Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کر کے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الویت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمرہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت اور محبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتٰی کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔ 77۔ 2 یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو جو ایک نبی کو اللہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] فلسفہ گمراہی ؟ یہ لوگ وہی یونانی فلاسفر ہیں جن کے افکار و نظریات سے متاثر ہو کر عیسائیوں کے علماء و مشائخ نے چوتھی صدی عیسوی میں تثلیث کا عقیدہ ایجاد کیا۔ پھر حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس عقیدہ کو فروغ حاصل ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فلاسفر قسم کے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مسلمانوں میں غلو کی مثالوں کے لیے (دیکھئے سورة فرقان کا حاشیہ نمبر ٢)- اور سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : بال کی کھال اتارنے والے (فرقہ پرستی کی بنا پر) تباہ ہوئے۔ آپ نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب العلم۔ باب النہی عن اتباع متشابہ القرآن)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ۔۔ : یہود و نصاریٰ کی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مخاطب فرمایا ہے۔ (کبیر) نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا تھا (دیکھیے زخرف : ٥٩۔ مومنون : (٥٠) اسے معبود کے مقام پر کھڑا کردیا۔ دوسری طرف یہودیوں نے انھیں جھوٹا قرار دیا، ان سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا، ان پر اور ان کی والدہ پر تہمت طرازی کی اور ان کے قتل کے درپے ہوئے، بلکہ بقول یہود و نصاریٰ یہود نے مسیح (علیہ السلام) کو سولی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ (کبیر، ابن کثیر) حقیقت یہ ہے کہ دین میں جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آئی ہے، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بار بار نصیحت فرمائی : ” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح نصاریٰ نے مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، اس لیے تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ( واذکر فی الکتاب مریم ۔۔ ) : ٣٤٤٥ ] مگر مسلمانوں نے بھی اس قدر غلو کیا کہ اپنے ائمہ کو نبی کا درجہ دے کر ان کی بےدلیل بات پر عمل کو بھی واجب قرار دیا اور جو ایسا نہ کرے اسے لامذہب قرار دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ تعالیٰ والی صفات ہونے کا عقیدہ اپنا لیا کہ وہ بھی ہر بات سنتے اور جانتے ہیں اور کائنات میں ان کا حکم بھی چلتا ہے۔ بعض نے اللہ اور رسول کو ایک ہی ذات قرار دیا، اگر کوئی ان کی تردید کرے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء کو، نبی کو اور اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے، حالانکہ ہم اللہ کو اپنا معبود اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا رسول اور اولیاء کو اللہ کے مقرب بندے مانتے ہیں، مگر اولیاء کو نبی نہیں مانتے اور رسول کو اللہ تعالیٰ نہیں مانتے۔ - قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ۔۔ : پہلے فرمایا : ( قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ) (اس سے پہلے گمراہ ہوچکے) آخر میں پھر فرمایا : (وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ ) (اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے) گو یہ دونوں جملے بظاہر ایک ہی ہیں، مگر علماء نے لکھا ہے کہ اول سے مراد یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ” ضلوا “ سے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی اور دوسری سے مراد عمل کی گمراہی ہو۔ یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت چلو جنھوں نے کسی نبی (مثلاً عزیر یا عیسیٰ (علیہ السلام ) کو الٰہ بنایا، کسی نبی (مثلاً داؤد، مسیح، ان کی والدہ اور لوط ) پر زنا وغیرہ کی تہمتیں لگائیں اور کسی کو قتل کردیا، ان کاموں کے ساتھ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور آخر وقت تک سیدھے راستے پر نہیں آئے۔ ” ان کے پیچھے مت چلو “ سے معلوم ہوا کہ یہ گمراہیاں ان میں پہلے لوگوں کی تقلید کی وجہ سے آئی تھیں، تم یہ کام مت کرنا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان نصاریٰ سے) فرمائیے کہ اے اہل کتاب تم اپنے دین (کے معاملہ) میں ناحق کا غلو (اور افراط) مت کرو اور اس (افراط کے باب) میں ان لوگوں کے خیالات (یعنی بےسند باتوں) پر مت چلو جو (اس وقت سے) پہلے خود بھی غلطی میں پڑچکے ہیں اور (اپنے ساتھ) اور بہتوں کو (لے کر ڈوبے ہیں اور) غلطی میں ڈال چکے ہیں اور (وہ ان کی غلطی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ حق مفقود ہوگیا ہو اس کا پتہ نہ لگتا ہو بلکہ) وہ لوگ راہ راست (کے ہوتے ہوئے قصداً اس) سے دور (اور علیحدہ) ہوگئے تھے (یعنی جب ان کی غلطی دلائل سے ثابت ہوگئی پھر ان کا اتباع کیوں نہیں چھوڑتے) بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت) لعنت کی گئی تھی (زبور اور انجیل میں جس کا ظہور حضرت) داود (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبان سے (ہوا یعنی زبور اور انجیل میں کافروں پر لعنت لکھی تھی، جیسے قرآن مجید میں بھی ہے (آیت) فلعنة اللہ علیہ الکفرین، چونکہ یہ کتابیں حضرت داود اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہوئیں، اس لئے یہ مضمون ان کی زبان سے ظاہر ہوا اور) یہ لعنت اس سبب سے ہوئی کہ انہوں نے حکم کی (اعتقادی) مخالفت کی (جو کہ کفر ہے) اور (اس مخالفت میں) حد سے (بہت دور) نکل گئے (یعنی کفر بھی شدید تھا، پھر شدید کے ساتھ مدید بھی تھا۔ یعنی اس پر استمرار رکھا، چنانچہ) جو برا کام (یعنی کفر) انہوں نے (اختیار) کر رکھا تھا اس سے (آئندہ کو) باز نہ آتے تھے (بلکہ اس پر مصر تھے، پس ان کے کفر شدید اور مدید کے سبب ان پر شدید لعنت ہوئی) واقعی ان کا (یہ) فعل (مذکور یعنی کفر پھر وہ بھی شدید اور مدید) بیشک برا تھا (کہ اس پر یہ سزا مرتب ہوئی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان (یہود) میں بہت سے آدمی دیکھیں گے کہ (مشرک) کافروں سے دوستی کرتے ہیں (چنانچہ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ میں مسلمانوں کی عداوت کے علاقہ سے جس کا منشاء اتحاد فی الکفر تھا باہم خوب سازگاری تھی) جو کام انہوں نے آگے (بھگتنے) کے لئے کیا ہے (یعنی کفر جو سبب تھا دوستی کفار اور عداوت مؤمنین کا) وہ بیشک برا ہے کہ (اس کے سبب) اللہ تعالیٰ ان پر (ہمیشہ کے لئے) ناخوش ہوا اور (اس ناخوشی دائمی کا ثمرہ یہ ہوگا کہ) یہ لوگ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے، اور اگر یہ (یہودی) لوگ اللہ پر ایمان رکھتے اور پیغمبر (یعنی موسیٰ علیہ السلام) پر (ایمان رکھتے جس کا ان کو دعویٰ ہے) اور اس کتاب پر (ایمان رکھتے) جو ان (پیغمبر) کے پاس بھیجی گئی تھی (یعنی تورات) تو ان (مشرکین) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں زیادہ لوگ (دائرہ) ایمان سے خارج ہی ہیں (اس لئے کافروں کے ساتھ ان کا اتحاد اور دوستی ہوگئی) ۔- معارف و مسائل - بنی اسرائیل کی کجروی کا ایک دوسرا پہلو - (قولہ تعالیٰ ) قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ پچھلی آیات میں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ان کے ظلم کو بیان کیا گیا تھا، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول جو ان کے لئے حیات جاودانی کا پیغام اور ان کی دنیا و آخرت سنوارنے کا دستور العمل لے کر آئے تھے ان کی قدر ومنزلت پہچاننے اور تعظیم و تکریم کرنے کے بجائے انہوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا کہ، (آیت) فریقا کذبوا وفریقا یقتلون، یعنی بعض انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔- مذکورہ آیات سے انھیں بنی اسرائیل کی کجروی کا دوسرا رخ بتلایا گیا ہے کہ یہ جاہل یا تو سرکشی اور نافرمانی کے اس کنارے پر تھے کہ اللہ کے رسولوں کو جھوٹا کہا، اور بعض کو قتل کر ڈالا، اور یا گمراہی اور کجروی کے اس کنارے پر پہنچ گئے کہ رسولوں کی تعظیم میں غلو کرکے ان کو خدا ہی بنادیا، (آیت) لقد کفر الذین قالو ان اللہ ھو المسیح ابن مریم۔ یعنی وہ بنی اسرائیل کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ اللہ تو عیسیٰ ابن مریم ہی کا نام ہے۔- یہاں تو یہ قول صرف نصاریٰ کا مذکور ہے۔ دوسری جگہ یہی غلو اور گمراہی یہود کی بھی بیان فرمائی گئی ہے : (آیت) وقالت الیھود عزیر ابن اللہ وقالت النصریٰ المسیح ابن اللہ، یعنی یہود نے تو یہ کہہ دیا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے یہ کہہ دیا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔- غلو کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں۔ دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد و عمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں مثلاً انبیاء کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ ان کو خلق خدا میں سب سے افضل جانے۔ اس حد سے آگے بڑھ کر انہی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے۔- بنی اسرائیل کی افراط و تفریط - انبیاء اور رسل کے معاملہ میں بنی اسرائیل کے یہ دو متضاد عمل کہ یا تو ان کو جھوٹا کہیں اور قتل تک سے دریغ نہ کریں، اور یا یہ زیادتی کہ ان کو خود ہی خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیدیں، یہ وہی افراط وتفریط ہے جو جہالت کے لوازم سے ہے، عرب کا مشہور مقولہ الجاہل اما مفرط اومفرط یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال اور میانہ روی پر نہیں رہتا، بلکہ یا افراط میں مبتلا ہوتا ہے یا تفریط میں۔ افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنے کے ہیں اور تفریط کے معنی ہیں فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور کمی کرنے کے اور یہ افراط وتفریط یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی دو مختلف جماعتوں کی طرف سے عمل میں آئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی جماعت کے یہ دو مختلف عمل مختلف انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہوئے ہوں کہ بعض کی تکذیب و قتل تک نوبت پہنچ جائے اور بعض کو خدا کے برابر بنادیا جائے۔- ان آیات میں اہل کتاب کو مخاطب کر کے جو ہدایت ان کو اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو دی گئی ہیں وہ دین و مذہب اور اس کی پیروی میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس سے ذرا ادھر ادھر ہونا انسان کو گمراہیوں کے غار میں دھکیل دیتا ہے اس لئے اس کی تشریح سمجھ لیجئے۔- اللہ جل شانہ تک رسائی کا طریقہ - حقیقت یہ ہے کہ سارے جہان اور اس کی موجودات کا خالق ومالک صرف ایک اللہ جل شانہ ہے۔ اسی کا ملک ہے اور اسی کا حکم ہے، اسی کی اطاعت ہر انسان پر لازم ہے۔ لیکن بیچارہ خاکی نژاد انسان اپنی مادی ظلمتوں اور پستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی ساری رسائی اس ذات قدوس تک یا اس کے احکام و ہدایات معلوم کرنے تک کس طرح ہو، اللہ جل شانہ نے اپنے فضل سے اس کے لئے دو واسطے مقرر کردیئے جن کے ذریعے انسان کو حق تعالیٰ کی پسند و ناپسند اور مامورات و منہیات کا علم ہو سکے، ایک اپنی کتابیں جو انسان کے لئے قانون اور ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی ہیں، دوسرے اپنے ایسے مخصوص و مقبول بندے جن کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے چن لیا ہے اور ان کو اپنی پسند و ناپسند کا عمل نمونہ اور اپنی کتاب کی عملی شرح بنا کر بھیجا ہے، جن کو دینی اصطلاح میں رسول یا نبی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ کوئی کتاب خواہ کتنی ہی جامع اور مفصل کیوں نہ ہو کسی انسان کی اصلاح و تربیت کے لئے کافی نہیں ہوتی، بلکہ فطری طور پر انسان کا مربی و مصلح صرف انسان ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے انسان کی اصلاح و تربیت کے لئے دو سلسلے رکھے، ایک کتاب اللہ اور دوسرے رجال اللہ، جن میں انبیاء (علیہم السلام) اور پھر ان کے نائبین علماء و مشائخ سب داخل ہیں۔ رجال اللہ کے اس سلسلہ کے متعلق زمانہ قدیم سے دنیا افراط وتفریط کی غلطیوں میں مبتلا رہی ہے اور مذاہب میں جتنے مختلف فرقے پیدا ہوئے وہ سب اسی ایک غلطی کی پیداوار ہیں کہ کہیں ان کو حد سے بڑھا کر رجال پرستی تک نوبت پہنچا دی گئی اور کہیں ان سے بالکل قطع نظر کرکے حسبنا کتاب اللّٰہ کو غلط معنٰے پہنا کر اپنا شعار بنا لیا گیا۔ ایک طرف رسول کو بلکہ پیروں کو بھی عالم الغیب اور خاص خدائی صفات کا مالک سمجھ لیا گیا اور پیر پرستی بلکہ قبر پرستی تک پہنچ گئے۔ دوسری طرف اللہ کے رسول کو بھی محض ایک قاصد اور چٹھی رساں کی حیثیت دے دیگئی۔ آیات متذکرہ میں رسولوں کی توہین کرنے والوں کو بھی کافر قرار دیا گیا۔ اور ان کو حد سے بڑھا کر خدا تعالیٰ کے برابر کہنے والوں کو بھی کافر قرار دیا گیا۔ آیت لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ اسی مضمون کی تمہید ہے، جس نے واضح کردیا کہ دین اصل میں چند حدود وقیود ہی کا نام ہے۔ اس حدود کے اندر کوتاہی کرنا اور کمی کرنا جس طرح حرام ہے اسی طرح ان سے آگے بڑھنا اور زیادتی کرنا بھی جرم ہے، جس طرح رسولوں اور ان کے نائبوں کی بات نہ ماننا ان کی توہین کرنا گناہ عظیم ہے اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ کی صفات مخصوصہ کا مالک یا مساوی سمجھنا اس سے زیادہ گناہ عظیم ہے۔- علمی تحقیق و تدقیق غلو نہیں - آیت مذکورہ میں لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے ساتھ لفظ غیر الحق لایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناحق کا غلو مت کرو، یہ لفظ محققین اہل تفسیر کے نزدیک تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے، کیونکہ غلو فی الدین ہمیشہ ناحق ہوتا ہے۔ اس میں حق ہونے کا احتمال ہی نہیں اور علامہ زمحشری وغیرہ نے اس جگہ غلو کی دو قسمیں قرار دی ہیں، ایک ناحق اور باطل جس کی ممانعت اس جگہ کی گئی ہے۔ دوسرے حق اور جائز جس کی مثال ہیں انہوں نے علمی تحقیق و تدفیق کو پیش کیا ہے۔ جیسا کہ عقائد کے مسائل میں حضرات متکلمین کا اور فقی مسائل میں فقہاء رحمہم اللہ کا طریقہ رہا ہے، ان کے نزدیک یہ بھی اگرچہ غلو ہے۔ مگر غلو حق اور جائز ہے، اور جمہور کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غلو کی تعریف میں داخل ہی نہیں، قرآن و سنت کے مسائل میں گہری نظر اور موشگافی جس حد تک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین سے ثابت ہے وہ غلو نہیں اور جو غلو کی حد تک پہنچے وہ اس میں بھی مذموم ہے۔- بنی اسرائیل کو معتدل راہ کی ہدایت - مذکورہ آیت کے آخر میں موجود وہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا : وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ ۔ یعنی اس قوم کے خیالات کا اتباع نہ کرو جو تم سے پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے تھے۔ اور دوسروں کو بھی انہوں نے گمراہ کر رکھا ہے، اس کے بعد ان کی گمراہی کی حقیقت اور وجہ کو ان الفاظ سے بیان فرمایا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ یعنی یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ گئے تھے جو افراط وتفریط کے درمیان معتدل راہ تھی۔ اسی طرح اس آیت میں غلو اور افراط وتفریط کی مہلک غلطی کا بیان بھی آگیا۔ اور درمیانی راہ صراط مستقیم پر قائم رہنے کا بھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۝ ٧٧ۧ- غلا - الغُلُوُّ : تجاوز الحدّ ، يقال ذلک إذا کان في السّعر غَلَاءٌ ، وإذا کان في القدر والمنزلة غُلُوٌّ وفي السّهم : غَلْوٌ ، وأفعالها جمیعا : غَلَا يَغْلُو قال تعالی: لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ [ النساء 171] . وَالغَلْيُ والغَلَيَانُ يقال في القدر إذا طفحت، ومنه استعیر قوله : طَعامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ [ الدخان 44- 46] ، وبه شبّه غلیان الغضب والحرب، وتَغَالَى النّبت يصحّ أن يكون من الغلي، وأن يكون من الغلوّ. والغَلْوَاءُ : تجاوز الحدّ في الجماح، وبه شبّه غَلْوَاءُ الشّباب .