اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں ۔ من بیان جنس کیلئے جیسے ( من الاوثان ) میں ۔ بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور ( لاتتخذوا ) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت ( والا الکفار اولیاء ) ہو گی ، کفار سے مراد مشرکین ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( و من الذین اشرکوا ) ہے ۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو ۔ یہ تو تمہارے دین کے ، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:28 ) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے ، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں ، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے بعد آ جاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے ۔ ( متفق علیہ ) امام زہری فرماتے ہیں اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی ۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا ، اذان میں جب اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی ، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی ، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہو گیا ۔ فتح مکہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا ، قریب ہی ابو سفیان بن حرب ، عتاب بن اسید ، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے ، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا ۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا ۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا ، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کر دیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں ، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہدیا ہوگا ( سیرۃ محمد بن اسحاق ) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے ، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے ۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے ، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان کہی ، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا اٹھو اذان کہو واللہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا ، کھڑا ہو گیا ، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے ، میں کہتا رہا ، پھر اذان پوری بیان کی ، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی ، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت بالکل جاتی رہی ، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل میں پیدا ہو گئی ، میں نے آرزو کی کہ مکے کا مؤذن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بنا دیں ۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکے میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہو گیا ۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔
57۔ 1 اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ : اوپر کی آیات میں خاص طور پر یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا، اب یہاں تمام کفار کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اس آیت کی رو سے ان بےدین لوگوں اور اہل بدعت سے دلی دوستی رکھنا بھی جائز نہیں جنھوں نے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے، کبھی داڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں، کبھی مسنون لباس کا اور کبھی اللہ تعالیٰ کی حدود کا۔ اسی طرح سنت کے مطابق نماز کا مذاق اڑاتے ہیں اور جو شخص پیدائش، نکاح اور موت کے وقت کفار خصوصاً ہندوؤں کی رسموں میں ان کا ساتھ نہ دے، اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو جب ان میں بھی وہی وصف پایا جاتا ہے جو اہل کتاب اور کفار میں پایا جاتا ہے تو ان کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو اہل کتاب اور کفار کا ہے۔
چھٹی آیت میں پھر بطور تاکید کے اس حکم کا اعادہ فرمایا گیا ہے جو شروع رکوع میں بیان ہوا تھا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے ایمان والو تم ان لوگوں کو اپنا رفیق یا گہرا دوست نہ بناؤ، جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل قرار دیتے ہیں۔ اور یہ دو گروہ ہیں۔ ایک اہل کتاب، دوسرا عام کفار و مشرکین۔- امام ابوحیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ لفظ کفار میں تو اہل کتاب بھی داخل تھے پھر خصوصیت کے ساتھ اہل کتاب کا مستقل ذکر اس جگہ غالباً اس لئے فرمایا گیا کہ اہل کتاب اگرچہ ظاہر میں بہ نسبت دوسرے کفار کے اسلام کے ساتھ قریب تھے، مگر تجربہ نے یہ بتلایا کہ ان میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام کو قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت اور مابعد کے ایمان لانے والے لوگوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ان میں کثرت عام کفار کی نکلے گی، اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوگی۔- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اہل کتاب کو اس پر ناز ہے کہ ہم دین الٓہی اور کتاب آسمانی کے پابند ہیں، اس فخر و ناز نے ان کو حق قبول کرنے سے باز رکھا۔ اور مسلمانوں کے ساتھ تمسخر و استہزاء کا معاملہ بھی زیادہ تر انہوں نے کیا، اسی شرارت پسندی کا ایک واقعہ وہ ہے جو ساتویں آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًا، یعنی جب مسلمان نماز کے لئے اذان دیتے ہیں تو یہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کا واقعہ بحوالہ ابن ابی حاتم تفسیر مظہری میں یہ نقل کیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک نصرانی تھا، وہ جب اذان میں اشھد ان محمد الرسول اللّٰہ کا لفظ سنتا تو یہ کہا کرتا تھا احرق اللّٰہ الکاذب یعنی جھوٹے کو اللہ تعالیٰ جلا دے۔- آخر کار اس کا یہ کلمہ ہی اس کے پورے خاندان کے جل کر خاک ہوجانے کا سبب بن گیا، جس کا واقعہ یہ پیش آیا کہ رات کو جب یہ سو رہا تھا اس کا نوکر کسی ضرورت سے آگ لے کر گھر میں آیا اس کی چنگاری اڑ کر کسی کپڑے پر گر پڑی اور سب کے سو جانے کے بعد وہ بھڑک اٹھی۔ اور سب کے سب جل کر خاک ہوگئے۔- اس آیت کے آخر میں فرمایا : ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ ، یعنی دین حق کے ساتھ اس تمسخر و استہزاء کی وجہ اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ یہ لوگ بےعقل ہیں۔- تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بےعقل فرمایا ہے حالانکہ امور دنیا میں ان کی عقل و دانش مشہور و معروف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان ایک قسم کے کاموں میں ہوشیار عقلمند ہو مگر دوسری قسم میں یا وہ عقل سے کام نہیں لیتا یا اس کی عقل اس طرف چلتی نہیں، اس لئے اس میں بیوقوف لا یعقل ثابت ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے :- (آیت) یعلمون ظاہرا تاہم غفلون، یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کے سطحی امور کو تو خوب جانتے ہیں مگر انجام اور آخرت سے غافل ہیں۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاۗءَ ٠ۚ وَاتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٥٧- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
