55۔ 1 جب یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا گیا تو اب سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ پھر وہ دوستی کن سے کریں ؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے دوست سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ہیں اور پھر ان کے ماننے والے اہل ایمان ہیں۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۔۔ : اوپر کی آیات میں کفار سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، اب اس آیت میں ” اِنَّمَا “ کلمۂ حصر کے ساتھ بتایا کہ تمہارے دوست صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں، اس لیے یہود کو مددگار اور دوست نہ بناؤ، بلکہ صرف مومنین کو اپنا مددگار سمجھو۔ (ابن کثیر، کبیر) یہاں ” وَهُمْ رٰكِعُوْنَ “ کے معنی ہیں ” جھکنے والے، عاجزی کرنے والے۔ “ چناچہ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ہے : (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ) [ المؤمنون : ٦٠ ] ” اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ “ (کبیر، ثنائی) بعض لوگوں نے ” وَهُمْ رٰكِعُوْن “ کو ” َ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ “ کے فاعل سے حال قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے ” وہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں “ اور بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی صدقہ کی تھی، اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی، مگر یہ سب روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ان کو بےاصل قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات سے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے، مگر آج تک کسی عالم نے یہ فتویٰ نہیں دیا۔ (ابن کثیر، المنار) پس صحیح یہ ہے کہ آیت عام مومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور عبادہ بن صامت (رض) اور ان کے رفقاء اس آیت کے اولین مصداق ہیں۔ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین سے پوچھا گیا کہ ” وَلِيُّكُمُ “ سے مراد علی (رض) ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ علی (رض) بھی ان مومنوں میں سے ایک ہیں، یعنی یہ آیت سب مومنوں کے حق میں ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ یہاں جو صفات مذکور ہیں کہ ” وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں “ ان سے کیا مقصد ہے ؟ تو ہم کہتے ہیں کہ اس سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے خالی تھے۔ (رازی) - شیعہ حضرات ان دو آیات سے علی (رض) کی امامت بلا فصل ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اسی وقت علی (رض) خلیفہ تھے۔ ان کے استدلال کا مدار تو اس بات پر ہے کہ یہ آیت خاص کر علی (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے، مگر ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ آیت سب مومنوں کے حق میں نازل ہوئی ہے اور علی (رض) بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں تو پھر صرف علی (رض) کیسے مراد ہوسکتے ہیں ؟ اور پھر جب آیت کے نزول کے ساتھ ہی علی (رض) کی ولایت ثابت ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد تک اس کو ملتوی رکھنا بےمعنی ہے، نیز ولی کے معنی دوست اور مدد گار کے بھی آتے ہیں اور والی اور متصرف ( حاکم) کے بھی۔ آیت کا سیاق وسباق ( اس کے الفاظ اور اس سے پہلے والی آیات کے الفاظ) پہلے معنی کی تائید کرتے ہیں تو سیاق کے قرینہ کے خلاف دوسرے معنی لینے کے لیے کون سی وجہ جواز ہوسکتی ہے ؟ امام رازی (رض) نے آٹھ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آیت میں ولی کے پہلے معنی مراد ہیں، دوسرے معنی دلائل کے خلاف ہیں۔ (کبیر)
