امر معروف سے گریز کا انجام ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پا چکے ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے ، توراۃ ، انجیل ، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں ۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا ۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا ۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے ، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی ۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔ اس کے بیان کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ ۔ ، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا ، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے ۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا ، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آ گئی ۔ پھر آپ نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو ، برائیوں سے روکو ، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آ جائے ۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی ۔ اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے حضرت جابر والی حدیث تو آیت ( لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:63 ) کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:105 ) کی تفسیر میں حضرت ابو بکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا ۔ ابن ماجہ میں ہے اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں ۔ صحیح حدیث میں ہے تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے ، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے ( مسلم ) مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں ، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو ، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو ( ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو ) وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے ۔ ابو داؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی ۔ ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہدینا ہے ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ اولیٰ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے؟ آپ خاموش رہے ۔ پھر آپ جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہ دینا ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہئے لوگوں نے پوچھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے ۔ لوگوں نے پوچھا کیسے؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا ۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آجانا ۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا ۔ حضرت زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے ۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت ( لایضرکم ) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹتھے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لئے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے ۔ اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے ۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اسے مسلمانو ، زنا کاری سے بچو ، اس سے ۔ چھ برائیاں آتی ہیں ، تین دنیا میں اور تین آخرت میں ۔ اس سے عزت و وقار ، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے ۔ اس سے فقرو فاقہ آ جاتا ہے ۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب ، حساب کی سختی اور برائی ، اور جہنم کا خلود ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی ۔ یہ حدیث ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے ۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خارج ہو چکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں ۔
78۔ 1 یعنی زبور میں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔ 78۔ 2 یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ 1۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ 2۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔
[١٢٤] بندر اور خنزیر والے کون لوگ تھے ؟ داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ بعثت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم و بیش ایک ہزار سال پہلے کا ہے اس لیے آیت میں لفظ کفر کا اطلاق صرف اس بات پر نہیں ہوگا کہ بنی اسرائیل جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے تھے وہ کافر ہوگئے بلکہ یہاں ان کے کفر سے مراد ان کی نافرمانیاں۔ عہد شکنیاں اور حدود اللہ سے تجاوز کرنا ہے۔ اور انہیں جرائم کی بنا پر انہیں کافر کہا گیا ہے اور ایسے لوگ زبور میں بھی ملعون قرار دیئے گئے ہیں اور انجیل میں بھی۔ اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ بندر بنا دیئے گئے تھے اور کچھ خنزیر۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل ہفتہ کے دن کی بےحرمتی کرنے والے لوگ بندر بنائے گئے تھے اور یہ اسی دور کا واقعہ ہے اور جن لوگوں نے سیدنا عیسیٰ سے آسمان سے دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر دسترخوان اترنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے انہیں خنزیر بنایا گیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال یہ تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو بندر اور کچھ لوگوں کو سور بنادیا گیا تھا اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا۔
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۔۔ : اسرائیلیوں کا یہ کفر اپنے اپنے پیغمبروں کے مقابلے میں تھا، چناچہ داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں انھوں نے قانون ” سبت “ کو توڑا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی نبوت سے انکار کردیا۔ داؤد (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کے لیے دیکھیے زبور (٧٨ : ٢١، ٢٢، ٢٣) اور مسیح (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کے لیے دیکھیے انجیل متی (٢٣ : ٣١، ٣٢) لعنت کا معنی اللہ کی رحمت اور بھلائی سے دوری ہے۔
بنی اسرائیل کا انجام بد - دوسری آیت میں ان بنی اسرائیل کا انجام بدذکر کیا گیا ہے جو اس افراط وتفریط کی گمراہی میں مبتلا تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی، اول داؤد (علیہ السلام) کی زبان سے جس کے نتیجے میں ان کی صورتیں مسخ ہو کر خنزیر بن گئے، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یہ لعنت ان پر مسلط ہوئی، جس کا اثر دنیا میں یہ ہوا کہ مسخ ہو کر بندر بن گئے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس جگہ بتقاضائے مقام صرف دو پیغمبروں کی زبانی ان پر لعنت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر لعنت کی ابتداء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی اور انتہا حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوئی۔ اس طرح مسلسل چار پیغمبروں کی زبانی ان لوگوں پر لعنت مسلط ہوئی جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت کی یا جنہوں نے ان کو حد سے آگے بڑھا کر خدا تعالیٰ کی صفات کا شریک بنادیا۔ - آخری دونوں آیتوں میں کفار کے ساتھ گہری دوستی اور موالات کی ممانعت اور اس کے تباہ کن نتائج کا بیان فرمایا گیا جس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ ساری کجروی اور گمراہی نتیجہ تھی ان کے غلط قسم کے ماحول اور کفار کے ساتھ دلی دوستی کرنے کا۔ جس نے ان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ٠ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ ٧٨- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔
قول باری ہے لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان دائود و عیسیٰ ابن مریم بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔- حسن ، مجاہد ، سدی اور قتادہ کا قول ہے کہ ان پر حضرت دائود (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی اور یہ بندر بن گئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی جس کے نتیجے میں یہ خنزیر بن گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح انہیں جتلا دیا گیا کفر اور معاصی پر ڈٹے رہنے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش سے بالکلیہ مایوس جانا چاہیے اس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے نکلی ہوئی لعنت اور عذاب کی بد دعائیں قبول ہوچکی ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کا اظہار اس لیے ہوا کہ یہ اپنے بارے میں دنیا کے لوگوں کو اس دھوکے میں نہ رکھ سکیں کہ نبیوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے اللہ کے ہاں انکی بڑی قدر و منزلت ہے جو انہیں اللہ کے عذاب اور گناہوں سے بچا لے گا ۔
(٧٨۔ ٧٩) بنی اسرائیل میں جو کافر ہیں وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی دعا سے بندر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے سور ہوگئے ہیں اور یہ لعنت اس وجہ سے نازل ہوئی کہ ہو ہفتہ کے روز میں اور اکل مائدہ میں اور انبیاء کرام کے قتل کرنے اور معاصی کو حلال سمجھنے میں اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ نافرمانیاں اور حد سے تجاوز کرتے تھے، اس سے توبہ بھی نہیں کرتے تھے۔
آیت ٧٨ (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط - بنی اسرائیل کا جو کردار رہا ہے اس پر ان کے انبیاء ان کو مسلسل لعن طعن کرتے رہے ہیں۔ میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ (گوسپلز) میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تنقیدی فرمودات بار بار ملتے ہیں ‘ جن میں اکثر ان کے علماء ‘ احبار اور صوفیاء مخاطب ہیں کہ تم سانپوں کے سنپولیے ہو۔ تمہارا حال ان قبروں جیسا ہے جن کے اوپر تو سفیدی پھری ہوئی ہے ‘ مگر اندر گلی سڑی ہڈیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم نے اپنے اوپر صرف مذہبی لبادے اوڑھے ہوئے ہیں ‘ لیکن تمہارے اندر خیانت بھری ہوئی ہے۔ تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو ‘ یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تو زور دار بحثیں ہوتی ہیں جبکہ بڑے بڑے گناہ کھلے بندوں کرتے ہو۔ یہ تو یہودی قوم اور ان کے علماء کے کردار کی جھلک ہے ان کے اپنے نبی کی زبان سے ‘ مگر دوسری طرف یہی نقشہ بعینہٖ آج ہمیں اپنے علماءِ سُوء میں بھی نظر آتا ہے۔
54: یعنی اس لعنت کا ذکر زبور میں بھی تھا جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور انجیل میں بھی تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتری تھی۔