Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان ہوگا، وہ کافروں سے کبھی دوستی نہیں کرے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٧] انہیں چاہیے تو یہ تھا کہ وہ کسی اہل کتاب سے ہی دوستی لگاتے۔ تاکہ کسی نہ کسی حد تک ان میں عقائد کی ہم آہنگی ہوتی جو ان کی دوستی کی بنیاد بن سکتی لیکن وہ اسلام دشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مشرکین کو دوستی کے لیے چنتے ہیں اور زبانی بھی مشرکوں سے کہتے ہیں کہ دین کے لحاظ سے تم مسلمانوں سے اچھے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۔ : یعنی اگر وہ واقعی اللہ تعالیٰ پر اور اپنے نبی (موسیٰ و عیسیٰ (علیہ السلام ) پر اور ان پر نازل شدہ کتاب (تورات و انجیل) پر ایمان رکھتے تو کبھی مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستی قائم نہ کرتے، کیونکہ تورات میں اس کام کو حرام کہا گیا ہے، یا یہ کہ اگر وہ کفار صدق دل سے ایمان لائے ہوتے، نفاق کے مریض نہ ہوتے تو پھر یہ کبھی ان سے دوستی پیدا نہ کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِيَاۗءَ وَلٰكِنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝ ٨١- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ولو کانوا یومنون باللہ والنبی وما انزل الیہ ما اتخذوھم اولیاء اگر یہ لوگ اللہ ، نبی اور نبی پر نازل شدہ کتاب پر ایمان رکھتے تو انہیں ہرگز اپنا دوست نہ بناتے۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے یہ آیت ان منافقین کے بارے میں ہے جو یہود میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ لوگ اللہ پر ، اس کے نبی پر ایمان نہیں رکھتے تو انہیں ہرگز اپنا دوست نہ بناتے حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں ہے جو یہود میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ لوگ اللہ پر ، اس کے نبی پر ایمان نہیں رکھتے اگرچہ ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں ایک قول ہے کہ نبی سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ، آپ پر ان یہودیوں کا ایمان نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ مشرکین کو اپنا رفیق اور دوست بناتے ہیں

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١) اور اگر یہ منافقین اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان رکھتے اور یہود کو اپنا مددگار اور دوست نہ بناتے مگر یہ اہل کتاب منافق ہیں یا یہ کہ اگر یہ یہودی توحید خداوندی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لاتے اور ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو دوست نہ بناتے مگر ان اہل کتاب میں زیادہ کافر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :103 مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور نبی اور کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرۃً مشرکین کے مقابلہ میں ان لوگوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہب میں خواہ ان سے اختلاف ہی رکھتے ہوں ، مگر بہرحال انہی کی طرح خدا اور سلسلہ وحی و رسالت کو مانتے ہوں ۔ لیکن یہ یہودی عجیب قسم کے اہل کتاب ہیں کہ توحید اور شرک کی جنگ میں کھلم کھلا مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں ، اقرار نبوت اور انکار نبوت کی لڑائی میں علانیہ ان کی ہمدردیاں منکرین نبوت کے ساتھ ہیں ، اور پھر بھی وہ بلا کسی شرم و حیا کے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم خدا اور پیغمبروں اور کتابوں کے ماننے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani