکوٰۃ ج ٢ ص ٣٤٧)- یہی مسیلمہ اور اس کو ماننے والوں کی سب سے پہلی مرتدین کی جماعت تھی۔ چناچہ ربیع الاول ١١ ھ کے آغاز میں ان لوگوں پر فوج کشی کی گئی۔ بنو حنیفہ بڑے جنگجو اور دلیر لوگ تھے وہ بڑی بےجگری سے لڑے اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اگرچہ اس جنگ میں، جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہوئی، مسلمانوں کے بھی بہت سے قاری شہید ہوئے اور کافی جانی نقصان ہوا تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ مسیلمہ کذاب خود وحشی بن حرب کے ہاتھوں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ وہی وحشی بن حرب ہے جس نے جنگ احد میں آپ کے چچا سیدنا حمزہ کو حربے سے شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں اس نے کفارہ کے طور پر اسی حربہ سے مسیلمہ کو قتل کیا۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد)- خ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی :۔ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن ہیں اس بات سے مجھے فکر لاحق ہوگئی۔ پھر خواب میں ہی مجھے کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی نکلیں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب یمامہ والا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام)- اسود عنسی قبیلہ بنو مدلج کا سردار تھا اسے ذوالحمار بھی کہتے ہیں۔ جادوگر تھا۔ اس نے اطراف یمن پر قبضہ کر کے رسول اللہ کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آپ نے سیدنا معاذ بن جبل اور یمن کے رئیسوں کو اس کی سرکوبی کے لیے لکھا۔ آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر رسول اللہ نے اسی وقت دے دی تھی۔ اگرچہ یمن سے یہ خبر دو ماہ بعد آئی تھی۔- تیسرا مرتد قبیلہ بنو اسد تھے جن کے سردار طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس پر بھی لشکر کشی کی گئی اور وہ شکست کھا کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ بعدہ اس نے پھر سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔ یہ تین قبائل تو وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ کی زندگی کے آخری ایام میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ان کی بروقت سرکوبی بھی کردی گئی تھی۔- عہد صدیقی میں مرتد ہونے والے قبائل :۔ سات قبیلے ایسے تھے جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کیا تھا : (١) فزارہ عیینہ ابن حصن کی قوم (٢) غطفان قرۃ بن سلمہ قشیری کی قوم (٣) بنو سلیم۔ فجارہ بن عبدیالیل کی قوم (٤) بنو یربوع مالک بن نویرہ کی قوم (٥) بنو تمیم کے بعض لوگ جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کرلیا تھا (٦) کندہ اشعث بن قیس کی قوم اور (٧) بحرین میں بنو بکر بن وائل، حطم بن زید کی قوم۔- لشکر اسامہ کی روانگی :۔ گویا وفات نبوی کے بعد ہنگامی طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق مشورہ کیا تو ایسے نازک حالات میں ساری شوریٰ لشکر اسامہ کی فوری روانگی کے خلاف تھی لیکن سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے ساری شوریٰ کے علی الرغم اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر صدیق (رض) کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آ کر مجھے اچک لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا جیسا کہ رسول اللہ نے حکم دیا تھا اور اگر اس بستی میں میں اکیلا ہی رہ جاؤں تب بھی میں یہ لشکر ضرور بھیجوں گا۔ (طبری ج ٣ ص ٢٢٥)- مانعین زکوٰۃ سے جہاد :۔ چناچہ یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد ظفریاب ہو کر واپس آگیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے مہاجرین و انصار کو بلا کر تمام صورت حال ان کے سامنے بیان کر کے ان سے مشورہ طلب کیا تو آپ کی تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد سیدنا عمر نے کہا : اے خلیفہ رسول میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت نماز ادا کرنے کو ہی غنیمت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے گا تو پھر ان سے نمٹ لیں گے اس وقت تو ہم میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔ اس کے بعد ابوبکر صدیق (رض) عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا عمر کی رائے کی تائید کی پھر سیدنا علی نے بھی اسی کی تائید کردی۔ پھر اس کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے اب اسلام میں آ کر کمزوری دکھاتے ہو ؟ پھر پوری شوریٰ سے خطاب کیا کہ اللہ کی قسم میں برابر امر الہی پر قائم رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کروں گا۔ جب تک یہ لوگ پوری کی پوری زکوٰۃ ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ کو ادا کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں کیا اس واقعہ کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوگئی اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ بن گئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے تو سیدنا عمر نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ اس کے جواب میں ابوبکر صدیق (رض) نے کہا اللہ کی قسم میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ تب سیدنا عمر نے کہا اللہ کی قسم۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر صدیق (رض) کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی رائے درست ہے۔ (بخاری۔ کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین )- چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) خود جہاد کو روانہ ہونے پر تیار ہوگئے۔ سیدنا علی نے انہیں یہ رائے دی کہ آپ کا مدینہ میں موجود رہنا جہاد پر روانہ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ چناچہ آپ نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین دونوں کی سرکوبی کے لیے سیدنا خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور اس وقت تک جہاد کا کام جاری رکھا جب تک کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کو راہ راست پر نہیں لے آئے۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدید کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کی وفات کے بعد جو بیشمار قبائل مرتد ہوگئے تھے ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ بےساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام (رض) انصار و مہاجرین اور اہل یمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اللہ کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔- خ شیعہ حضرات کا نظریہ ارتداد اور اس کا رد :۔ یہ تو تھی فتنہ ارتداد کی تاریخی حیثیت۔ اب شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل مرتدین کی سرکوبی کرنے والے گروہ کے سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم سیدنا علی تھے اور لوگوں کا سیدنا علی کو خلیفہ بنانا اور ان کا حق تلف کر کے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنادینا اور سیدہ فاطمہ کو حق باغ فدک نہ دینا ہی اصل ارتداد ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے سیدنا علی کے بجائے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنایا۔ لہذا وہ سب مرتد ہوگئے۔- اگر شیعہ حضرات کے اس نظریہ ارتداد کو درست تسلیم کیا جائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام (رض) سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے تو کیا سیدنا علی نے ان کی سرکوبی کی تھی ؟ نیز وہ کونسی قوم تھی جن کے ذریعہ اللہ نے ان مرتدوں کی سرکوبی کر کے اپنے وعدہ کو پورا کیا تھا ؟ نیز یہ کہ کیا اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا بھی تھا یا نہیں ؟ یہ سوال ان حضرات کے اس نظریہ کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ تھا کہ سیدنا علی ہمیشہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) و سیدنا عمر کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن اور ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار رہے۔ اور مرتدین پر چڑھائی کرنے میں ان کے ساتھ بدل و جان شریک رہے۔- رہا شیعہ حضرات کا یہ احتمال کہ سیدنا علی دل سے شریک نہ تھے تو ایک تو یہ بات (وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ 54؀) 5 ۔ المآئدہ :54) کے خلاف ہے۔ دوسرے اگر سیدنا علی سخود بھی ارتداد کا یہی مطلب سمجھتے تھے تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ خود ان کا ساتھ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے۔ تیسرے یہ کہ ان کا آپس میں باہمی رشتوں کا لین دین بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر قوی دلیل ہیں کہ ارتداد سے مراد وہ نہیں جو شیعہ حضرات کہتے ہیں اور نہ ہی سیدنا علی نے اسے ارتداد قرار دیا ہے۔- [٩٧] مومنوں کے حق میں نرم دل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوت مسلمانوں کو دبانے، ستانے یا نقصان پہنچانے میں صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ آپس میں نرم خو، رحم دل اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں اور کافر پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان کی پختگی، دیانتداری میں خلوص اور اصول کی مضبوطی سیرت و کردار اور ایمانی فراست مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافروں سے بدمزاجی اور درشتی سے پیش آتے ہیں یا انہیں گالیاں دیتے ہیں یا جب انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہرہ پر غصہ اور نفرت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مومنوں کا دامن ایسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے اور ایسے مومنوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ مخالفین کے طعن وتشنیع، ان کے اعتراضات اور ان کی پھبتیوں کی مطلق پروا نہیں کرتے اور جادہ حق پر پورے عزم و استقلال کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔- [٩٨] ارتداد کے فتنہ کو کچلنے والے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صحابہ کرام (رض) کی اس جماعت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جب بھی کہیں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور اسلام کے وفادار مسلمان کھڑے کردیتا ہے جو مرتدین سے علم اور قوت دونوں لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور اس فتنہ کا زور توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے بیشمار فتنے پیدا ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے بندے پیدا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اور ایسے لوگوں میں بھی مندرجہ بالا صفات کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ارتداد کے فتنے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیاسی دوسرے تحریری۔ دونوں کا سر کچلنے کے لیے اللہ تعالیٰ مناسب لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور ان کے لیے بشارت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ : اللہ تعالیٰ جو ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ جانتا ہے، اسے پہلے ہی سے معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد ہوجائیں گے، اس لیے اس نے آئندہ سے متعلق یہ آیت پہلے ہی نازل فرما دی۔ چناچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے تو تین مقامات مکہ، مدینہ اور بحرین کے علاوہ تمام علاقوں سے عرب قبائل کے مرتد ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت ابوبکر صدیق (رض) نے ان مرتدین سے جہاد کیا۔ اس فتنۂ ارتداد کا خاتمہ جن لوگوں کے ہاتھوں ہونا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی پانچ صفات بیان کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ابوبکر (رض) اور ان کے ساتھی انصار و مہاجرین اور یمن سے آنے والے مجاہدین میں یہ پانچوں خوبیاں موجود تھیں۔ کتنے بےنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے : 1 اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ 2 مومنوں پر بہت نرم ہیں۔ 3 کافروں پر بہت سخت ہیں۔ 4 اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں 5 اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ ان خوش نصیب لوگوں کے سردار اور خلیفہ ابوبکر (رض) تھے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو ابوبکر (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے، ان سے جہاد کروایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے، یہ ان کے حق میں بشارت ہے۔ (موضح) - ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ اس ( ابو موسیٰ ) کی قوم ہے۔ “ (ابن ابی حاتم، ابن جریر) ” ھدایۃ المستنیر “ کے مصنف نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ الغرض ابوبکر (رض) ، ان کے ساتھی مہاجرین و انصار اور اہل یمن میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ - صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ مرتد ہونے والوں کے بارہ (١٢) فرقے تھے، ان میں سے تین فرقے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں مرتد ہوگئے تھے : 1 بنو مدلج جن کا رئیس اسود عنسی تھا، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسے فیروز دیلمی نے قتل کیا۔ (کشاف کے محشی نے لکھا ہے کہ اسود عنسی بنو مدلج سے نہیں بلکہ بنو عنس سے تھا) 2 مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ، جس سے ابوبکر صدیق (رض) نے جنگ کی اور وہ حمزہ (رض) کے قاتل وحشی (رض) کے ہاتھوں قتل ہوا۔ 3 بنو اسد جن کا رئیس طلیحہ بن خویلد تھا، ان کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید (رض) کو بھیجا گیا۔ یہ شخص آخر میں مسلمان ہوگیا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں یہ بتلایا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ گہری دوستی اور خلط ملط کی جو ممانعت کی گئی ہے یہ خود مسلمانوں ہی کے مفاد کی خاطر ہے، ورنہ اسلام وہ دین حق ہے جس کی حفاظت کا ذمہ حق تعالیٰ نے خود لے لیا ہے، کسی فرد یا جماعت کی کجروی یا نافرمانی تو بجائے خود ہے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی فرد یا جماعت سچ مچ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے اور بالکل ہی مرتد ہو کر غیر مسلموں میں مل جائے اس سے بھی اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قادر مطلق جو اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے فوراً کوئی دوسری قوم میدان عمل میں لے آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور اشاعت کے فرائض انجام دے گی۔ اس کے کام نہ کسی ذات پر موقوف ہیں نہ کسی بڑی سے بڑی جماعت یا ادارہ پر وہ جب چاہتے ہیں تو تنکوں سے شہتیر کا کام لے لیتے ہیں ورنہ شہتیر پڑے کھاد ہوتے رہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے - ان المقادیر اذا ساعدت - الحقت العاجز بالقادر - ” یعنی تقدیر الٓہی جب کسی کی مددگار ہوجاتی ہے تو ایک عاجز و بیکار سے قادر و توانا کا کام لے لیتی ہے “۔ اس آیت میں جہاں یہ ذکر فرمایا کہ مسلمان اگر مرتد ہوجائیں تو پروا نہیں، اللہ تعالیٰ ایک دوسری جماعت کھڑی کر دے گا، وہاں اس پاکباز جماعت کے کچھ اوصاف بھی بیان فرماتے ہیں کہ یہ جماعت ایسے اوصاف کی حامل ہوگی، دین کی خدمت کرنے والوں کو ان اوصاف کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ آیت سے معلوم ہوا کہ ان اوصاف و عادات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و محبوب ہیں۔- ان کی پہلی صفت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھیں گے۔ اس صفت کے دو جز ہیں، ایک ان لوگوں کی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ، یہ تو کسی نہ کسی درجہ میں انسان کے اختیار میں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک انسان کو کسی کے ساتھ اگر طبعی محبت نہ ہو تو کم از کم عقلی محبت اپنے عزم و ارادہ کے تابع رکھ سکتا ہے۔ اور طبعی محبت بھی اگرچہ اختیار میں نہیں، مگر اس کے بھی اسباب اختیاری ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور قدرت کاملہ اور انسان پر اس کے اختیارات و انعامات کا مراقبہ اور تصور لازمی طور پر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت طبعی بھی پیدا کردیتا ہے۔- لیکن دوسرا جز یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت ان لوگوں کے ساتھ ہوگی، اس میں تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اختیار وعمل کا کوئی دخل اس میں نہیں، اور جو چیز ہماری قدرت و اختیار سے باہر ہے اسے سنانے اور بتلانے کا بھی بظاہر کوئی حاصل نہیں نکلتا۔- لیکن قرآن کریم کی دوسری آیت میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ محبت کے اس جز کے اسباب بھی انسان کے اختیار میں ہیں۔ اگر وہ ان اسباب کا استعمال کرے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے ساتھ لازمی ہوگی۔ اور وہ اسباب (آیت) قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی۔ میں مذکور ہیں یعنی اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بتلا دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمانے لگیں گے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائیں اس کو چاہئے کہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی زندگی کا محور بنالے، اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں سنت کے اتباع کا التزام کرے، تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سے محبت فرمائیں گے۔ اور اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کفر و ارتداد کا مقابلہ وہی جماعت کرسکے گی جو متبع سنت ہو، نہ احکام شرعیہ کی تعمیل میں کوتاہی کرے اور نہ اپنی طرف سے خلاف سنت اعمال کو اور بدعات کو جاری کرے۔- دوسری صفت اس جماعت کی یہ بتلائی گئی ہے کہ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤ ْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ، اس میں لفظ اذلّہ حسب تصریح قاموس ذلیل یا ذلول دونوں کی جمع ہو سکتی ہے۔ ذلیل کے معنی عربی زبان میں وہی ہیں جو اردو وغیرہ میں معروف ہیں۔ اور ذلول کے معنی ہیں نرم اور سہل الانقیاد، یعنی جو آسانی سے قابو میں آجائے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس جگہ یہی معنی مراد ہیں، یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے نرم ہوں گے۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف بھی ہوا تو آسانی سے قابو میں آجائیں گے۔ جھگڑا چھوڑ دیں گے۔ اگرچہ وہ اپنے جھگڑے میں حق بجانب بھی ہوں۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : انا زعیم ببیت فی ربض الجنة لمن ترک المراء وھو محق، ” یعنی میں اس شخص کو وسط جنت میں گھر دلوانے کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے “۔- تو حاصل اس لفظ کا یہ ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے اپنے حقوق اور معاملات میں کوئی جھگڑا نہ رکھیں گے۔ دوسرا لفظ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ آیا۔ اس میں بھی اَعِزّة، عزیز کی جمع ہے، جس کے معنی غالب، قوی اور سخت کے آتے ہیں، مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں سخت اور قوی ہیں اور وہ ان پر قابو نہ پاسکیں گے۔- اور دونوں جملوں کو ملانے کا حاصل یہ نکل آیا کہ یہ ایک ایسی قوم ہوگی جس کی محبت و عداوت اور دشمنی اپنی ذات اور ذاتی حقوق و معاملات کے بجائے صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہوگی۔ اسی لئے ان کی لڑائی کا رخ اللہ و رسول کے فرماں برداروں کی طرف نہیں بلکہ اس کے دشمنوں اور نافرمانوں کی طرف ہوگا۔ یہی مضمون ہے سورة فتح کی اس آیت کا : (آیت) اشداء علی الکفار رحمآء بینھم۔- پہلی صفت کا حاصل حقوق کی تکمیل تھا اور دوسری صفت کا حاصل حقوق العباد اور معاملات کا اعتدال ہے۔ تیسری صفت اس جماعت کی یہ بیان فرمائی : يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، یعنی یہ لوگ دین حق کی اشاعت اور برتری کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اس کا حاصل یہ ہے کہ کفر و ارتداد کے مقابلہ کے لئے صرف معروف قسم کی عبادت گزاری اور نرم و سخت ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اقامت دین کا جذبہ بھی ہو۔ اسی جذبہ کی تکمیل کے لئے چوتھی صفت یہ بتلائی گئی وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ، یعنی اقامت دین اور کلمہ حق کے سربلند کرنے کی کوشش میں یہ لوگ کسی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔- غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی تحریک کو چلانے والے کی راہ میں دو قسم کی چیزیں حائل ہوا کرتی ہیں۔ ایک مخالف قوت کا زور دوسرے اپنوں کے لعن طعن اور ملامت، اور تجربہ شاہد ہے کہ جو لوگ تحریک چلانے کے لئے عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر حالات میں مخالف قوت سے تو مغلوب نہیں ہوتے، قید و بند اور زخم و خون سب کچھ برداشت کر لتے ہیں۔ لیکن اپنوں کے طعنوں اور تشنیع و تقبیح سے بڑے بڑے عزم والوں کے قدم میں لغزش آجاتی ہے۔ شاید اسی لئے حق تعالیٰ نے اس جگہ اس کی اہمیت جتلانے کے لئے اس پر اکتفاء فرمایا کہ یہ لوگ کسی کی ملامت کی پروا کئے بغیر اپنا جہاد جاری رکھتے ہیں۔- آخر آیت میں یہ بھی بتلا دیا کہ یہ صفات اور خصائل حسنہ اللہ تعالیٰ ہی کے انعام ہیں، وہی جس کو چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں، انسان محض اپنے سعی و عمل سے بغیر فضل خدا وندی کے ان کو حاصل نہیں کرسکتا۔- آیت کے الفاظ کی تشریح سے یہ واضح ہوچکا کہ اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو دین اسلام کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ بلکہ اس کی حفاظت و حمایت کیلئے اللہ جل شانہ ایک اعلیٰ اخلاق و اعمال کی جماعت کو کھڑا کردیں گے۔- جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت درحقیقت آنے والے فتنہ کی پیشن گوئی اور اس کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کرکے کامیاب ہونے والی جماعت کے لئے بشارت ہے آنے والا وہ فتنہ ارتداد ہے جس کے کچھ جراثیم تو عہد نبوت کے بالکل آخری ایام میں پھیلنے لگے تھے۔ اور پھر بعد وفات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عام ہو کر پورے جزیرة العرب میں اس کا طوفان کھڑا ہوگیا اور بشارت پانے والی وہ جماعت صحابہ کرام (رض) کی ہے جس نے خلیفہ اول صدیق اکبر (رض) کے ساتھ مل کر اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا۔- واقعات یہ تھے کہ سب سے پہلے تو مسیلمہ کذّاب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک نبوت ہونے کا دعویٰ کیا، اور یہاں تک جرأت کی کہ آپ کے قاصدوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اگر بمصلحت تبلیغ و اصلاح یہ دستور عام نہ ہوتا کہ قاصدوں اور سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہیں قتل کردیتا، مسیلمہ اپنے دعوے میں کذاب تھا۔ پھر آپ کو اس کے خلاف جہاد کا موقع نہیں ملا، یہاں تک کہ وفات ہوگئی۔- اسی طرح یمن میں قبیلہ مذجج کے سردار اسودعنسی نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے مقرر کئے ہوئے حاکم یمن کو اس کا مقابلہ کرنے کا حکم دیدیا، مگر جس رات میں اس کو قتل کیا گیا اس کے اگلے دن ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی، صحابہ کرام تک اس کی خبر ربیع الاول کے آخر میں پہنچی، اسی طرح کا واقعہ قبیلہ بنو اسد میں پیش آیا کہ ان کا سردار طلیحہ بن خویلد خود اپنی نبوت کا مدعی بن گیا۔- یہ تین قبیلوں کی جماعتیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض وفات ہی میں مرتد ہوچکی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر نے اس فتنہ ارتداد کو ایک طوفانی شکل میں منتقل کردیا۔ عرب کے سات قبیلے مختلف مقامات پر اسلام اور اس کی حکومت سے منحرف ہوگئے اور خلیفہ وقت ابوبکر صدیق (رض) کو اسلامی قانون کے مطابق زکوٰة ادا کرنے سے انکار کردیا۔