سابقہ چار آیات میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ گہری دوستی رکھنے سے منع فرمایا گیا پانچویں آیت میں مثبت طور پر یہ بتلایا گیا کہ مسلمانوں کو گہری دوستی اور رفاقت خاص کا تعلق جن سے ہوسکتا ہے وہ کون ہیں۔ ان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہے کہ درحقیقت مومن کا ولی و رفیق ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے تعلق کے سوا ہر تعلق اور ہر دوستی فانی ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اس سے الگ نہیں۔ تیسرے نمبر میں مسلمانوں کے رفیق اور مخلص دوست ان مسلمانوں کو قرار دیا ہے جو صرف نام کے مسلمان نہیں، بلکہ سچے مسلمان ہیں جن کی تین صفات اور علامات یہ بتلائی ہیں :- (آیت) الذین یقیمون الصلوة الخ۔- اول یہ کہ وہ نماز کو اس کے پورے آداب و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اپنے مال میں سے زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ متواضع اور فروتنی کرنے والے ہیں اپنے اعمال خیر پر ناز اور تکبر نہیں کرتے۔- اس آیت کا تیسرا جملہ (آیت) وہم راکعون، میں لفظ رکوع کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے بعض نے فرمایا کہ رکوع سے مراد اس جگہ اصطلاحی رکوع ہے جو نماز کا ایک رکن ہے۔ اور یقیمون الصلوة کے بعد وھم راکعون کا جملہ اس مقصد سے لایا گیا کہ مسلمانوں کی نماز کو دوسرے فرقوں کی نماز سے ممتاز کردینا مقصود ہے۔ کیونکہ نماز تو یہود و نصاریٰ بھی پڑھتے ہیں، مگر اس میں رکوع نہیں ہوتا، رکوع صرف اسلامی نماز کا امتیازی وصف ہے (مظہری) ۔- مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ لفظ رکوع سے اس جگہ اصطلاحی رکوع مراد نہیں۔ بلکہ اس کے لغوی معنی مراد ہیں۔ یعنی جھکنا، تواضع اور عاجزی و انکساری کرنا، تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے اور تفسیر کشاف میں زمخشری نے اسی کو اختیار کیا ہے اور تفسیر مظہری وبیان القرآن وغیرہ میں بھی اسی کو لیا گیا ہے، تو معنی اس جملہ کے یہ ہوگئے کہ ان لوگوں کو اپنے اعمال صالحہ پر ناز نہیں بلکہ تواضع اور انکساری ان کی خصلت ہے۔- اور بعض روایات میں ہے کہ یہ جملہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایک خاص واقعہ کے متعلق نازل ہوا ہے۔ وہ یہ کہ ایک روز حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نماز میں مشغول تھے۔ جب آپ رکوع میں گئے تو کسی سائل نے آ کر سوال کیا، آپ کرم اللہ وجہہ نے اسی حالت رکوع میں اپنی ایک انگلی سے انگوٹھی نکال کر اس کی طرف پھینک دی، غریب فقیر کی حاجت روائی میں اتنی دیر کرنا بھی پسند نہیں فرمایا کہ نماز سے فارغ ہو کر اس کی ضرورت پوری کریں۔ یہ مسابقت فی الخیرات اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند آئی۔ اور اس جملہ کے ذریعہ اس کی قدر افزائی فرمائی گئی۔- اس روایت کی سند میں علماء و محدثین کو کلام ہے لیکن روایت کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی گہری دوستی کے لائق نماز و زکوٰة کے پابند عام مسلمان ہیں اور ان میں خصوصیت کیساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ اس دوستی کے زیادہ مستحق ہیں۔ جیسا کہ ایک دوسری صحیح حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : من کنت مولاہ فعلی مولاہ، (رواہ احمد از مظہری) ” یعنی میں جس کا دوست ہوں تو علی کرم اللہ وجہہ بھی اس کے دوست ہیں “۔ - اور ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ، ” یعنی یا اللہ آپ محبوب بنالیں اس شخص کو جو محبت رکھتا ہو علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے، اور دشمن قرار دیں اس شخص کو جو دشمنی کرے علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے “۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس خاص شرف کے ساتھ غالباً اس لئے نوازا گیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آئندہ پیش آنے والا فتنہ منکشف ہوگیا تھا، کہ کچھ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عداوت و دشمنی رکھیں گے، اور ان کے مقابلہ پر علم بغاوت اٹھائیں گے، جیسا کہ خوارج کے فتنہ میں اس کا ظہور ہوا۔- بہر حال آیت مذکورہ کا نزول خواہ اسی واقعہ کے متعلق ہوا ہو مگر الفاظ آیت کے عام ہیں، جو تمام صحابہ کرام اور سب مسلمانوں کو شامل ہیں، ازروئے حکم کسی فرد کی خصوصیت نہیں۔ اسی لئے جب کسی نے حضرت امام باقر رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس آیت میں والَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سے کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ مراد ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی مومنین میں داخل ہونے کی حیثیت سے اس آیت کا مصداق ہیں۔- اس کے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کو فتح و نصرت اور دنیا پر غالب آنے کی بشارت دی گئی ہے جو مذکورہ آیات قرآنی کے احکام کی تعمیل کرکے غیروں کی گہری دوستی سے باز آجائیں اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائیں۔