قول باری ہے یا یھا الذین امنوا لاتتخذو الذین اتخذوادینکم ھزوا والعبا ًمن الذین اوتوا الکتاب من قبلکم والکفار اولیاء اے ایمان لانے والو تمہارے پیش رو اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دور سے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بنائو۔ آیت میں کافروں سے مدد لینے کی نہی ہے اس لیے اولیاء یعنی دوست اور رفیق وہ لوگ ہوتے ہیں جو مدد کرتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جب آپ نے احد کے معرکے پر نکلنے کا ارادہ کا ارادہ کیا تو یہودیوں کا ایکگروہ آ کر کہنے لگا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے ۔ آپ نے انہیں جو اب دیتے ہوئے فرمایا :” ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منافقین کی ایک بڑی تعداد مشرکین سے نبردآزما ہوتی تھی۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابو مسلم نے ، انہیں حجاج نے ، انہیں حماد نے محمد بن اسحاق سے ، انہوں نے زہری سے کہ کچھ یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا آپ نے مال غنیمت میں سے مسلمانوں کے حصوں کی طرح انہیں بھی حصہ دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ہے۔ انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدو اور یحییٰ بن معین نے ، انہیں یحییٰ نے مالک سے ، انہوں نے فضل سے ، انہوں نے عبد اللہ بن نیار سے ، انہوں نے عرو ہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے یحییٰ بن معین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک کافر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ میں بھی آپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کا مقابلہ کروں گا ۔ آپ نے اسے واپس جانے کا کہہ دیا ۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ میں مسدد اور یحییٰ بن معین دونوں کا اتفاق ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا لا نستعین بمشرک ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ مشرکین کے مقابلے کے لیے مشرکین سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ کامیابی کے بعد اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ فتحیابی کے بعد شرک کو غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہو تو پھر مسلمانوں کو ان کے ساتھ مل کر قتال نہیں کرنا چاہیے ۔ اصحاب سیر و مغازی نے کثرت سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بعض اوقات یہودیوں کا کوئی نہ کوئی گروہ جنگ پر جایا کرتا تھا اور بعض اوقات مشرکین کا گروہ بھی آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ رہ گئی وہ حدیث جس میں آپ نے فرمایا ہے انا لا نستعین بمشرک یعنی ہم ایسے مشرک سے مد د نہیں لیتے جس کی اس جیسی کیفیت ہو ۔ قول باری ہے لو لا ینھاھم الربا نیون والا حبار عن قولھم الاتم و اکلھم الحست کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔ ایک قول ہے کہ یہاں لولا کا لفظ ھلا کے معنوں میں ہے یہ ماضی اور مستقبل دونوں صیغوں پر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ مستقبل کے لیے ہو تو پھر امر کے معنوں میں ہوتا ہے جس طرح یہ قول ہے۔ الم لا تفعل تم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ یعنی ایسا کرلو اس مقام پر یہ لفظ مستقبل کے لیے ہے۔ یعنی ھلا ینھاھم اور لم لا ینھاھم کے معنوں میں ہے۔ اگر یہ لفظ ماضی کے لیے ہو تو اس سے بیخ مراد ہوتی ہے یعنی پھر یہ جھڑکنے اور دھمکانے کے معنی ادا کرتا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے لولا جاء کم علیہ باربعۃ شھدا انہوں نے اپنی اس بات پرچار گواہ کیوں نہیں پیش کیے۔ نیز فرمایا لو لا اذا سمعتموہ فلن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً ، جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا ۔ ربانیکے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو رب کے دین کا عالم ہو اس کی نسبت رب کی طرف کردی جاتی ہے جس طرح روحانی میں روح کی طرف نسبت ہے اور بحرانی میں بحر یعنی سمندر کی طرف نسبت ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اہل انجیل کے علماء کو ربانیون اور اہل تورات کے علماء کو احبار کہا جاتا ہے۔- حسن کے علاوہ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ سب یہود کے بارے میں ہے اس لیے کہ یہ ان یہود کے ذکر کے ساتھ متصل ہے۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابو عمر نے ثعلب سے بیان کیا ہے کہ ربانی اس عالم کو کہتے ہیں جو عامل بھی ہو ۔ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ منکر یعنی غلط بات کی تردید واجب ہے، اس سے روکنا اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ایسا نہیں کرتے۔
(٥٧) یعنی یہود و نصاری نے تمہارے دین کو کھیل اور مذاق بنا رکھا ہے ان کو اور تمام کافروں کو دوست مت بناؤ اور ان کو دوست رکھنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈور (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لاتتخذوا “۔ (الخ)- ابوالشیخ اور ابن حبان (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رفاعۃ بن زید تابوت اور سوید بن حارث نے اسلام کا اظہار کیا، پھر یہ لوگ منافق ہوگئے، اور مسلمانوں میں سے ایک شخص ان دونوں سے دوستی رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یایھا الذین “ ‘۔ سے ”۔ بما کانوا یکتمون “۔ تک یہ آیت نازل فرمائی۔
آیت ٥٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ ج) - پھر وہی بات فرمائی گئی کہ مشرکین اور اہل کتاب میں سے کسی کو اپنا ولی اور دوست نہ بناؤ۔