80۔ 1 یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی نارضگی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔
[١٢٦] یہود کی مشرکوں سے دوستی :۔ یہاں کافروں سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ ان نافرمانوں، حد سے تجاوز کرنے والوں اور بدی سے نہ روکنے والوں کو سابقہ آیت میں پہلے ہی کافر قرار دیا جا چکا ہے اور ایسے یہود کا مشرکین سے دوستی گانٹھنا بھی اسی لعنت کا باطنی اثر تھا جو ان پر کی گئی تھی۔ ظاہری اثر تو یہ ہوا کہ ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر اور سور بنادیا گیا تھا اور باطنی یہ کہ اللہ پر، اس کے انبیاء پر، اس کی کتاب پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود وہ دوستی ایسے لوگوں سے گانٹھتے ہیں جن کا نہ روز آخرت پر ایمان ہے نہ کسی کتاب پر اور نہ انبیاء پر بلکہ انبیاء کی تعلیم کے بجائے وہ دیوی دیوتاؤں کے معتقد ہیں اور انہی کی پرستش کرتے ہیں۔
تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْهُمْ ۔۔ : یعنی ان کے پہلے لوگوں کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے۔ (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد، جو مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سے دوستی رکھتے تھے۔- لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ ۔۔ : یعنی کفار ( مشرکین مکہ اور منافقین مدینہ) سے دوستی قائم کر کے اہل کتاب نے مسلمانوں کے خلاف جو تیاری کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہوا اور آخرت میں بھی وہ دائمی عذاب کے مستحق قرار پائے۔
تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ٠ۭ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِـــطَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَفِي الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ ٨٠- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - سخط - السَّخَطُ والسُّخْطُ : الغضب الشدید المقتضي للعقوبة، قال : إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ- [ التوبة 58] ، وهو من اللہ تعالی: إنزال العقوبة، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد 28] ، أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة 80] ، كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 162] . ( س خ ط ) السخط والسخط اس سخت غصہ کو کہتے ہیں جو سزا کا مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة 58 تو وہ فورا غصہ سے بھر جاتے ۔ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد انزال عقوبت ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد 28]( اور ان کی ) یہ نوبت اس لئے ( ہوگی ) کہ جو چیز خدا کو بری لگتی ہے یہ اسی ( کے رستے ) پر چلے ۔ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة 80] ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ دنیا میں بھی خدا ان سے ناراض ہوا ۔ كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 162] اس شخص جیسا ( فعل سرزد ) ہوسکتا ہے جو خدا کے غضب میں آگیا ہو ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
قول باری ہے تری کثیرا منھم یتولون الذین کفروا ان میں سے بہت سوں کو تم دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ منھم کی ضمیر یہود کی طرف راجع ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ اہل کتاب کی طرف راجع ہے۔ قول باری الذین کفروا سے مراد بت پرست ہیں ۔ اہل کتاب نے ان مشرکین کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور آپ سے جنگ کرنے کی خاطر دوستی گانٹھی تھی۔
(٨٠) یعنی بہت سے منافقین کعب اور اس کے ساتھیوں سے دوستی کرتے ہیں یا کعب اور اس کے ساتھی کفار مکہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے دوستی کرتے ہیں یہ یہودیت اور نفاق کا اتحاد بہت برا ہے، وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ اس سے نکالے جائیں گے۔
آیت ٨٠ (تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) ۔- خود کافروں کے حمایتی بنتے ہیں اور اپنے لیے ان کی حمایت تلاش کرتے ہیں۔- (لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ ) - یہ ان کے جو کرتوت ہیں وہ سب آگے اللہ کے ہاں جمع ہو رہے ہیں اور ان کا وبال ان پر آئے گا۔
55: یہ ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور انہوں نے حضور نبی کریمﷺسے معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، اس کے باوجود انہوں نے درپردہ مشرکین مکہ سے دوستیاں گانٹھی ہوئی تھیں، اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان سے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ ان کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے اچھا ہے۔