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ ٥٥- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] - ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ - - ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں
نماز میں عمل قلیل کا بیان - قول باری ہے انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا الذین یقیمون الصلوٰۃ ویوتون الزکوۃ وھو راکعون تمہارا رفیق تو اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے اور رکوع کرتے ہیں۔ مجاہد ، سدی ، ابوجعفر اور عتبہ بن ابی الحکم سے مروی ہے کہ آیت کا نزول حضرت علی (رض) کے بارے میں ہوا۔ جب آپ نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی خیرات کردی تھی ۔ حسن سے مروی ہے کہ یہ آیت تمام مسلمانوں کی توصیف میں نازل ہوئی ہے اس لیے کہ قول باری الذین یقیمون الصلوٰۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون پوری جماعت کی صفت میں ہے فرد واحد کی صفت میں نہیں ہے۔ قول باری وھم راکعون کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ حضرات آیت کے نزول کے وقت رکوع کی حالت میں تھے، ان میں سے کچھ نے اپنی نماز مکمل کرلی تھی اور کچھ رکوع کی حالت میں تھے۔ دور سے حضرات کا قول ہے کہ اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ رکوع کرنا ان سب حضرات یعنی صحابہ کرام کی حالت اور کیفیت تھی ، نماز کے ارکان میں سے صرف رکوع کا ذکر ہوا تا کہ رکوع کے شرف اور عظمت کا اظہار ہوجائے ۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ نوافل ادا کرتے ہیں جس طرح کہا جاتا ہے فلان یرکح فلاں شخص رکوع کرتا یعنی نوافل ادا کرتا ہے۔- اگر رکوع کی حالت میں صدقہ کردینا مراد ہے تو پھر اس امر پر اس کی دلالت ہوگی کہ نماز میں عمل قلیل کی اباحت ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی نماز کے اندر عمل قلیل کی اباحت کی روایات منقول ہیں ایک روایت ہے کہ آپ نے نماز کے اندر اپنے جوتے اتار دیئے تھے ایک میں ہے کہ آپ نے اپنی داڑھی پر دست مبارک پھیرا تھا نیز نماز کی حالت میں ہاتھ سے اشارہ بھی کیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تھے آپ نے انہیں پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کرلیا ۔ ایک روایت کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو العاص بن الربیع کی چھوٹی بچی امامہ کو اٹھائے ہوئے نماز کی ، جب آپ سجدے میں جاتے تو اسے زمین پر بٹھا دیتے اور پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بچی کو پھر اٹھا لیتے۔- نماز کے اندر صدقہ کرنے کی اباحت پر آیت کی دلالت ظاہر ہے۔ اس لیے کہ اگر رکوع مراد ہے تو آیت کے مفہوم کی ترتیب کچھ یوں ہوگی ۔ وہ لوگ جو رکوع کی حالت میں صدقہ کرتے ہیں اس سے حالت رکوع میں صدقہ کرنے کی اباحت پر دلالت ہوجائے گی۔ اگر قول باری وھم راکعون سے وھم یصلون مراد ہو یعنی نماز پڑھنے کی حالت میں تو پھر پوری نماز کے اندر صدقہ کرنے کی اباحت پر دلالت ہوجائے گی ۔ جو بھی معنی مراد لیے جائیں ۔ آیت بہر حال نماز کے اندر صدقہ کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ صدقہ بھی کرتے اور نماز بھی پڑھتے ہیں ۔ یہاں نماز کے اندر صدقہ کا عمل مراد نہیں ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک ساقط تاویل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری وھم راکعون کے ذریعے اس حالت کی خبر دی گئی ہے جس میں صدقہ کا فعل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کہتے ہیں تکلم فلان وھم قائعد اعطی فلانا وھو قاعد فلاں شخص نے حالت قیام میں گفتگو کی یا فلاں نے فلاں شخص کو اس وقت کچھ دیا جبکہ ہو بیٹھا ہوا تھا ان دونوں فقروں میں فعل کے وقوع پذیر ہونے کی حالت کو بیان کیا گیا ہے نیز اگر معترض کی تاویل درست مان لی جائے تو اس سے تکرار لازم آ ئے گی اس لیے کہ خطاب کی ابتداء میں نماز کا ذکر ان الفاظ میں گزر چکا ہے الذین یقیمون الصلوٰۃ پھر اس صورت میں کلام کی ترتیب یوں ہوگی وہ لوگ جو نماز قائم کرتے اور نماز پڑھتے ہیں ۔ اللہ کے کلام میں اس قسم کی ترکیب کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے ہماری بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں رکوع کے اندر یا نماز کے اندر صدقہ کرنے کے عمل کی تعریف کی گئی ہے۔ قول باری یوتون الزکوۃ وھو راکعون اس پر دلالت کرتا ہے کہ نفلی صدقے کو بھی زکوٰۃ کا نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی (رض) نے نماز کے اندر اپنی انگوٹھی نفلی صدقے میں دی تھی ۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے وما اتیتم من زکوٰۃ شدیدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون اور جو کچھ تم زکوٰۃ یعنی صدقہ میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے دو گے تو یہی لوگ وہ ہیں جو اپنے اجر کو کئی گناہ بڑھانے والے ہیں ۔ اس لیے لفظ زکوٰۃ ، فرض زکوۃ اور صدقہ دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کا اسم فرض اور نفل دونوں صورتوں کو اسی طرح شامل ہے جس طرح صدقہ کا اسم دونوں کو شامل ہے یا جس طرح صلوٰۃ کا اسم فرض اور نفل دونوں نمازوں کو شامل ہے۔
(٥٥۔ ٥٦) حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اسد، اسید اور ثعلبۃ بن قیس وغیرہ کو یہود نے تکالیف پہنچائیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی تسلی کے لیے فرماتے ہیں کہ تمہارا محافظ و مددگار اور دوست اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھی ہیں جو پانچوں نمازوں کو باجماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جو ان سے دوستی رکھے تو اللہ تعالیٰ کی جماعت یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) اپنے دشمنوں پر یقیناً غلبہ رکھتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” انما ولیکم اللہ ورسولہ “۔ (الخ)- طبرانی (رح) نے اوسط میں عمار بن یاسر (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نفلی نماز میں رکوع میں تھے، ایک سائل نے آپ سے کچھ مانگا آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہارا دوست تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول۔ الخ۔ اس روایت کا اور بھی شاہد موجود ہے، چناچہ عبدالرزاق نے بواسطہ عبدالوہاب، مجاہد، ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن مردویہ (رح) نے دوسرے طریقہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے اور اسی طرح حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے، نیز ابن جریر نے مجاہد سے اور ابن ابی حاتم (رح) نے سلمۃ بن کہیل سے اسی طرح روایت نقل کی ہے، ان شواہد سے ایک روایت کو ایک کے ساتھ تقویت حاصل ہوتی ہے۔
آیت ٥٥ (اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا) - تمہارے دوست ‘ پشت پناہ ‘ حمایتی ‘ معتمد اور راز دار تو بس اللہ ‘ اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان ہیں۔ اور یہ اہل ایمان بھی پیدائشی اور قانونی مسلمان نہیں ‘ بلکہ : َ - (الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ ) ۔- یہاں وَہُمْ رٰکِعُوْنَ کا مطلب وہ رکوع کرتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ یہ درحقیقت زکوٰۃ دینے کی کیفیت ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں فروتنی کرتے ہوئے۔ ہم سورة البقرۃ (آیت ٢٧٣) میں پڑھ آئے ہیں کہ سب سے بڑھ کر انفاق فی سبیل اللہ کے مستحق کون لوگ ہیں : ( لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔۔ ) جو اللہ کے دین کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف ہیں اور ان کے پاس اب اپنی معاشی جدوجہدّ کے لیے وقت نہیں ہے۔ لیکن وہ فقیر تو نہیں کہ آپ سے جھک کر مانگیں ‘ یہ تو آپ کو جھک کر ‘ فروتنی کرتے ہوئے ان کی مدد کرنا ہوگی۔ آپ انہیں دیں اور وہ قبول کرلیں تو آپ کو ان کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