79۔ 1 وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے جو بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتدا قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت غضب الہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہ ہم پیالہ وہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہی کے مستحق قرار پائے۔ پھر فرمایا کہ " اللہ کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو " ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو " (ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ تم عذاب الہی کے مستحق بن جاؤ گے۔ پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی۔ (مسند احمد جلد 5۔ ص 388)
[١٢٥] برائی سے منع نہ کرنے والوں پر لعنت :۔ کسی معاشرہ میں جب کوئی برائی رواج پاتی ہے تو ابتدائ ً چند ہی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کا بروقت اور سختی سے محاسبہ کیا جائے تو وہ برائی رک بھی جاتی ہے لیکن اگر اس سلسلہ میں نرم گوشہ اختیار کیا جائے تو اس بدی کا ارتکاب کرنے والوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ اس بدی سے بچنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ بدی کرنے والوں کو روکتے نہیں، بلکہ ان سے میل ملاپ رکھنے اور شیر و شکر بن کر رہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور بدی عام پھیل جاتی ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے پھر اس عذاب سے نہ بدی کرنے والے بچتے ہیں اور نہ اس بدی سے اجتناب کرنے والے۔ اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح بدی کا ارتکاب کرنا جرم ہے اسی طرح بدی سے نہ روکنا بھی جرم ہے اور جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہوتے ہیں اور اللہ کی لعنت یا عذاب الٰہی کا اثر اور نقصان دونوں کو یکساں پہنچتا ہے۔- خ برائی سے منع نہ کرنے والوں کی مثال :۔ ایسے تباہ ہونے والے معاشرہ کی مثال رسول اللہ نے یہ بیان فرمائی جیسے کچھ لوگوں نے جہاز میں سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا اور قرعہ کی رو سے کچھ لوگ نچلی منزل میں بیٹھے اور کچھ اوپر والی منزل میں۔ نچلی منزل والوں کو پانی اوپر کی منزل سے حاصل کرنا پڑتا تھا جس سے اوپر کی منزل والے تنگ پڑتے تھے۔ اب نچلی منزل والوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کیوں نہ جہاز کے نچلے تختہ میں سوراخ کر کے پانی نیچے سمندر سے حاصل کرلیا جائے۔ پھر اگر نچلی منزل والے اور اوپر کی منزل والے دونوں مل کر ان سوراخ کرنے والوں کا ہاتھ نہ روکیں گے تو نچلے اور اوپر والے سب غرق ہوجائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ ابو اب الشرکۃ ھل یقرع فی القسمۃ) اس حدیث کی رو سے بدی سے نہ روکنے والوں کا جرم بدی کرنے والے سے بھی زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت ٥ : ١٠١)
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَر ” لَا يَتَنَاهَوْنَ “ باب تفاعل سے ہے، اس کا معنی باز آنا بھی ہے اور ایک دوسرے کو منع کرنا بھی۔ یہاں پچھلی آیت میں مذکور ان کی نافرمانی اور حد سے گزرنے کی تفسیر ہے کہ ایک تو وہ جب کوئی برا کام کرتے اس پر ڈٹ جاتے، باز ہی نہیں آتے تھے، یعنی گناہ پر ندامت کے بجائے اس پر اصرار کرتے تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کو برائی سے منع نہیں کرتے تھے، ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کام کر رہے ہیں تو کرتے رہیں، ان کا وبال خود ان پر ہوگا، ہم تو اپنی جگہ نیک ہیں، حالانکہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو اور دل سے نفرت بھی نہ ہو تو ایمان کا آخری درجہ، یعنی کمزور ترین ایمان بھی نہیں رہتا۔ ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر یہ طاقت نہ رکھے تو اپنی زبان کے ساتھ، اگر یہ بھی نہ ہو تو دل کے ساتھ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب کون النہی عن المنکر عن الایمان۔۔ : ٤٩ ]- حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعا کرو گے تو وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٨٨، ح : ٢٣٣٦٣۔ ترمذی، : ٢١٦٩، وحسنہ الترمذی والألبانی ]
كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ ٠ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ٧٩- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- مُنْكَرُ- والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] - اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔- بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے
قول باری ہے کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا یعنی وہ ایک دوسرے کو منکرات کے ارتکاب سے روکتے نہیں تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن محمد نفیلی نے ، انہیں یونس بن راشد نے علی بن بذیمہ سے ، انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ بنی اسرائیل کے اندر سب سے پہلے جس خرابی نے جڑ پکڑ لی وہ تھی کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص سے ملتا اور اسے کسی برائی میں مبتلا دیکھ کر اس سے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور یہ برا کام مت کر اس لیے کہ یہ کام تیرے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر وہی شخص دوسری صبح اس برے انسان سے ملتا اور اس کی برائی کو نظر انداز کر کے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھاتا، پیتا اور مجلس آرائی کرتا ، یہ جب بات عام ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہر لگا دی پھر بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا، ان پر دائود اور عیسیٰ کی زبان سے لعنت بھیجی (آپ نے اس موقع پر آیت لعن الذین کفروا تافاسقون تک کی تلاوت کی پھر فرمایا :” خدا کی قسم تم لوگ بھی ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو اور ظالم کا ہاتھ پکڑکر اسے ظلم کرنے سے روکتے رہو ، اسے حق کی طرف موڑ کر جھکاتے رہو ، یا کم از کم اسے حق کے اندر پابند کرتے رہو۔ ابو دائود نے کہا کہ ہمیں خلف بن ہشا م نے روایت بیان کی ، انہیں ابو شہاب الحناط نے علاء بن المسیب سے ، انہوں نے عمرو بن مرہ سے انہوں نے سالم ، انہوں نے ابو عیدہ سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعے تمہارے دلوں پر مہر لگا دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت بھیجے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں آیت زیر بحث اور اس کی تاویل میں مذکورہ احادیث میں یہ دلالت موجود ہے کہ جو لوگ کھلے بندوں منکرات کا ارتکاب کرتے ہیں انکی مجالست کی ممانعت ہے نیز منکرات کی تردید کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہوگی ان پر ٹوکا جائے اور ان سے روکا جائے لیکن ان کے مرتکبین کی مجالست ترک نہ کی جائے
آیت ٧٩ (کَانُوْا لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط) ۔- جس معاشرے سے نہی عن المنکر ختم ہوجائے گا ‘ وہ پورا معاشرہ سنڈاس بن جائے گا۔ یہ تو گویا انتظام صفائی ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نگاہ رکھے ‘ ایک دوسرے کو روکتا رہے کہ یہ کام غلط ہے ‘ یہ مت کرو جس معاشرے سے یہ تنقید اور احتساب ختم ہوجائے گا ‘ اس کے اندر لازماً خرابی پیدا ہوجائے گی ۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :102 ہر قوم کا بگاڑ ابتداءً چند افراد سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی ۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملہ میں تساہل شروع کر دیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے ، تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدود تھی ، پوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے ۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کی موجب ہوئی ۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جو لعنت بنی اسرائیل پر کی گئی اس کے لیے ملاحظہ ہو زبور ۱۰ و ۵۰ اور متی ۲۳ ۔