- ( غ ل و) الغلو کے معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اگر یہ ( حد سے تجاوز) اشیاء کے رخ میں ہو تو اسے علاء ( گرانی ) کہاجاتا ہے اور قدرومنزلت میں ہو تو اسے غلو کہتے ہیں اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کرجائے تو غلو مگر ان ہر سہ اشیاء کے متعلق فعل غلا یغلو ( ن) ہی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ [ النساء 171] اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو ۔ اور ہانڈی کے ابال اور جو ش کھانے کو غلی و غلیان ( باب ضرب ) کہتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ ارشاد ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ [ الدخان 44- 46] گنہگار کا کھانا ہے جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح کھولے گا جس طرح گرم پانی کھولتا ہے ۔ اور تشتبیہ کے طور پر غصہ اور لڑائی کے بھڑک اٹھنے کو بھی غلیان کہہ دیتے ہیں تغالی النبت گھاس کا زیادہ ہونا اور بڑھ جانا ) غلی اور غلم یعنی وادی اور یائی دونوں سے آتا ہے اور غلواء کے معنی خودسری میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اور اسی سے بطور تشبیہ جو ش جوانی کو غلواء الشباب کہاجاتا ہے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) نصاری اہل نجران دین میں ناحق غلو مت کرو اور ایسی قوم کے دین اور ان کی باتوں پر مت چلو جو خود تم سے پہلے ہدایت سے بےراہ ہیں اور وہ قوم کے سردار اور رؤساء ہیں جنہوں نے بہت سے لوگوں کو بےراہ کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ ) - یہ تم نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو محبت اور عقیدت کی وجہ سے جو کچھ بنا دیا ہے ‘ وہ سراسر مبالغہ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں بھی مبالغہ آرائی اگر لوگ کرتے ہیں تو محبت کی وجہ سے کرتے ہیں ‘ عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام پر کرتے ہیں ‘ عقیدت کے غلو کی وجہ سے کرتے ہیں۔ تو غلو (مبالغہ) درحقیقت انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ چناچہ اس سے منع کیا جا رہا ہے۔ َ - (وَلاَ تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ) - جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ‘ یہ تثلیث مصر میں زمانۂ قدیم سے موجود تھی ‘ اسی کو انہوں نے اختیار کیا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :101 اشارہ ہے ان گمراہ قوموں کی طرف جن سے عیسائیوں نے غلط عقیدہ اور باطل طریقے اخذ کیے ۔ خصوصاً فلاسفہ یونان کی طرف ، جن کے تخیلات سے متاثر ہو کر عیسائی اس صراط مستقیم سے ہٹ گئے جس کی طرف ابتداءً ان کی رہنمائی کی گئی تھی ۔ مسیح کے ابتدائی پیرو جو عقائد رکھتے تھے وہ بڑی حد تک اس حقیقت کے مطابق تھے جس کا مشاہدہ انہوں نے خود کیا تھا اور جس کی تعلیم ان کے ہادی و رہنما نے ان کو دی تھی ۔ مگر بعد کے عیسائیوں نے ایک طرف مسیح کی عقیدت اور تعظیم میں غلو کر کے ، اور دوسری طرف ہمسایہ قوموں کے اوہام اور فلسفوں سے متاثر ہو کر ، اپنے عقائد کی مبالغہ آمیز فلسفیانہ تعبیریں شروع کر دیں اور ایک بالکل ہی نیا مذہب تیار کر لیا جس کو مسیح کی اصل تعلیمات سے دور کا واسطہ بھی نہ رہا ۔ اس باب میں خود ایک مسیحی عالم دینیات ( ریورینڈ چارلس اینڈرسن اسکاٹ ) کا بیان قابل ملاحظہ ہے ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے چودھویں ایڈیشن میں”یسوع مسیح“ ( ) کے عنوان پر اس نے جو طویل مضمون لکھا ہے اس میں وہ کہتا ہے: ”پہلی تین انجیلوں ( متی ، مرقس ، لوقا ) میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ ان انجیلوں کے لکھنے والے یسوع کو انسان کے سوا کچھ اور سمجھتے تھے ۔ ان کی نگاہ میں وہ ایک انسان تھا ، ایسا انسان جو خاص طور پر خدا کی روح سے فیض یاب ہوا تھا اور خدا کے ساتھ ایک ایسا غیر منقطع تعلق رکھتا تھا جس کی وجہ سے اگر اس کو خدا کا بیٹا کہا جائے تو حق بجانب ہے ۔ خود متی اس کا ذکر بڑھئی کے بیٹے کی حیثیت سے کرتا ہے اور ایک جگہ بیان کرتا ہے کہ پطرس نے اس کو ”مسیح“ تسلیم کرنے کے بعد” الگ ایک طرف لے جا کر اسے ملامت کی“ ( متی ۲۲ ، ۱٦ ) ۔ لوقا میں ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ صلیب کے بعد یسوع کے دو شاگرد اماؤس کی طرف جاتے ہوئے اس کا ذکر اس حیثیت میں کرتے ہیں کہ” وہ خدا اور ساری امت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا“ ( لوقا ۱۹ ، ۲٤ ) ۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اگرچہ”مرقس“ کی تصنیف سے پہلے مسیحیوں میں یسوع کے لیے لفظ”خداوند“ کا استعمال عام طور پر چل پڑا تھا ، لیکن نہ مرقس کی انجیل میں یسوع کو کہیں اس لفظ سے یاد کیا گیا ہے اور نہ متی کی انجیل میں ۔ بخلاف اس کے دونوں کتابوں میں یہ لفظ اللہ کے لیے بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔ یسوع کے ابتلاء کا ذکر تینوں انجیلیں پورے زور کے ساتھ کرتی ہیں جیسا کہ اس واقعہ کے شایان شان ہے ، مگر مرقس کی ” فدیہ“ والی عبارت ( مرقس ٤۵ ، ۱۰ ) اور آخری فسح کے موقع پر چند الفاظ کو مستثنیٰ کر کے ان کتابوں میں کہیں اس واقعہ کو وہ معنی نہیں پہنائے گئے ہیں جو بعد میں پہنائے گئے ۔ حتٰی کہ اس بات کی طرف کہیں اشارہ تک نہیں کیا گیا کہ یسوع کی موت کا انسان کے گناہ اور اس کے کفارہ سے کوئی تعلق تھا“ ۔ آگے چل کر وہ پھر لکھتا ہے: ”یہ بات کہ یسوع خود اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتا تھا اناجیل کی متعدد عبارتوں سے ظاہر ہوتی ہے ۔ مثلاً یہ کہ”مجھے آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پر چلنا ضرور ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو“ ( لوقا ۲۳ ، ۱۳ ) ۔ وہ اکثر اپنا ذکر” ابن آدم“ کے نام سے کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یسوع کہیں اپنے آپ کو” ابن اللہ“ نہیں کہتا ۔ اس کے دوسرے ہم عصر جب اس کے متعلق یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو غالباً ان کا مطلب بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اس کو خدا کا ممسوع سمجھتے ہیں ۔ البتہ وہ اپنے آپ کو مطلقاً ” بیٹے“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزید برآں وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرنے کے لیے بھی” باپ“ کا لفظ اسی اطلاقی شان میں استعمال کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تعلق کے بارے میں وہ اپنے آپ کو منفرد نہیں سمجھتا تھا ، بلکہ ابتدائی دور میں دوسرے انسانوں کو بھی خدا کے ساتھ اس خاص گہرے تعلق میں اپنا ساتھی سمجھتا تھا ۔ البتہ بعد کے تجربے اور انسانی طبائع کے عمیق مطالعہ نے اسے یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ اس معاملہ میں وہ اکیلا ہے ۔ “ پھر یہی مصنف لکھتا ہے: ”عید پُنْتِکُسْت کے موقع پر پطرس کے یہ الفاظ کہ”ایک انسان جو خدا کی طرف سے تھا“ یسوع کو اس حیثیت میں پیش کرتے ہیں جس میں اس کے ہم عصر اس کو جانتے اور سمجھتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیلوں سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یسوع بچپن سے جوانی تک بالکل فطری طور پر جسمانی و ذہنی نشو و نما کے مدارج سے گزرا ۔ اس کو بھوک پیاس لگتی تھی ، وہ تھکتا اور سوتا تھا ، وہ حیرت میں مبتلا ہو سکتا تھا اور دریافت احوال کا محتاج تھا ، اس نے دکھ اٹھایا اور مرا ۔ اس نے صرف یہی نہیں کہ سمیع و بصیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صریحاً اس سے انکار کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درحقیقت اس کے حاضر و ناظر ہونے کا اگر دعویٰ کیا جائے تو یہ اس پورے تصور کے بالکل خلاف ہوگا جو ہمیں انجیلوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ بلکہ اس دعوے کے ساتھ آزمائش کے واقعہ کو اور گِتَسمْنی اور کھوپڑی کے مقام پر جو واردات گزریں ان میں سے کسی کو بھی مطابقت نہیں دی جا سکتی ۔ تاوقتیکہ ان واقعات کو بالکل غیر حقیقی قرار نہ دے دیا جائے ، یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح جب ان سارے حالات سے گزرا تو وہ انسانی علم کی عام محدودیت اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا اور اس محدودیت میں اگر کوئی استثناء تھا تو وہ صرف اسی حد تک جس حد تک پیغمبرانہ بصیرت اور خدا کے یقینی شہود کی بنا پر ہو سکتا ہے ۔ پھر مسیح کو قادر مطلق سمجھنے کی گنجائش تو انجیلوں میں اور بھی کم ہے ۔ کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ وہ خدا سے بےنیاز ہو کر خود مختارانہ کام کرتا تھا ۔ اس کے برعکس وہ بار بار دعا مانگنے کی عادت سے اور اس قسم کے الفاظ سے کہ” یہ چیز دعا کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ٹل سکتی“ ، اس بات کا صاف اقرار کرتا ہے کہ اس کی ذات بالکل خدا پر منحصر ہے ۔ فی الواقع یہ بات ان انجیلوں کے تاریخی حیثیت سے معتبر ہونے کی ایک اہم شہادت ہے کہ اگرچہ ان کی تصنیف و ترتیب اس زمانہ سے پہلے مکمل نہ ہوئی تھی کہ مسیحی کلیسا نے مسیح کو الٰہ سمجھنا شروع کر دیا تھا ، پھر بھی ان دستاویزوں میں ایک طرف مسیح کے فی الحقیقت انسان ہونے کی شہادت محفوظ ہے اور دوسری طرف ان کے اندر کوئی شہادت اس امر کی موجود نہیں ہے کہ مسیح اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا“ ۔ اس کے بعد یہ مصنف پھر لکھتا ہے: ”وہ سینٹ پال تھا جس نے اعلان کیا کہ واقعہ رفع کے وقت اسی فعل رفع کے ذریعہ سے یسوع پورے اختیارات کے ساتھ”ابن اللہ“ کے مرتبہ پر علانیہ فائز کیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ”ابن اللہ“ کا لفظ یقینی طور پر ذانی ابنیت کی طرف ایک اشارہ اپنے اندر رکھتا ہے جسے پال نے دوسری جگہ یسوع کو”خدا کا اپنا بیٹا“ کہہ کر صاف کر دیا ہے ۔ اس امر کا فیصلہ اب نہیں کیا جا سکتا کہ آیا وہ ابتدائی عیسائیوں کا گروہ تھا یا پال جس نے مسیح کے لیے ” خداوند“ کا خطاب اصل مذہبی معنی میں استعمال کیا ۔ شاید یہ فعل مقدم الذکر گروہ ہی کا ہو ۔ لیکن بلاشبہ وہ پال تھا جس نے اس خطاب کو پورے معنی میں بولنا شروع کیا ، پھر اپنے مدعا کو اس طرح اور بھی زیادہ واضح کر دیا کہ ”خداوند یسوع مسیح“ کی طرف بہت سے وہ تصورات اور اصطلاحی الفاظ منتقل کر دیے جو قدیم کتب مقدسہ میں خداوند یَہُوَہ ( اللہ تعالیٰ ) کے لیے مخصوص تھے ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مسیح کو خدا کی دانش اور خدا کی عظمت کے مساوی قرار دیا اور اسے مطلق معنی میں خدا کا بیٹا ٹھیرایا ۔ تاہم متعدد حیثیات اور پہلوؤں سے مسیح کو خدا کے برابر کر دینے کے باوجود پال اس کو قطعی طور پر اللہ کہنے سے بار رہا“ ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایک دوسرے مضمون ”میسحیت ( ) میں رورنڈ جارج ولیم ناکس مسیحی کلیسا کے بنیادی عقیدے پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”عقیدہ تثلیث کا فکری سانچہ یونانی ہے اور یہودی تعلیمات اس میں ڈھالی گئی ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ ہمارے لیے ایک عجیب قسم کا مرکب ہے ، مذہبی خیالات بائیبل کے اور ڈھلے ہوئے ایک اجنبی فلسفے کی صورتوں میں ۔ باپ ، بیٹا اور روح القدس کی اصطلاحیں یہودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں ۔ آخری اصطلاح اگرچہ خود یسوع نے شاذ و نادر ہی کبھی استعمال کی تھی ، اور پال نے بھی جو اس کو استعمال کیا اس کا مفہوم بالکل غیر واضح تھا ، تاہم یہودی لٹریچر میں یہ لفظ شخصیت اختیار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ پس اس عقیدہ کا مواد یہودی ہے ( اگرچہ اس مرکب میں شامل ہونے سے پہلے وہ بھی یونانی اثرات سے مغلوب ہو چکا تھا ) اور مسئلہ خالص یونانی ۔ اصل سوال جس پر یہ عقیدہ بنا ، وہ نہ کوئی اخلاقی سوال تھا نہ مذہبی ، بلکہ وہ سراسر ایک فلسفیانہ سوال تھا ، یعنی یہ کہ ان تینوں اقانیم ( باپ ، بیٹے اور روح ) کے درمیان تعلق کی حیثیت کیا ہے؟ کلیسا نے اس کا جو جواب دیا وہ اس عقیدے میں درج ہے جو نیقیا کی کونسل میں مقرر کیا گیا تھا ، اور اسے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام خصوصیات میں بالکل یونانی فکر کا نمونہ ہے“ ۔ اسی سلسلہ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے ایک اور مضمون تاریخ کلیسا ( ) کی یہ عبارت بھی قابل ملاحظہ ہے: ”تیسری صدی عیسوی کے خاتمہ سے پہلے مسیح کو عام طور پر ”کلام“ کا جسدی ظہور تو مان لیا گیا تھا تاہم بکثرت عیسائی ایسے تھے جو مسیح کی الوہیت کے قائل نہ تھے ۔ چوتھی صدی میں اس مسئلہ پر سخت بحثیں چھڑی ہوئی تھیں جن سے کلیسا کی بنیادیں ہل گئی تھیں ۔ آخر کار سن ۳۲۵ میں نیقیا کی کونسل نے الوہیت مسیح کو باضابطہ سرکاری طور پر اصل مسیحی عقیدہ قرار دیا اور مخصوص الفاظ میں اسے مرتب کر دیا ۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کچھ مدت تک جھگڑا چلتا رہا لیکن آخری فتح نیقیا ہی کے فیصلے کی ہوئی جسے مشرق اور مغرب میں اس حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا کہ صحیح العقیدہ عیسائیوں کا ایمان اسی پر ہونا چاہیے ۔ بیٹے کی الوہیت کے ساتھ روح کی الوہیت بھی تسلیم کی گئی اور اسے اصطباغ کے کلمہ اور رائج الوقت شعائر میں باپ اور بیٹے کے ساتھ جگہ دی گئی ۔ اس طرح نیقیا میں مسیح کا جو تصور قائم کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقیدہ تثلیث اصل مسیحی مذہب کا ایک جزء لاینفک قرار پا گیا ۔ پھر اس دعوے پر کہ ”بیٹے کی الوہیت مسیح کی ذات میں مجسم ہوئی تھی “ ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوا جس پر چوتھی صدی میں اور اس کے بعد بھی مدتوں تک بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری رہا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ مسیح کی شخصیت میں الوہیت اور انسانیت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ سن ٤۵۱ میں کالسیڈن کی کونسل نے اس کا یہ تصفیہ کیا کہ مسیح کی ذات میں دو مکمل طبیعتیں مجتمع ہیں ، ایک الہٰی طبیعت ، دوسری انسانی طبیعت ، اور دونوں متحد ہوجانے کے بعد بھی اپنی جداگانہ خصوصیات بلا کسی تغیر و تبدل کے برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ تیسری کونسل میں جو سن ٦۸۰ میں بمقام قسطنطنیہ منعقد ہوئی ، اس پر اتنا اضافہ اور کیا گیا کہ یہ دونوں طبیعتیں اپنی الگ الگ مشیتیں بھی رکھتی ہیں ، یعنی مسیح بیک وقت دو مختلف مشیتوں کا حامل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دوران میں مغربی کلیسا نے گناہ اور فضل کے مسئلہ پر بھی خاص توجہ کی اور یہ سوال مدتوں زیر بحث رہا کہ نجات کے معاملہ میں خدا کا کام کیا ہے اور بندے کا کام کیا ۔ آخر کار سن ۵۲۹ میں اور ینج کی دوسری کونسل میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نظریہ اختیار کیا گیا کہ ہبُوطِ آدم کی وجہ سے ہر انسان اس حالت میں مبتلا ہے کہ وہ نجات کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھا سکتا جب تک وہ اس فضل خداوندی سے ، جو اصطباغ میں عطا کیا جاتا ہے ، نئی زندگی نہ حاصل کر لے ۔ اور یہ نئی زندگی شروع کرنے کے بعد بھی اسے حالت خیر میں استمرار نصیب نہیں ہو سکتا جب تک وہ فضل خداوندی دائماً اس کا مددگار نہ رہے ۔ اور فضل خداوندی کی یہ دائمی اعانت اسے صرف کیتھولک کلیسا ہی کے توسط سے حاصل رہ سکتی ہے“ ۔ مسیحی علماء کے ان بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابتداءً جس چیز نے مسیحیوں کو گمراہ کیا وہ عقیدت اور محبت کا غلو تھا ۔ اسی غلو کی بنا پر مسیح علیہ السلام کے لیے خداوند اور ابن اللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ، خدائی صفات ان کی طرف منسوب کی گئیں ، اور کفارہ کا عقیدہ ایجاد کیا گیا ، حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں ان باتوں کے لیے قطعاً کوئی گنجائش موجود نہ تھی ۔ پھر جب فلسفہ کی ہوا مسیحیوں کو لگی تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس ابتدائی گمراہی کو سمجھ کر اس سے بچنے کی سعی کرتے ، انہوں نے اپنے گزشتہ پیشواؤں کی غلطیوں کو نباہنے کے لیے ان کی توجیہات شروع کردیں اور مسیح کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کیے بغیر محض منطق اور فلسفہ کی مدد سے عقیدے پر عقیدہ ایجاد کرتے چلے گئے ۔ یہی وہ ضلالت ہے جس پر قرآن نے ان آیات میں مسیحیوں کو متنبہ فرمایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

53: ’’ غلو‘‘ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی معقول حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