- وفات سرور کائنات کے بعد ملک و ملت کی ذمہ داری خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر (رض) پر عائد ہوئی۔ ایک طرف ان حضرات پر اس حادثہ عظیم کا صدمہ جانگداز اور دوسری طرف یہ فتنوں اور بغاوتوں کے سیلاب عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جو صدمہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق (رض) پر پڑا اگر وہ مضبوط پہاڑوں پر بھی پڑجاتا تو ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر و استقامت کا وہ اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا کہ تمام آفات و مصائب کا پورے عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔- بغاوتوں کا مقابلہ ظاہر ہے کہ طاقت استعمال کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مگر حالات کی نزاکت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ صدیق اکبر (رض) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو کسی کی رائے نہ ہوئی کہ اس وقت بغاوتوں کے مقابلہ میں کوئی سخت قدم اٹھایا جائے۔ خطرہ یہ تھا کہ حضرات صحابہ اگر اندرونی جنگ میں مشغول ہوجائیں تو بیرونی طاقتیں اس جدید اسلامی ملک پر دوڑ پڑیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے صدیق کے قلب کو اس جہاد کے لئے مضبوط فرما دیا اور آپ (رض) نے ایک ایسا بلیغ خطبہ صحابہ کرام کے سامنے دیا کہ اس جہاد کے لئے ان کا بھی شرح صدر ہوگیا۔ اس خطبہ میں اپنے پورے عزم و استقلال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ :- ” جو لوگ مسلمان ہونے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیئے ہوئے احکام اور قانون اسلام کا انکار کریں تو میرا فرض ہے کہ میں ان کے خلاف جہاد کروں، اگر میرے مقابلہ پر تمام جن وانس اور دنیا کے شجر و حجر سب کو جمع کر لائیں، اور کوئی میرا ساتھی نہ ہو، تب بھی میں تنہا اپنی گردن سے اس جہاد کو انجام دوں گا “۔- اور یہ فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور چلنے لگے، اس وقت صحابہ کرام آگے آئے اور صدیق اکبر (رض) کو اپنی جگہ بٹھلا کر مختلف محاذوں پر مختلف حضرات کی روانگی کا نقشہ بن گیا۔- اسی لئے حضرت علی مرتضیٰ (رض) ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ قتادہ وغیرہ جمہور ائمہ تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آئی ہے وہی سب سے پہلے اس قوم کا مصداق ثابت ہوئے۔ جن کے من جانب اللہ میدان عمل میں لائے جانے کا آیت مذکورہ میں ارشاد ہے۔- مگر یہ اس کے منافی نہیں کہ کوئی دوسری جماعت بھی اس آیت کی مصداق ہو، اس لئے جن حضرات نے اس آیت کا مصداق حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) یا دوسرے صحابہ کرام کو قرار دیا ہے، وہ بھی اس کا مخالف نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ سب حضرات بلکہ قیامت تک آنے والا وہ مسلمان جو قرآنی ہدایات کے مطابق کفر و ارتداد کا مقابلہ کریں گے، اسی آیت کے مصداق میں داخل ہوں گے۔ بہرحال صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت حضرت صدیق اکبر (رض) کے زیر ہدایت اس فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہوگئی۔ حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک بڑا لشکر دے کر مسیلمہ کذاب کے مقابلہ پر یمامہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں مسیلمہ کذاب کی جماعت نے اچھی خاصی طاقت پکڑ لی تھی۔ سخت معرکے ہوئے، بالآخر مسیملہ کذاب حضرت وحشی (رض) کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی جماعت تائب ہو کر پھر مسلمانوں میں مل گئی۔ اسی طرح طلیحہ بن خویلد کے مقابلہ پر بھی حضرت خالد (رض) ہی تشریف لے گئے۔ وہ فرار ہو کر کہیں باہر چلا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو خود بخود ہی اسلام کی دوبارہ توفیق بخشی اور مسلمان ہو کر لوٹ آئے۔- خلافت صدیقی کے پہلے مہینہ ربیع الاول کے آخر میں اسود عنسی کے قتل اور اس کی قوم کے مطیع و فرمانبردار ہوجانے کی خبر پہنچ گئی اور یہی خبر سب سے پہلی فتح کی خبر تھی جو حضرت صدیق اکبر (رض) کو ان حالات میں پہنچی تھی۔ اسی طرح دوسرے قبائل مانعین زکوٰة کے مقابلہ میں بھی ہر محاذ پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو فتح مبین نصیب فرمائی۔- اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو تیسری آیت کے آخر میں مذکور ہے فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ، یعنی اللہ والوں کی جماعت ہی غالب آ کر رہے گی۔ اس کی عملی تفسیر دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لی۔ اور جبکہ تاریخی اور واقعاتی رنگ میں یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قبائل عرب میں فتنہ ارتداد پھیلا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جو قوم کھڑی فرمائی وہ صدیق اکبر (رض) اور ان کے ساتھی صحابہ کرام ہی تھے۔ تو اس آیت ہی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو اوصاف اس جماعت کے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں وہ سب صدیق اکبر (رض) اور ان کے رفقائے کار صحابہ کرام میں موجود تھے۔ یعنی :- اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتے ہیں۔- دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔- تیسرے یہ کہ یہ سب حضرات مسلمانوں کے معاملات میں نہایت نرم ہیں اور کفار کے معاملہ میں تیز،- چوتھے یہ کہ ان کا جہاد ٹھیک اللہ کی راہ میں تھا جس میں انہوں نے کسی کی ملامت وغیرہ کی پرواہ نہیں کی۔- آخر آیت میں اس حقیقة الحقائق کو واضح فرما دیا کہ یہ سب صفات کمال پھر ان کا ہر وقت استعمال پھر ان کے ذریعہ اسلامی مہم میں کامیابی یہ سب چیزیں نری تدبیر یا طاقت یا جماعت کے بل بوتہ پر حاصل نہیں ہوا کرتیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہی جس کو چاہتے ہیں یہ نعمت عطاء فرماتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝ ٠ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝ ٠ۡيُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٥٤- ردت - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - ذُّلُّ ( محمود)- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها أي : مسالکها وطرقها .- پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] يعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔- عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56]- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراخ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اسد وغطفان اور قبیلہ کندہ و مراد کے جو آدمی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کی بعد دین سے پھرجائیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو لائے گا جنھیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ بہت نرم دل اور مہربان ہوں گے اور اطاعت خداوندی میں سر بسجود ہوں گے کسی ملامت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔- یہ تمام خوبیاں فضل الہی ہیں، جو اس کا اہل ہوتا ہے، اس کو دیتا ہے وہ بڑی وسعتوں والا ہے اور جس کو دیتا ہے اس کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ ) - یہاں پر جو لفظ یَرْتَدَّ آیا ہے اس کے مفہوم میں ایک تو قانونی اور ظاہری ارتداد ہے۔ جیسے ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے ‘ یہودی یا نصرانی ہوجائے۔ یہ تو بہت واضح قانونی ارتداد ہے ‘ لیکن ایک باطنی ارتداد بھی ہے ‘ یعنی الٹے پاؤں پھرنے لگنا ‘ پسپائی اختیار کرلینا۔ اوپر اسلام کا لبادہ تو جوں کا توں ہے ‘ لیکن فرق یہ واقع ہوگیا ہے کہ پہلے غلبۂ دین کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے ‘ محنتیں کر رہے تھے ‘ وقت لگا رہے تھے ‘ ایثار کر رہے تھے ‘ انفاق کر رہے تھے ‘ بھاگ دوڑ کر رہے تھے ‘ اور اب کوئی آزمائش آئی ہے تو ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ (آیت ٢٠) میں ارشاد ہے : (کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط) جب ذرا روشنی ہوتی ہے ان پر تو اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف کھڑے رہ گئے ہیں بلکہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارا محتاج ہے ‘ بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تمہیں اپنی نجات کے لیے اپنے اس فرض کو ادا کرنا ہے۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹائے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا ‘ کسی اور کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا۔- یہاں پر مؤمنین صادقین کے اوصاف کے ضمن میں جو تین جوڑے آئے ہیں ان پر ذرا دوبارہ غور کریں :- (١) (یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ) اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ (اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم )- (٢) (اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز) وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت سخت ہوں گے۔ یہی مضمون سورة الفتح (آیت ٢٩) میں دوسرے انداز سے آیا ہے : (اَشِدِّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ ) آپس میں بہت رحیم و شفیق ‘ کفار پر بہت سخت۔ بقول اقبالؔ : ؂- ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم - رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن - (٣) (یُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ءِمٍ ) اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے۔ ان کے رشتہ دار ان کو سمجھائیں گے ‘ دوست احباب نصیحتیں کریں گے کہ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا ؟ تم ہوگئے ہو ؟ تمہیں اولاد کا خیال نہیں ‘ اپنے مستقبل کی فکر نہیں مگر یہ لوگ کسی کی کوئی پروا نہیں کریں گے ‘ بس اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے۔ اور ان کی کیفیت یہ ہوگی : ؂- واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا - تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی - خیریت جاں ‘ راحتِ تن ‘ صحت داماں - سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی - اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری - تنہا پس زنداں ‘ کبھی رسوا سر بازار - کڑکے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر - گرجے ہیں بہت اہل حکم بر سر دربار - چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام - چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت - اِس عشق ‘ نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل - ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت - یہ ایک کردار ہے جس کو واضح کرنے کے لیے دو دو اوصاف کے یہ تین جوڑے آئے ہیں۔ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اس کردار کو عملاً اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔- (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ )- اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بھائیوں ‘ عزیزوں ‘ دوستوں ‘ ساتھیوں اور رفیقوں کو دیکھتے ہو کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہوا ہے ‘ انہوں نے کیسے کیسے مرحلے َ سر کرلیے ہیں ‘ کیسی کیسی بازیاں جیت لیں ہیں ‘ تو تم بھی اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔ اللہ تمہیں بھیّ ہمت دے گا۔ اس لیے کہ اس دین کے کام میں اس قسم کا رشک بہت پسندیدہ ہے۔ جیسے حضرت عمر (رض) کو ‘ رشک آیاحضرت ابوبکر صدیق (رض) پر۔ جب غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو آپ (رض) نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر (رض) سے بازی لے جاؤں گا ‘ کیونکہ اتفاق سے اس وقت میرے پاس خاصا مال ہے۔ چناچہ انہوں (رض) نے اپنے پورے مال کے دو برابر حصے کیے ‘ اور پورا ایک حصہ یعنی آدھا مال لا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈال دیا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے گھر میں جو کچھ تھا وہ سب لے آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر (رض) نے کہا میں نے جان لیا کہ ابوبکر (رض) سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ تو دین کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے : (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ) (المائدۃ : ٤٨) یعنی نیکیوں میں ‘ خیر میں ‘ بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہو - اب پھر اہل ایمان کو دوستانہ تعلقات کے معیار کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اہل ایمان کی دلی دوستی کفار سے ‘ یہود ہنود اور نصاریٰ سے ممکن ہی نہیں ‘ اس لیے کہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر دین کی غیرت و حمیت ہوگی ‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت دل میں ہوگی تو ان کے دشمنوں سے دلی دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :87 ”مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہل ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے ۔ اس کی ذہانت ، اس کی ہوشیاری ، اس کی قابلیت ، اس کا رسوخ و اثر ، اس کا مال ، اس کا جسمانی زور ، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو ۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو ، رحم دل ، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں ۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلوص ، اصول کی مضبوطی ، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے ۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں ۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے ان پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :88 یعنی اللہ کے دین کی پیروی کرنے میں ، اس کے احکام پر عمل درآمد کرنے میں ، اور اس دین کی رو سے جو کچھ حق ہے اسے حق اور جو کچھ باطل ہے اسے باطل کہنے میں انہیں کوئی باک نہ ہوگا ۔ کسی کی مخالفت ، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے ۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دنیا بھر میں نکو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچے دل سے حق جانتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani